ڈاکٹر محمد ضیا الحق صوفی اور ڈاکٹر خورشید رضوی


ڈاکٹر محمد ضیا الحق صوفی

خورشید رضوی پنجاب یونیورسٹی کے وولنر ہاسٹل میں رہتے تھے۔ صوفی صاحب کبھی کبھار وہاں بھی ان سے ملنے چلے آتے۔ ایک دن کی ملاقات میں میں عجیب معاملہ ہوا، جس کے بارے میں خورشید رضوی نے لکھا:

” ایک روز آئے تو میں نے محمد الخضری بک کی کتاب ’محاضرات فی تاریخ الامم الاسلامیہ‘ میں درپیش دو ایک اشکال ان کے سامنے رکھے۔ مقام وہ تھا جہاں قریش کی طرف سے خانہ کعبہ کی تعمیرنو کے سلسلے میں خرچ کے کم پڑ جانے کا ذکر آتا ہے۔ اس رقم کے لیے وہاں النفقۃ الطبیۃ کے الفاظ درج تھے۔ میری سمجھ میں نہ آ سکا کہ“ طبیہ ”کا یہاں کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ پھر یہ ذکر تھا کہ یہ رقم کم پڑ جانے پر قریش نے عمارت کو شمالی جانب سے ذرا کم کر لیا، اس ضمن میں“ نحو آمن ستۃ اذرع ”کے الفاظ درج تھے۔ یہ لفظ“ آمن ”بھی معما بنا ہوا تھا۔ اتفاق کی بات کہ صوفی صاحب کا ذہن بھی منتقل نہ ہوا۔ اس روز وہ اٹھ کر چلے گئے۔ اگلے روز جب ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے کہ تمھاری وہ عبارت حل ہو گئی ہے اور بڑے عجیب طریقے سے۔ تفصیل یہ بتائی کہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ یہی کتاب ہاتھ میں لیے غور کر رہا ہوں کہ والد مرحوم (مولانا اصغر علی روحی) تشریف لاتے ہیں۔ مجھ سے پوچھا کیا پڑھ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا ان دو لفظوں کا مفہوم واضح نہیں ہورہا۔ اس پر انھوں نے کتاب لے کر ایک نظر ڈالی اور پھر ہنس کر فرمایا“ ڈاکٹر مفت میں بن بیٹھے ہو ”(اصل الفاظ پنجابی میں تھے“ ڈاکٹر ایویں ای بن گیا ایں ”) پھر وضاحت فرمائی کہ دونوں جگہ چھاپے کی غلطی ہے۔ النفقۃ الطبیہ نہیں النفقۃ الطیبہ ہے یعنی“ پاک صاف مال ”جو قریش نے تعمیر کعبہ کے لیے جمع کیا تھا اور دوسری جگہ“ نحوآمن ”نہیں بلکہ“ نحواًمن ستۃ اذرع ”ہے یعنی تقریباً چھ ہاتھ کم کر دیا، غلطی سے نحواً کی تنوین الف پر مد کی علامت بن گئی ہے۔ دونوں جواب اس قدر واضح تھے کہ نہ صرف شک کی گنجائش نہ تھی بلکہ حیرت تھی کہ اس سے پہلے ذہن اس طرف منتقل کیوں نہ ہوا۔ خواب میں اس طرح ان کے حل ہو جانے پر مجھے بہت تعجب ہوا۔ صوفی صاحب نے بتایا کہ والد مرحوم سے میرے تلمذ کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا اور اب بھی اسی طرح گاہے گاہے وہ خواب میں آ کر میری علمی رہنمائی فرما دیتے ہیں۔“

انارکلی میں میں نگینہ بیکری ادیبوں دانشوروں کا اہم مرکز رہی ہے۔ اورینٹل کالج کے زمانے میں صوفی صاحب کے ساتھ خورشید رضوی کبھی کبھار وہاں چلے جاتے۔ خورشید رضوی کو وہاں کے کوکونٹ بسکٹ پسند تھے۔ صوفی صاحب انھیں چائے کے ساتھ یہ بسکٹ تو کھلاتے تھے لیکن علمی گتھیاں سلجھانے سے ان کی جان یہاں بھی نہیں چھوٹتی تھی۔ ایک دن نگینہ بیکری میں پرچے پر لکھے عربی کے دو گنجل دار شعر خورشید رضوی کو دیے تاکہ انھیں ذہنی ”خلفشار“ سے دوچار کیا جاسکے۔ اپنی ذہانت سے وہ اس امتحاں سے آساں گزر گئے تو صوفی صاحب بہت سرشار ہوئے۔

ایک دفعہ ایک کتاب پر یہ شعر لکھ کر دیا:
اعمل بعلمی ولا تنظر الی عملی
ینفعک قولی ولا یضررک تقصیری

” تو میرے علم پر عمل کر اور میرے عمل کو نہ دیکھ۔ میری بات تجھے فائدہ دے گی اور میری کوتاہی سے تجھے نقصان نہ ہوگا۔“

سید مناظر احسن گیلانی کی کتاب ’مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت‘ مجھے بہت پسند ہے۔ اس کتاب کے حواشی معلومات کا خزانہ ہیں۔ ان میں سے دو حاشیے پڑھ کر مجھے ہمیشہ محمد ضیاء الحق صوفی اور ڈاکٹر خورشید رضوی کا خیال آتا ہے۔ :

” فوائد الفواد میں سلطان جی نظام الدین اولیاء کے حوالہ سے اس ناغہ کے سلسلہ میں ایک دلچسپ بات نقل کی ہے۔ حضرت اپنے استاذ شمس الملک مستوفی الممالک کی درسی خصوصیات کا تذکرہ فرماتے ہوئے یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جو ان سے پڑھنا چاہتا اس سے منجملہ دیگر چند معاہدوں کے ایک معاہدہ اس کا بھی لیتے تھے کہ“ ناغہ ”نہ کرو گے۔ حضرت سلطان جی فرماتے ہیں۔ اتفاقاً کسی وجہ سے کسی دن کوئی طالب العلم درس میں حاضر نہ ہوسکا تو شمس الملک کا قاعدہ تھا کہ اس سے کہتے“ چہ کردہ ایم کہ نمی آئی ”یعنی میں نے آپ کا کیا گناہ کیا تھا جو تشریف نہ لائے۔ خود اپنے متعلق بھی فرماتے کہ“ اگر مرا ناغہ شدے یا بعد از دیر رفتے در خاطر گذشتے مارا ہم چیزے خواہد گفت ”(اگر میں ناغہ کر بیٹھتا یا دیر سے جاتا تو خیال آتا کہ مجھے کچھ کہیں سنیں گے۔ ترجمہ :معین نظامی) بس یہی خیال کہ استاد پوچھیں گے، ناغہ سے طالب علموں کو روکتا تھا۔“

اس حاشیے سے ذہن مرزا فرحت اللہ بیگ کے ڈپٹی نذیر احمد پر خاکے کی طرف منتقل ہوا جسے اردو کا بہترین شخصی خاکہ کہا جاسکتا ہے۔ فرحت اللہ بیگ اور ان کے دوست دانی کو ڈپٹی نذیر نے شاگرد کرنے کی شرط یہی رکھی تھی کہ ناغہ نہیں ہوگا۔ ’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو :

”تقریباً دو برس تک ہم ان سے پڑھتے رہے، نہ ہم نے کبھی گرمی سردی کی شکایت کی اور نہ کبھی وقت بدلنے کا لفظ زبان پر لائے، نہ ان دو سال میں ایک دن ناغہ کیا۔ یہاں تک کہ مولوی صاحب بھی ہمیشہ کہتے تھے کہ“ بیٹا، جب تم دونوں آتے ہو میرا دل خوش ہو جاتا ہے کیونکہ میں تم میں طالب علمی کی بو پاتا ہوں۔ ”

مناظر احسن گیلانی کی کتاب سے ایک حاشیے کا اوپر ذکر ہو چکا ایک دوسرا حاشیہ جس سے مجھے ضیاء الحق صوفی اور خورشید رضوی کا خیال آتا ہے وہ امام بخاری کا امام ترمذی کے بارے میں یہ قول ہے :

” میں نے تم سے جتنا نفع اٹھایا وہ اس سے زیادہ ہے جو تم نے مجھ سے حاصل کیا“
اس قول کے بارے میں مناظر احسن گیلانی نے لکھا:
” بلاشبہ کسی شاگرد کے فخر کے لیے یہ انتہائی الفاظ ہوسکتے ہیں جو اپنے استاد سے اسے ملے ہوں۔“
ساٹھ برس پہلے صوفی صاحب نے ان کلمات کے ذریعے خورشید رضوی کا مان بڑھایا۔ :

” تئیس سالہ عرصۂ ملازمت کے دوران میں ہزاروں طالبان علم سے واسطہ پڑا۔ اس طویل مدت میں صرف ایک ہونہار نوجوان (خورشید رضوی) ایسا ملا جس میں۔ علمائے سلف رحمھم اللہ کے اوصاف عالیہ کی کچھ جھلک نظر آئی۔“

یہ رائے اس وقت سامنے آئی جب خورشید رضوی اٹھارہ برس کے تھے، انھوں نے ”قلائد الجمان“ کی تدوین کا پہاڑ سر کیا تھا نہ ہی عربی ادب کی تاریخ لکھنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ عربی ادب کی تاریخ رقم کرنے کا بنیادی محرک نکلسن کی ’اے لٹریری ہسٹری آف دی عربز‘ کے بارے میں صوفی صاحب کی یہ رائے تھی کہ عربی ادب کے وسیع و بسیط موضوع کو ایک جلد میں سمیٹنا نا انصافی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ کم از کم براؤن کی ’اے لٹریری ہسٹری آف پرشیا‘ کی طرز پر چار جلدوں میں کام ہوتا۔ اسی بات نے خورشید رضوی کو مفصل تاریخ لکھنے کی راہ سجھائی۔ ’عربی ادب قبل از اسلام‘ کی ایک جلد شائع ہو چکی، دوسری جلد ممتاز ادبی جریدے ’سویرا‘ میں چھپ چکی اور جلد کتابی صورت میں سامنے آ جائے گی۔

ساہیوال میں تقرر سے پہلے صوفی صاحب جھنگ میں پڑھاتے رہے تھے جہاں ان کے شاگردوں میں ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر وزیر آغا بھی شامل تھے۔ دونوں نے اپنے اپنے شعبوں (سائنس اور ادب) میں ممتاز مقام حاصل کرنے کے بعد بھی اپنے عظیم استاد کو یاد رکھا۔

صوفی صاحب کے انداز تدریس سے اشفاق احمد کے عظیم افسانے ’گڈریا‘ کے مرکزی کردار داؤ جی کا خیال بھی آتا ہے۔ ان کا بھی اپنے شاگرد سے ترجمہ اور ترکیب نحوی کرانے پر بڑا زور تھا۔ افسانے سے چند اقتباسات ملاحظہ ہو:

” اگر خوش قسمتی سے سوال جلد حل ہوجاتا تو وہ چٹائی کو ہاتھ لگا کر پوچھتے۔“ یہ کیا ہے؟ ”“ چٹائی ”میں منہ پھاڑ کر جواب دیتا۔“ اوں ہوں ”وہ سر ہلا کر کہتے۔“ فارسی میں بتاؤ۔ ”تو میں تنک کر جواب دیتا“ لو جی ہمیں کوئی فارسی پڑھائی جاتی ہے۔ ”اس پر وہ چمکار کر کہتے۔“ میں پڑھاتا ہوں گولو، میں جو سکھاتا ہوں۔ سنو! فارسی میں بوریا، عربی میں حصیر۔ ”میں شرارت سے ہاتھ جوڑ کر کہتا۔“ بخشو جی بخشو، فارسی بھی اور عربی بھی۔ میں نہیں پڑھتا جی معاف کرو۔ ”مگر وہ سنی ان سنی ایک کر کے کہے جاتے۔“ فارسی بوریا عربی حصیر ”اور پھر کوئی چاہے اپنے کانوں میں سیسہ بھر لیتا داؤ جی کے الفاظ گھستے چلے جاتے۔“

” میں نے ترکیب نحوی سے جان چھڑانے کے لیے پوچھا۔“ آپ مجھے جان پدر کیوں کہتے ہیں۔ جان داؤ کیوں نہیں کہتے؟ ”

” شاباش“ وہ خوش ہو کر کہنے لگے۔ ”ایسی باتیں پوچھنے کی ہوتی ہیں۔ جان لفظ فارسی کا ہے اور داؤ بھاشا کا۔ ان کے درمیان فارسی اضافت نہیں لگ سکتی جو لوگ دن بدن لکھتے یا بولتے ہیں، سخت غلطی کرتے ہیں اور روز بروز کہو یا دن پر دن اسی طرح سے۔ اور جب میں سوچتا کہ یہ تو ترکیب نحوی سے بھی خطرناک معاملے میں الجھ گیا ہوں تو جمائی لے کر پیار سے کہتا۔“ داؤ جی اب نیند آ رہی ہے! ”

” اور وہ ترکیب نحوی؟“ وہ جھٹ سے پوچھتے۔ ”

”پڑھنے کو چھوڑیے، ان سے باتیں کرنا بھی مشکل تھا۔ میں نے کچھ پوچھا، انھوں نے کہا، اس کا فارسی میں ترجمہ کرو۔ میں نے کچھ جواب دیا، فرمایا اس کی ترکیب نحوی کرو۔“

داؤ جی کا شاگرد کو پڑھانے میں جان مارنا، صوفی صاحب کی یاد دلاتا ہے لیکن ان کا ’گولو‘ پڑھائی سے جی چراتا تھا اور صوفی صاحب کا خورشید علم کا جویا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments