ڈاکٹر محمد ضیا الحق صوفی اور ڈاکٹر خورشید رضوی


فکری افلاس کے شکار اس معاشرے کو تو جانے دیجیے، وہ اگر علمی اعتبار سے درخشاں عہد میں زیست کر رہے ہوتے، تو بھی اپنی علمیت کی بنیاد پر دوسروں سے ممتاز نظر آتے۔ گئے وقتوں میں لاہور میں کئی ایسی باوقار علمی ہستیاں موجود رہی ہیں، کہ اہل علم بھی جب کسی علمی مسئلے پر الجھن محسوس کرتے تو اپنی تشفی کے لیے ان سے بے تامل رجوع کرتے۔ اب مگر ایسا نہیں۔ اگر کسی علمی و ادبی گتھی کو سلجھانا ہو تو جن اکا دکا شخصیات کے نام ذہن کے پردے پر ابھرتے ہیں، ان میں ایک ڈاکٹر خورشید رضوی ہیں۔ عربی زبان کے وہ عالم ہیں۔ عربی کی قابل قدر علمی تصنیف قلائد الجمان کی پہلی جلد کے 120 صفحوں کی تدوین کا جوکھم اٹھایا اور مصنف ابن الشعار کے حالات زندگی قلم بند کیے۔ اس قدیم عربی متن کو پڑھنے میں ان کی غیر معمولی صلاحیت سے متاثر ہو کر عراق کی ایک یونیورسٹی نے اس کتاب کی خواندگی کے اعتبار سے مشکل ترین جلد ان سے مدون کروائی۔ اردو میں عربی ادب سے متعلق بہترین کتابوں کا تذکرہ ان کی کتاب ’عربی ادب قبل از اسلام‘ کے بغیر ادھورا سمجھا جائے گا۔

عربی زبان میں ان کی غیر معمولی قدرت کے سبھی قائل ہیں۔ اردو ادب میں وہ اپنی شاعری و نثر کی بنیاد پر منفرد مقام رکھتے ہیں۔ شاخ تنہا، سرابوں کے صدف، رائگاں، امکان، دیریاب، پس نوشت، یہ چھ شعری مجموعے ہیں۔ ’تالیف‘ اور ’اطراف‘ میں علمی و ادبی مضامین ہیں۔ ’بازدید‘ شخصی خاکوں کی کتاب ہے۔ ترک عالم فواد سیزگین کے علمی خطبات کا ’تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا۔ فارسی ادب کے غواص ہیں۔ انگریزی ادب کا بھی نتھرا ستھرا ذوق رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر خورشید رضوی نے 19 مئی 1942 ء کو امروہہ میں سید حلیم الدین رضوی کے ہاں آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق سادات امروہہ سے ہے۔ چار برس کی عمر میں وہ باپ کی شفقت سے محروم ہو گئے۔ ان کا بچپن ننھیال میں گزرا۔ 48ء میں ہجرت کے بعد ان کا گھرانا ساہیوال آباد ہوا۔ چھٹی سے بی اے آنرز تک تعلیم ساہیوال میں حاصل کی، جہاں کی علمی و ادبی فضا نے ذوق ادب کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ عربی زبان سے ان کے تعلق کی بنیاد بھی اسی شہر میں پڑی۔ چھٹی جماعت میں انھوں نے والدہ کے کہنے پر عربی کو بطور مضمون اختیار کیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ والدہ کے اس ارشاد کے پیچھے ان کی دینی حس اور جذبۂ دینی کارفرما رہا ہو گا۔ مولانا احمد حسن محدث ان کے ننھیالی بزرگوں میں سے تھے، اس لیے گھر میں دینی شعور موجود تھا۔

ڈاکٹر خورشید رضوی زمانہ طالب علمی میں

ڈاکٹر خورشید رضوی کی بہن بچپن میں چیچک کی وجہ سے فوت ہو گئی تو وہ اکلوتے رہ گئے۔ والدہ کے لیے سب کچھ تھے مگر انھوں نے کبھی پڑھائی کے معاملے میں محبت کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانے دیا۔ بچپن میں اپنے خالو سے پڑھتے تھے، جن کی سخت گیری کا والدہ کو علم تھا مگر انھوں نے کبھی ”رحم“ کی اپیل نہیں کی۔ ساہیوال میں جس استاد نے یہ پرکھا کہ ان میں عربی اخذ کرنے اور اسے پڑھنے کی خداداد صلاحیت ہے اور انھیں اس زبان سے فطری مناسبت ہے، وہ محمد ضیاء الحق صوفی تھے جو گورنمنٹ کالج ساہیوال میں ان کے استاد تھے۔ وہ ہونہار بروا کو گھر میں اس شرط پر پڑھانے پر راضی ہوئے کہ کچھ بھی ہو جائے یہ ناغہ نہیں کریں گے اور اگر ایسا ہوا تو وہ پڑھانے کا سلسلہ موقوف کر دیں گے۔ خورشید رضوی نے یہ کڑی شرط قبول کرلی۔ استاد نے اس زمانے میں ان سے اردو سے عربی میں بہت ترجمے کرائے۔ کوئی غلطی کرتے تو اس کے حساب سے قواعد بیان کر دیتے۔ قواعد کی الگ سے کوئی کتاب نہیں پڑھائی۔

ایک دن عجب معاملہ ہوا۔ ترجمہ کرتے وقت جملے میں لفظ ’شرمندہ‘ آ گیا، وہ نہیں جانتے تھے کہ اسے عربی میں کیا کہتے ہیں۔ استاد مکرم سے عرض کی کہ صیغہ بنانے کے لیے لفظ کا مادہ بتا دیں۔ اس پر جواب ملا کہ ڈکشنری سامنے پڑی ہے، اس میں سے دیکھ لیں۔ اس پر یہ گویا ہوئے کہ یہ تو عربی سے اردو ڈکشنری ہے، جو اگر وہ ساری دیکھیں تب کہیں جا کر شاید مطلوبہ لفظ کا معنی جان سکیں۔ خیر، چارو ناچار ڈکشنری دیکھنے لگے، دو گھنٹے مغز ماری کی مگر بے سود۔ ایسے میں مشفق استاد کہنے لگے، آج ضروری تو نہیں، شاباش جاؤ، کل آ کر دیکھ لینا۔ یہ اس پر بجھ کر رہ گئے کہ کم از کم لفظ تو بتانا چاہیے۔ سوچنے لگے کہ اب مجھے کیا الہام ہو گا کہ ’شرمندہ‘ کو عربی میں کیا کہتے ہیں۔ یہ الجھن ذہن پر سوار رہی۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول ”لاشعور میں ایسی صلاحیتیں ہوتی ہیں، جس کا آدمی کو پریشر کے بغیر اندازہ نہیں ہوتا۔ اگلے دن شام کو میں نے جب صوفی صاحب کے لان میں قدم رکھا تو تب بھی میرے ذہن میں کچھ نہیں تھا، اور میں سوچ رہا تھا، آج بھی گھنٹہ دو گھنٹہ بٹھائیں گے اور پھر کہیں گے کہ جاؤ۔ اس اثنا میں بجلی کے کوندے کی طرح یہ خیال ذہن میں آیا کہ اسکول کے زمانے میں حافظ محمود شیرانی کی مرتب کردہ ’سرمایۂ اردو‘ میں میر انیس کی نظم ’آمد صبح“ میں شعر ہے :

ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے

اب میں نے سوچا کہ اس شعر میں خجل، یہاں شرمندہ کے معنوں میں آیا ہے۔ یہاں سے صیغہ بننا چاہیے۔ اب میں شیر ہو کر کمرے میں داخل ہوا تو پوچھنے لگے۔ ہاں پھر لفظ تلاش کیا۔ میں نے جب صحیح لفظ بتایا تو اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ مجھے سینے سے لگایا۔ ماتھا چوما اور کہنے لگے، میں جانتا تھا، تم ڈھونڈ لو گے، اسی لیے نہیں بتایا تھا، تو ایک طرح سے یہ بھی ان کا انداز تدریس تھا۔ ”

محمد ضیاء الحق صوفی شاگرد رشید کو ذہنی آزمائش سے دوچار کرتے رہتے تھے جس میں سرخروئی پر وہ کھل اٹھتے۔ ایک اور واقعہ ڈاکٹر خورشید رضوی نے کچھ یوں بتایا:

” ایک روز میں صوفی صاحب کے ساتھ ان کی کوٹھی کے سامنے والے سبزہ زار میں ٹہل رہا تھا۔ ایک طویل ترکیب نحوی زیر غور تھی۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ لفظ ’الذی“ جو یہاں آیا ہے اس کے بعد آنے والا اتنا ٹکڑا مجموعی طور پر اس سے مربوط ہوتا ہے۔ ”الذی“ کو تو گریمر کی اصطلاح میں ”اسم موصول“ کہتے ہیں۔ مگر جو کچھ آ کر اس کے ساتھ مربوط ہو گا، اس کا اصطلاحی نام مجھے معلوم نہیں۔ کہنے لگے، ”سوچو“

میں نے عرض کیا سوچنے کا تو اس سے کچھ تعلق معلوم نہیں ہوتا۔ یہ تو اصطلاح کا معاملہ ہے۔ میں سوچ سوچ کر اصطلاح تو دریافت نہیں کر سکتا۔

فرمایا: ”پھر بھی قیاس کرو۔ آخر“ موصول ”کے مقابل کیا آ سکتا ہے؟“ میں نے ایک گونہ زچ ہو کر کہا، ”سر اب قیاس کیسے کروں۔ یوں تو میں کہہ دوں کہ“ موصول ”کے مقابل“ صلہ ”ہو سکتا ہے۔“

انھوں نے داد اور مسرت کی نگاہ مجھ پر ڈالی اور کہا:
”دیکھا۔ یہی تو اصطلاح ہے۔“

ان واقعات سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ استاد اپنے شاگرد کی خفتہ صلاحیتوں کی کس طریقے سے بیدار کرتا ہے۔ اس کا جوہر کیسے صیقل کرتا ہے۔ اسے گوہر نایاب کیسے بناتا ہے۔ یہ سب علم سے اخلاص کے بغیر ممکن نہیں۔ خورشید رضوی کالج سے چھٹی کے بعد گھر جاتے، دو گھنٹے آرام کے بعد پانچ چھ کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کر کے صوفی صاحب کے ہاں آتے۔ رات کو اجاڑ بیابان راستے سے واپسی ہوتی۔

ڈاکٹر خورشید رضوی بی اے میں تھے کہ استاد کا تبادلہ لاہور ہو گیا لیکن ان کی پڑھائی کا انھیں اس قدر خیال تھا کہ ساہیوال چھوڑنے سے پہلے باور کروا دیا کہ ترجمے کی مشق جاری رہے گی۔ اس کے لیے یہ طریقہ کار وضع ہوا کہ خورشید رضوی روزانہ خط کے ذریعے ترجمہ ارسال کرتے جسے دیکھنے کے بعد اسے واپس بھجوایا جاتا۔ خورشید رضوی کے اورینٹل کالج میں، ایم اے عربی کے لیے داخلہ لینے تک، استاد شاگرد میں خط کتابت جاری رہی۔

اورینٹل کالج کے زمانے میں استاد سے کسب فیض کے لیے گورنمنٹ کالج بھی جاتے رہے۔ کبھی ان کے کمرے میں تو کبھی اوول گراؤنڈ میں اکتساب کرتے۔ انھی دنوں میں سے ایک دن جی سی کی راہداریوں سے گزرتے ذہن میں اس خیال نے جنم لیا کہ کاش ایسا ہو کہ کبھی یہاں پڑھانے پر مامور ہوں۔ قسمت کی خوبی دیکھیے۔ محمد ضیاء الحق صوفی گورنمنٹ کالج میں شعبۂ عربی کے صدر تھے۔ خورشید رضوی بھی اسی کالج میں شعبۂ عربی کے سربراہ بنے۔ نقش قدم پر چلنا اسی کو کہتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments