عورت مارچ پر دو انتہاپسند گروہوں کی چپقلش


گزشتہ چند برسوں کی طرح اس بار بھی عورت مارچ کے موقع پر دو روایتی حریفوں کے درمیان گھمسان کا رن دیکھنے میں آیا۔ یہاں دو حریفوں سے مراد مرد و زن نہیں بلکہ شدت پسندانہ سوچ رکھنے والے وہ دو گروہ ہیں جن کے مطابق دنیا کی بقاء کا دار و مدار عورت مارچ کی کامیابی یا ناکامی پر ہے۔

پہلا گروہ تو اس شدت پسندانہ سوچ کے حامل افراد پر مشتمل ہے جن کا دین عورت مارچ کے انعقاد سے ہی خطرے میں آ جاتا ہے۔ ان کے مطابق اپنے حقوق کے لئے باہر نکلنے اور آواز اٹھانے والی تمام خواتین کا بنیادی مقصد معاشرے میں بے حیائی پھیلانا ہوتا ہے۔ اس گروہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسلام عورت کو مکمل تحفظ اور آزادی فراہم کرتا ہے ، ایسے میں آواز اٹھانے والی خواتین کے مطالبات کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

ایسے تمام افراد سے بصد احترم چند سوالات کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام نے عورت کو بہت سے حقوق عطا کیے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں لڑکی پیدا ہونے پر اسے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، اسلام نے آج سے 1400 برس قبل اس معاشرے میں عورت کو حق وراثت دیا، کیا آپ کا آج کا معاشرہ ہر عورت کو یہ حق دیتا ہے؟ اور اگر کوئی حق وراثت کے لئے قانونی راستہ اپنا لے تو پھر اس سے قطع تعلقی اختیار کر لی جاتی ہے۔

اسلام نے آج سے 1400 سال قبل ہر اہل ایمان کو بنا کسی صنفی امتیاز کے تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کی، کیا آپ کا آج کا معاشرہ (خاص طور پر دیہی اور پسماندہ علاقہ) مرد و عورت کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے برابری کے مواقع فراہم کرتا ہے؟

اسلام نے آج سے 1400 قبل عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کرنے اختیار دیا، حضرت علی کرم اللہ وجہ جیسی ہستی کی طرف سے رشتہ کا پیغام آنے کے باوجود آقائے دو جہاں ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا فیصلہ جاننا ضروری خیال کیا۔کیا آپ کا آج کا معاشرہ عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کا اختیار دیتا ہے؟

اپنی مرضی سے نکاح کا اختیار دینا تو دور کی بات، یہاں تو عورت کی مرضی دریافت کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور ایسے میں اگر کوئی انتہائی قدم اٹھا کر اپنی مرضی سے نکاح کر لے تو غیرت کے نام پر قتل اس کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ عورت کسی غیر اخلاقی حرکت کی مرتکب ہو جائے تو خاندان کی عزت پر لگا دھبہ اس کے خون سے دھو کر صاف کیا جاتا ہے، اسی غیر اخلاقی حرکت کا مرتکب مرد ”غلطیاں مردوں سے ہے ہوتی ہیں“ کے قانون کے تحت باعزت بری قرار دے دیا جاتا ہے۔

عورت کے گھر سے باہر یا کام کے ماحول میں ہراسانی کا شکار ہونے پر اس کے لباس کی بے پردگی کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس وقت آپ کا معاشرہ یہ بھول جاتا ہے کہ اسلام جہاں عورت کو پردہ کا حکم دیتا وہیں بالکل اسی لمحہ وہ مرد کو اپنی نگاہیں جھکانے کا حکم بھی صادر کرتا ہے۔ اگر عورت پردہ دار نہیں آپ کی آنکھوں کی حیا کہاں چلی جاتی ہے؟ آپ کا دین آپ کو عورت کی عزت کرنے اور عورت کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہے اور آپ ہر معاملے میں اسی کو قصوروار قرار دے کر اس کی کردارکشی میں جٹ جاتے ہیں۔

اس طرح کے معاملات کی ایک لمبی فہرست ہے جہاں اسلام تو عورت کو آزادانہ فیصلے کرنے کے اختیارات اور بہت سے حقوق دیتا ہے مگرحضور آپ کا معاشرہ عورت کو ان حقوق کے ساتھ جینے کی آزادی نہیں دیتا۔ اس لیے اگر آپ کو عورت کے باہر نکل کر اپنے حقوق مانگنے پر اعتراض ہے تو مرد و عورت کے لئے دوہرا معیار ترک کریں اور اپنے معاشرے میں عورت کو وہ حقوق اور آزادی دیں جو دین انہیں دیتا ہے تاکہ نہ ان کو اپنے حقوق کے لئے باہر نکل کر آواز اٹھانی پڑے اور نہ ان کے پاس اس کا کوئی جواز باقی رہے۔ اور اگر آپ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو عورت مارچ جیسی تحاریک آتی رہیں گی اور آپ کے پاس ان پر تنقید کرنے کا کم از کم اخلاقی حق تو نہیں ہو گا۔

اب آتا ہے اس شدت پسندانہ سوچ کی جنگ کا دوسرا گروہ۔ جس طرح پہلے گروہ کا دین ہر وقت خطرے میں رہتا ہے ، اسی طرح اس دوسرے گروہ کے نزدیک دنیا کی ہر خرابی کے پیچھے مرد ہے اور ان کے تمام دلائل میں مرد ایک ایسا ظالم کردار ہے جس سے ہر رشتے میں آزادی حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ یہ گروہ حقوق کی تعریف ہر طرح کی خاندانی، مذہبی اور معاشرتی بندشوں سے آزادی کے طور پر کرتا ہے۔ ان کا تعلق عموماً معاشی طور پر قدرے مستحکم اور پڑھے لکھے طبقہ سے ہوتا ہے۔ یہ گروہ مغرب سے کافی متأثر ہے اور روشن خیالی کو مغرب کی تقلید سے تعبیر کرتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والی عام عورت کو زندگی میں کن مسائل کا سامنا ہے انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کے اپنے الگ ہی مسائل ہیں جنہیں یہ عورت مارچ میں شامل ہو کر حقوق نسواں کے ساتھ نتھی کرنے کی جستجو میں لگے ہیں۔

اس گروہ کی خدمت میں بھی چند ایک گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

حضور آپ کی روشن خیالی سر آنکھوں پر مگر کم از کم مغرب کی اندھی تقلید میں اپنی سوچ کو محدود تو مت کیجیے۔ آپ نے عورت مارچ میں حقوق نسواں جیسی وسیع المعنی تحریک کے مقابلے میں مغرب میں اسقاط حمل کے حق میں چلنے والی ایک ثانوی تحریک ”میرا جسم، میری مرضی“ کے بیانیے کو لا کھڑا کیا۔ آپ اس بیانیہ پر تنقید کرنے والوں کو تنگ نظر کہیں یا فرسودہ مردانہ سوچ کہیں مگر آپ کا یہ بیانیہ حقوق نسواں کی نمائندگی نہیں کرتا۔

تعلیم، عزت، وراثت، قابلیت کی بنیاد پر مواقع، زندگی کے اہم فیصلے خود کرنے جیسے حقوق کا تعلق ذات سے ہوتا ہے نہ کہ جسم سے۔ اس بیانیے کی تکرار اور اس پر اصرار دوسرے گروہ کو زچ کرنے کے لئے ایک بچگانہ ضد سے زیادہ کچھ نہیں۔ لہٰذا ان باتوں پر دھیان دیں اور دوسروں کی توجہ مبذول کروائیں جو حقیقتاً اس معاشرہ میں عورت کی زندگی میں بہتری لا سکیں۔ آپ کے عورت مارچ میں لائے گئے ایک ذومعنی، نفرت آمیز یا مذہبی و معاشرتی تضحیک پر مبنی پلے کارڈ کا الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر شہرہ، بیسیوں حقیقی مسائل کو اجاگر کرتے پلے کارڈز کو تاریکی میں دھکیل دیتا ہے۔

حضور اگر آپ کو لگتا ہے کہ مذہب آپ کی آزادی پر قدغن لگاتا ہے تو مذہب کے اصول اسی پر لاگو ہوتے ہیں جو اسے تسلیم کرتا ہو لہٰذا آپ مذہبی بندشوں سے آزاد رہنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ لٹھ لے کر اصلاح کے نام پر آپ کے پیچھے پڑ جائے۔ یہ خالصتاً آپ کا اور آپ کے خدا کا معاملہ ہے۔ مگر حضور مرد اور عورت دونوں کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہیں۔ ان کا ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے سے ہی جڑا ہے۔

جہاں حقوق آتے ہیں وہاں ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ ایک لکیر کھینچ کر مرد ادھر اور عورتیں ادھر جیسا کوئی حل قابل عمل نہیں۔ میں بحیثیت مرد اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کے ماضی میں عورت کو بہت سے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے مگر نہ میں اس ماضی کا ذمہ دار ہوں اور نہ ہی اس کے لئے کسی کو جوابدہ ہوں۔ میں حال کا ذمہ دار ہوں اور اس بات کا خواہش مند ہوں کہ میرے معاشرے کی عورت کا مستقبل، ماضی سے بہتر ہو مگر میں عورت مارچ یا کسی بھی اور فورم پر کسی بھی حیثیت میں مرد کی بحیثیت مجموعی تذلیل برداشت کرنے کا روادار نہیں ہوں۔ اپنے دلائل میں، اپنی گفتار میں، اپنے لائف سٹائل میں تھوڑی میانہ روی پیدا کریں۔ کوئی ایک صنف اپنے طور میں معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی۔ لہٰذا گزارش ہے کہ عورت مارچ کو صنفی نفرت یا مادر پدر آزادی کی تحریک بنانے کی جستجو نہ کریں اور حقوق نسواں کی تحریک ہی رہنے دیں۔

آخر میں وہ تمام خواتین و حضرات، جن کا ان دونوں گروہوں سے کوئی تعلق نہیں، سے التجا ہے کہ آپ وہ طبقہ ہیں جو حقیقتاً معاشرے میں بہتری لا سکتے ہیں کیونکہ مندرجہ بالا دونوں گروہ صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی لفظی جنگ جیتنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ لہٰذا خاموشی مت اختیار کریں، آگے بڑھیں، زندگی کو معاشرتی و خاندانی سطح پر ایک دوسرے کے لئے محفوظ اور خوشگوار بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہماری آج کی گئی کوشش سے حقوق کی آزادی اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ توازن پر قائم ہونے والا معاشرہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ہماری طرف سے سب سے بہترین تحفہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments