دی کائٹ رنر: آپ کے لیے ہزار بار


افغانستان ایک جنگ زدہ ملک ہے ، جو گزشتہ نصف صدی سے اپنی اور غیروں کی لگائی ہوئی آگ میں مسلسل جل رہا ہے۔ یہ چونکہ پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اس لیے وہاں جب بھی حالات بگڑے، پاکستان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ چاہے وہاں روس کے خلاف جنگ ہو، خانہ جنگی کے حالات رہے ہوں یا نائن الیون کے بعد کی امریکہ افغان جنگ ہو، وہاں آنے والی ہر تبدیلی کا ردعمل پاکستان تک ضرور پہنچا۔ اس لیے عام پاکستانی بھی افغانستان میں جنگ اور اس کی تباہ کاری کی خبروں کو سنتا اور دیکھتا آیا ہے۔ تاہم عام پاکستانی افغان لوگوں کے خانگی حالات بارے واجبی سی آگاہی رکھتا ہے۔ مجھے بھی افغانستان بارے اتنی ہی جانکاری رہتی،  اگر میں انگریزی ناول ”دی کائٹ رنر“ نہ پڑھتا۔

یہ ناول افغان نزاد امریکی رائٹر خالد حسینی نے تحریر کیا ہے اور بلاشبہ اس ناول کو ادب کا شاہکار کہا جا سکتا ہے۔ اس ناول کی سات ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں جو اس کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ ناول پتنگوں کے پیچھے بھاگتے دو نوعمر لڑکوں عامر اور حسن کی داستان ہے۔ عامر ایک پشتون اور دولت مند گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جبکہ حسن اس کے ملازم کا بیٹا ہے اور ہزارہ برادری سے تعلق رکھتا ہے۔

اس ناول کے موضوعات آفاقی ہیں ، جن میں انسانی فطرت کے سلگتے ہوئے جذبات کو لفظوں کا پیرہن پہنایا کیا گیا ہے۔ اس ناول میں پچھتاوا، احساس گناہ، کفارہ، شرمندگی، غربت، ہجرت، نسل پرستانہ اور جنسی تشدد، مذہبی تفریق اور مذہبی جنونیت جیسے مسائل بیان کیے گیے جو کسی بھی دور اور کسی بھی معاشرے میں پیش آ سکتے ہیں۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس ناول میں افغانستان کے سیاسی سماجی اور تاریخی حالات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ جب قاری یہ ناول شروع کرتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ سوویت یونین کے حملے سے قبل کابل ایک ہنستا بستا اور ترقی کرتا ہوا شہر تھا جہاں کے لوگ آسودہ حال زندگی گزار رہے تھے۔

اس کے علاوہ مصنف پسے ہوئے طبقات کو بھی نظرانداز نہیں کرتا اور ہمیں بتاتا ہے کہ ہزارہ برادری کے لوگ کس طرح کمتر درجے کے شہریوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور پشتون قوم کے بدترین مظالم کا شکار ہیں۔

ناول کے مرکزی کردار عامر کی خوشحال زندگی پشتون قوم کی آسودگی جبکہ حسن کی غربت اور مظلومیت ہزارہ قبیلے پہ ہوئے مظالم کو ”سمبولائز“ کرتے ہیں۔

جیسے ہی یہ دو کردار جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہیں ، افغانستان سوویت یونین کے ساتھ جنگ میں چلا جاتا ہے جو اس بات کو سمبولائز کرتا ہے کہ افغانستان کی نئی نسل کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا ہے۔

اس ناول میں جنگ کا درد اور کرب چھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ بارودی سرنگیں، یتیم خانے، بلکتے اور تشدد زدہ بچے، جنگ کی تباہ کاری کے استعارے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔

اس ناول میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگ زدہ افغان لوگ کس طرح سوچتے ہیں اور جنگ کو کس طرح ”اڈاپٹ“ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ پاکستان میں ہجرت کر لیتے ہیں ، کچھ لوگ اس امید پہ اپنا وطن نہیں چھوڑتے کہ حالات بہتر ہو جائیں گے اور جان سے چلے جاتے ہیں۔

خالد حسینی بتاتے ہیں کہ کس طرح سوویت یونین کے انخلاء کے بعد خانہ جنگی نے ملک کی بربادی میں اور اضافہ کیا اور رہی سہی کسر طالبان کے قبضے نے پوری کر دی۔ جن کے دہرے معیارات، غیر انسانی رویوں اور سزاؤں کو مصنف نے ایکسپوز کیا ہے۔ مصنف نے اگست 1998 میں طالبان کے ہاتھوں مزار میں ہزارہ برادری کے قتل کا حوالہ بھی ناول میں پیش کیا ہے۔

اس کے علاوہ اس ناول میں افغان لوگوں کے پاکستان میں رفیوجی کیمپوں کے حالات بتائے گئے ہیں۔ افغان کمیونٹی امریکہ میں کیسے رہتی ہے ، اس کو بیان کیا گیا ہے۔ نائن الیون کے بعد کی بھی کچھ تصویر کشی ہمیں ملتی ہے۔ ہمیں اس کہانی سے افغانستان کی زبان کے کچھ الفاظ، ان کے تہوار اور ان کے سوشل رویوں سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔

امید اس ناول کے پلاٹ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور کہانی کا اختتام بھی ایک خوشنما اداسی کے ساتھ امید پر ہی ہوتا ہے۔

جب عامر، حسن کے بیٹے کے لئے پتنگ لوٹنے جاتا ہے تو بولتا ہے کہ ”آپ کے لئے ہزار بار“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments