پاکستانی فلمی صنعت کے ہونہار فلم ساز اور ہدایت کار محمد طارق کے ساتھ ایک نشست


لاہور آؤں اور ایور نیو فلم اسٹوڈیوز میں نہ جاؤں بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے! یہاں ہر دل عزیز نگار ایوارڈ یافتہ فلم ایڈیٹر اور اسٹوڈیو منیجر زیڈ اے زلفی صاحب، ہدایتکار داؤد بٹ، حسن عسکری اور الطاف حسین صاحبان وغیرہ سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ اب کی دفعہ فلم ساز و ہدایت کار محمد طارق صاحب سے بات چیت ہوئی۔ اس بات چیت کے دوران ہدایت کار داؤد بٹ صاحب بھی موجود تھے۔ پڑھنے والوں کے لئے خاص خاص باتیں پیش خدمت ہیں:

جناب! پچھلے دنوں اخبارات سے علم ہوا کہ پیسے ڈال کر ایک پول بنایا گیا ہے جس میں ہدایت کار داؤد بٹ اور محمد طارق صاحبان دو تین نامور کہانی نویسوں سے کہانیاں لکھوا کر فلمیں بنائیں گے جس سے فلم اندسٹری کی ’حیات نو‘ ہو گی؟

 نہیں! جنہوں نے یہ پیسے پول کیے ہیں، میں ان میں شامل نہیں“ ۔ طارق صاحب نے تصحیح کی۔ ”عرض ہے کہ میں تو اپنی مرضی کا مالک ہوں اور اس کے ساتھ کام کرتا ہوں جو مجھے سمجھتا ہو اور میں جسے سمجھتا ہوں۔ پچھلے سال وزیراعظم پاکستان کے اس وقت کے خصوصی مشیر برائے اطلاعات و نشریات جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو وزیر اعظم نے فلم والوں سے مل کر ان کے مسائل حل کرنے کو کہا۔ وہ اس سلسلے میں ایک فلم پالیسی بنا رہے تھے۔

اتفاق سے ان ہی دنوں میرا بھی اسلام آباد جانا ہوا اور باجوہ صاحب سے اچانک ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے بغیر میرے کسی سوال کے جو سب سے پہلے بات کہی ، وہ یہ کہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلمیں اب نہیں لگیں گی۔ پھر پاکستان میں فلم کی ترویج کے لئے ’فلم فنڈ‘ کے قیام کی بات کی ہے۔ مجھے باجوہ صاحب نے کہا کہ حکومت خود ہی فلم کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ’پی ٹی وی فلمز‘ کے بینر تلے یہ فلم بنائی جائے گی۔ نیز حکومت کسی کو پیسے ویسے نہیں دے رہی۔

میرا اپنا تجزیہ ہے کہ بہت سے لوگ وہاں پیسہ لینے گئے ہوں گے کیوں کہ جہاں کسی فنڈ کا اعلان ہوتا ہے، اس سے رقم نکلوانے کی بھاگ دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ میں نے جنرل صاحب سے کہا کہ اس وقت پاکستان فلم اندسٹری میں کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو اس کو ’لیڈ‘ کر سکے۔ جو لوگ بھی ایسا کرنے کا دعویٰ لے کر آئیں گے ، ان کا مقصد محض فنڈ لینا ہو گا۔ پھر اپنا نام بتایا کہ میں محمد طارق فلم اندسٹری میں پروڈیوسر، ڈائریکٹر، کیمرہ مین، فلم ایڈیٹر اور اسکرین پلے رائٹر ہوں، اور پاکستان میں سب سے پہلے ’اسپیشل ایفکٹس‘ تخلیق کرنے والا میں ہوں۔ میں نے اس کو کمپیوٹر پر بنا کر فلموں میں منتقل کیا۔ سو کے قریب میری فلمیں ریلیز ہو چکی ہیں۔ اس لئے میں آپ کو بڑی ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ اس وقت کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو فلم انڈسٹری کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کر سکے۔ لہٰذا برائے مہربانی حکومت خود ہی اس کے بارے میں سوچے کہ کیا کرنا ہے۔

اس پر جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ حکومت اس منصوبہ پر سوچ رہی ہے لیکن ہمیں آپ جیسے سینیئر کی ضرورت ہو گی اور ہم آپ کو تکلیف دیں گے۔ میں نے کہا ہم جس قابل بھی ہیں، جب بلایا آ جائیں گے۔ لیکن اس گفتگو کے بعد باجوہ صاحب نے خصوصی مشیر برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ ہی چھوڑ دیا ۔

یہ جو ابھی آپ نے پیسے پول کرنے کی بات کی تو میرے علم کے مطابق پول کرنے والوں نے جو پیسے پول کیے تھے وہ واپس لے لیے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت فلم کو سمجھنے والے بہت کم لوگ ہیں۔ اور جو ہیں وہ اس کام کو کر گزرنے کے جنونی ہیں۔ یہی لوگ پٹری سے اتری ٹرین کو ٹریک پر لانے کے قابل بھی ہیں لیکن اس کے لئے بڑا کام کرنا پڑے گا۔ حکومت کے پاس یہ سب کرنے کا وقت نہیں ہوتا اس کے تو خود اپنے مسائل ہیں۔ اس پس منظر میں مجھے تو ایسے کوئی لوگ نظر نہیں آ رہے جو اس کو چلا سکیں! لیکن ناامید بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اب دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔

فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن میں اس مرتبہ جو نئے لوگ آئے ہیں کیا ان سے بہتری کی توقع ہے؟

” میں فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے بارے میں اپنی رائے دوں گا۔ صدر ضیاء الحق صاحب کے دور میں ایک قانون بنایا گیا تھا کہ کوئی فلم ساز فلم نہیں بنا سکتا جب تک وہ حکومت کے ادارے میں رجسٹرڈ نہیں ہو گا۔ میں 1980 سے رجسٹرڈ فلم ساز ہوں اور پچھلے پندرہ بیس سال سے جو لوگ بھی فلم پروڈیوسرز ایسو سی ایشن کو چلا رہے ہیں انہوں نے فلم اندسٹری کے لئے کوئی کام نہیں کیا بلکہ فلم انڈسٹری اگر تباہ ہوئی ہے تو جہاں سب کا ہاتھ ہے وہاں ان کا بھی ہاتھ ہے“ ۔

 کافی تلخ باتیں ہو گئیں ، اب ذرا کچھ شیریں بھی ہو جائے! فلم انڈسٹری میں آنے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟

اس سوال سے خود نمائی ہوتی ہے لیکن چلیں جو لوگ نہیں جانتے ان کے لئے تھوڑا سا تعارف ہو جاتا ہے۔ میں 1968 میں فلم انڈسٹری میں آیا اور شروع سنیماٹو گرافی / کیمرہ سے کیا۔ یہاں میں نے پانچ سال تربیت لی۔ پھر میں ایڈیٹنگ میں گیا۔ میں خوش نصیب ہوں کہ جب شعبۂ کیمرہ میں اسسٹنٹ تھا تو پاکستان کے نامور کیمرہ مین اور ڈائریکٹروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان میں فلم سے متعلق تو کوئی تربیتی ادارہ نہیں ہے۔

ہم سینہ بہ سینہ سیکھتے ہیں۔ ایڈیٹنگ کے بعد میں ڈائریکشن میں وحید ڈار صاحب کو اسسٹ کرتا رہا۔ پھر مجھے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ پنجابی فلم“ خاموش ”( 1977 ) تھی۔ اس کے بعد“ بگڑی نسلیں ”( 1983 ) بنائی جو ہیروئن کے نشے کی لعنت پر معلوماتی اردو فلم تھی۔“ معصوم گواہ ”( 1988 ) ،“ خان ویر ”( 1983 ) اور 2016 میں میری آخری فلم“ماہی وے”(پنجابی) ریلیز ہوئی جو ان بھارتی فلموں کی نذر ہوئی۔ سنیما والوں نے اس فلم سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ اپنے سر سے اتار دی۔ میں اس فلم کا فلم ساز بھی تھا۔ میرا لاکھوں کا نقصان ہوا۔

مذکورہ فلم کے ساتھ میرے بہت تلخ تجربات ہیں۔ فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کا اولین کام پروڈیوسروں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ جو کہ پندرہ بیس سال سے نظر نہیں آ رہا۔ جس کو موقع ملا اس نے عجیب ہی کام کیا۔ اس وقت فلم سنسر بورڈ کی چیئر پرسن زیبا بیگم تھیں۔ میری فلم“ ماہی وے ”سنسر کے لئے گئی۔ میں نے تمام قانونی طریقۂ کار پورا کرتے ہوئے سنسر بورڈ ممبران کے لئے فلم کی اسکریننگ کے 31500 روپے فیس کی مد میں جمع کروا دیے۔

میں نے اس کے ایک ہفتے بعد معلوم کروایا کہ سنسر سرٹیفیکیٹ کیا ہوا؟ یہ فلم تو تعلیم پر ہے اس میں تشدد یا بیہودہ مناظر ہیں ہی نہیں۔ وہاں سے کہا گیا کہ ہمارے پاس تو فلم چلانے یا دکھانے کا سسٹم خراب ہے۔ زیبا بیگم سنسر ہونے والی فلموں کی سی ڈی گھر میں منگوا لیتی ہیں۔ اس زمانے میں بھارتی فلمیں بھی سنسر ہوتی تھیں۔ اس طرح انہیں سنسر بورڈ میں آنا ہی نہیں پڑتا۔ آپ تو فیس جمع کروا چکے ہیں لہٰذا آپ بھی اپنی فلم کی سی ڈی انہیں بھجوا دیں۔

میں نے پھر پوچھا کہ اب کیا کیا جائے۔ وہاں سے کہا گیا کہ اب آپ سنیما کا انتظام کروائیں۔ میں نے ایک ملٹی پلیکس سنیما کا 25000 روپے میں انتظام کروایا کیوں کہ میری فلم بھی جدید ٹیکنالوجی پر بنائی گئی تھی۔ پھر یہ فلم اسکرین ہوئی۔ اسکریننگ کے بعد جب میں جانے لگا تب سنیما کی کینٹین والا لڑکا میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ کی طرف ممبران سنسر بورڈ والوں کے کھانے پینے کا دس ہزار روپے کا ایک واجب الاداء بل ہے۔ اگر فلم کے ساتھ کسی نے اچھا کیا ہوتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔

 فلموں میں کام کرنے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟

میں پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ مجھے فلموں میں آنے کا قطعی کوئی شوق نہیں تھا۔ البتہ میرے والد صاحب سال میں ایک آدھ فلم دکھا دیتے تھے۔ میرے ایک بہنوئی فلم ساز تھے۔ انڈسٹری کے لوگوں سے ان کی میل ملاقات تھی۔ میں اس وقت موٹر مکینک کا کام کر رہا تھا۔ میٹرک کے داخلے کے لئے پانچ یا دس روپے درکار تھے جو اس وقت میرے والد صاحب کے پاس نہیں تھے۔ میں میٹرک کا امتحان نہ دے سکا۔ یوں موٹر مکینک کے کام میں لگ گیا۔

مجھے 60 روپے مہینہ تنخواہ ملتی تھی۔ ایسے میں میرے بہنوئی نے والد صاحب سے کہا کہ طارق کو فلم انڈسٹری میں بھیجیں۔ مجھے اچھی طرح علم تھا کہ میں ساٹھ روپے مہینہ کماتا ہوں ، فلم اسٹوڈیوز میں ایک پیسہ نہیں ملنے والا ، پھر یہ بھی دھڑکا کہ فلم انڈسٹری کا کام مجھے آتا بھی ہو گا یا نہیں۔ مجھے تو نئے سرے سے وہ کام سیکھنا پڑے گا۔ پھر والد صاحب نے کہا کہ خواہ تم کچھ نہ کماؤ لیکن اب چونکہ یہ داماد کہہ رہا ہے اس لئے تمہیں جانا ہی ہو گا۔ یوں میں نے فلم اسٹوڈیو میں قدم رکھ دیا۔

اس وقت میری والدہ حیات تھیں۔ وہ صبح مجھے ایک روپیہ دیتی تھیں۔ تین آنے جانے اور تین واپس آنے کے لئے۔ دس آنے کا میں اسٹوڈیو میں کھانا کھاتا۔ لہٰذا جب والد صاحب نے کہہ دیا کہ تم ساٹھ روپے ماہانہ تنخواہ نہیں لاؤ گے تب بھی اللہ کے فضل سے ہم گزارہ کر ہی لیں گے پھر میں نے وہ کام سیکھنا شروع کر دیا۔ میں نے جنون کی حد تک دو تین شعبوں میں کام کیا اور جو کام سیکھے ان کا الحمد للہ مجھے بہت فائدہ بھی ہوا۔ بحیثیت ڈائریکٹر ہر ایک شعبے کی راہنمائی اور کمانڈ کر سکتا ہوں۔ میں نے اپنی عمر کے 52 سال فلم انڈسٹری میں گزارے۔

جب آپ کو پہلی کامیابی ملی تو کیا یہ دیکھنے کو آپ کے والد حیات تھے؟

میں تو چاہتا ہوں کہ آپ مجھ سے کوئی فلم سے متعلق سوال کریں۔ میرے والد صاحب ایک مزدور آدمی تھے۔ میں نے اللہ کے فضل سے انڈسٹری میں اپنی زندگی بہت محفوظ گزاری ہے۔ صرف اپنے کام پر توجہ دی۔ جب میں اسسٹنٹ تھا تو میرا نام ’مولوی‘ پڑ گیا۔ جب میں ڈائریکٹر ہو گیا تو ایک رات گھر میں سویا ہوا تھا۔ رات کے دو بجے میرے والد صاحب نے مجھے اٹھا کر چومنا شروع کر دیا۔ اب میں نے تجزیہ کیا کہ ان کو کوئی فلم انڈسٹری کا آدمی ملا ہے اور انہوں نے اس سے میرے بارے میں معلومات لی ہیں جو اچھی مل گئی ہیں۔

وہ رونے کے ساتھ مجھے چومے جا رہے تھے۔ میں نے کہا بٹ صاحب کیا ہوا؟ وہی بات ہوئی جو میرا تجزیہ تھا۔ کہنے لگے کہ میں ’برینڈریتھ روڈ‘ پر سامان لینے گیا تو وہاں فلم والوں کی باتیں ہو رہی تھیں۔ میں نے بھی ایسے ہی کہہ دیا کہ وہاں ایک محمد طارق بھی فلم ڈائریکٹر ہے۔ وہ کیسا ہے؟ یہ نہیں بتایا کہ وہ میرا بیٹا ہے۔ اس پر گفتگو کرنے والے کہنے لگے کہ اس کی تو کیا بات ہے اور میری بہت تعریفیں کیں ۔

ایک عجیب واقعہ

ہر انسان کی فطرت میں ہے کہ اس نے کیا بننا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کس سے کون سا کام کب کرانا ہے اس سلسلے میں ایک اپنا واقعہ سناتا ہوں؛

ایک وقت ایسا بھی آیا جب میرے پاس موٹر مکینک کی نوکری نہ رہی ، وجہ میری پندرہ سولہ سال عمر تھی اور ادارے مجھے اپنے ہاں نہیں رکھتے تھے۔ جب کہ میں اچھا کاریگر بن چکا تھا۔ میں ڈیڑھ سال بیروزگار رہا اور گھر کے حالات تنگ ہو گئے۔ یوں ایک دن میں نے طے کر لیا کہ آج ضرور کوئی کام کر کے آنا ہے۔

ان دنوں دریائے راوی کا پل جس پر اب ٹول پلازہ بنا ہوا ہے، وہ ابھی بن رہا تھا میں نے سوچا یہیں کوئی قسمت آزماؤں۔ میں صبح ناشتہ کیے بغیر گھر سے پیدل یہاں پہنچ گیا۔ مجھے بجری چھاننے کا کام ملا۔ بارہ ایک بجے کھانے کا وقفہ ہوا۔ مزدور اپنے اپنے گھروں سے جو کچھ لائے ہوئے تھے وہ ادھر ادھر بیٹھ کر کھانے لگے۔ میرے پاس تو کچھ تھا ہی نہیں۔ میں قریب بجری کے ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ سورج کی روشنی دریا کے پانی پر پڑنے سے نہایت ہی دلفریب اور خوبصورت نظارہ سامنے تھا۔

فوراً میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ یا اللہ! یہ میرا سورج اور دریا کے پانی کو یوں دیکھنا تو بڑے لطیف لوگوں کا کام ہے جیسے مصور، شاعر۔  میں تو یہاں بجری چھان رہا ہوں تو نے مجھ میں یہ حس کیسے پیدا کر دی؟ واقعہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ میں آج جس جگہ پہ ہوں، کوشش کرتا ہوں کہ کوئی اور کاروبار کر لوں لیکن نہ کر سکا ، اس لئے کہ میں اسی کام کے لئے پیدا ہوا ہوں۔ ہر آدمی کو اللہ نے کسی نہ کسی کام کے لئے پیدا کیا ہے۔

دیکھا گیا ہے اب فلموں میں کہانی کی وہ اہمیت نہیں رہی جیسے پہلے ہوتی تھی۔ اس سلسلے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟

میں یہ عرض کروں گا کہ ہم سے پہلے جو ڈائریکٹر تھے جنہیں ہم نے اسسٹ کیا جیسے حسن طارق، مسعود پرویز، وحید ڈار صاحبان، باقاعدہ ڈائریکٹر تھے۔ اس وقت ہر آدمی وہ کام کرنا چاہتا تھا جو دوسرا نہ کر رہا ہو۔ کوئی رومانی فلم بنا رہا ہے، کوئی ایکشن، کوئی سوشل ، غرض مختلف اقسام کی فلمیں بن رہی تھیں اور ان لوگوں کو اس کام میں عبور حاصل تھا۔ پھر جب ہمارا دور آیا تو ہم نے بھی کام کیا۔ مثلاً داؤد بٹ صاحب، میں، سنگیتا بیگم، حسن عسکری اور پرویز رانا وغیرہ ہیں۔ پھر بعد میں کچھ ایسے لوگ آ گئے جن کے پاس اس کام کی تربیت نہیں تھی لیکن کچھ سرمایہ کار ایسے ڈھونڈ لیے گئے جن کو اپنی سوانح، فلم کی شکل میں بنانے کا شوق تھا۔ پھر جب ایسی فلمیں بنیں تو اس دور میں ایک ہی فلم ہزاروں مرتبہ بن گئی۔

فلم انڈسٹری پر برا وقت فلم میکر کی وجہ سے نہیں آیا کیوں کہ وہ تو ایک طرف ہو گئے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اس غلط اقدام کی مزاحمت نہیں کی۔ پھر ان کا پیچھے ہٹ جانا ہی اس کی تباہی ٹھہرا۔ جب مختلف موضوعات پر فلمیں بن رہی تھیں تو عوام انہیں دیکھتے بھی تھے۔ لیکن اب جو ایک ہی فلم دو تین ہزار دفعہ بنی اس کو بھی لوگ دیکھنے آتے تھے۔ یہ فلمیں ہفتے کے تین دن، جمعہ، ہفتہ اور اتوار ہاؤس فل جاتی تھیں۔ لیکن آپ کب تک کسی کو ایک ہی کھانا کھلائیں گے؟ کچھ تنوع بھی تو ہونا ضروری ہے۔

اس سب کہانی میں جونیئر کا کوئی قصور نہیں۔ یہ تو اوپر والوں / سینیئرز کا قصور تھا کہ وہ اس صورت حال سے نکلنے کی کوئی منصوبہ بندی کرتے۔ وقتی طور پر ایسی فلموں سے ہنرمندوں کو رزق تو ملا لیکن انہوں نے انڈسٹری کا گراف نیچے گرا کر بیڑا غرق کر دیا جس کے بعد وہ گراف اوپر آیا ہی نہیں۔

بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے خلاف پہلے بھی “جال تحریک ” چلی تھی۔ ہماری نامور فلمی شخصیات گرفتار ہوئی تھیں۔ اب جب بھارتی فلمیں لائی گئیں تو مزاحمت کیوں نہیں ہوئی؟

یہ بڑا تلخ سوال ہے۔ چونکہ 1980 میں صدر ضیاء الحق کے ایم ایل او کے تحت پاکستان میں کوئی ایسی فلم جس میں بھارتی اداکار ہوں گے وہ نہیں چل سکتی تھی۔ ان سرمایہ داروں نے ملٹی پلیکس سنیماؤں سے مل ملا کر سنسر بورڈ کو دھوکا دیا۔

اس وقت اسلم ڈار صاحب، خدا انہیں غریق رحمت کرے، چیئرمین پاکستان فلم ڈائریکٹر ایسوسی ایشن تھے۔ انہوں نے عدالت میں بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے خلاف درخواست دی۔ عدالت نے اس درخواست کو التوا میں ڈال کر فیصلہ نہیں دیا۔ اسلم ڈار صاحب اس دنیا سے چلے گئے۔ ہم نے چار پانچ درخواستیں ہائی کورٹ میں جمع کرائیں جو آج تک پڑی ہوئی ہیں۔

کیا یہ بات صحیح ہے کہ ان ملٹی پلیکس سنیماؤں میں پاکستانی فلموں کو صحیح تاریخیں اور شو ٹائم بہت مشکل سے ملتے تھے؟ ۔

وہ تو ان لوگوں کی منصوبہ بندی تھی کہ پاکستانی فلموں کو خراب کرنا ہے۔

ایسی کیا دشمنی تھی؟

پاکستان میں سنیما والے ان فلموں سے کروڑوں کما کر موجیں کرتے تھے۔ اسی لیے سنیما مالکان پرائم ٹائم بھارتی فلموں کو دیتے تھے۔ میری فلم کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ پہلے تو انہوں نے لگائی ہی نہیں۔

وہ کیسے؟

لگائی مگر صبح چار بجے۔ اب آپ بتائیں صبح چار بجے میری فلم کون دیکھنے آئے گا؟ انہوں نے کھاتے میں لکھ دیا کہ آپ کی فلم چلائی لیکن آدمی کوئی نہیں آیا۔ اس طرح وہ ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرتے رہے۔

اب ان سنیما مالکان کا کیا حال ہے؟“ ۔
ان کا حال اچھا نہیں! اپنے زخموں کو چاٹ رہے ہیں۔

 پاکستان میں پھر سنیما کیسے چلے گا؟

 پاکستان میں سنیما صرف اسی صورت چلے گا جب اس میں پاکستانی فلم لگے گی۔ ٹھیک ہے پاکستانی عوام کو ذائقہ بدلنے کے نام پر آپ نے کئی سال بھارتی فلمیں دکھائیں۔ لیکن پاکستانی سنیما بین اپنے ہیرو کو دیکھنا چاہیں گے۔

نئی فلم پالیسی کے بارے میں مسلسل سن رہے ہیں۔ کیا یہ کبھی بنے گی بھی یا یونہی ہوا میں رہے گی؟

یہ فٹبال کا کھیل ہے جو نوکر شاہی ہمیں کھلاتی رہتی ہے۔ اس بات میں کوئی سنجیدہ نہیں ہے۔ حکومت کو فلم کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ دانشور کہتے ہیں کہ کسی قوم کا ذہنی معیار پرکھنا ہو تو ان کا ادب پڑھو یا ان کی فلمیں دیکھو لیکن یہ بھی طے ہے کہ فلم انڈسٹری کا احیاء حکومت نہیں کرے گی۔ یہ ہم انڈسٹری والوں کو خود کرنا ہو گا۔ حکومت اس سلسلے میں کسی حد تک ہماری حوصلہ افزائی کر سکتی ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ بعض ممالک میں حکومت فلم بنانے کے لئے قرضہ دیتی ہے۔ ظاہر ہے قرضہ تب ہی ملے گا جب اس کو باقاعدہ انڈسٹری بنایا اور سمجھا جائے۔ ہم بھی 52 سالوں سے فلم انڈسٹری کا نام سن رہے ہیں لیکن یہاں لفظ انڈسٹری کا نفاذ ہوتے کبھی نہیں دیکھا۔

محمد طارق صاحب! آپ پر بھی ایک الزام ہے کہ آپ بڑے غصے والے تلخ آدمی ہیں۔ یہ کہاں تک صحیح ہے؟

مسکراتے ہوئے طارق صاحب نے کہنا شروع کیا: ہاں یہ کسی حد تک ٹھیک ہے۔ دیکھیں! ہر آدمی اپنی فطرت پر اور اپنے مزاج پر ہے۔ میرے بارے میں جو کہا جاتا ہے کہ یہ سخت ہے ، سنتا نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ میں صحیح آدمی کو صحیح جگہ پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ اگر مجھے کوئی فلم ساز، ڈائریکٹر کے لئے لیتا ہے تو اس کو یہ حق ہے کہ وہ میرے بارے میں چھان پھٹک کرے۔ پھر آپ نے اپنی فلم کے لئے ڈائریکٹر لینا ہے یا ’جی حضور‘ کہنے والا؟

” معصوم گواہ“ اور صبیحہ خانم:

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے ایک دلچسپ قصہ سنا: ”اداکارہ صبیحہ خانم نے میری فلم“ معصوم گواہ ”( 1988 ) میں کام کیا۔ یہ وہ اداکارہ تھیں جن کی ہم بچپن میں فلمیں دیکھتے تھے۔ مذکورہ فلم کی بیرونی عکس بندی ہو رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتی ہیں۔ کیوں کہ اس کے بعد فلم میں ان کا کام ختم تھا۔ وہ میرے پاس آئیں اور نماز روزے کی بات شروع کر دی۔ غیر متوقع طور پر ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ بٹ صاحب آپ تو بہت اچھے آدمی ہیں۔

میں فوراً سمجھ گیا کہ میری منفی مشہوری ان تک پہنچ گئی۔ ان سے پوچھا کہ میرے بارے میں لوگوں نے کچھ کہا ہو گا تو جواب دیا ہاں۔ پھر میں نے صبیحہ خانم سے پوچھا آپ نے ساری فلم میں میرے ساتھ کام کیا ہے، اب آپ بتائیں آپ نے مجھے کیسا پایا؟ اس پر انہوں نے کہا کہ آپ اپنے کام میں پورے ہیں، نظم و ضبط کے آدمی ہیں، سیٹ پر فضول گفتگو برداشت نہیں کرتے اور کام کے معاملے میں سخت ہیں۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ڈائریکٹر جہاز کا کپتان ہوتا ہے۔ کپتان کو جہاز کے تمام شعبوں کا علم ہونا چاہیے تب ہی وہ کام لے سکے گا۔ اگر کیمرے اور ایڈیٹنگ کا نہیں پتا تو مجھے فٹبال بنا دیا جائے گا۔

بحیثیت ڈائریکٹر پہلے تو مجھے فلم کی کاغذی تیاری کرنا ہوتی ہے۔ سیٹ پر آنے سے پہلے مجھے ہر زاویے سے دیکھنا پڑتا ہے۔ جب میں ناپ تول کر کام کروں گا تو سیٹ پر کسی کے اعتراض کا موقع ہی نہیں ہو گا۔ ڈائریکشن اور دیگر فنون لطیفہ واقعی لطیف کام ہیں جنہیں دنیا کے بہترین لوگ کرتے ہیں۔ اللہ کی اتنی بڑی کائنات کو فلم کے ایک چھوٹے سے فیتے پر منتقل کرنا معمولی بات نہیں، خود فنون لطیفہ کے بیس بائیس شعبے ہیں: مصوری، شاعری، ادب، موسیقی، گلوکاری، اداکاری، رقص وغیرہ تمام کے تمام ایک فلم میں ہیں۔ یہ ڈائریکٹر کو آئیں گے تو وہ ڈائرکشن دے گا ناں! میں نے جتنا کام سیکھا ہے جب میں لوگوں سے ویسے ہی کام کی توقع کا اظہار کرتا ہوں تو ان کی دل آزاری ہوتی ہے۔

فلم اسٹوڈیو میں فلم بندی اور فارم ہاؤس میں عکسبندی میں کون سی بہتر ہے اور کیوں؟

فیچر فلم تو فلم اسٹوڈیو میں ہی بنے گی۔ جب وہ فلم کے فارمیٹ پر بنتی تھی تو فلم اسٹوڈیو میں اس کا بنایا جانا ضروری تھا۔ کیوں کہ آپ کو لیبارٹری، ساؤنڈ ریکارڈنگ، سیٹ لگانے کے لئے فلور وغیرہ درکار تھے۔ اب پچھلے دس پندرہ سال سے وہ ٹیکنالوجی پوری دنیا میں ختم ہو گئی ہے۔ اب آپ کو شوٹنگ کرنا ہے اور سیٹ لگوانا ہے تو وہ اسٹوڈیو میں کر سکتے ہیں۔ اگر سمجھتے ہیں کہ فلاں کوٹھی ہی میرا بنا بنایا سیٹ ہے تو وہاں چلے جائیں۔ کوئی پابندی نہیں ہے۔ آپ نے الیکٹرانک کیمرہ اور ضروری ہنرمند لئے اور جا کر شوٹنگ کر لی۔ واپس آئے، پوسٹ پروڈکشن کے لئے ایک کمرہ چاہیے جہاں آپ کا کمپیوٹر لگا ہوا ہے وہاں پوسٹ پروڈکشن کر لیں۔

میں نے تو 25 سال پہلے کہہ دیا تھا کہ یہ اسٹوڈیو نہیں رہیں گے کیوں کہ مجھے پتا تھا کہ نئی ٹیکنالوجی آ رہی ہے۔ میں نے ایور نیو میں سجاد گل صاحب کو اس کی آگاہی دی اور کہا کہ یہ نئی ٹیکنالوجی آ رہی ہے، میں نے اس پر عبور حاصل کر لیا ہے۔ آپ اپنے اسٹوڈیو میں وہ سسٹم لگوا لیں میں آپ کے آدمیوں کی تربیت بھی کروں گا۔ پھر اپنے کیمرہ اور ایڈیٹنگ کے شعبے کے دوستوں کو بھی یہ پیشکش کی۔ اس وقت اس بات کو اہمیت نہیں دی گئی۔ اسٹوڈیو کے کروڑوں کا سامان آج لوہے کے بھاؤ بھی مشکل ہے۔

فارم ہاؤس میں ایک آدھ شاٹ تو ٹھیک ہے پورے پورے مناظر تو صرف اسٹوڈیو لائٹنگ ہی سے صحیح شوٹ ہوں گے۔ فیچر فلم صرف اسٹوڈیو میں ہی بنتی ہے۔ آپ کو پتا ہوتا ہے کہ آپ نے کہاں کہاں سے لائٹ دینا ہے۔ اور اس کی بہتر عکاسی صحیح کیمرہ مین ہی کرے گا۔ صرف کیمرہ آپریٹ کرنا کیمرہ مین کا کام نہیں ہے۔ اور فلم کی لائٹ بھی فلم کا کیمرہ مین ہی کرے گا۔ کوئی باہر کا آدمی یہ کام کرنا چاہتا ہے تو وہ پہلے اس کام کو سیکھے۔ فلم کی لائٹنگ تو مصوری ہے۔ ایک فریم میں روشنی کا دس طرح کا تنوع ہوتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی ابھی وہاں نہیں پہنچی جہاں فلم تھی۔ اس میں اچھائیوں کے ساتھ کچھ قباحتیں اور فوٹوگرافی سے متعلق کچھ حل طلب مسئلے ہنوز موجود ہیں جو آنے والے دس سالوں میں بھی حل نہیں ہو سکتے۔

مثلاً فلم میں سگریٹ لائٹر کے شعلے کی جس طرح کی ریزولیوشن چاہیے وہی پردے پر نظر آئے گی۔ الیکٹرانک کیمرے میں ابھی تک ایسی قباحتیں ہیں کہ فلم جیسا ریزولیوشن نہیں آ سکتا۔ رنگوں میں تنوع نہیں ہے۔ موجودہ ٹیکنالوجی میں اس مسئلے کو دور کرنے کے لئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔

فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے پھر کیا کرنا چاہیے؟

انڈسٹری کے حالات پر صرف تنقید کرنا ٹھیک نہیں بلکہ قابل عمل حل بھی تو بتانا چاہیے ناں! میں چیلنج کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہماری فلم انڈسٹری صحیح ہو سکتی ہے۔ ایک آدمی چاہیے جس کے پاس پیسے ہوں یعنی فلم ساز۔ کم از کم فی فلم دو کروڑ روپے۔ پھر سال کی بارہ فلمیں بنانے کا جامع منصوبہ بنایا جائے۔ ہر مہینے ایک فلم۔ پھر ہر ایک میدان میں صحیح آدمی لے کر آئیں خواہ وہ آپ کا جاننے والا ہو یا نہ ہو۔ سنیما والوں سے بات کریں۔

اب بارہ عدد فلموں میں سے چار پانچ بھی چل گئیں تو آپ کا لگا ہوا سرمایہ بھی واپس آ جائے گا مع منافع۔ جب ایسا چل پڑے گا تو ادھر ادہر سے بھی فلم ساز آ جائیں گے۔ لیکن فلم بنانے سے پہلے ہر طرح سے یقین کر لیں کہ یہ فلم سو فی صد باکس آفس پر ہٹ ہو گی کیوں کہ اب تجربے کرنے کا وقت نہیں ہے۔ اب اگر چھکا لگانا ہے تو چھکا لگانا ہے۔ یہ اسی طرح لگے گا جب صحیح جگہ صحیح آدمی ہو اور ہر ایک شعبے کے سربراہ بھی اپنا کام بخوبی جانتے ہوں۔

سنیما اور فلم انڈسٹری

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا: ”پہلے پاکستان میں فلموں کے چار سرکٹ ہوتے تھے۔ فلم ساز سے تقسیم کار فلم خرید کر تھرڈ پارٹیوں کو دیتا اور وہ آگے سنیماؤں سے معاہدہ کرتے تھے۔ سنیما والے بھی اس فلم کی ایڈوانس رقم دیتے تھے۔ اس طرح فلم کے چلنے میں سنیما مالکان کا اپنا مفاد بھی ہوتا۔ وہ اچھے طریقے سے فلم کو ریلیز کرتے اور لوگوں اور ٹکٹوں کا خیال رکھتا تھے۔ اب ملٹی پلیکس سنیماؤں کے آنے سے جو سب سے بڑی خرابی پیدا ہوئی ہے وہ یہ کہ ان کا تھرڈ پارٹی سے نہ معاہدہ ہے نہ کوئی ایڈوانس رقم دیتے ہیں لہٰذا فلم کے چلنے یا نہ چلنے میں ان کو کوئی خدشہ ہی نہیں۔

اب سنیما والوں کی بھی نئے سرے سے تربیت کرنا پڑے گی تب یہ گاڑی چلے گی۔ جب ہر آدمی اپنی اپنی رائے دے گا تو آپ کسی نتیجے پہ نہیں پہنچیں گے۔ اب آپ صحیح لیڈر کو تلاش کریں۔ اس پر یقین کریں اور پھر اس کی مان لیں۔ جب تک ’الف‘ تا ’ے‘ پورا سسٹم صحیح نہیں ہو تا فلم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس میں سب سے پہلے سنیما کا نام آتا ہے۔ ٹرین چلانی ہے تو پہلے پٹری بنائیں! ہمارے پاس تو پٹری نہیں ہے ۔

سپر اسٹار اور شاہانہ پروٹوکول

اداکار محمد علی سمیت اردو اور پنجابی فلموں کے سپر اسٹارز کا بادشاہوں والا انداز ہوتا تھا کہ ہمیں شاہانہ پروٹوکول ملے کوئی ٹوکنے والا نہ ہو۔ میں اس بات کے خلاف تھا۔ پہلے دن میں نے محمد علی صاحب کو مکالمے وغیرہ بتلائے تو کہنے لگے کہ یہ مکالمہ منہ پر نہیں آ رہا اس کو بدل دیں۔ میں نے کہا کہ جناب یہ تو بڑا سوچ سمجھ کے کام کیا گیا ہے۔ پھر آپ تو بڑے اداکار ہیں آپ اسے یاد کر کے منہ پر چڑھائیں۔ یہ کہہ کر لائٹ آف کرا دی۔ ان کو آج تک کسی نے روکا نہیں تھا۔ وہ سناٹے میں آ گئے۔ میں نے کہا کہ میں اس فلم (بگڑی نسلیں 1983) کا فلم ساز بھی ہوں۔ سوچ لیں کہ کام کریں گے یا نہیں۔ پانچ منٹ سوچنے کے بعد کہا کہ میں آپ کے کام میں نہیں بولوں گا۔ پھر پوری فلم انہوں نے بہت دلجمعی سے کی۔

خلیل قیصر اور ریاض شاہد سے محمد طارق کو ملانا

دیکھیں ناں! جب آپ کی کام پر گرفت ہو گی تو یونٹ کے لوگ مشمول اداکار کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں ملے گا۔ میں کام میں سنجیدہ تھا اور دوسروں سے بھی پوری توجہ چاہتا تھا۔ جب ’‘ بگڑی نسلیں“ ریلیز ہوئی تو چھوٹے بڑے اخبارات نے اس کے بارے میں لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ خلیل قیصر اور ریاض شاہد دنیا میں ہدایت کار محمد طارق کی شکل میں واپس آ گئے ہیں۔ گویا میرے کام میں ان نامور مستند شخصیات کا نظر آنا تو میرے لئے بڑا اعزاز تھا ۔

اداکار طالش کا ماجرا

 اسی “بگڑی نسلیں” میں اداکار علاء الدین بھی کام کر رہے تھے۔ مجھے ایک سین کے لئے اداکار طالش صاحب کی ضرورت تھی۔ علاء الدین صاحب نے کہا کہ طارق تم نے انہیں نہیں کہنا بلکہ میں کہوں گا کہ یہ اس فلم میں کام کرے۔ وہ آپس میں بے تکلف دوست بھی تھے۔ میں نے کہا کہ میں فلم ساز بھی تو ہوں۔ پیسے طے کرنا ہیں۔ میں اور وہ طالش صاحب کے گھر چلے گئے۔ میرا لمبا چوڑا تعارف کرایا۔ میرے منہ پر تو اس وقت داڑھی مونچھ بھی نہیں تھی۔

بگڑی نسلیں کا پوسٹر

میں نے اندازہ لگایا کہ انہوں نے یہی سمجھا کہ یہ بچہ ہے اور مجھے ڈائریکٹر تسلیم نہیں کیا۔ میں نے کہا چھوڑیں طالش صاحب یہ بتائیں کتنے پیسے لیں گے؟ انہوں نے کہا کہ ایک سین کے پانچ ہزار روپے لوں گا جب کہ اس وقت وہ آٹھ ہزار میں پوری فلم کرتے تھے۔ میں نے تین دن میں ان کا سین کیا۔ شوٹنگ کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ بٹ صاحب! میرا کام آپ کو ٹھیک لگا؟ میں نے پوچھا کہ آپ ماشاء اللہ اتنے بڑے اداکار ہیں جس نے پاکستان کے نامور اساتذہ ڈائریکٹروں کے ساتھ کام کیا ہے۔

آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا میں آپ کو ڈائریکٹر لگا ہوں؟ انہوں نے کہا کہ آپ تو مکمل ڈائریکٹر ہیں۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ نے اپنا سین 80 فی صد کیا ہے، 100 فی صد نہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ جب میں نے اسی فی صد کیا تو آپ نے او کے کیوں کیا؟ میں نے جواب دیا کہ پاکستان کا سب سے بڑا اسٹار آغا طالش اتنی محنت کے بعد اسی فی صد کر سکا ہے تو اس کے بعد تو کوئی اداکار ہے ہی نہیں جو اس کو کر سکے۔ اس لئے آپ کو بیس فی صد کی رعایت دی ہے۔ تو اس پر وہ بڑے خوش ہوئے۔

علامہ اقبال کی ’شکوہ‘ اور سورۃ رحمٰن پر ویڈیو بنانا

باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ تقریباً پندرہ سال پہلے اقبال اکیڈمی کے ساتھ مل کر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور زمانہ ’شکوہ‘ پر فلم بنائی۔ اسی طرح سورۃ رحمٰن پر تقریباً بیس سال پہلے شالیمار ریکارڈنگ کمپنی، اسلام آباد کے لئے ویڈیو بنائی۔

رضا میر صاحب کا ایک واقعہ

رضا میر صاحب کا ایک واقعہ سناتا ہوں: جب پاکستان میں نیشنل ایوارڈ کا پہلی مرتبہ انعقاد ہوا تو رضا میر صاحب ایوارڈ پینل کے جج تھے۔ وہاں ایوارڈ کے لئے“ بگڑی نسلیں ”چلی۔ میں اس وقت باری اسٹوڈیو میں تھا۔ کیمرہ مین علی جان صاحب اور وقار بخاری صاحب میرے پاس آئے۔ یہ دونوں میرے اساتذہ تھے، کہنے لگے کہ رضا میر صاحب تم کو ایور نیو میں یاد کر رہے ہیں۔ میں ان کے ساتھ وہاں گیا اور رضا صاحب کے پیچھے ہو کر کھڑا ہو گیا کیوں کہ وہ میرے دادا استاد بھی ہیں۔

وہ ایسے کہ نسیم حسین شاہ ان کے شاگرد ہیں اور میں ان کا شاگرد تھا۔ رضا صاحب نے سرسری میری طرف دیکھا پھر علی جان صاحب سے کہا کہ تمہیں کہا تھا کہ ’’بگڑی نسلیں‘‘ کے پروڈیوسر ڈائریکٹر کو لاؤ۔ جان صاحب نے میری طرف دیکھ کر کہا یہی طارق بٹ صاحب ہیں۔ تب رضا میر صاحب نے کہا کہ طارق بٹ صاحب! پاکستان کا کوئی بھی ایوارڈ ایسا نہیں ہے جو آپ کے قابل ہو۔ پھر نصیحت کی کہ تکلیفیں تو بہت آئیں گی لیکن اس کام کو نہیں چھوڑنا کیوں کہ تم اس کام کے اہل ہو۔

اشفاق ملک صاحب کی بات

اشفاق ملک ( اے ایم اسٹوڈیو والے ) صاحب کی بات بھی یاد آ گئی: ان کے اسٹوڈیو میں دو دن فلم“ بگڑی نسلیں ”کی شوٹنگ کی تھی۔ میں ان کے منیجر کے پاس حساب کر کے جب باہر نکلا تو اشفاق ملک صاحب کھڑے تھے۔ وہ اسٹوڈیو کے مالک ہونے کے علاوہ ڈائریکٹر پروڈیوسر بھی تھے۔ وہ مجھے نہیں جانتے تھے۔ ان کے ساتھ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کھڑے تھے جو مجھے جانتے تھے۔ جب میں نکلا تو اس شخص نے کہا کہ ملک صاحب یہ ہیں طارق بٹ صاحب! چوکس ہوا کہ ملک صاحب میرے انتظار میں کھڑے ہیں۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

پھر ڈرتے ڈرتے ان کے پاس گیا اور کہا کہ ملک صاحب کوئی غلط فہمی تو نہیں ہوئی؟ کہنے لگے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی میں تو طارق بٹ صاحب کو دیکھنے کے لئے کھڑا ہوں۔ آپ کے پاس پانچ منٹ کا وقت ہے میرے ساتھ چائے پینے کا؟ میں نے کہا ضرور! اندر چلے گئے۔ کہنے لگے کہ میرے پاس رانی اور شاہد بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک بات مجھ سے کہی ہے جس کو سننے کے بعد میں تم سے ملنے کے لئے بے قرار تھا۔ ان دونوں فنکاروں نے کہا کہ ایسا لگا گویا ہم نے 25 سال جو کام کیا وہ غلط کیا یا اس لڑکے کے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ غلط ہے۔ میں نے سوچا کہ کون سا لڑکا ایسا ڈائریکٹر پیدا ہو گیا جس نے ہمارا کام غلط ثابت کر دیا؟ ذرا میں بھی تو دیکھوں ہے؟۔

جعفر شاہ بخاری صاحب کا قصہ

اسی طرح جعفر شاہ بخاری صاحب کا قصہ ستاتا ہوں: ان کا شمار پاکستان فلم انڈسٹری کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ میری پنجابی فلم“خاموش ”( 1977 ) کی ریل چل رہی تھی اور اس کا بیک گراؤنڈ ہو رہا تھا کہ وہاں جعفر شاہ بخاری صاحب کا گزر ہوا۔ موسیقار وجاہت عطرے سے کہنے لگے کہ اس فلم کا ڈائریکٹر کون ہے؟ وجاہت عطرے ان کو میرے پاس لے آئے۔ میں نے کبھی ان کے ساتھ کام نہیں کیا تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے : یار! یہ میرے جاننے والے تو نہیں ہیں لیکن تم ان سے میری سفارش کرو کہ مجھ سے ایڈوانس لے لے اور میری ایک فلم کی ڈائریکشن کر دے۔ اب جعفر شاہ بخاری استادوں کے استاد اور کہاں میں! میں نے کہا کہ جناب میں آپ کا بچہ ہوں میں کر دوں گا۔ پھر بھی ہزار روپے دے کر کہا کہ تم نے میری فلم کرنا ہے۔ یہ سب میرے اعزاز ہیں اور میں اسی کے سہارے جی رہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments