رومی کا مولوی سے درویش تک کا سفر


عظیم صوفی جلال الدین رومی تیرہویں صدی کے ایسے شاعر اور صوفی ہیں جنہوں نے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بدل دیں۔ رومی نے جو کہا، جو لکھا آج تک دنیا بھر میں ان کے نظریات کو اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔ رومی مسلم دنیا سے زیادہ امریکا اور یورپ میں بہت پاپولر ہیں۔ یورپ اور امریکا میں لاکھوں ایسے انسان ہیں جو رومی کے عشق میں مبتلا ہیں اور انہیں روحانی دنیا کا دلکش اور خوبصورت پھول سمجھتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق رومی کو اس وقت دنیا بھر میں موسٹ پاپولر صوفی شاعر اور گرو سمجھا جاتا ہے، امریکا میں سب سے زیادہ رومی کے دیوانے ہیں۔ رومی پر لکھی گئی کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ اس کے بعد یورپ میں رومی کے صوفیانہ خیالات کے لوگ عاشق ہیں۔ رومی بنیادی طور پر فارسی زبان کے شاعر ہیں، صوفی ازم دنیا بھر میں پھیلانے میں سب سے بڑا اور مرکزی کردار رومی کا ہے۔ صوفی ازم روحانی دنیا کی ایک ایسی شاخ ہے جو دنیا کے ہر انسان کو خدا سے جوڑ دیتی ہے۔

رومی کی شاعری اور خیالات میں نغمے، موسیقی اور روحانی خوشبو ہے جس سے دنیا کا ہر فرد خدا سے جڑ جاتا ہے۔ رومی کی دنیا میں رقص ایک الہامی دلکشی ہے جو انسان کو خدا سے ایک کر دیتی ہے۔ رومی کے چاہنے والے رقص کر کے دلکشیاں بکھیرتے ہیں۔

رومی 30 ستمبر 1207 میں افغانستان کے شہر بلخ میں پیدا ہوئے تھے۔ اور بعد میں رومی مستقل طور پر ترکی کے علاقے قونیہ میں مستقل طور پر منتقل ہو گئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رومی بلخ میں نہیں بلکہ تاجکستان میں پیدا ہوئے تھے۔

رومی کا اصلی نام جلال الدین محمد تھا۔ رومی نام اس لئے پڑا کہ اس دور میں جہاں یہ پیدا ہوئے وہ علاقہ روم کی سلطنت میں آتا تھا اس لئے انہیں رومی کہا گیا۔ اس وقت سے اب تک جلال الدین محمد، رومی کے نام سے مشہور ہیں۔ رومی کے نام کا مطلب ہے glory of faith۔ جو انسان بھی رومی کے خیالات کو پڑھتا ہے وہ ان کا دیوانہ ہو جاتا ہے اور ان کی دنیا میں کھو جاتا ہے کیونکہ رومی انسان کو کسی اور دنیا میں اڑا کر لے جاتا ہے۔

رومی سلجوق سلطنت کے باشندے تھے۔ رومی کے والد بھی ایک مدرسے کے استاد تھے اور اسلام کی تبلیغ کرتے تھے۔ اس زمانے میں ایک دن رومی کی ملاقات صوفی شاعر فرید الدین عطار سے ہوئی۔ رومی عطار کے خیالات سے بہت متاثر ہوئے۔ عطار کا تعلق ایران کے شہر نیشا پور سے تھا۔ عطار بھی رومی کے صوفیانہ خیالات سے بہت متاثر ہوئے۔ عطار نے انہیں اپنی ایک مشہور کتاب پڑھنے کے لئے دی اس کتاب کا نام تھا ’اثر نامہ‘۔ صوفی شاعر عطار سے متاثر ہو کر رومی نے بہت کچھ لکھا۔

1222 کو رومی کے والد بہاؤالدین انتقال کر گئے۔ مولوی بہاؤ الدین مدرسہ چلاتے تھے۔ پچیس سال کی عمر میں رومی نے والد کی جگہ پر مدرسہ کا انتظام سنبھال لیا اور پھر انہیں مولوی یا مولانا رومی کہا جانے لگا۔ رومی اب ترکی کے شہر قونیہ میں تھے اور صوفی ازم کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ قونیہ میں مسجد میں خطبہ دینا اور فتوے جاری کرنا مولانا رومی کا کام تھا لیکن وہ اندر سے صوفی ہو چکے تھے اور ایک نیا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

قونیہ کی مسجد میں بچوں کو پڑھاتے رہے ، جب تک وہاں رہے یہی ان کا کام تھا۔ اسی زمانے میں پندرہ نومبر بارہ سو چوالیس کو ان کی ملاقات ایک درویش سے ہوئی جن کا نام شمس تبریزی تھا۔ ان سے ملاقات کرنے کے بعد مولانا رومی کی زندگی مکمل طور پر بدل گئی اور اب یہ نہ مولانا رہے اور نہ ہی مولوی بلکہ صوفی ہو گئے۔ رومی شمس تبریری کے عشق میں مبتلا تھے۔ رومی کے خیالات میں جگہ جگہ شمس تبریزی کا ذکر ملتا ہے۔ شمس تبریزی سے ملنے کے بعد رومی کو سنت، صوفی، سادھو، درویش کہا جانے لگا۔

رومی کائنات اور فطرت کے سامنے سرنڈر کر چکے تھے اورخدا سے ایک ہو گئے۔ درویش رومی پہلے صرف مسلمانوں کے بچوں کو پڑھا رہے تھے ، اب دنیا کا ہر انسان چاہے وہ عیسائی تھا یا یہودی سب ان کی بات سن رہے تھے اور انہی کی طرح جھوم رہے تھے۔ انسان جب کائنات ہو جاتا ہے تو پھر وہ کسی خاص مذہب کا نہیں بلکہ ساری کائنات کا ہی آقا ہو جاتا ہے۔ رومی رقص میں دنیا جھوم رہی تھی کہ 17 دسمبر 1273 میں رومی ترکی کے شہر قونیہ میں انتقال کر گئے۔

رومی کی مشہور کتاب کا نام ’’مثنوی مولانا روم” ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس نے رومی کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ مثنوی کو جس قدر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی، فارسی کی کسی کتاب کو آج تک نہیں ہوئی۔ اسی کتاب میں رومی کہتے ہیں کہ یہ مادی دنیا ایک جیل کی طرح ہے۔ اگر کوئی انسان سچ تک پہنچنا چاہتا ہے یا روح کی حقیقت جاننا چاہتا ہے، تو اسے اس جیل سے باہر نکلنا ہوگا۔ رومی کہتے ہیں ایک جیل یہ دنیا ہے اور ایک جیل انسان کے اندر ہے، انسانوں کو سچ تک پہنچنے کے لئے ان دونوں جیلوں سے باہر نکلنا ہو گا۔

رومی کہتا ہے انسان کو ایسی جھیل، ندی کی طرح ہونا چاہیے جس کا مقدر سمندر ہے۔ رومی کے مطابق جنت و دوزخ کچھ نہیں، حقیقت میں ایک دنیا ہے جہاں سے روشنی آ رہی ہے اور وہی روشنی ہے جہاں سب کچھ ہوتا ہے، ہوتا تھا اور ہوتا رہے گا اور وہی روشنی ہی حقیقی سچ ہے۔ اس سچ تک پہنچنے کے لئے دنیا کے تمام قوانین کو چھوڑنا پڑے گا۔ نیکی، بدی، حلال اور حرام، جھوٹ اور سچ کی دنیا کے آگے ہی حقیقی دنیا ہے جہاں جہان بن اور مٹ رہے ہیں۔

اس دنیا کو سائنس دان زیرو پوائنٹ یا ساونڈ آف سائلنس کہتے ہیں۔ رومی کہتا ہے جو انسان اپنے آپ کو جان لیتے ہیں وہ خدا سے جڑ جاتے ہیں۔ کائنات میں جب بھی صوفی ازم اور تصوف پر بات کی جائے گی، جلال الدین رومی کا ذکر ضرور آئے گا۔ رومی کے مطابق جو انسان اپنی روح کے بہت زیادہ قریب ہوتا جاتا ہے، وہی انسان خدا کے بھی قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ رومی اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ جب وہ اپنی روح کے بہت قریب ہوتے ہیں تو اپنے آپ کو خدا کے قریب محسوس کرتے ہیں۔

رومی اپنے خیالات و احساسات کا اظہار شاعری کے ذریعے کرتے تھے۔ اس کے بعد اسی شاعری کو وہ موسیقی سے جوڑتے تھے اور موسیقی کو پھر رقص کے ساتھ نتھی کر دیتے تھے۔ رقص رومی کو ہم سب نے کسی محفل، درگاہ یا دربار یا ٹی وی اسکرین پر کبھی نہ کبھی ضرور دیکھا ہو گا۔ لمبی لمبی لال ٹوپیوں والے ایسے انسانوں کی تصویریں یا ویڈیوز بہت لوگوں نے دیکھی ہوں گی جن کی ٹھوڑیاں آسمان کی جانب اٹھی ہوتی ہیں، بازو باہر کی جانب پھیلے ہوتے ہیں۔

یہ گھومنے والے درویش رومی سے متاثر ہیں جو گھوم گھوم کر اس ہستی سے ربط قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا کہ وہ حصہ ہیں۔ یہ کہتے ہیں وہ کائنات کا جزو ہیں جو کل کی تلاش اور اس سے جڑنے کی آس میں گھوم رہے ہیں۔ ان کے مطابق کل کے بغیر جزو بیکار ہوتا ہے۔ رومی نے اپنے نطریہ تصوف سے مغرب کو بہت متاثر کیا۔ رومی کے دور میں مغرب کی ذہنیت پر ابن سینا، ابن رشد، یونانی فلسفہ، نظریہ ارسطو اور اقلیت پسندی کا اثر بہت زیادہ تھا، اس کے باوجود لاکھوں انسان رومی کے خیالات سے بھی متاثر تھے۔

جلال الدین رومی کا تصور یہ تھا کہ اس مادی دنیا میں ہر چیز تبدیلی کے عمل سے مسلسل گزر رہی ہے، یہ کائنات مسلسل تبدیلی کے عمل میں سرگراداں ہے۔ اس کائنات میں صرف ایک ایسی ہستی ہے جو تبدیلی یا تغیر کے عمل سے نہیں گزر رہی ہے، وہ ہمیشہ قائم ہے، ہمیشہ رہے گی اور اس کا نام ساؤنڈ آف سائلنس یا خدا ہے۔ رومی کے مطابق انسان مر کر بھی ہمیشہ ہمیشہ دنیا کا حصہ رہتا ہے۔ مرنے کے بعد انسان کی ہڈیاں اور گوشت پوست اسی کائنات کا کوئی اور حصہ بن جاتی ہیں۔

رومی کا کہنا ہے کہ انسان کو موت سے نہیں گھبرانا چاہیے کیونکہ موت زندگی کا ناگزیر حصہ ہے، اس کائنات میں ہر چیز موت و زندگی کا شکار ہوتی ہے، پھر وہ کسی اور شکل میں زندگی کو اختیار کر لیتی ہے۔ رومی کے مطابق انسان کی مادی خصوصیات ختم نہیں ہوتی، انسان کی مادی خصوصیات اس کائنات میں اپنی شکلیں بدلتی رہتی ہے۔ رومی کہتے ہیں کہ کل کسی اور شکل میں وہ ایک معدنی ذرہ تھے اور جب ان کی موت ہوئی تو وہ ایک پودا بن گئے، جب ان کی پودے کی حیثیت سے موت ہوئی تو وہ جانور کی شکل میں ڈھل گئے اور تب کہیں جا کر وہ انسان بن گئے۔

رومی کے مطابق مادی دنیا میں جو مادی مسائل ہیں، اس پر بہت زیادہ توجہ دینا شاید اتنا اہم نہیں ہے۔ رومی کے مطابق روحانی پہلو کے قریب ہونا ہی زندگی کا حقیقی مقصد ہے۔ اس کا طریقہ ایک ہی ہے کہ انسان اپنی روح کے قریب ہو جائے۔ انسان نے روح کے قریب ہونا ہے تو وہ عقل اور منطق کی قوت کا استعمال کرنے کی بجائے روحانی قوت کا استعمال کرے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر احساس کی قوت کو پیدا کرے، اور یہ احساس موسیقی، شاعری اور رقص کے ذریعے اجاگر ہو سکتا ہے۔

اس دنیا میں جتنے بھی بڑے موسیقار گزرے ہیں یا ہیں یا وہ جو موسیقی کو سمجھتے ہیں، سب رومی سے متاثر ہیں، رومی کے مطابق عقل مادی دنیا کے بارے میں بہت کچھ بتاتی اور سکھاتی ہے، مگر روح کے قریب ہونے کے لئے احساسات کی قوت کا سہارا لینا ہو گا۔ اس احساس کے اظہار کے لئے پھر انسان کو موسیقی چاہیے، شاعری چاہیے، رقص چاہیے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو کسی انسان کی روح کو اجاگر کر سکتی ہیں۔ ان احساسات کی وجہ سے انسان روحانی دنیا کے قریب ہو سکتا ہے۔

رومی فرماتے ہیں کہ اے انسان تو جیسے جماد تھا، پھر نبات ہوا، بعد میں حیوان اور پھر علم والا انسان بنا۔ رومی کے مطابق یہ ارتقاء رکے گا نہیں بلکہ انسان بہت آگے جائے گا، انسان فرشتوں سے بھی بالاتر ہو کر بحر بیکراں میں جا ملے گا۔ رومی کے مطابق وحدت وجود کا مطلب یہ ہے کہ خدا ایک ہے۔ اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ خدا کا کوئی اور شریک بھی نہیں۔ کائنات میں صرف خدا ہی کی ذات ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے سب خدا ہی خدا ہے۔

کائنات کی تمام اشیاء جو جسم اختیار کیے ہوئے محدود صورت میں ہمیں نظر آتی ہیں، یہ سب خدا ہیں۔ صوفیا کا یہ عقیدہ ہمہ اوست کہلاتا ہے۔ اسے نظریہ وحدت الوجود بھی کہتے ہیں۔ رومی کی مثنوی میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں قسم کے خیالات کا اظہار ہوا ہے۔ جلال الدین رومی سے پہلے فرضی حکایتیں لکھ کر اخلاقی مسائل کی تعلیم دی جاتی تھی لیکن مولانا رومی نے فلسفیانہ شعور اور شاعرانہ صلاحیتوں کی بدولت اس طریقہ تعلیم کو کمال مرتبے تک پہنچا دیا۔

جلال الدین رومی کے بہت سے خیالات و تصورات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ عظیم صوفی انسان تھے جنہوں نے تصوف کی دنیا کو تخلیقی خیالات و تصورات سے نوازا۔ جب تک اس دنیا میں تصوف اور صوفی ازم کا پرچار کیا جاتا رہے گا، رومی کا نام ہمیشہ زندہ و سلامت رہے گا۔ رومی خوشی اور محبت کے شاعر ہیں۔ ان کا کلام شمس کی جدائی اور محبت اور خالق اور موت کی یاد کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔ رومی کا پیغام تمام طرح کی سرحدوں کو عبور کرتا ہے۔

رومی نے ایک بار یہ بھی کہا تھا کہ ’غلط اور صحیح کے درمیان ایک میدان ہے۔ میں وہاں آپ سے ملوں گا،‘ رومی ہمارے زمانے کے بہت ہی پراسرار صوفی شاعر ہیں، کیونکہ جب ہم صوفی روایت اور شاعری کی طاقت کو سمجھنے کے لیے نکلتے ہیں تو وہ ہمیں جکڑ لیتے ہیں۔ ایک عظیم تاریخ دان نے لکھا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ ایک مضبوط عالمی تحریک چل رہی ہے، ایک ایسا جذبہ بیدار ہے جو فرقہ وارانہ تشدد اور مذہب کی قائم کردہ حدود کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ 1273 میں رومی کے جنازے میں آئے تھے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمارے عقیدے کو پختہ کرتے ہیں۔ قرون وسطیٰ کے فارسی صوفی شاعر جلال الدین محمد رومی کی سرمستی میں ڈوبی شاعری کی لاکھوں کاپیاں گزشتہ برسوں کے دوران امریکہ اور دنیا بھر میں فروخت ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ 813 سال قبل وہ 1207 میں پیدا ہوئے تھے اور آج بھی دنیا بھر میں ان کے پرستاروں کی کوئی کمی نہیں۔

ہم علم و شعورکے دورکے لوگ ہیں۔ ہمارے دورکا انسان سائنس اورسماجی علوم کی معراج پر تو نہیں، لیکن اس میدان میں حیرت انگیز ترقی ضرورکر چکا ہے۔ وہ اب ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے۔ نئے سیارے ڈھونڈ رہا ہے اور نئی دنیا کی تلاش میں خلاء نوردی کر رہا ہے۔ مگر بد قسمتی سے ایک طرف جہاں ہمارے ارد گرد تیزی سے علم و شعوربڑھ رہا ہے، وہیں دوسری طرف جہالت تعصب، تنگ نظری،  قوم پرستی، نسل پرستی اورفرقہ واریت بھی اسی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ مگر رومی غالباً انسانی تاریخ کا واحد شاعر ہے، جو اپنی موت سے سات سو برس بعد بھی اپنے پڑھنے والوں کو متاثر کرتا ہے۔

امریکہ میں ان کا شمار تاریخ کے مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ امریکہ کے سب سے زیادہ بکنے والے شاعروں میں شامل ہیں۔ ان کا کلام شادیوں کی تقریبات میں سنایا جاتا ہے۔ لوگ اس پر ناچتے ہیں۔ بروکلین کے تہہ خانوں میں موسیقار اور گلوکار یہ کلام پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہ کلام سوشل میڈیا پر بھی گردش کرتا رہتا ہے اور نوجوانوں میں بھی بے حد مقبول ہے۔

مولانا جلال الدین رومی کی شاعری کی اس بے پناہ مقبولیت کی وجہ اس شاعری میں موجود پیغام محبت ہے۔ یہ انسانیت سے محبت کا پیغام ہے۔ یہ محبت رنگ نسل اور عقیدے سے بالاہے، اور ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہے۔ اس پیغام محبت کو ہمارے ہاں پھیلانے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔

اب ہم آپ کو مولانا رومی، شمس تبریز اور ناول“ محبت کے چالیس اصول‘‘ کی داستان سناتے ہیں۔ ”محبت کے چالیس اصول“ ترکی اور انگریزی زبان کی مشہور ناول نگارایلف شفق کا  بہترین ناول ہے جس میں انہوں نے رومی و شمس تبریز کی دوستی میں تصوف کو بیان کیا ہے، اس ناول میں انہوں نے آٹھ سو سال قدیم رومی و شمس کی محبت کو اکیسوی صدی کے ایک کردار کے ذریعے نہایت دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔

اس خوبصرت ناول کو پڑھ کر قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ زندگی محبت کا نام ہے، عشق کی حلاوت بہت میٹھی ہوتی ہے، چاہے اس میں جتنی بھی مشکلات کا سامنا کیوں نہ ہو، محبت کی کوئی تعریف نہیں ہوتی یہ پاک و صاف اور سادہ ہوتی ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار مانچسٹر میں رہائش پذیر چالیس سالہ ایلا ہے جس کی زندگی تین بچوں کی دیکھ بھال اور گھر میں طرح طرح کے کھانے پکانے میں گزر رہی ہے جبکہ شوہر کی غفلت اس کے لئے پریشانی کا باعث بھی ہے۔

وہ محبت کو ایک فضول کام سمجھتی ہے ، اس لئے بیٹی کی پسند کی شادی کرنے کی مخالفت کرتی ہے۔ ایلا کی زندگی میں تبدیلی تب آتی ہے جب انہیں ایک ادبی ایجنسی میں ایک ناول پڑھنے اور اس کا جائزہ لینے کی نوکری ملتی ہے۔ یہ ناول دراصل ”فورٹی رولز آف لو“ ہی ہوتا ہے جس میں شمس تبریز اورمولانا رومی کی ملاقات اور ان کے درمیان عشق کی داستان بیان کی گئی ہوتی ہے۔ یہ ناول شروع سے آخر تک نہایت ہی دلچسپ انداز میں دو متوازی محبتوں کے حکایاتی تذکرے کو قاری پر رنگین و خوبصورت وادی کی طرح صفحہ در صفحہ نہ صرف عیاں کرتا ہے، بلکہ ہر صفحہ قاری میں ایک تجسس بھی پیدا کرتا ہے۔

ایلا کو جب سویٹ بلاسفمی نامی ناول پر کام کرنے کے لیے دیا جاتا ہے تو وہ اس کتاب کے منصف عزیز زاہرا سے شروع میں بذریعہ ای میل اور پھر فون پر رجوع کرتی ہے۔ بن دیکھے ان کے خیالات و افکار سے متاثر ہوتی ہے اور ان سے محبت کرنے لگتی ہے۔ محبت کو خام سمجھنے والی ایلا کو احساس ہوتا ہے کہ زندگی محبت کے بغیر بے کار اور ادھوری ہے۔ جب اس کے شوہر کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس کی بیگم کسی اور کی محبت میں گرفتار ہے تو وہ اسے منانے کی کوشش کرتا ہے، وہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اب کے بعد اسے وقت دے گا اور وفادار رہے گا ، اسے نظر انداز نہیں کرے گا مگر تب تک ایلا عشق میں اتنا آگے بڑھ چکی ہوتی ہے کہ کہ واپسی محال ہوتی ہے۔

ایک دن عزیز ایلا سے ملنے ان کے شہر آ جاتا ہے جہاں ایلا سے وہ ایک ہوٹل میں ملاقات کرتا ہے۔ ایلا ان کے ساتھ جانے کا ارادہ کرتی ہے مگر عزیز انہیں بتاتا ہے کہ وہ انھیں کوئی روشن مستقبل نہیں دے سکتا کیوں کہ وہ کینسر کا مریض ہے،  نہ جانے کب اس کی سانسیں ساتھ چھوڑ دیں مگر ایلا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے شمس تبریز کے اس اصول کی پیروی کرتی ہے کہ اپنے دل کے فیصلے پر عمل میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ایلا اپنے شوہر اور تین بچوں کو چھوڑ کر عزیز کے ساتھ چلی جاتی ہے۔

ایک دن دونوں شہر قونیہ جہاں رومی مدفن ہے کے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے ہوتے ہیں کہ اچانک عزیز فرش پر گر پڑتا ہے ، اسے قریبی ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔ ایلا ہسپتال میں عزیز کے بستر سے لگی بیٹھی ان کے ہاتھ تھامے ان سے بات کرنے کی آرزو مند ہوتی ہے مگر عزیز نیم بے ہوش آنکھیں بند کیے بستر مرگ پہ لیٹا ہوتا ہے۔ ایلا چند لمحوں کے لئے مایوسی کے عالم میں کمرے سے باہر نکلتی ہے اور ہسپتال کے باہر جھیل کنارے کھڑی ہو کر جھیل میں کنکر پھنکتی ہے اور مایوسی کے عالم میں خدا سے شکایت کرتی ہے کہ زندگی کے کئی سال بیت جانے کے بعد ان کے دل میں عشق کی چنگاری لگا دی اور اس کم عرصے میں پھر ان سے اس کے محبوب کو چھین لیا۔

کچھ دیر بعد جب وہ کمرے میں واپس آتی ہے تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک ڈاکٹر اور نرس نے عزیز کو سر سے پاؤں تلک سفید چادر میں ڈھانپ لیا ہے ،عزیز اس دنیا سے جا چکا ہے۔ عزیز کی خواہش کے مطابق اسے رومی کی آرام گاہ کے پاس دفن کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایلا ایک درویشانہ زندگی گزارنا شروع کرتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب شمس تبریز اور مولانا رومی کی داستان عشق کی کہانی قاری کو اپنی گرفت لئے آگے بڑھتی ہے ۔ شمس تبریز جو کہ بچپن سے روحانی خیالات کا پیکر ہوتا ہے ، وہ اپنے گھر کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہتا ہے اور ملکوں ملکوں، شہر شہر درویشوں کی تلاش میں قونیہ پہنچ جاتا ہے ، جہاں وہ مولانا رومی سے ملتے ہیں، شمس جہاں بھی جاتے وہاں درویشوں کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔

جیسے ہی رومی شمس تبریز سے ملتے ہیں ، وہ اپنی ظاہری نمود و نمائش، عام مجالس اور تدریسی کام سے نکل کرعارفانہ و صوفیانہ راہ پر گامزن ہوتے ہے۔ شمس کی باتیں ہر عام شخص کی فہم میں نہیں آتیں اور وہ انہیں بدعتی، اسلام مخالف وغیرہ سمجھنے لگتے ہیں، شمس کہتا ہے کہ ہر شخص کو کھلی اجازت ہے کہ اپنے طریقہ سے عبادت کرے۔ خدا کو اس سے کوئی سروکار نہیں، وہ صرف دلوں کو دیکھتا ہے۔ مولانا رومی جب خطبے و تقاریر، درس و تدریس چھوڑ کر خودشناسی کے سفر پر شمس تبریز کے ساتھ گوشہ نشنی اختیار کرتے ہیں تو ان کے گھر والے اور قونیہ کے لوگوں کو ان کی خلوت پسندی و گوشہ نشینی پسند نہیں آتی۔

وہ شمس تبریز کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ شمس نے رومی پر کالا جادو کر کے اسے اپنی قابو میں کر لیا ہے۔ روز بہ روز شمس تبریز کے بد خواہوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ رومی کا بیٹا علاؤالدین ان کا دشمن بن جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف مولانا رومی عشق کی انتہاء کو چھو جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک دن شمس رومی سے شراب خانہ جا کے شراب لانے کو کہتے ہیں اور رومی بغیر کسی سوال کے سر عام شراب لے آتے ہیں۔

رومی اپنے مرشد کے دیے ہوئے اس امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں یعنی اپنی انا کی ہستی کو یار کے در پر قربان کر جاتے ہیں۔ شمس تبریز ایسے میں رومی کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ، مولانا سے ان کی جدائی برداشت نہیں ہوتی اور ہجر یار میں زار و قطار روتے ہیں۔ رومی عشق کا پیکر بن جاتے ہیں ، ان کے منہ سے نکلا ہر لفظ شاعری میں ڈھل جاتا ہے، رومی کے ایک اور بیٹے سلطان ولید سے اپنے والد کا یہ حال سہا نہیں جاتا اور شمس کو ڈھونڈ کر واپس لے آتے ہیں۔

رومی اور شمس میں پھر وہی صحبتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ رومی کے مرید اور گھر والے سب رومی کا قرب چاہتے ہیں مگر رومی ہے کہ وہ اپنے مرشد سے پل بھر کے لئے بھی دوری نہیں چاہتے، آخر کار رومی کا بیٹا علاؤالدین اور قونیہ کے کچھ اوباش مل کر شمس کو قتل کر دیتے ہیں۔ اب رومی کی دنیا اجڑ جاتی ہے اور وہ شعر گوئی کے ذریعے غم جاناں کا تذکرہ کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ ہر سننے والے پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس طرح رومی کے اشعار سے دیوان رومی وجود میں آ جاتا ہے۔ یہ ناول اہل ادب کے لئے ایک منفرد تحفہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments