آٹھ مارچ: عورتوں کے عالمی دن کی تاریخ


آٹھ مارچ عورتوں کا اب دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ عورتیں اپنے حقوق کے لیے اور اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر آواز اٹھاتی ہیں۔ ناروے میں بھی یہ دن پورے خلوص اور دل و جان سے منایا جاتا ہے۔ سوال شاید اٹھے کی ناروے کی عورتوں کو کیا ضرورت ہے یہ دن منانے کی انہیں تو تقریباً سب ہی حقوق حاصل ہیں۔ آزاد ہیں۔ معاشی طور پر بھی اور معاشرتی طور پر بھی۔ لیکن اس بحث میں جانے سے پہلے اس دن منانے کے پس منظر اور اس کی افادیت پر بات کرتے ہیں۔ اور یہ کہ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا میں عورتوں کو ان کا بنیادی حق ملے۔ سماجی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی میدان میں وہ ابھر کر سامنے آئیں اور ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جایں۔ اس دن ان عورتوں کو خراج تحسین بھی پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے عورتوں کے حق کے لیے کوئی خاص کام انجام دیا ہو یا جدوجہد کی ہو۔ ذرا اس دن کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ کب اور کیوں شروع ہوا۔

1908: عورتوں میں ایک بے چینی تھی کہ انہیں حقوق نہیں مل رہے۔ پندرہ ہزار عورتیں نیو یارک کی سڑکوں پر نکلیں۔ وہ ووٹ کا حق، بہتر تنخواہ اور کمتر اوقات کار چاہتی تھیں۔ عورتوں کی طرف سے یہ پہلی آواز تھی جو اٹھی۔

1909: اس دن کو منانے کی تحریک 28 فروری میں امریکی وومن ڈے میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ کی جانب سے آئی۔ پورے امریکہ میں یہ تحریک پھیل گئی۔ 1913 تک یہ دن 28 فروری کو ہی منایا جاتا رہا۔

1911: 19 مارچ کو ڈنمارک کوپن ہیگن میں عورتوں کے دن کو اعزاز کے ساتھ منایا گیا۔ دس لاکھ سے زیاد افراد نے مختلف ملکوں میں مارچ کیا۔ عورتوں کے ساتھ مرد بھی احتجاج میں شریک تھے۔ مطالبات میں ووٹ کا حق، روزگار کے مواقع اور ووکیشنل ٹریننگ کی سہولت شامل تھے۔ امریکہ میں 25 مارچ کو ایک المناک واقعہ پیش آیا جب ایک کارخانے میں آگ لگنے سے ایک سو چالیس محنت کش عورتیں ہلاک ہو گیں۔ بیشتر اٹلی کی تارکین وطن اور یہودی خواتین تھیں۔ اس حادثے نے عورتوں کے کام کرنے کی صورت حال پر کافی اثر ڈالا اور امریکہ نے اپنے لیبر قوانین کو بہتر بنانے کی بحث شروع ہوئی۔ اس سال عورتوں نے ”روٹی اور گلاب“ کے نام سے کمپین چلائی۔

1913-1914: روسی خواتین نے پہلی بار یہ دن 23 فروری کو منایا۔ وہ جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں نکلیں۔ اس کے بعد یہ طے ہو گیا کہ عورتوں کا عالمی دن آٹھ مارچ کو منایا جائے گا۔

1917: ایک بار پھر روسی عورتیں نکلیں اس بار ان کا سلوگن ”روٹی اور امن“ تھا۔ عالمی جنگ میں دو ملین سے زیادہ روسی سپاہی ہلاک ہو چکے تھے وہ ان کی آواز بھی بن گیں۔ روسی زار اور دوسرے سیاستدانوں کے خلاف بھی وہ ڈٹ گیں مظاہرے جاری رکھے۔ چار دن کے مظاہروں کے بعد انہیں ووٹ کا حق دے دیا گیا۔ یہ ان کی پہلی بڑی فتح تھی۔

1975: اس سال اقوام متحدہ نے آٹھ مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کی حیثیت دے دی گئی۔ دسمبر 1977 میں یونائیٹڈ نیشنز جنرل اسمبلی نے عورتوں کے حقوق اور عالمی امن کا ریزولوشن بھی پاس کیا۔ یہ دن کسی بھی دن منایا جا سکتا ہے۔ ہر ملک اپنی تاریخ اور روایت کے مطابق اسے منانے کے دن کا انتخاب کر سکتا ہے۔

1996 میں یونائیٹڈ نیشن نے پہلی بار عورتوں کے عالمی دن کو ایک تھیم دیا۔ ”ماضی کو منائیں اور مستقبل کی پلاننگ کریں“۔ اگلے سال موضوع تھا ”عورتیں امن کی میز پر“ اور اس سے اگلے سال ”عورتیں اور انسانی حقوق“ اور اگلے سال ”عورتوں پر تشدد“ کا تھیم تھا۔ اس کے بعد ہر سال کوئی موضوع چن کر اس پر مباحثہ ہوتا۔

2000 میں نیا ہزاریہ شروع ہوا اور عورتوں کے عالمی دن منانے میں کچھ ٹھنڈک سی آ گئی۔ لگتا تھا سارے مسئلے حل ہو چکے ہیں اور عورت سب کچھ حاصل کر چکی ہے۔ دنیا آگے بڑھ گئی اور فیمینیزم اب ایک مقبول موضوع نہیں رہا۔ اسے دوبارہ پاپولر کرنے کے لیے قدم اٹھانا ضروری تھا۔ ابھی اہداف حاصل نہیں ہوئے۔ مغرب کی عورت کو اگر کافی کچھ مل گیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ ختم ہو گئی۔ دنیا میں عورت کے حقوق، مساوات۔ امتیازی سلوک اور تشدد اب بھی جاری ہے اور کہیں نہ کہیں عورت کو ان مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے لیے آواز بلند کرنا ضروری ہے۔

2001 میں The internationalwomensday.com کے نام سے ایک ویب سائٹ بنی جس میں عورت کی جدوجہد اور نمایاں کارکردگی کے بارے میں لکھا گیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہ یہ کوشش جاری رہے گی۔ دنیا کی نظروں سے عورت کے مسائل اوجھل نہ ہونے پائیں۔ اس ویب سائٹ پر ہر موضوع پر معلومات مل سکتی ہیں۔

#ChooseToChallenge کے ٹیگ سے چیلنج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کی افادیت اپنی جگہ لیکن پھر یہ ایک تفریح بن گیا۔ اور فیس بک پر ہیش ٹیگ لگا کر ایک دوسرے کو چیلنج کرنے کا ٹرینڈ شروع ہو گیا۔

2011 میں عورت دن کی سنچری منائی گئی۔ بلا شبہ بہت راستہ طے ہو گیا۔ کافی کچھ حاصل ہو گیا۔ لیکن دنیا اب بھی پر امن نہیں ہے۔ عورت اب بھی مظلوم ہے۔ اس سال موضوع تھا ”برابری کی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم اور ٹریننگ۔“

ناروے میں عورتوں کا دن پہلی بار 1915 میں منایا گیا۔ یہ دن روس کی ایکٹیوسٹ الیکسانڈرا کولونتاج کی تحریک کہ وجہ سے منایا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہر سال آٹھ مارچ کو یہ دن ناروے کی عورتوں کی تنظیم کے زیر اہتمام منایا جاتا ہے۔ 1972 میں آٹھ مارچ کو ناروے کی عورتوں نے بڑا جلوس نکالا۔ اسے بہت سراہا گیا۔ لوگوں نے دلچسپی لی اور پوری توجہ سے عورتوں کی بات سنی گئی۔

ایک لمبے عرصے تک اس بات پر باقاعدہ بحث ہوئی کہ آٹھ مارچ کے جلوس میں کیا سلوگن ہوگا اور پلے کارڈوں پر کیا لکھا جانا چاہیے۔ ان نکات پر سب اتفاق کیا کہ ابارشن کا حق، کنڈرگارٹن کی تعداد میں اضافہ، اور مرد اور عورت کے یکساں تنخواہ اہم مسائل ہیں۔

ستر کی دہائی میں آٹھ مارچ عورت تحریک عروج پر رہی۔ 1978 میں ایک بڑا جلوس نکلا جس میں بیس ہزار خواتین ناروے میں اپنے حقوق اور ایک دوسرے کی سپورٹ کے لیے نکلیں۔ نوے کی دہائی میں یہ گہما گہمی باقی دنیا کی طرح ناروے میں بھی ذرا کم رہی۔ لیکن سال دو ہزار میں عورتیں پھر سرگرم ہوئیں۔ دنیا میں عورتوں پر زیادتی اور نا انصافی پر آواز بلند کی اور جن خواتین نے کوئی نمایاں کام کیا انہیں خراج پیش کیا۔

آنے والے برسوں میں ناروے کی خواتین کے کچھ اور نعرے اور سلوگن سامنے آئے۔ ان میں سب سے نمایاں یہ تھے۔
عورت کی تحقیر مت کرو۔
عورتوں کو کام کی جگہ پر ہراساں مت کرو۔
عورتوں کی ٹریفکنگ بند کرو
تشدد بند کرو
عورتیں نیٹو کے اڈے ملک میں بند کرنا چاہتی ہیں
ماحول کی آلودگی کم کرو۔
اقلیتی خواتین کے ساتھ نسلی امتیاز بند کرو۔
پروسٹیٹیوشن اور عورتوں کا کاروبار بند کرو۔
میرا جسم میری مرضی۔
سروگیٹی بچے نہیں۔ عورت کا رحم کرائے پر نہیں ہے۔
جیل میں قیدی عورتوں کو برابر کے حقوق دو۔
اس کے علاوہ ناروے کی عورتوں نے دوسرے ملکوں کی عورتوں کے لیے بھی آواز اٹھائی۔
جنگ میں عورت کے ریپ کو ہتھیار مت بننے دو۔
چائلڈ لیبر اور چائلڈ میرج کا خاتمہ کرو۔
لڑکیوں کو تعلیم کے مواقع دو۔
عورت کے جنسی اعضا پر بلیڈ مت چلاو۔
سیاسی قیدی عورتوں کو رہا کرو۔

2021 میں دنیا نے دیکھا کہ عورتوں کے طرز فکر اور رویہ میں نمایاں فرق آیا ہے۔ کمتر درجے کی مخلوق بن کر رہنا انہیں گوارا نہیں۔ وہ معاشی اور سماجی طور پر مضبوط اور محکم رہنا چاہتی ہیں۔ اس سال کورونا کی وجہ سے آٹھ مارچ کی کوئی پریڈ کوئی جلوس کوئی جلسہ نہیں ہو گا۔ اوسلو میں متاثرین کی تعداد میں تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے۔ اور سخت اقدام اٹھائے جا رہے ہیں۔ تمام ریسٹورنٹ، کیفے اور کانفرنس ہالز بند ہیں۔ لوگوں کے اجتماع پر پابندی ہے۔ پرائیویٹ اجتماع بھی منع ہے۔ یہ پابندی فی الحال 2 مارچ سے 15 مارچ تک ہے۔ عورت کے عالمی دن کی تقریبات اور جلوس بھی ان پابندیوں سے متاثر ہوا جو روایتی طور پر جوش سے منایا جاتا رہا ہے۔ تقریریں ہوتی ہیں۔ آواز بلند کی جاتی ہے۔ کوشش ہو رہی تھی کہ ڈیجیٹل میٹنگ ہو جائے۔ اور عورتوں کے حق میں کچھ تقاریر ہو سکیں۔ اس سال کا موضوع خاص ”پروسٹی ٹیوشن“ ہے۔ وومن ڈے کے فیس بک پر یہ پیغام ہے

”ہمارے معاشرے میں اب بھی عورت کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ ان عورتوں کو تحفظ دیا جائے اور سیکس کے کاروبار کو بند کیا جائے۔ قانون بنانے والے ادارے اور سیاستدان اس مسئلہ کو سمجھیں۔ جسم فروشی عورت پر تشدد کی ایک شکل ہے۔ اور اس کی روک تھام ضروری ہے“

یہ ایک اہم موضوع تھا لیکن اب کورونا کی وبا اور اجتماعات پر پابندیوں کی وجہ سے اس سال اس پر بھرپور بات نہیں ہو سکے گی۔ لیکن اس دن کو کسی نہ کسی صورت منایا ضرور جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments