شہریت کے متنازع قانون پر علی گڑھ میں تقریر کرنے والے اترپردیش کے ’ہسٹری شیٹر‘ ڈاکٹر کفیل کون ہیں؟


ڈاکٹر کفیل خان

ڈاکٹر کفیل خان کا تعلق گورکھپور سے ہے

ڈاکٹر کفیل خان شاید انڈیا کے مشہور ترین ڈاکٹر ہیں۔ بدقسمتی سے وہ اپنے پیشے کی وجہ سے نہیں بلکہ اترپردیش حکومت کی جانب سے متعدد بار جیل بھیجے جانے، ہر مقدمے میں عدالت سے ضمانت مل جانے اور پھر دوبارہ جیل بھیجے جانے کے لیے مشہور ہیں۔

بچوں کے امراض کے ڈاکٹر کفیل خان ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں۔ حال ہی میں انڈیا کی سپریم کورٹ اور آلہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے قومی سلامتی کے مقدمے میں ان کو باعزت رہا کیے جانے کے فیصلے کو صحیح قرار دیے جانے کے بعد اترپردیش کے شہر گورکھپور کی انتظامیہ نے ان کو اتر پردیش کے دس بڑے ’ہسٹری شیٹر‘ یا سنگین مجرموں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے اور اب تاحیات ان پر پولیس کی نگاہ رہے گی۔

اس بارے میں ڈاکٹر کفیل خان نے کہا: ’اترپردیش کی حکومت نے میری ہسٹری شیٹ کھول دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پوری زندگی مجھے پر نظر رکھیں گے۔ اچھا ہو اگر ریاستی حکومت مجھ پر نظر رکھنے کے لیے مجھے دو سیکورٹی گارڈز دیں دے تاکہ میں خود کو فرضی مقدمات سے تو محفوظ کر سکوں گا۔‘

بی بی سی نے اترپردیش حکومت سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

اترپردیش کا وہ ڈاکٹر جو بار بار جیل بھیج دیا جاتا ہے

ڈاکٹر کفیل خان: انڈیا کے لیے قومی خطرہ یا جبر کی علامت؟

جس رات انڈیا کے ایک ہسپتال میں 30 بچے ہلاک ہوئے

اترپردیش کے ضلع گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر 38 سالہ ڈاکٹر کفیل خان کو سب سے پہلے دو ستمبر سنہ 2017 میں بی آر ڈی ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بچوں کی اموات کے سلسلے میں جیل بھیجا گیا۔

نو مہینے بعد 25 اپریل سنہ 2018 کو آلہ باد ہائی کورٹ نے انھیں ضمانت پر رہا کیا۔ اس کے بعد 23 ستمبر 2018 میں ہی اترپردیش کی پولیس نے ایک اور مقدمے میں انھیں دوبارہ گرفتار کر لیا۔

اس بار بھی ڈاکٹر کفیل کو ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہائی ملی۔ لیکن 29 جنوری سنہ 2020 کو اترپردیش کی حکومت نے شہریت کے متنازعہ قانون سی اے اے کے خلاف علی گڑھ یونیورسٹی میں کی گئی ایک تقریر کے سلسلے میں انھیں گرفتار کر لیا۔

جس دن ان کی ضمانت ہوئی اسی دن ان پر قومی سلامتی ایکٹ کے تحت ایک مقدمہ درج کیا گیا اور وہ جیل میں ہی رہے۔

اس کیس میں میں یکم ستمبر کو آلہ آباد ہائی کورٹ نے ان کے خلاف قومی سلامتی کے مقدمے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انھیں رہا کر دیا۔ لیکن عدالت کی جانب سے رہائی کے بعد اترپردیش اور مرکزی حکومت نے مشترکہ طور پر سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ آلہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کیا جائے۔

لیکن سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت کیے بغیر یہ کہہ دیا کہ ’یہ ایک بہترین فیصلہ ہے اور وہ اس میں مداخلت نہیں کریں گے لہذا ڈاکٹر کفیل آزاد ہیں۔‘

بار بار عدالت سے رہائی کے باوجود ڈاکٹر کفیل کو جیل کیوں بھیجا جاتا ہے؟ ڈاکٹر کفیل کون ہیں اور اترپردیش کی حکومت کو ان سے کیا مسئلہ ہے؟

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد بی بی سی نے ڈاکٹر کفیل خان سے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اترپردیش کی حکومت انھیں بار بار کیوں جیل بھیجتی ہے۔

ڈاکٹر کفیل خان کا پس منظر

ڈاکٹر کفیل کا تعلق اترپردیش کے شہر گورکھپور سے ہے۔ یہ وہی شہر ہے جو اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا پارلیمانی حلقہ اور ان کا آبائی شہر بھی ہے۔

ڈاکٹر کفیل کے والد شکیل احمد خان اترپردیش کے شعبہ آبپاشی میں انجینیئر تھے۔ مارچ 2003 میں ان کی وفات ہو گئی۔ ان کی والدہ نزہت پروین نے بی اے تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور وہ ہاؤس وائف ہیں۔

ڈاکٹر کفیل خان کے بڑے بھائی عدیل خان ایک بزنس مین ہیں، دوسرے بھائی کاشف جمیل خان نے ایم بی اے اور ایم سی اے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور اپنا کاروبار کرتے ہے اور سب سے چھوٹے بھائی ڈاکٹر فضیل خان، دلی کے ایک نامور ہسپتال میں ہڈیوں کے ڈاکٹر ہیں۔

ڈاکٹر کفیل خان کی ایک بہن مائیکرو بائیولوجسٹ ہیں جبکہ دوسری بہن نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ دونوں بہنیں شادی شدہ ہیں۔

ڈاکٹر کفیل نے اپنی ابتدائی تعلیم گورکھپور کے امر سنگھ چلڈرن سکول سے حاصل کی۔ ہائی سکول اور بارہویں کلاس تک تعلیم گورکھپور کے مہاتما گاندھی انٹر کالج سے حاصل کی۔

ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ اور ان کے بڑے بھائی دونوں ڈاکٹر بنیں۔ بارھویں جماعت کے بعد انھوں نے ڈاکٹری کے لیے منی پال انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے آل انڈیا امتحان میں 30واں رینک حاصل کیا جس کے بعد انھوں نے بارہ سال تک گینگٹوک میں منی پال انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ایم بی بی ایس اور ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہیں انھوں نے بچوں کے شعبہ امراض میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ اس کے بعد سنہ 2013 میں واپس گورکھپور آ گئے اور ڈاکٹر شبستہ خان سے شادی کر لی۔

ڈاکٹر کفیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’اس وقت مجھے آسٹریلیا سے بچوں کے ایک ہسپتال میں ملازمت کی پیش کش تھی لیکن گھر والوں کا بہت دباؤ تھا کہ میں شادی کر لوں۔ انھیں لگتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں آسٹریلیا جاؤں اور واپس ہی نہ آؤں۔ انھوں نے کہا شادی کر لو پھر جانا۔‘

ہسپتال

اترپردیش کی حکومت کا موقوف ہے کہ بی آر ڈی کالج میں جن بچوں کی اموات ہوئی اس کی وجہ دماغی بخار تھا۔

بی آر ڈی میڈیکلکالج میں ملازمت کرنے کا مقصد

ڈاکٹر کفیل خان کی میڈیکل کی تعلیم و تربیت انڈیا کی شمالی مشرقی ریاست سکم کے دارالحکومت گینگٹوک میں ہوئی جہاں کا سیاسی اور سماجی پس منظر اترپردیش سے بالکل مختلف ہے۔

ڈاکٹر کفیل بتاتے ہیں: ’اترپردیش کی بیماریاں شمالی مشرقی انڈیا اور ملک کے دیگر حصوں سے مختلف ہیں۔ اترپردیش میں کمیونیکیبل یا ایک انسان سے دوسرے کو لگنے والی بیماریاں زیادہ ہیں، جیسے ڈپتھیریا، ڈائریا، خسرہ، چیچک اور فلو وغیرہ۔ ان میں سے بیشتر بیماریاں میں نے اپنی ٹریننگ کے دوران دیکھی ہی نہیں تھی۔ گھر والوں کا کہنا تھا کہ ایک بار بی آر ڈی میڈیکل کالج جوائن کرلو گے تو مقامی بیماریوں کا بھی علم ہو جائے گا۔‘

سنہ 2013 سے اپریل 2016 تک ڈاکٹر خان نے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں سینیئر ریذیڈنٹ ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیے۔ اپریل میں ان کا کنٹریکٹ ختم ہوا تو اپنے فیملی ہسپتال میں کام کرنے لگے۔ لیکن اسی برس آٹھ اگست کو انھیں بی آر ڈی کے بچوں کے شعبہ امراض میں اسسٹنٹ پروفیسر کی ملازمت مل گئی۔

بی آر ڈی ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کا معاملہ

دس اگست 2017 کی رات شمالی انڈیا کی ریاست اترپردیش کے بی آر ڈی ہسپتال میں 30 بچے ہلاک ہو گئے تھے، ہسپتال میں آکسیجن کی سپلائی سے متعلق تنازعے کی اکا دکا خبریں مقامی میڈیا میں شائع ہو رہی تھیں کیونکہ جو کمپنی بی آر ڈی ہسپتال کو مائع آکسیجن سپلائی کرتی تھی اس نے اپنی بقایہ رقم کی ادائیگی نہ ہونے پر بی آر ڈی انتظامیہ کو 14 خطوط لکھے تھے۔

چونکہ ڈاکٹر کفیل خان اس ہسپتال کے سب سے جونیئر ڈاکٹر تھے تو بقول ان کے ’مجھے تو اس وقت یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آکسیجن کون فراہم کرتا ہے، اور یہ سپلائی وارڈز تک کیسے پہنچتی ہے۔‘

بی آر ڈی انتظامیہ کو اس بات کا علم تھا کہ سپلائر کی دھمکی کے مطابق 10 اگست کی شام تک آکسیجن کی سپلائی یا تو کم کر دی جائے گی یا بالکل ہی کاٹ دی جائے گی۔

ڈاکٹر کفیل اس رات کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ’اس دن میں چھٹی پر تھا۔ ہم سونے جا رہے تھے کہ میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک میسج آیا کہ آکسیجن سلینڈر ختم ہو گئے ہیں، مائع آکسیجن بھی ختم ہو گئی ہے اور بچوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ میں ہسپتال جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔ میری اہلیہ نے مجھے روکنے کی کوشش کی مگر مجھ سے رہا نہیں گیا۔‘

وہ کہتے ہیں: ’جس سینیئر ڈاکٹر نے مجھے میسج کیا تھا، جب میں نے ان کو فون کیا تو انھوں نے کہا کہ حالات کسی بھی وقت قابو سے باہر ہو سکتے ہیں، بہت برا حال ہے۔ آپ پلیز جلدی آ جائیں۔‘

ڈاکٹر کفیل نے بتایا کہ ’میں اپنی گاڑی لے کر نکل گیا۔ میرے گھر سے بی آر ڈی میڈیکل کالج 10 کلومیٹر دور ہے۔ جب میں ہسپتال پہنچا تو آپ باہر سے والدین کے رونے اور چلانے کی آوازیں سن سکتے تھے۔ والدین میرے پیروں میں گر گئے کہ کچھ کیجیے۔‘

’چار سو بچے زیر علاج تھے اور 53 بچے وینٹیلیٹر پر تھے۔ سب سے پہلے کسی طرح آکسیجن کا انتظام کرنے کا خیال آیا۔ پہلے تو ہم اپنی گاڑی میں ڈال کر قریب کے ہسپتالوں سے اکسیجن سلینڈر لے کر آئے۔ سلینڈرز بڑے ہونے کے باعث ایک گاڑی میں تین ہی سلینڈر آ سکتے تھے۔ اس کے بعد ایک آکسیجن سپلائر کے پک اپ سے بات کر کے بارڈر سکیورٹی فورسز کے لوگوں سے گزارش کی تو انھوں نے ایک ٹرک دے دیا۔ ہم ایک ٹرک میں پچاس سے سو تک سلینڈر لا سکتے تھے۔‘

ڈاکٹر کفیل کو افسوس ہے کہ ان کی تمام کوششوں کے باوجود اس رات 70 بچوں کی جانیں گئیں اور وہ ان کو بچا نہیں سکے۔

وہ تصویر جس سے ڈاکٹر کفیل مقبول ہوئے

مائع آکسیجن کی سپلائی 10 اگست کی شام ساڑھے سات بجے روکی گئی تھی اور 13 اگست کی صبح دو بجے اسے بحال کیا گیا۔

ڈاکٹر کفیل خان بتاتے ہیں کہ اس دوران وہ مستقل ہسپتال میں تھے اور بچوں کو بچانے کی کوشش میں لگے تھے۔

اس وقت وہاں کچھ مقامی صحافی اور فوٹوگرافر بھی موجود تھے۔ جب ڈاکٹر خان ہسپتال کے باہر ایک روتی بلکتی ماں کی گود میں ایک ایسے بیمار بچے کا معائنہ کر رہے تھے جس کو ہسپتال میں بیڈ نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے ڈاکٹروں نے واپس بھیج دیا تھا تو ایک مقامی فوٹوگرافر نے ان کی وہ تصویر کھینچ لی۔

ہندوستان نامی ہندی اخبار میں خبر کے ساتھ تصویر شائع ہوئی جس میں ڈاکٹر کفیل کو ایک مسیحا بتایا گیا۔

اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ

یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے ڈاکٹر کفیل خان کو چار بار جیل بھیجا ہے

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ناراضگی

ڈاکٹر کفیل مزید بتاتے ہیں: ’13 اگست کو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہسپتال کے دورے پر آئے اور مجھے بلایا گیا۔ انھوں نے مجھے سامنے دیکھتے ہی سب سے پہلے پوچھا ‘تو ہے ڈاکٹر کفیل؟‘ میں سوچ رہا تھا کہ شاید مجھے شاباشی ملے گی۔ لیکن جب انھوں نے میرے لیے تو کا لفظ استعمال کیا تو میں ڈر گیا۔‘

‘تو سلینڈر لایا تھا؟‘

’میں نے کہا جی۔‘

تو سلینڈر لا کر سمجھتا ہے تو ہیرو بن جائے گا، دیکھتا ہوں تجھے۔‘

ڈاکٹر کفیل کہتے ہیں ’بس یہ ہی چار جملے تھے جنھوں نے میری ساری زندگی بدل کر رکھ دی۔ اس کے بعد میرے خلاف ایف آئی آر ہوئی اور مجھے گرفتار کر لیا گیا۔‘

حکومت کا الزام اور پہلی گرفتاری

حکومت نے ڈاکٹر کفیل کے خلاف مقدمے میں یہ الزام عائد کیا کہ ان کے بطور ’ہسپتال انچارج ہوتے ہوئے بھی آکسیجن کی کمی ہوئی ہے اور انھوں نے بی آر ڈی کے پرنسپل کے ساتھ مل کر آکسیجن کی سپلائی کے معاملے میں رشوت لی اور ہسپتال کے سلینڈر چرا کر جس پرائیوٹ ہسپتال میں وہ بی آر ڈی جوائن کرنے سے پہلے کام کرتے تھے وہاں پہنچا دیئے۔ ان پر لاپرواہی اور مردم کشی کا مقدمہ درج کیا گیا .

بچوں کی اموات کے بارے میں حکومت نے میڈیا کو بتایا کہ ’بچوں کی اموات انسیفلائٹس یعنی دماغی بخار سے ہوئی ہیں۔‘

ڈاکٹر کفیل کہتے ہیں کہ ’ان میں بہت سارے بچے نوزائیدہ تھے جن کو پیدائشی طور پر دل کی اور دیگر بیماریاں تھیں۔ دماغی بخار کا سوال ہی نہیں تھا۔‘

ڈاکٹر کفیل بتاتے ہیں: ’دو ستمبر 2017 کو عیدالاضحی کے دن میری گرفتاری ہوئی، میں نے بہت گزارش کی مجھے عید کی نماز پڑھنے دو، لیکن پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی۔ نو مہینے تک آلہ باد ہائی کورٹ کے کسی بھی جج نے میری فائل سننے کی ہمت نہیں کی، میرے کیس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔‘

’میں جیل میں نماز پڑھتا تھا اور جب بھی سجدہ کرتا تھا تو بہت روتا تھا۔ میں اللہ سے پوچھتا تھا کہ مجھے کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔ میں تو بچوں کو بچانے گیا تھا۔ بس جواب نہیں ملتا تھا۔‘

جیل سے لکھا خط وائرل ہوگیا

اس معاملے میں ڈاکٹر کفیل نو ماہ جیل میں رہے اور آخر کار الہ آباد ہائی کورٹ نے انھیں ضمانت پر رہا کر دیا۔ لیکن ڈاکٹر کفیل کا کہنا ہے کہ ان کی اس ضمانت میں سوشل میڈیا کی مہم کا اہم کردار ہے۔

’جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ بی آر ڈی ہسپتال کو آکسیجن سپلائی کرنے والی ‘پشپا سیل کمپنی’ کے جس ملازم نے آکسیجن کی سپلائی بند کی تھی، اس کو ضمانت مل گئی ہے تو میں نے جیل سے ایک خط لکھا جس میں، میں نے پورے واقعے کی تفصیل بتائی۔ دس صفحات پر مشتمل خط ان لوگوں کے لیے لکھا تھا جن کو صحیح سے یہ معلوم نہیں تھا کہ ڈاکٹر کفیل کون ہے، وہ جیل میں کیوں ہیں اور دس اگست 2017 کی رات کو اصل میں ہوا کیا تھا؟‘

ڈاکٹر کفیل خان بتاتے ہیں ’ایک دن میری اہلیہ میری بیٹی کے ساتھ مجھ سے ملاقات کے لیے جیل آئی تھیں اس وقت میری بیٹی ڈائپر پہنتی تھی تو میں نے وہ خط اس کے ڈائپر میں رکھ دیا کیونکہ جیل حکام خط بھیجنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔‘

یہ لیٹر سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ڈاکٹر کفیل کی رہائی کا مطالبہ کیا اور لیٹر کے منظر عام پر آنے کے تین دن بعد ہی 25 اپریل 2018 کو ڈاکٹر کفیل کو آلہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت ملی۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے ڈاکٹر کفیل بچوں کی اموات کے لیے ذمہ دار ہیں اور وہ کرپشن میں ملوث تھے۔

میڈیا کا کردار

بی آر ڈی میڈیکل کالج میں آکسیجن کے تنازعہ کے پہلے دو یا تین دن تک ذرائع ابلاغ نے ڈاکٹر کفیل کو ایک ‘ہیرو’ کا خطاب دیا۔

ڈاکٹر کفیل کہتے ہیں ’لیکن راتوں رات اسی ذرائع ابلاغ کا رویہ بالکل بدل گیا۔ جس میڈیا نے مجھے مسیحا کہا، اسی نے ممبئی اور دلی میں اپنے سٹوڈیوز میں بیٹھ کر مجھے ستر بچوں کا قاتل قرار دیا، کسی نے مجھے سپریٹنڈنٹ آف بی آر ڈی کالج بنا دیا، کسی نے مجھے بچوں کے امراٰض کے شعبے کا سربراہ بنا دیا۔‘

’آج بھی بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ میں اس وقت بی آر ڈی کالج کا کوئی اہم ملازم تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں سب سے جونیئر اسسٹنٹ پروفیسر تھا اور میرے پاس کوئی معاشی یا انتظامی اختیار نہیں تھا۔ یہ وہ جھوٹ تھا جو حکومت نے میڈیا اور عدالت سے بولا تھا۔‘

دوسری گرفتاری

ہائی کورٹ کی جانب سے بی آر ڈی معاملے میں ضمانت ملنے کے بعد ڈاکٹر کفیل کو ملازمت پر بحال نہیں کیا گیا۔ اس دوران ڈاکٹر کفیل غریب بچوں کے لیے میڈیکل کیمپس کا اہتمام کرنے لگے اور مفت دوائیں دینے لگے۔

لیکن اترپردیش کی پولیس نے انھیں نو ستمبر 2018 کو بہرائچ ضلع میں دوبارہ گرفتار کر لیا۔

ڈاکٹر کفیل بتاتے ہیں: ’سنہ 2018 میں اگست اور ستمبر کے مہینے میں بہرائچ کے ضلعی ہسپتال میں 78 بچوں کی اموات ہوئی تھیں۔ ریاستی حکومت کہہ رہی تھی کہ یہ اموات ایک پراسرار بیماری سے ہو رہی ہیں۔ طبی ڈکشنری میں پراسرار بیماری جیسا کوئی ٹرم ہوتا ہی نہیں ہے۔‘

’ہم ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن پر بہرائچ گئے اور ہمیں پتا چلا کہ زيادہ تر اموات انسیفلائٹس یعنی دماغی بخار کے باعث ہوئی ہیں۔ یہ وہ حقیقت تھی جس کو حکومت چھپانا چاہتی تھی۔‘

’ہم اس بارے میں ایک پریس کانفرنس کرنے ہی جا رہے تھے کہ اترپردیش کی پولیس نے ہمیں اٹھا لیا۔ انھوں نے مجھے یہ کہہ کر جیل بھیج دیا کہ میں نے حکومت کے کام کاج میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس وقت بھی میں تقریباً دو مہینے تک جیل میں رہا اور چھ نومبر 2018 کو عدالت نے مجھے ضمانت دے دی۔‘

رہائی کے بعد بھائی پر گولیوں سے حملہ

ڈاکٹر کفیل کا کہنا ہے کہ بی آر ڈی معاملے کے بعد گورکھپور کی پولیس ان کو مسلسل پریشان کرتی رہی ہے۔ ان کے آبائی گھر کی بجلی کاٹی جا چکی ہے اور انھيں سوشل میڈیا پر مسلسل جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

بی آر ڈی معاملے میں ضمانت کے بعد دس جون 2018 کو ڈاکٹر کفیل کے بھائی کاشف جمیل پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں ان پر چند نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کی تھی، خوش قسمتی سے ان کی جان بچ گئی۔

ڈاکٹر کفیل خان بتاتے ہیں: ’میرے بھائی کو گورکھپور کے گورکھ ناتھ مندر کے ہائی سکیورٹی علاقے میں نشانہ بنایا گیا۔ صرف اس دھوکے میں کہ جب میں جیل سے نکلا تھا تو میری بھی لمبی داڑھی تھی اور میرا بھائی عمرہ کر کے آیا تھا اس کی بھی لمبی داڑھی تھی۔ دو حملہ آوار آئے اور انھوں نے چار چار گولیاں چلائی تھیں۔‘

سی اے اے کے خلاف ایک مظاہرے کی تصویر

ڈاکٹر کفیل نے شہریت کے متناز‏عہ مجوزہ قانون سی اے اے کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا تھا

علیگڑھ کی تقریر، تیسری گرفتاریاور قومی سلامتی کا مقدمہ

ڈاکٹر کفیل کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ ہر مسئلہ پر کھل کر بولتے ہیں۔ ایسا ہی انڈیا کی حکومت کے مجوزہ شہریت کے متنازعہ قانون سی اے اے سے متعلق ہونے والے مظاہروں کے دوران ہوا۔

حالانکہ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی اور اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو بلاوجہہ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

ڈاکٹر کفیل بتاتے ہیں ’جب میں جیل سے آیا تو لوگ مجھے مختلف اجلاس میں تقریر کے لیے بلانے لگے۔ سی اے اے اور این آر سی کے معاملے پر میں نے مختلف ریاستوں میں 100 سے زیادہ تقاریر کیں۔ ایسی ہی ایک تقریر میں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علموں کو خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔

اترپردیش کی پولیس نے اس تقریر کے تقریباً 45 دن بعد ڈاکٹر کفیل کو ممبئی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا اور ریاستی حکومت نے ان پر تقریر کے ذریعے دو مذاہب کے لوگوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا الزام عائد کیا۔

ڈاکٹر کفیل بتاتے ہیں: ’30 جنوری کو گاندھی جی کے یوم وفات کے موقع پر ان کے پوتے تشار گاندھی کے ساتھ میں کولابا میں ایک اجلاس میں شامل ہونے والا تھا۔ جبکہ 29 تاریخ کو اترپردیش کی سپیشل ٹاسک فورس نے مجھے ممبئی ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا۔‘

وہ کہتے ہیں قانون کے مطابق مجھے 24 گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جانا تھا لیکن انھوں نے مجھے 72 گھنٹے اپنے پاس رکھا۔ ممبئی سے علی گڑھ کے راستے میں انھوں نے مجھے مختلف مقامات پر رکھا اور میری پٹائی کی۔‘

انھوں نے سکیورٹی فورسز پر الزام عائد کیا کہ ’سادہ لباس والے سپیشل ٹاسک فورس کے مختلف افسر جو مجھ سے ملنے آتے تھے، وہ کہتے تھے کہ ہمارے پاس شواہد ہیں کہ تم حکومت کا تختہ پلٹنے کے لیے بیرون ملک گئے تھے۔‘

گرفتاری کے بعد ڈاکٹر کفیل کو متھرا جیل میں رکھا گیا۔

متھرا جیل میں کیا ہوا؟

ڈاکٹر کفیل بتاتے ہیں کہ ’متھرا جیل میں مجھے چار پانچ دنوں تک کھانا اور پانی نہیں دیا گیا۔ مجھے تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ بھوک کی وجہ سے پیٹ میں اتنا درد ہوتا تھا کہ جیسے انتڑیاں سوکھ گئی ہوں۔ میں بہت چلاتا تھا اور چلا چلا کر بے ہوش ہوجاتا تھا۔ میں بھوک مٹانے کے لیے اپنی شرٹ کو چوستا تھا۔‘

’پانچویں دن جیلر آئے اور مجھ سے کہا کہ میں بی آر ڈی واقعے اور متنازع شہریت کے قانون کے بارے میں بات کرنا بند کردوں تب مجھے کھانا ملے گا۔‘

بی بی سی نے اترپردیش کی حکومت کے دو اعلیٰ اہلکاروں سے ڈاکٹر کفیل کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات کے بارے میں پوچھا لیکن انھوں نے اس بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔

جبکہ بی بی سی نے ریاستی وزارت داخلہ سے بھی موقف لینے کے لیے رابطہ کیا لیکن اس کہانی کے شائع ہونے تک بی بی سی کو کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

علی گڑھ معاملے میں ضمانت لیکن پھر قومی سلامتی کا مقدمہ

اس معاملے میں 11 فروری کو ڈاکٹر کفیل کو ضمانت ملی گئی۔ ڈاکٹر کفیل جیل سے رہائی کے منتظر تھے کہ ان کو ایک انتہائی سخت قانون کے تحت جیل میں ہی گرفتار کر لیا گیا۔

ڈاکٹر کفیل بتاتے ہیں ’ضمانت کی اطلاع ملنے کے بعد ہر منٹ شدت سے یہ انتظار کر رہا تھا کہ کب جیل سے باہر جاؤں گا۔ میں نے اپنا صابن، ٹوتھ پیسٹ اور پرانے کپڑے دوسرے قیدیوں کو دے دیے تھے۔ جیل میں ہی 14 فروری کو یہ خبر آئی کہ مجھے نیشنل سکیورٹی ایکٹ یعنی این ایس اے کے تحت گرفتار کر لیا گیا ہے۔

نیشنل سکیورٹی ایکٹ شدت پسندی یا ملک کے ساتھ غداری کرنے والے ملزمان کے خلاف لگایا جاتا ہے۔

آلہ آباد ہائی کورٹ کیس سننے کو تیار نہیں

ڈاکٹر کفیل کے وکلا نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ این ایس اے کے مقدمے کو خارج کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ چونکہ معاملہ اترپردیش کا ہے تو پہلے آلہ باد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔

اس بارے میں ڈاکٹر کفیل بتاتے ہیں: ’ہائی کورٹ نے تاریخ پر تاریخ دینا شروع کر دی۔ ایک بنچ کہتا کہ ہم اس کیس کی سماعت نہیں کریں گے تو کبھی دوسرے جج کہتے کہ ابھی وقت نہیں ہے۔ کوئی بھی میرا کیس سننے کو تیار ہی نہیں تھا۔‘

’ہم نے پھر سے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سپریم کورٹ نے آلہ آباد ہائی کورٹ کو حکم دیا کہ پندرہ دن کے اندر اندر اس معاملے کی سماعت کر کے فیصلہ سنایا جائے۔‘

عدالت نے فیصلہ ڈاکٹر کفیل کے حق میں فیصلہ سنایا اور نیشنل سکیورٹی ایکٹ کے مقدمے کو غیر قانونی قرار دیا اور اس ایکٹ کے تحت ان کی قید میں تین ماہ کی جو توسیع کی گئی تھی اس کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔

عدالت نے علی گڑھ مجسٹریٹ، متھرا جیل سپرنٹینڈنٹ، اترپردیش کے وزیر داخلہ جو کہ خود وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں اور مرکزی وزیر داخلہ کو ان کی فورا رہائی کا حکم دیا۔

ڈاکٹر کفیل بتاتے ہیں: ’یہ ایک بہت اچھا فیصلہ تھا۔ 42 صفحات پر مشتمل آلہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا ہے کہ ڈاکٹر کفیل کی علی گڑھ کی جو تقریر تھی وہ قومی یکجہتی کے بارے میں تھی۔ ڈاکٹر کفیل نے ملک کو توڑنے والی نہیں بلکہ جوڑنے والی باتیں کہیں ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یکم ستمبر کی صبح دس بجے کے قریب آلہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا اور جس کے بعد بھی اترپردیش کی اتنظامیہ میری رہائی میں تاخیر کرتی رہی۔ گیارہ بج کر پچپن منٹ پر یعنی ڈیڈ لائن سے پانچ منٹ پہلے مجھے جیل سے رہا کیا گیا۔ وہ بھی تب جب میرے خاندان والوں نے کہا کہ وہ توہین عدالت کا کیس دائر کریں گے۔‘

ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل

ڈاکٹر کفیل کی رہائی کے تین ماہ بعد اترپردیش اور مرکزی حکومت نے مشترکہ طور پر سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ علی گڑھ معاملے میں آلہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جو فیصلہ سنایا گیا ہے اس کو مسترد کیا جائے۔

ڈاکٹر کفیل بتاتے ہیں: ’میں بہت خوش تھا۔ 17 دسمبر کو بھائی کی شادی تھی۔ چار سال بعد گھر میں ایک اچھا ماحول تھا۔ یہ شادی ساڑھے تین سال سے اس لیے نہیں ہو رہی تھی کہ وہ میرا بھائی ہے، لوگ پیار تو بہت دیتے ہیں لیکن اپنی بیٹی ہمارے گھر میں نہیں دینا چاہتے ہیں۔

’شادی 17 دسمبر کو تھی۔ پہلے مقدمے کی تاریخ 13 دسمبر تھی لیکن اسے بدل کر خاص شادی والے دن کر دی گئی۔ میں بہت مایوس ہوا، میں نے والدہ کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ میں اپنے بچوں اور بیوی کو گلے لگا کر، امی جان کو خدا حافظ کہہ کر سپریم کورٹ گیا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ شاید واپس نہ آؤں۔ شادی والے گھر میں مایوسی چھا گئی۔‘

’عدالت میں میرا کیس 20ویں نمبر پر لسٹ ہوا تھا۔ جب میرے کیس کا نمبر آیا تو چیف جسٹس صاحب نے مجھے دیکھا اور کہا ’ تم یہاں کیوں آئے ہو؟ ہائی کورٹ کا بہت اچھا فیصلہ ہے۔ ہم اس میں مداخلت نہیں کریں گے۔ گھر جاؤ۔‘

تین برسوں میں بہت کچھ کھویا، بہت کچھ پایا

ڈاکٹر کفیل فی الوقت اپنے دو چھوٹے بچوں، اہلیہ اور والدہ کے ساتھ دلی اور جے پور میں رہتے ہیں۔

ڈاکٹر کفیل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اترپردیش کی حکومت نے انھیں اس لیے نشانہ بنایا کیونکہ وہ مسلمان ہیں اور حکومت سے سوال پوچھتے ہیں۔ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ سیاست میں قدم رکھنا چاہتے ہیں اور کانگریس پارٹی کے قریبی ہیں۔

لیکن ڈاکٹر کفیل کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ تین برسوں میں ملازمت کھوئی، کئی بار جیل گئے اور جیل میں بے حد مشکل وقت گزارا ’لیکن ہمیشہ اللہ سے یہ امید رکھی کہ یہ ان کا ایک امتحان ہے اور اللہ جو آزمائش لے رہا ہے اس میں کوئی مصلحت ہے۔‘

ڈاکٹر کفیل کہتے ہیں کہ ’اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مجھے سب سے بڑا غم کیا دیا ہے، تو میں کہوں گا کہ انھوں نے میری ضعیف والدہ کو اس عمر میں عدالتوں کے چکر لگوائے، انھیں اپنے آبائی گھر سے در بدر ہونے پر مجبور کیا اور میں نے اپنے دونوں بچوں کے اہم ابتدائی سال ان کے ساتھ نہیں گزارے۔ میں ایک سادہ سا ڈاکٹر تھا، جسے گورکھپور میں بھی بہت کم لوگ جانتے تھے۔ میں صرف اپنا کام کرنا چاہتا تھا اور بچوں کو علاج کرنا چاہتا تھا۔ مجھے کچھ اور نہیں چاہیے تھا۔ ان تین برسوں میں میرا ہنستا کھیلتا خاندان بے گھر ہو گیا۔‘

’میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ جب مجھ جیسے پڑھے لکھے اور قدرے امیر گھر سے تعلق رکھنے والے کے ساتھ یہ برتا‎ؤ کیا جاسکتا ہے تو ایک غیر تعلیم یافتہ اور غریب گھر کے لڑکے ساتھ کیا ہوتا ہو گا جس کے پاس نہ عوام کی حمایت ہے اور نہ وکیلوں کو دینے کی فیس۔‘

ڈاکٹر کفیل کا کہنا ہے کہ ’میں تو جیل میں تھا اور مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ اتنے سارے لوگوں نے پوری دنیا میں میرے لیے مہم چلائی اور دعائیں کی۔ میں شاید اس پیار اور عزت کا حقدار نہیں تھا لیکن مجھے بے پناہ محبت ملی جس کا میں شکرگزار ہوں۔‘

ڈاکٹر کفیل خان کی اہلیہ

ڈاکٹر کفیل کی اہلیہ گورکھپور میں ڈاکٹر تھیں لیکن اب وہ پریکٹس نہیں کرپارہی ہیں

ڈاکٹر کفیل خان کا کہنا ہے کہ ’میں واپس اترپردیش جا کر اپنے آبائی گھر میں رہنا چاہتا ہوں، بی آر ڈی کالج میں واپس ملازمت کرنا چاہتا ہوں۔ میں اترپردیش کی حکومت کو دسیوں خط لکھ چکا ہوں کہ میری ملازمت بحال کر دیں، لیکن وہ مجھے نہ ملازمت سے نکالتے ہیں اور نہ رکھتے ہیں۔ مجھے دیگر ریاستوں سے ملازمت کی پیش کش ہوئی ہے لیکن اترپردیش کی حکومت یہ کہہ دیتی ہے کہ میں گورنمنٹ کا ملازم ہوں اور فی الحال معطل ہوں۔‘

ڈاکٹر کفیل کا کہنا ہے کہ ’مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ امریکہ یا برطانیہ چلے جاؤ۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ انڈیا میری سرزمین ہے اور اپنی سرزمین کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات میں ملتی ہے کہ والدین ایک بیمار بچے کو میرے پاس لائیں، میں بچے کا پیار سے علاج کروں اور وہ بچہ مسکراتا ہوا اپنے والدین کے ساتھ گھر جائے۔ مجھے بس اپنی ملازمت چاہیے۔ اور کچھ بھی نہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp