زرداری جمہوری جنگ لڑنے والا ہیرو یا سیاسی ولن؟


پاکستان کے موجودہ سیاست دانوں میں شاید آصف علی زرداری سب سے متنازع سیاست دان ہے۔ ان کے بارے میں دو بالکل متضاد آراء پائی جاتی ہیں ۔ بیک وقت ان کو سیاست اور مفاہمت کے بادشاہ، ایک زرداری سب پہ بھاری اور ملک کا ایک کرپٹ سیاست دان سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مخالفین کی رائے میں آصف زرداری بڑا کرپٹ سیاست دان ہے جبکہ ان کے چاہنے اور سمجھنے والوں کی رائے میں آصف زرداری ملک کے سیاست کا سب سے بڑے سیاسی گرو اور ایک اصول پسند سیاست دان ہیں۔

آصف زرداری کے بارے میں اکثریتی رائے یہ ہے کہ وہ ایک کرپٹ سیاست دان ہیں۔ ان کے مخالفین کا الزام ہے کہ انہوں نے سرکاری وسائل سے اندرون و بیرون ملک اربوں روپے کی جائیداد بنائی ہے۔ مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ ان کا تعلق سندھ کے ایک متوسط قبائلی گھرانے سے ہے جو کہ سیاست میں آنے سے پہلے کراچی میں بمبینو کے نام سے ایک سنیما چلاتا تھا اور آصف زرداری اس سنیما کے ٹکٹ بلیک کرتا تھا، اسی سے ان کا گھر چلتا تھا۔ پھر جب انہوں نے بینظیر بھٹو سے شادی کی ، بینظیر بھٹو چونکہ دو دفعہ پاکستان کی وزیراعظم رہیں، اسی دوران آصف زرداری نے سرکاری خزانے کو بے انتہا نقصان پہنچایا اور اربوں روپے کی جائیدادیں بنائیں۔

آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات نئے نہیں ہے بلکہ عرصہ دراز سے مخالفین ان کو کرپٹ سیاستدان ثابت کرنے کی بار بار کوششیں کر چکے ہیں۔ 11 سال جیل میں گزارنے کے باوجود ان پر یہ الزامات ثابت نہیں ہو سکے اور ہر بار عدالتوں سے باعزت بری ہوئے۔ بینظیر بھٹو کے پہلی دور حکومت میں ان پر ترقیاتی منصوبوں میں کمیشن مانگنے کا الزام لگا حالانکہ یہ سیاسی خانوادہ خود کرپشن میں ملوث نہیں تھے مگر پیپلز پارٹی کے کچھ وزراء ان کے نام پر پر رشوت اور بدعنوانی میں ملوث تھے۔

کسی سیانے نے ان پر ڈالرز سے بھرے دو جہاز یورپ منتقل کرنے کا الزام بھی لگایا جو کہ اب تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔ ان پر ایک اور بھونڈا الزام لگا کہ جوانی میں انہوں نے سندھ بینک کے منیجر کے پاؤں سے بم باندھ کر بینک لوٹنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان پر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا الزام بھی لگایا گیا جس کا سب سے بڑا نقصان خود بینظیر بھٹو اور ان کی حکومت کو ہوا۔ صدر زرداری پر اکثر الزامات میاں نواز شریف کے دور حکومت میں لگائے گئے۔

میاں نواز شریف چونکہ خود جنرل جیلانی اور ضیاءالحق کے نرسری میں پلے بڑھے تھے اسی لیے انہوں نے سیاست دانوں اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ انہوں نے 1997 میں سیف الرحمان کی سربراہی میں احتساب کمیشن قائم کیا تھا جس کے ذریعے انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو گھیرنے ، انہیں عوام میں بدنام کرنے اور ان کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے یہ نام نہاد احتسابی ادارہ قائم کیا تھا۔

یہاں سوال اٹھتا ہے اگر آصف زرداری کرپشن میں ملوث نہیں رہے ہیں تو پھر ان کی کردار کشی کیوں کی جاتی رہی ہے؟ آصف زرداری کا سب سے بڑا گناہ محترمہ بینظیر بھٹو سے شادی کرنا اور پھر پیپلزپارٹی کے نظریے کے مطابق عوام کی لڑائی لڑنا ہے۔ اسٹبلشمنٹ چونکہ بھٹو کی بیٹی کو سیاسی طور پر مارنا چاہتی تھی مگر زرداری نے مشکل وقت میں محترمہ کا ساتھ دیا جو کہ اسٹبلشمنٹ کو ناگوار گزرا اور تب سے وہ اپنے کارندوں کے ذریعے سے زرداری کی کردارکشی میں لگی ہوئی ہے۔ او زرداری کو ایک ولن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان الزامات کا حقیقی جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ بیشتر صرف الزامات ہی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ آصف زرداری کا تعلق ایک زمیندار قبائلی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد حاکم علی زرداری نواب شاہ کے زرداری قبیلے کے سردار اور بہت بڑی زرعی زمین کے مالک تھے۔ ان کے خاندان کا شمار ایوب دور کے بڑے سرمایہ دار خاندانوں میں ہوتا تھا۔

سیاست دانوں کے شدید ترین مخالف صحافی حسن نثار نے اپنے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کا سب سے مظلوم ترین سیاست دان آصف زرداری ہیں۔ انہوں نے کہا تھا جس طرح میڈیا اور مخالفین نے آصف زرداری کی کردار کشی کی، وہ سراسر زیادتی پر مبنی ہے۔ حالانکہ آصف زرداری ایک امیر قبائلی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ان کا بمبینو چیمبر کراچی کی اولین سات منزلہ عمارتوں میں سے ایک تھا جس کی تصدیق آصف زرداری نے سہیل وڑائچ کے ساتھ انٹرویو میں کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ بمبینو چیمبر کی تعمیر 1957 میں شروع ہوئی تھی اور 1963 میں مکمل ہوئی تھی۔

رہی سیف الرحمان المعروف احتساب الرحمان کے بے بنیاد الزامات کی حقیقت جس کی وجہ سے آصف زرداری نے 11 سال جیل کاٹی ، یہ مکمل سیاسی انتقام پر مبنی تھے۔ سیف الرحمان نے خود ان الزامات پر شرمندگی ظاہر کی اور ان کو سیاسی انتقام قرار دیا اور انہیں حامد میر کی موجودگی میں صدرزرداری کے قدموں میں گر کر اپنی زیادتیوں پر معافی مانگنا پڑی۔ زرداری نے اسے معاف کر کے اعلیٰ ظرفی کی مثال قائم کی۔

نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں بھی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کسی کے کہنے آصف زرداری پر اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے الزامات لگا کر ان پر اور ان کے قریبی ساتھیوں پر کئی کیسز درج کروائے۔ نیب نے اربوں روپے منی لانڈرنگ کے الزام لگا کر زرداری صاحب پر ڈیڑھ کروڑ روپے کا ریفرنس درج کیا جو کہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا۔

سیاست دانوں بالخصوص پیپلز پارٹی کی قیادت کو بدنام کرنے میں میڈیا نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کا میڈیا ابھی تک آزاد نہیں ہوا ہے۔  پاکستانی میڈیا ہمشہ جمہوریت مخالف قوتوں کے زیر اثر رہا ہے اور سیاست دانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔

چونکہ آصف زرداری کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور پیپلز پارٹی شروع سے عوامی بالادستی اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کے لیے زبردست کردار ادا کرتی رہی ہے ، اسی لیے جمہوریت مخالف قوتیں میڈیا کو اس کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتی رہی ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کو چونکہ اٹھارہویں ترمیم اور سویلین بالادستی سے مسئلہ ہے اور آئین کے دفاع میں سب سے کلیدی کردار آصف زرداری کا ہی ہے، اس لیے ہمیشہ میڈیا کے ذریعے ان کی کردار کشی کروائی جاتی ہے۔

جو چیز آصف زرداری کو دوسرے سیاست دانوں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے ان کی سیاسی سوچ اور مفاہمت کی پالیسی۔ آصف زرداری انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ۔ وہ مکالمے اور سیاسی حکمت سے ملکی مسائل حل کرنا چاہتے ہیں ، وہ ہمیشہ سے اپنے مخالفین کے ساتھ مفاہمت کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ صدر زرداری جمہوریت ہی کو بہترین انتقام تصور کرتے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں صورتوں میں وہ اپنے شدید ترین مخالفین کو اپنے ساتھ ملانے میں مہارت رکھتے ہیں۔

انہوں نے اپنی حکومت میں پیپلز پارٹی کی شدید مخالف جماعت ق لیگ کو اپنے ساتھ ملایااور انتقامی سیاست کو دفن کیا، سیاسی قیدیوں کو آزاد کیا، سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اٹھارہویں ترمیم منظور کرائی، اسٹبلشمنٹ کو مکالمے کے ذریعے جمہوری حکومت کو سپورٹ کرنے پر آمادہ کیا۔ جس کی بدولت پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔ پھر نواز حکومت کو باوجود کئی تحفظات کے پانچ سال پورے کرنے دیے اور اب بھی پارلیمان اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔

وہ عمران خان کو جمہوری طریقے اور پارلیمان کے اندر شکست دینا چاہتے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کے کئی مہینوں کی احتجاجی تحریک سے عمران حکومت اتنی کمزور نہیں ہوئی جتنی صدر زرداری کے ایک سیاسی جادو سے لڑکھڑا گئی۔ انہوں نے سیاسی حکمت سے باوجود عددی برتری کے حکومت کو اسمبلی میں شکست دے کر یوسف رضا گیلانی کو سنیٹر منتخب کرایا اور خود کو سب پہ بھاری ثابت کیا اور عمران خان باوجود سرکاری و ریاستی وسائل اور حمایت زرداری کے ہاتھوں کلین بولڈ ہو گئے۔

آصف زرداری کی موجودہ حکمت عملی کی وجہ سے ان پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ گویا وہ اسٹبلشمنٹ کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان سے مل کر کوئی ساز باز کر رہے ہیں۔ مگر صدر زرداری کا ماننا ہے کہ پاکستان میں اس وقت جمہوریت اور جمہوری ادارے بہت کمزور ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی سے مزید کمزور ہو جائیں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جارحانہ سیاست سے ایک تو ملک کو نقصان ہوتا ہے دوسرا جمہوریت کے خلاف ان کی سازشیں مزید تیز ہو جائیں گی۔

وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی حکمت عملی سے جمہوریت کو مضبوط کیا جاسکتا ہے ، اس سلسلے میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی سے نقصان جمہوریت کا ہی ہوتا ہے۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ میں انہیں ایجوکیٹ کرنا چاہتا ہوں۔ ان کو مکالمے کے ذریعے سیاست سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ بجائے محاذ آرائی کے اسٹبلشمنٹ سے مکالمہ کیا جائے تاکہ جمہوریت اور ملک دونوں کو سیاسی اور معاشی نقصان سے بچایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments