گورے مینیجر اور خاتون سفیر کا دکھ



پاکستان سے باہر غیر ممالک میں رہتے ہوئے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے اور روز نئے تجربات سے گزرتا ہے۔ مشہور امریکی گارمنٹس برانڈ کی کمپنی میں کام کرتے ہوئے کسی کام کے سلسلے میں چیف منیجر کے آفس میں جانے کا اتفاق ہوا۔ دوپہر کا وقت اور منیجر کا دروازہ بند پایا، ہلکی سی دستک دے کر کمرے میں داخل ہوا تو باس افسر لنچ کرنے میں مصروف تھے اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کمرے میں سامنے ایک بڑی سکرین پر نیوز بلیٹن چل رہا تھا۔

میں نے اپنی نظریں وہاں مرکوز کر لیں۔ کھانے کے دوران وہاں بیٹھنا مجھے کچھ معیوب سا لگا، لیکن مینیجر کے کہنے پر میں وہیں رک گیا۔ تھوڑی دیر بعد ٹی وی سکرین پر بھوک، بیماری اور قحط سے لاچار لوگوں کی فوٹیج کے ساتھ ایک خبر چلی جس میں یو این او کے نمائندوں کی نگرانی میں قطار میں لگے حالات سے مجبور و مقہور لوگوں کو خوراک فراہم کی جا رہی تھی۔ یہ واقعی ایک تکلیف دہ خبر تھی اور دیکھنے والوں کے لیے کسی حد تک لمحہ فکریہ بھی۔

امریکی افسر نے فوراً اًپنے چہرے پر ناخوشگواری اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریموٹ اٹھایا اور ٹی وی بند کر دیا۔ وہ کھانا جو شاید ابھی اس نے اچھی طرح کھایا بھی نہ تھا۔ پاس پڑے لفافے میں بند کر کے کوڑے دان میں پھینک دیا اور ایک بڑا ٹشو پیپر لے کر میز کی صفائی شروع کر دی۔

جونہی وہ اس عمل سے فارغ ہوئے تو مجھے کافی مضطرب دکھائی دیے اور گویا ہوئے کہ میں اکثر کھانا کھاتے وقت کوئی سپورٹس چینل لگا لیتا ہوں اور خبروں سے متعلقہ چینل دیکھنے سے پرہیز کرتا ہوں کیوں کہ اگر کوئی ایسی دکھ بھری خبر ٹی وی سکرین پر نمایاں ہو جائے تو مجھے ذہنی کوفت سے گزرنا پڑتا ہے اور کھانا کھاتے ہوئے مجھے خود پر غصہ اور اپنے رویے پر ندامت ہوتی ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں پھیلے ہوئے افلاس کے ہوتے ہوئے میں کیسے اپنے کھانے کا جواز پیش کر سکتا ہوں۔ کاش! میں ایسے بے بس انسانوں کے لئے کچھ کر سکتا۔

میں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور دنیا میں ہونے والی سیاسی و معاشی نا انصافیوں پر ہلکی سی گفتگو ہوئی۔ بعد میں میرے کام سے متعلقہ کسی معاملے پر بات ہوئی اور میں کمرے سے باہر آ گیا۔ میں اپنے کام پر تو واپس آ گیا لیکن اس گورے افسر کا دوسروں کے بارے میں سوچنے کا انداز اور تشویش میرے دل و دماغ میں بہت سے سلگتے سوالات چھوڑ گئی۔

پاکستان میں رہتے ہوئے تھوڑا بہت لکھنے لکھانے کے ساتھ وکالت کے پیشے سے منسلک رہا ہوں اور ضیاءالحق کی فوجی آمریت کے دنوں سے سیاست کو بہت قریب سے دیکھتا رہا ہوں اور ہمیشہ سے غریب اور مجبور لوگوں اور شہری حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد اور اداروں کے ساتھ مل کر نامساعد حالات میں بھی بھلائی اور سچائی کے علم کو بلند رکھنے کی کوششوں کی حمایت کی۔

پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات اور معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے بڑھتی ہوئی طبقاتی تقسیم کو دیکھ کے دل دکھتا ہے کہ فوراً واپس پلٹ جاؤں اور جدید سائنسی تعلیم کی ترقی و ترویج میں حصہ لوں کیونکہ پڑھائی لکھائی سے بڑھ کر پاکستان کی اور کوئی خدمت نہیں ہو سکتی۔ اسی سے ایک مثبت سوچ و فکر پیدا کر کے معاشرتی بدلاؤ لایا جا سکتا ہے۔ ورنہ تو سارے معاشی اشاریے زیادہ حوصلہ افزا دکھائی نہیں دیتے۔ پاکستان کے سرمایہ اور وسائل رکھنے والے طبقوں نے محض اپنے کاروباری منافع کو بڑھانے کے لیے غریب اور مجبور طبقوں کا بہت استحصال کیا ہے۔ جائز طریقوں سے پیسے بنانا کوئی بری چیز نہیں۔ لیکن دھن اور دولت کی یہ عمارات نچلے اور پیداواری عمل کے اصل حصے دار طبقوں کی میراث پر کھڑی نہیں کی جا سکتیں۔

انیس سو ستر کے دنوں میں جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں صرف 22 امیر خاندانوں کی بات کرتے تھے۔ آج ایسے 22 ہزار خاندان اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ چند خاندانوں کی لوٹ مار نے پاکستان کو طبقوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں کیسے معیشت کی بحالی کا کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی قرضے لینے کے لیے اسلام آباد کے پارکوں کو گروی رکھنے کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔

اس سے پہلے ہائی ویز، ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنوں کی عمارتوں کو گروی رکھ کر قرضے لے کر لے کر مصنوعی ترقی کی ترکیبیں بنائی جاتی رہی ہیں۔ ہر دفعہ گرے لسٹ سے نکلنے کی امیدیں نا امیدی پر جا کر ختم ہو جاتی ہیں۔ آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو کسی کارآمد منصوبے کا حصہ نہیں بنایا جا رہا ۔ قانون کی حکمرانی اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک معاشرے میں مکمل انصاف بغیر کسی تفریق کے فراہم کرنے کے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ہیں۔

پاکستان میں بڑھتے ہوئے طبقاتی فاصلے اور تضادات کی یہ جنگ اگر یوں ہی جاری رہتی ہے تو اس سے ترقی کا عمل جمود کا شکار ہو کر مزید بھیانک شکل اختیار کر سکتا ہے۔ چند سال پہلے اسلام آباد میں غربت کے خاتمے اور لبرل اکنامکس پر ہونے والی ایک کانفرنس میں شمالی یورپ کے ایک فلاحی ملک کی ایک سفیر نے راقم سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے ممالک میں تو عوام کے درمیان پائی جانے والی ایسی تفریق کا تصور بھی جرم کے زمرے میں شمار ہوتا ہے جو وہ پاکستان میں دیکھ رہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب میں اسلام آباد کی سڑکوں پر نکلتی ہوں اور ٹریفک اشاروں پر کھڑی بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھی اشرافیہ پر نظر دوڑاتی ہوں جن کی کاروں کے شیشے صاف کرتے معذور لوگ اپنی زرد آنکھوں اور مایوس چہروں سے چند سکوں کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور آپ کے طاقتور لوگ انتہائی رعونت سے کاروں کے شیشے نیچے کیے بغیر آگے چل دیتے ہیں اور ذرا نہیں سوچتے کہ محروم طبقات کے افراد بھی آخر اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔

دوسری طرف ان بھوکے ننگے اور افلاس کے مارے لوگوں کو دیکھ کر اکثر سوچتی ہوں کہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور زیادتیوں کو وہ کیسے برداشت کر رہے ہیں اور کیوں ایسے نظام کو الٹ پلٹ نہیں دیتے جو ان کی رسوائی اور محرومی کا ذمہ دار ہے۔

پاکستان میں رہ کر اس کے وسائل کو لوٹ کر مال بنانے والی اشرافیہ اور حکمران طبقوں کو اب سوچنا ہو گا کہ پاکستان میں بسنے والے حالات کے مارے بھوکے انسانوں کو محض حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ان کے لیے شیلٹر ہوم یا مختلف شہروں کے چوکوں میں لنگر خانے کھولنے سے مسائل کم نہیں ہوں گے بلکہ ان کی رہائش، تعلیم اور روزگار کا مناسب بندوبست ان کے دلوں میں ریاستی محبت پیدا کر سکتا ہے۔ ورنہ افلاس زدہ انسانوں کی آئے روز کی خودکشیاں اور ڈاکے مار کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والوں کی اخبارات میں چھپنے والی شہ سرخیاں حکمران طبقوں کا منہ چڑاتی رہیں گی اور ان کی آوازوں کو طاقت کے زور پر بہت زیادہ دیر تک دبایا نہیں جا سکے گا۔

پیروں، فقیروں کو ماننے والی برقع پوش خاتون اول ضرور داتا صاحب اور دیگر درگاہوں کا دورہ کر کے وہاں تیار ہونے والے لنگر کے معیار کو چیک کریں لیکن ملکی اور عالمی اداروں کی چھپنے والی اقتصادی جائزہ رپورٹوں کا بھی مطالعہ کریں کہ ہر سال کیوں لنگر کی یہ قطاریں مزید لمبی ہوتی جا رہی ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments