پریم چند اور منٹو: چند مماثلتیں


اردو ادب میں موازنے کی پختہ روایت رہی ہے۔ میر انیس کا دبیر سے موازنہ ہمارے سامنے کی مثال ہے۔ دو شاعروں کا ان کی شاعرانہ خصوصیات کی بناء پر موازنہ کرنا برا بھی نہیں اگر غیر جانب داری سے کام لیا جائے۔ علامہ شبلی پر یہ الزام آیا کہ انہوں نے انیس کو دبیر پر فوقیت دی۔

موازنہ کرنا اور مماثلتیں ڈھونڈنا بڑا ادق اور پچیدہ کام ہے۔ ذرا سا دھیان بھٹک جائے تو ذہن کسی اور وادی کی سیر کرنے کو نکل جاتا ہے۔ ہماری ادبی روایت میں نہ صرف شاعروں کے درمیان موازنہ کیا گیا بلکہ ناول نگاروں، افسانہ نگاروں، خاکہ نگاروں، انشائیہ نگاروں کا موازنہ بھی ان کی خاص تخلیقات کی بناء پر کیا گیا اور دو ادیبوں کے درمیان جو بھی مماثلتیں اب تک ملی ہیں ان کو تحقیق و تدقیق کرنے کے بعد بیان کیا گیا۔

ضروری نہیں کہ معاصر ادیبوں کے درمیان ہی مماثلتیں دیکھنے کو ملیں، انیسوی صدی کے ادیب میں جو خصوصیات ملتی ہیں وہ بیسوی صدی کے تخلیق کار کی تخلیقات میں بھی ہو سکتی ہیں۔ پریم چند اور منٹو اردو افسانوی ادب کے دو بڑے نام ہیں۔ دونوں نے اردو افسانے میں اپنے اسلوب، فن اور ہنر کے جلوے دکھائے۔ دونوں کا اسلوب، رنگ اور کہانی بیان کرنے کا انداز مختلف ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ دونوں کا قد بحیثیت افسانہ نگار بہت بلند ہے۔ دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی حالانکہ پریم چند کو اولیت ضرور حاصل ہے۔ دونوں میں تفاوت ہونے کے باوجود چند مماثلتیں ہیں۔

پریم چند نے اردو افسانے کو جو بلندی اور مقام عطا کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اردو ادب کا ادنیٰ سا طالب علم بھی پریم چند کے نمک کا داروغہ، بڑے گھر کی بیٹی، دو بیل، سواسیر گہیوں اور کفن سے واقف ہو گا۔ انہوں نے اردو افسانے میں اپنے معاشرے کی کامل عکاسی کی ہے۔ گاؤں اور کسانوں کی حالت، زمیندار کا سلوک، چھوت چھات، ذات پات وغیرہ کو فنکاری اور مہارت سے اپنی کہانیوں میں بیان کیا ہے۔ وقار عظیم کے خیال میں:

”پریم چند کا افسانہ، افسانہ نگاری کی مکمل تاریخ ہے۔ اس حد تک مکمل کہ افسانہ جہاں سے شروع ہوا اور فن کے مختلف مدارج اور مرحلے طے کر کے جہاں تک پہونچا اس کی ساری کڑیاں ہمیں پریم چند کے افسانوں میں مل جاتی ہے۔ یہاں کہانی اپنی سیدھی سادی، بے تکلف صورت میں بھی موجود ہے جیسے گاؤں کے چوپال کی بے لوث فضاء میں الاؤ کی دل کو گرما دینے والی آگ کے چاروں طرف بیٹھ کر کہی اور سنی جاتی ہے۔“

(داستان سے افسانے تک از وقارعظیم )

دوسری طرف اردو افسانہ کا بڑا نام سعادت حسن منٹو ہے جہنوں نے مختلف موضوعات کو اپنے افسانے میں پیش کیا۔ منٹو نے مزدور، طوائف، بادہ کش، شریف اور رذیل انسان، جوان، مرد، عورت سب کی ذہنی الجھنوں اور جنس کے گوناگوں مظاہر کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ منٹو ایک بادہ خوار اور ملا کے دلوں کے سارے بھید جانتا ہے اور بے باکانہ انداز سے وہ راز ہمیں بتاتا ہے۔ ان کا محبوب موضوع تو طوائف کے ارد گرد کا ماحول اور معاشرہ رہا لیکن دیگر موضوعات میں انگریزی اقتدار سے نفرت، فسادات کا دکھ اور بٹوارے کے دوران ہونے والی خون ریزی کو بھی چابک دستی سے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ ان کے کھول دو، نیا قانون، ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسے شاہکار افسانے اردو افسانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ منٹو کے متعلق وقار عظیم لکھتے ہیں:

منٹو کو اس کی حقیقت نگاری، اس کی نفسیاتی موشگافی، اس کی دور بین و دور رس نگاہ، اس کی جرأت آمیز اور بے باکانہ حق گوئی، سیاست، معاشرت اور مذہب کے اجارہ داری ہر اس تلخ لیکن مصلحانہ طنز اور اس کی مزے دار فقرہ بازیوں کی وجہ سے سراہا گیا۔ ”

( داستان سے افسانے تک از وقار وعظیم )

جیسا کہ میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ دونوں افسانہ نگاروں میں چند مماثلتیں ہیں۔ دونوں اپنے وطن کو عزیز رکھتے تھے اور انگریزوں اور انگریزی اقتدار کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت تھی۔ پریم چند نے وطن کی محبت کے گن دنیا کا سب سے انمول رتن اور عشق دنیا اور حب وطن میں گائے وہیں منٹو نے انگریزوں سے نفرت کا اظہار اپنے شاہکار افسانے ”نیا قانون“ میں کیا۔ پریم چند کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ”وہ آخری قطرہ خون جو وطن کی حفاظت میں گرے، دنیا کی سب سے بیش قیمتی شے ہے“ وہی منٹو انگریزوں سے نفرت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں :۔

”استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اس نفرت کا سبب وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ اس کے ہندوستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں“

( افسانہ، نیاقانون از سعادت حسن منٹو)

جہاں پریم چند کے مجموعہ کو ضبط کر کے نذر آتش کیا گیا وہیں منٹو کے خلاف بھی فحاشی پھیلانے کے مقدمات چلے۔ پریم چند کے زمانے میں عوام بیدار ہو چکے تھے۔ لوگ غلامی کے طوق سے آزاد ہونا چاہتے تھے جس کے لیے وہ ہر قیمت چکانے کے لیے تیار تھے۔ ایک فنکار چونکہ حساس ہوتا ہے اور اپنے آس پاس کا ادراک رکھتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے وطن سے محبت رکھتا ہے بلکہ اس جذبے کو دوسروں میں بیدار کرنے کی سعی کرتا ہے۔ پریم چند نے اپنے اولین کہانیوں میں یہی کیا۔

زمانہ پریس نے پریم چند کی پانچ کہانیوں کا مجموعہ سوز وطن کے نام سے 1909ء میں چھاپا۔ اس زمانے میں وہ کہانیاں اور مضامین ”نواب رائے“ کے نام سے لکھا کرتے تھے۔ یہ مجموعہ بھی نواب رائے کے نام سے چھپا تھا۔ جب یہ مجموعہ شائع ہوا تو پریم چند کو انگریز کلکٹر نے کہا تھا کہ ”تمہاری کہانیوں میں سیڈیشن بھرا ہوا ہے۔ اپنی تقدیر پر خوش ہو جاؤ کہ انگریز عمل داری ہے مغلوں کا راج ہوتا تو تمہارے ہاتھ کاٹ ڈالے جاتے۔

“ سوز وطن کی ہزار کاپیوں میں سے تین سو کاپیاں بک گئی تھیں۔ باقی سات سو کاپیاں پریم چند کو انگریز سرکار کے حوالے کرنی پڑیں جو نذر آتش کر دی گئیں۔ منٹو کی جن کہانیوں پر فحاشی کے مقدمات چلائے گئے ان میں دھواں، کالی شلوار، بو، ٹھنڈا گوشت اور اوپر نیچے اور درمیان شامل ہیں۔ منٹو پر یہ بھی الزام آیا کہ وہ وحشیا، طوائف اور کوٹھے کا ذکر بار بار کرتا ہے جس کے بارے میں منٹو نے اپنی صفائی میں ایک مضمون میں لکھا:۔

” ہم مندروں، مسجدوں کا ذکر کر سکتے ہیں تو قحبہ خانوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں سے لوٹ کر کئی انسان مندروں اور مسجدوں کا رخ کرتے ہیں۔“

( مجھے بھی کچھ کہنا ہے از منٹو)

دونوں نے اپنے معاشرے، ماحول اور اردگرد کو بڑی چابکدستی اور فن کاری سے اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ دونوں کا مشاہدہ گہرا تھا اور دونوں اپنے معاشرے اور سماج کو پڑھنے کا شعور رکھتے تھے۔ دونوں فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے۔ پریم چند جلد ہی کنارہ کش ہوئے لیکن منٹو نے اچھا خاصا وقت فلمی دنیا کو دیا اور کسان کنیا، چل رے نوجوان، شکاری، مزرا غالب جیسی فلمی کہانیاں یاد گار چھوڑی۔ دونوں ناول نگار تھے۔ ناول نگاری میں پریم چند نے جہاں اچھا خاصا نام کمایا اور اردو ادب کو گئودان جیسا شاہکار ناول دیا وہیں منٹو نے صرف ایک ناول ”بلا عنوان“ لکھا لیکن وہ اس میدان میں گم نام ہی رہے۔

دونوں افسانہ نگاروں نے جنس اور طوائف کی زندگی کو موضوع بنایا۔ پریم چند نے ناولوں اور کہیں کہیں افسانوں میں بھی اس موضوع پر لکھا لیکن منٹو نے بے باکانہ انداز سے اپنے افسانوں میں اس کی عمدہ تصویر کشی کی۔ حالانکہ ان کے افسانوں پر مقدمے بھی چلائے گئے اور ان کے افسانوں کو کراہت سے بھی دیکھا گیا اور برا سمجھا گیا۔ منٹو برا نہ تھا۔ وہ اپنے معاشرے کی وہ آنکھ تھا جو بند کمروں کے پار دیکھ لیتی تھی اور ہمیں وہ آنکھوں دیکھا حال سناتی تھی۔ وقار عظیم لکھتے ہیں کہ:۔

” دنیا کی ہر دوسری چیز کی طرح منٹو نہ“ محض ”اچھا ہے اور نہ“ محض ”برا۔ اس کے افسانے خالصتاً حسن و جمال کے مظاہر ہیں اور نہ محض برائیوں کے حامل“

( داستان سے افسانے تک۔ وقار عظیم )

دونوں افسانہ نگار ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ پریم چند نے تو پہلی کل ہند کانفرنس کی صدارت بھی کی اور وہاں اپنا خطبہ بھی پڑھا۔ خلیل الرحمٰن اعظمی کے خیال میں :۔

” ترقی پسند تحریک کو سب سے زیادہ تقویت اس خطبے سے ملی جو اس کانفرنس میں پریم چند نے صدارت کرتے ہوئے پڑھا“

( اردو میں ترقی پسند ادبی تریک از خلیل الرحمٰن اعظمی)

منٹو بھی ترقی پسند تحریک کے ستونوں میں سے ایک اہم ستون تھے۔ انہوں نے نہ صرف ”کسان، مزدور، سرمایہ، زمیندار“ جیسے مضامین لکھے بلکہ اپنے افسانوں میں بھی ترقی پسند نظریات کو برتا۔ خلیل الرحمٰن اعظمی کے بقول:۔

” ابتدائی افسانوں میں“ نیا قانون ”ایک انقلابی افسانہ ہے اور اس دور کے تمام ترقی پسند انتخابات میں اسے جگہ دی جاتی تھی“

(اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک از خلیل الرحمٰن اعظمی)

دونوں نے ڈراما نگاری میں بھی اپنے فن کے جلوے دکھائے۔ جہاں پریم چند نے سنگرام، کربلا، پریم کی دیوی جیسے ڈرامے لکھے وہی منٹو نے آؤ، جنازے، تین عورتیں اور منٹو کے ڈرامے جیسے یاد گار مجموعات چھوڑے ہیں۔

مختصر یہ کہ دونوں افسانہ نگاروں کا نقطۂ نگاہ، سوچ، فکر، اسلوب، فن کو برتنے کا طریقہ اور سلیقہ اگرچہ مختلف تھا اس کے باوجود دونوں میں مماثلتیں بھی نظر آتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments