کیسی زمیں! کیسا آسماں!


یکایک بلڈپریشر بڑھ گیا تھا پھر فالج اور اب وہ ہسپتال میں فی الحال بے ہوشی کے عالم میں ہیں۔ اس نے بڑی تاکید سے کہا تھا ”نسیم تم ادھر ہی رہنا میں آ رہا ہوں، پہلے ممکن جہاز سے، بہت جلد۔“ اس کی زندگی میں تھا کیا۔ ایک ماں کے سوا اور اگر ان کے لیے بھی وہ کچھ نہ کر سکا تو اس ساری ڈاکٹری کا کیا فائدہ ہے۔ ساری زندگی ڈگریوں کا کیا مقصد ہے، کچھ نہیں، کچھ نہیں۔ اس نے فوراً ہی لندن میں مقبول سے بات کی تھی۔ مقبول نے دس منٹ بعد بتایا تھا کہ اس کے لیے تھائی ائرلائن میں ایک سیٹ بک ہو گئی ہے۔ جہاز جائے گا صبح ساڑھے گیارہ بجے۔ اس کے بعد اس نے اپنے کنسلٹنٹ کو فون کیا تھا، ڈاکٹر کولن ونسٹن شریف آدمی تھا۔ اس نے فوراً ہی کہا تھا کہ وہ چلا جائے، جتنی جلدی ممکن ہو سکتا ہے۔ یہاں کا نظام چل جائے گا، کسی اور کا بندوبست ہو جائے گا، فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

کارڈیف سے لندن پہاڑ جیسا سفر تھا۔ کوشش کے باوجود ذہن کراچی میں الجھا ہوا تھا۔ خیالات خیالات خیالات، تصویریں تصویریں تصویریں، باپ کی تصویر، ماں کی تصویر، بہنوں کی تصویریں، ایک کے بعد ایک، آواز کے ساتھ کبھی بغیر آواز کے، چائے کافی کوئی بھی دل کو بہلا نہیں سکا تھا۔ دل ہے کہ رو رہا تھا۔ ذہن کے کسی خاموش گوشے میں ایک آواز سی تھی۔ کوئی دھیرے سے کہہ رہا تھا وقت نکل گیا تم ہار گئے، تم ہار گئے۔

اس نے کتنی دفعہ سوچا تھا کہ ایک دفعہ یہ امتحان پاس ہو جائے تو پھر کراچی واپس چلا جائے گا۔ ایمانداری کے ساتھ یہاں کی سیکھی ہوئی تمام مہارت سے اپنے ہم وطنوں کی خدمت کرے گا، جلد از جلد۔ اور جب امتحان پاس ہو گیا تھا تو اس نے امی جان کو لکھا تھا کہ میں آ رہا ہوں۔ انہوں نے فوراً ہی جواب دیا تھا، بڑی خوشی کا اظہار کیا تھا مگر ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ اگر تھوڑے دن اور وہاں کام سپل برگ، تھوڑے سے پیسے اور بچا لے کیونکہ کراچی میں بغیر پیسوں کے کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔

بیٹھنے کو کمرہ بھی نہیں مل سکتا ہے۔ پیسہ، پیسہ، پیسہ، بہت ضروری چیز ہے۔ اس نے بھی سوچا تھا کہ چلو چھ مہینہ ایک سال اور سہی۔ پھر اپنا ملک ہوگا، اپنی باتیں ہوں گی اپنے لوگ ہوں گے، امی جان ہوں گی، بہنیں ہوں گی، ان کے بچے ہوں گے، دوست ہوں گے، احباب ہوں گے اور پھر اپنے ملک میں اپنے ہی لوگوں کے درمیان کام ہوگا۔ چلو کچھ دنوں اور سہی، ایلزبتھ کے لیے، پیٹر کے لیے، ولیم کے لیے، مارگریٹ کے لیے، این کے لیے، مائیکل کے لیے، جوزف کے لیے کام کیا جائے۔

وہ اپنے کام میں بہت اچھا تھا۔ ہسپتال میں سب لوگ اس سے خوش تھے۔ چاہے جونیئر ہوں یا سینئر، اس کے باس ہوں کہ اس کے ماتحت۔ اس کے کام کا یہ اصول تھا کام کرو تو خوشی سے کرو، محنت سے کرو، ایسے کام کا کیا فائدہ کہ جس میں مزا نہ ہو اور پھر تنخواہ اچھی ہو تو پھر ایسے کام کا کوئی فائدہ نہیں ہے جس سے مریض کا فائدہ نہ ہو۔ وہ سارے پاکستانیوں کو اسی قسم کے مشورے دیا کرتا تھا اور اسی قسم کے خواب بھی دیکھا کرتا تھا کہ جلد ہی پاکستان جائے گا اور کسی بھی ہسپتال میں نوکری کرے گا اور اپنے سے جونیئر لوگوں کو بتائے گا کہ انگلستان میں کیا ہوتا ہے، یہاں کے بوڑھے کیسے مرتے ہیں، ان کے ساتھ کیا ہونا چاہیے۔ اب امتحانوں سے فارغ ہو کر واپسی کا پلان ہی بنا رہا تھا کہ یہ ہو گیا۔ اس کی ماں۔ اس کا دل بار بار بھر بھر آتا تھا۔

لندن ویسا ہی تھا اور ہیتھرو ائرپورٹ کا غل غپاڑہ بھی ویسا ہی تھا۔ جب وہ ہیتھرو پہنچا تھا تو جہاز کے جانے میں چار گھنٹے کا وقت تھا۔ اس نے اپنی گاڑی لمبے وقفے کے پارکنگ کی جگہ پر کھڑی کی تھی اور اپنا سامان تھائی ائرویز کے حوالے کرنے کے بعد نسیم کو کراچی فون کیا تھا۔ وہ ابھی بھی ویسی ہی تھیں، بے ہوش۔ نسیم نے بتایا تھا کہ بلڈپریشر نیچے آ گیا تھا مگر ابھی تک وہ ہوش میں نہیں آئی تھیں۔ اس کا دل چاہا کہ بہت سے سوال کرے مگر کیا کرتا، بے ہنگم خیالات سے ذہن بھرا ہوا تھا۔

اس نے اسے فلائٹ نمبر بتایا تھا اور کافی پینے بیٹھ گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد مقبول آ گیا۔ وہ دو گھنٹے تک مقبول سے باتیں کرتا رہا تھا۔ مقبول نے اسے ایک لفافہ اپنے بھائی کے لیے دیا تھا اس کا دل جیسے ڈوب رہا تھا آہستہ آہستہ۔ گو کہ نسیم نے بتایا تھا کہ امی کی حالت کچھ بہتر ہے مگر پھر بھی نہ جانے کیوں، اندیشوں کے پہاڑ چاروں طرف بڑھ رہے تھے وہ ان میں دبتا جا رہا تھا۔

کراچی تک سفر عجیب تھا۔ وہ راستے بھر اپنے مریضوں کے بارے میں اور اپنی ماں کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ اس کے مریض جو صحیح ہو رہے تھے، اس کی ماں جو بیمار پڑ گئی تھی۔ ابھی عمر ہی کیا تھی ان کی۔ 52 سال میں تو یہاں کی عورت میراتھن دوڑتی ہے، اور 52 سال کی عمر میں وہ بیمار پڑ کر بے ہوش پڑی تھیں۔ کتنے مریض ذہن کے پردے پر آئے تھے۔ میکلن 77 سال کی تھی جو چل کر آئی تھی، بوب 80 سال کا ہو کر سگریٹ بھی رہا تھا اور شراب بھی پی رہا تھا، اسے شکایت تھی کہ رات نیند دیر سے آتی ہے۔

67 سالہ روزلین نے وارڈ سے ڈسچارج ہونے کے بعد اسے خبر دی تھی کہ اب وہ شادی کر رہی ہے۔ گزشتہ برسوں میں آئے ہوئے کتنے ہی مریض اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے۔ دل انجانے اندیشوں کے ساتھ دھڑکتا رہا۔ نہ وہ کچھ کھا سکا نہ پی سکا، نہ سو سکا، نہ جاگ سکا۔ کئی دفعہ ائر ہوسٹس نے آ کر پوچھا بھی، مگر وہ سوچتا رہا اور اندر اندر تڑپتا رہا، دعائیں مانگتا رہا۔ ماں، میری ماں میرا انتظار کرنا، میں آ رہا ہوں۔

رات گیارہ بجے کراچی ائرپورٹ آیا تھا۔ وہ اپنا بیگ ہاتھ میں لے کر باہر آیا تو اسے کوئی نظر نہیں آیا تھا۔ وہ وقت ضائع کیے بغیر ٹیکسی لے کر سول ہسپتال کی طرف روانہ ہو گیا تھا۔ اسے ائرپورٹ سے سول ہسپتال کا سفر لندن سے بھی طویل لگا تھا۔

میڈیکل وارڈ کے برآمدے کے شروع میں ہی اسے اپنی بہنیں کھڑی مل گئی تھیں، دہشت زدہ اور خوفزدہ۔ وہ دوڑتا ہوا اندر چلا گیا تھا۔ نسیم بستر کے سرہانے کھڑا تھا۔ ان کی ناک میں ایک گندا سا ٹیوب پڑا ہوا تھا، دونوں ہاتھوں میں ڈرپ کی نلکیاں لگی ہوئی تھیں۔ پیشاب کی نلکی کی تھیلی میں کچھ بھی نہیں تھا۔ سرہانے ٹیبل پر مختلف دواؤں کی شیشیاں پڑی ہوئی تھیں۔ دو ٹوٹی ہوئی سکشن مشین لگی ہوئی تھیں، ایک مشین کا تار سرکٹ میں ماچس کی تیلیوں سے اٹکایا ہوا تھا۔

پنکھے کے نیچے ایک گندے سے بستر کے اوپر خون کے دھبوں سے اٹی ہوئی چادر میں ڈھکا ہوا ان کا جسم تھا۔ ہاتھ اور چہرہ سوجا ہوا تھا۔ وہ مر چکی تھیں۔ وہ جا چکی تھیں، اس کا انتظار کیے بغیر۔ وہ سن سا کھڑا رہ گیا تھا۔ اس کے کانوں میں اس کی بہنوں کے بین کرنے کی آواز آئی تھی۔ اپنے کاندھوں پر نسیم کا ہاتھ محسوس ہوا تھا۔ وہ ساکت و صامت کھڑا رہا تھا۔ اس کی ماں کی لاش چیخ چیخ کر آخری وقت میں گزرنے والے کربناک لمحات کی داستان سنا رہی تھی۔

اسے ایسا لگا جیسے وہ کارڈف رائل انفرمری میں اپنے وارڈ میں کھڑا ہے اپنے مریضوں کے درمیان، 80 سالہ اور 90 سالہ ٹھیک ہوجانے والے مریضوں کے ساتھ، سبز درختوں، جھاڑیوں، اور گھاس کے درمیان بنی ہوئی ہسپتال کی عمارت میں۔ پھر جیسے کسی نے اس کے جسم پر پیٹرول چھڑک دیا ہو اور آگ لگا دی ہو۔ وہ زمین پر لوٹ رہا ہے، تڑپ رہا ہے اور مارگریٹ جوزف، لارنس جوزفین، فلپ قہقہے لگا رہے ہیں۔ وہ چکرا کر زمین پر گر گیا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments