برف کی چادروں میں سانپ


مجھے احساس تھا کہ برف گر رہی ہے۔ میرا وجود شل ہے۔ پاؤں نے چلنا بند کر دیا ہے۔ دھند کی ایک چادر ہے اور مجھے دور تک کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہ میرا واہمہ ہو سکتا ہے کہ وہ چلتی ہوئی میرے قریب آئی اور اس نے پوچھا، تم خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہو؟

ہاں۔
سیاہ و سپید میں تمہیں زیادہ کون پسند ہے؟
پتہ نہیں
اس نے پھر پوچھا کیا خدا ہے؟ کیا خدا ہماری بھیڑوں کی رکھوالی کرتا ہے؟
ہاں۔
وہ ہنسی۔ کچھ ریشمی کھالیں ہیں دھند میں۔ بھیڑ غائب۔ ایک دن سب غائب ہو جاتے ہیں۔

یہ سنیتا تھی۔ اب میں دھند کی چادروں کے پار دیکھ سکتا تھا۔ لیکن سنیتا کا سوال کہ کیا خدا ہماری بھیڑوں کی رکھوالی کرتا ہے؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ کیا ہم بارود پر چل سکتے ہیں؟ تیزاب سے غسل کر سکتے ہیں؟ کیا سڑکیں ڈائنامائٹ سے اڑنے والی ہیں؟

مجھے سنیتا کا چہرہ یاد آ رہا تھا۔ گول چہرہ، گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند اس کے ہونٹ۔ اس دن بھی ایسا احساس ہوا جیسے وہ خوابوں کا سمندر پار کر کے آ رہی ہو۔

تم نے زندگی دیکھی ہے؟
نہیں۔
ہاں، تم اس طرح زندگی کو دیکھ بھی نہیں سکتے۔ زندگی گرم ریت ہے اور یہاں کچھوے رہتے ہیں۔
کیا تم سیاست کی بات کر رہی ہو؟
نہیں، وہ ہنسی۔ کچھ مرد تمہاری طرح ذلیل ہوتے ہیں۔ آگے نہیں بڑھتے، اس لئے راستے میں سانپ آ جاتے ہیں۔

سورج ڈوب چکا تھا اور مجھے احساس تھا کہ آوازیں برف کی سیلوں کے درمیان کھو گئی ہیں۔ اس درمیان ٹھنڈ میں اضافہ ہو گیا تھا۔ میں دھند کی چادر میں اب بھی کچھوؤں کو دیکھ رہا تھا۔ پھر میں نے دیکھا، وہ خاموشی سے چلتی ہوئی آئی اور اس نے ایک کچھوے کو ہاتھ میں لے لیا۔ وہ آہستہ آہستہ کچھوے کی پشت سہلا رہی تھی۔ وہ ایک بار پھر سے ہنسی اور کہا

میرے گھر آ جاؤ۔ میں تمہیں کسی سے ملاتی ہوں۔ اور ہاں، وہاں تمہیں سانپ بھی مل سکتے ہیں۔

ناگیشور۔ میں پہلی بار اس سے ملا تھا۔ سنیتا کے گھر۔ میں سیاست سے ضرور ناآشنا تھا لیکن ان سیاست دانوں سے نہیں جنہوں نے اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئے سرد لاشوں کے انبار پاٹ دیے ہیں۔ وہ ناگیشور تھا اور میں نے اسے سیاست کے منچ پر جھومتے ہوئے سینکڑوں بار دیکھا تھا۔ اور مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ شخص سنیتا کا بھائی ہو سکتا ہے۔ ایک رحم دل عورت اس کی ماں ہو سکتی ہے۔ مجھے دیکھ کر ناگیشور زور سے ہنسا۔

کیوں آئے ہو؟
سنیتا کے ہونٹوں پر تلخی تھی، میں نے بلایا ہے۔
کیوں؟
گھر کی فضاء میں زہر بھر گیا ہے۔ ، سنیتا اس وقت بھی ہنسی تھی۔
گھر کیوں؟ اسے تو قبرستان میں ہونا تھا۔ ناگیشور ہنسا۔
ناگیشور کو کسی کام سے جانا تھا اور وہ چلا گیا۔ مگر مجھے سوالوں کے درمیان چھوڑ گیا۔

مجھے احساس تھا کہ برف گر رہی ہے۔ میرا وجود شل ہے۔ پاؤں نے چلنا بند کر دیا ہے۔ میں ان مناظر کے درمیان ہوں جہاں گدھ میرے سامنے کھڑے ہیں۔ میں سنیتا اور اس کی ماں کی طرف دیکھتا ہوں۔ سنیتا کی ماں کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ میں سنیتا کی طرف دیکھتا ہوں، اس کا چہرہ زرد ہے۔

تم نے دیکھا ناں؟
ہاں
کچھوے۔ وہ کہتی کہتی رک گئی۔ اب ہمارے گھر ہمارے اپنے نہیں رہے
ہاں۔
گھر تحفظ کی جگہ نہیں۔
سنیتا کی ماں کہتی ہے۔ کیا کبھی سوچا تھا، نیلا آسمان سیاہ ہو جائے گا۔

سنیتا ہنستی ہے۔ آسمان سیاہ اور اس کی وجہ تم،  کیوں؟ حیرانی ہے ناں؟ اور ان کے پیچھے کون ہے۔ ؟ ناگیشور۔ ناگیشور جیسے لوگ۔ یہ بھائی، باپ، مختلف شکلوں میں گھر کا حصہ ہیں۔

اس دن میں گھر آ گیا۔ میرے کمرے میں سانپ تھا۔ مجھے سانپ کو بھگانے میں کافی مشقت کا سامنا کرنا پڑا۔ میں چھت پر آیا تو یہاں بھی میں نے ایک بل کھاتے ہوئے سانپ کو دیکھا۔ مجھے یقین تھا، سنیتا ٹھیک کہتی ہے۔ فضاء بدل گئی ہے۔ ہر رنگ سیاہ اور آسمان بھی۔ بادلوں کے درمیان خوف زدہ کرنے والی شکلیں بنتی ہیں پھر دھند کی ایک سیاہ لہر ان شکلوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔

سنیتا کا فیصلہ آ گیا۔ ہم نہیں مل سکتے۔
مگر کیوں۔ میں سناٹے کی صلیبوں پر جھول رہا تھا
وقت سیاہ ہو چکا ہے
ہاں
اور سانپ گھر میں آ گئے ہیں۔ اس کے چہرے پر وحشت کا سایہ تھا، کیا تم خدا کو مانتے ہو؟
سنیتا نے پلٹ کر پوچھا۔
ہاں۔ یہ سوال تم پہلے بھی کر چکی ہو۔
میں اندھیرے میں قید اپنی تنہائیوں کے ساتھ راتیں بسر کرنا چاہتی ہوں۔ جہاں سانپ نہ ہوں۔
میں اسے جاتے ہوئے اس وقت تک دیکھتا رہا، جب تک وہ نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔
مجھے احساس تھا کہ برف گر رہی ہے۔ میرا وجود شل ہے۔ پاؤں نے چلنا بند کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments