دریا – ایک گرین زون کہانی



(1)

ایک صبح جب آئینہ دیکھا تو میں حیران و ششدر رہ گیا۔ مجھے اپنے چہرے میں بہت سی تبدیلیاں نظر آئیں۔ وہ تبدیلیاں اتنی معمولی تھیں کہ اوروں کو نظر نہ آئی تھیں۔ لیکن اتنی معمولی بھی نہ تھیں کہ میں انہیں نطر انداز کر سکتا۔ میری آنکھوں کی چمک کم ہو گئی تھی اور میرے دل کے شکوک و شبہات بڑھ گئے تھے۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ ایک ذہنی طوفان اور جذباتی بحران کی آمد آمد ہے۔ میں ایک پھسلتی ڈھلوان پر کھڑا ہوں اور اگر ایک دفعہ پھسلنا شروع ہو گیا تو میں اسے روک نہ سکوں گا۔ گہری کھائی میں گرتا چلا جاؤں گا۔ میں اس عمل سے بخوبی واقف تھا کیونکہ میری زندگی میں ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا تھا۔

(2)

دھیرے دھیرے میں نے اپنی خود اعتمادی کھونا شروع کر دی۔ میرے دل کا سورج نا امیدی کے بادلوں میں چھپ گیا۔ میرے چاروں طرف تاریکی پھیل گئی۔ میں ذہنی طور پر بے حس اور جذباتی طور پر مفلوج ہو گیا۔ میری زندگی اتنی بے مقصد ہو گئی کہ مجھے زندہ رہنے کا کوئی جواز نظر نہ آتا۔

ایک دن میں نے خودکشی کا فیصلہ کر لیا لیکن یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ خودکشی کیسے کروں۔
کبھی سوچتا نشہ آور گولیاں کھا لوں
کبھی سوچتا کسی پل سے چھلانگ لگا دوں
کبھی سوچتا اپنی کنپٹی پر بندوق رکھ کر چلا دوں

میں سوچتا تو بہت تھا لیکن کچھ کر نہ پاتا تھا۔ میں جذباتی طور پر مفلوج ہو رہا تھا۔ مجھے خدشہ تھا کہ میں اتنا ناکام ہوں کہ خود کشی میں بھی کامیاب نہ ہوں گا۔ ناکام کوشش کے بعد نہ زندوں میں رہوں گا نہ مردوں میں۔ کسی ویل چیئر میں بیٹھا بقیہ زندگی گزار دوں گا۔

میں اتنا مایوس ہوا کہ میرا اپنی ذات سے ، دوستوں سے، مذہب سے اور خدا سے ایمان اٹھ گیا۔ یہی نہیں بلکہ دھیرے دھیرے اپنے خوابوں اور آدرشوں پر بھی یقین نہ رہا۔

میں جو کہ ایک چٹان کی طرح مضبوط اور توانا ہوا کرتا تھا دھیرے دھیرے بھربھری ریت بن کر بکھرنے لگا۔

(3)

ایک شام میں ایک مقامی میخانے میں تنہا اپنے سامنے شراب کا گلاس رکھے خلاؤں میں گھور رہا تھا کہ ایک اجنبی نے کہا:

’تم اپنے غموں کو شراب میں گھول کر پی رہے ہو۔ تم بہت دکھی دکھائی دیتے ہو۔ تم کل میرے ساتھ چلنا میں ، تمہیں دانائی کے جزیرے پر ایک درویش کی کٹیا میں لے جاؤں گا۔‘

’وہاں کون رہتا ہے؟‘ میں متجسس تھا۔
’وہاں ایک دانا جوڑا رہتا ہے، اجنبی نے کہا ’دانا مرد کا نام خضر اور دانا عورت کا نام صوفیہ ہے‘
’اس جوڑے کی خاص بات کیا ہے؟‘ میں نے ایک اور سوال پوچھا۔

’ اس جوڑے نے اس جزیرے پر ایک گرین زون حلقہ بنا رکھا ہے۔ اس حلقے میں جو بھی دکھی لوگ شامل ہوتے ہیں ، وہ دھیرے دھیرے سکھی ہو جاتے ہیں۔‘

مجھے وہ اجنبی ایک ایسا دوست دکھائی دینے لگا جس کے سینے میں ایک ہمدرد دل دھڑکتا ہو۔

اگلے دن میں اس اجنبی کے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر دانائی کے جزیرے پہنچ گیا۔ مجھے دور سے درویش کی کٹیا نظر آئی جو ایک لائٹ ہاؤس کے قریب تھی۔ اس کٹیا میں میری ملاقات مشرق کے دانا مرد خضر اور مغرب کی دانا عورت صوفیہ سے ہوئی۔

میں جب ان کے حلقے میں بیٹھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ دانا مرد اور دانا عورت ینگ یینگ کی طرح تھے۔ ایک اور ایک گیارہ کی طرح تھے۔ اس گرین زون حلقے میں خلوص تھا اپنائیت تھی اور سب سے بڑھ کر شفا تھی۔ ایک ہی ملاقات سے میرے داخلی زخم مندمل ہونے شروع ہو گئے۔

اس حلقے میں ایک موم بتی جلائی جاتی تھی اور صرف وہ شخص بات کر سکتا تھا جس کے ہاتھ میں وہ موم بتی ہو۔ جب ایک شخص بات کرتا تو باقی سب اسے غور سے سنتے۔ میں نے اس حلقے میں پہلی بار گرین زون ییلو زون اور ریڈ زون کے نام سنے۔

میں نے اس دانا مرد خضر سے پوچھا ’یہ گرین زون کیا ہے؟‘

خضر مسکرایا اور کہنے لگا ’ہم سب کے دلوں میں ایک مرکز ہے۔ پر سکون مرکز۔ وہی ہمارا گرین زون ہے۔ جب ہم اپنے مرکز سے جڑے ہوتے ہیں تو ہم اپنی محبت، اپنے خلوص ، اپنے امن اور اپنی دانائی سے جڑ جاتے ہیں۔

جب ہم اپنے مرکز سے دور ہٹنے لگتے ہیں تو ہم اپنے ییلو زون میں چلے جاتے ہیں ہم فکرمند ہو جاتے ہیں ، پریشان ہو جاتے ہیں، غمگین ہو جاتے ہیں

اور جب ہم اپنے مرکز سے رشتہ توڑ دیتے ہیں تو ہم اپنے ریڈ زون تک پہنچ جاتے ہیں ، ہم غصیلے ہو جاتے ہیں، خوفزدہ ہو جاتے ہیں ، آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔

اس گرین زون حلقے میں سب ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کہ وہ دوبارہ اپنے مرکز اور اپنے گرین زون سے جڑ جائیں۔ ہم تمہیں اپنے گرین زون حلقے میں خوش آمدید کہتے ہیں۔

اس دن اس دانا عورت صوفیہ نے جب میری کہانی ، میری بپتا،  میری آپ بیتی سنی تو مسکرائی اور کہنے لگی: ’ساری عمر تم روایتی زندگی کی سیڑھیاں چڑھتے رہے ہو۔ اس سیڑھی پر چڑھنے والوں کا خواب

ایک گھر۔
ایک بیوی،
ایک کشتی،
اور ایک کار ہوتا ہے

اور جب تم سب سے اوپر والی سیڑھی پر پہنچے تو تمہیں احساس ہوا کہ تم ساری عمر غلط سیڑھی پر چڑھتے رہے ہو۔ ’

’تو آپ کا مجھے کیا مشورہ ہے؟‘ میں نے اس دانا عورت سے پوچھا

’میں مشورے نہیں دیتی۔ میں لوگوں کی مدد کرتی ہوں کہ انہیں احساس ہو کہ ان کی شخصیت اور کردار ان کی دولت اور شہرت سے زیادہ اہم ہے۔ ہم میں سے ہر انسان فطرت کا ایک تحفہ لے کر پیدا ہوتا ہے اور اس تحفے کو جاننا اور اس تحفے کو دوسروں میں بانٹنا ایک خوشحال اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے اہم ہے۔ ہمیں اپنی ذات کو پسند کرنا چاہیے۔ ہمیں خود پر فخر کرنا چاہیے۔ جن لوگوں کے دلوں میں سوراخ ہے وہ نہیں جانتے کہ دکھی دل کا سوراخ چیزوں سے نہیں بھرا جا سکتا۔ ایک چھلنی میں کتنا ہی پانی ڈالتے جائیں اس کی پیاس نہیں بجھتی۔‘

اس ملاقات کے بعد میں ہر ہفتے دانائی کے جزیرے پر درویش کی کٹیا میں دانا مرد خضر اور دانا عورت صوفیہ سے ملنے جاتا۔ ان کے گرین زون حلقے میں بیٹھتا۔ لوگوں کی کہانیاں سنتا اور بہت کچھ سیکھتا۔ ایسا کرنے سے میرے زخم بھرنے لگے۔ مجھے سکون ملنے لگا۔ مجھے آشتی اور اطمینان ملنے لگے۔ میرا دکھی دل سکھی ہونے لگا۔

گرین زون حلقے میں جب میں نے اوروں کی کہانیاں سنیں تو مجھے احساس ہوا کہ ہم سب اپنے ہی بدترین دشمن ہیں لیکن کسی ہمدرد مسیحا کی نفسیاتی مدد سے ہم اپنے بہترین دوست بن سکتے ہیں۔ ہم روایت کی شاہراہ کو چھوڑ کر اپنے من کی پگڈنڈی پر چل سکتے ہیں۔

(4)
ایک دن میں نے خضر سے پوچھا کہ دو انسانوں کے درمیان پرسکون گرین زون مکالمہ کب ہوتا ہے؟

خضر کافی دیر چپ رہا پھر کہنے لگا: ’اکثر اوقات ایسا مکالمہ خاموشی میں ہوتا ہے اور کبھی کبھار جب دو انسان ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوں ، ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں تو گفتگو میں بھی ہو سکتا ہے۔ گرین زون مکالمہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان جان جاتے ہیں کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان اور اتنی ہی حقیقتیں ہیں جتنی آنکھیں۔ جب ہم اختلاف کے باوجود دوسروں کی رائے کا احترام سیکھ جاتے ہیں تو ہم گرین زون مکالمے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘

مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ میں جب بھی خضر اور صوفیہ سے ملتا کچھ نہ کچھ سیکھ کر آتا اور میرے اندر کا سکون کچھ اور بڑھ جاتا۔ میرے لیے یہ ایک کرامت سے کم نہیں تھا لیکن یہ ایک مذہبی نہیں انسانی کرامت تھی جو میرے زخموں پر مرہم رکھ رہی تھی۔

(5)

ایک سہ پہر میں نے صوفیہ سے کہا: میں بہت تکلیف میں ہوں، پریشان ہوں ،درد سے ہوں، صوفیہ کہنے لگی ’تمہیں درد زہ ہو رہا ہے۔ تم جلد اپنی نئی ذات کو جنم دو گے۔ تم ان دیکھی زنجیر توڑ رہے ہے‘

’ان دیکھی زنجیر؟ وہ کون سی زنجیر ہے؟‘ میں نے سوال کیا

’ یہ تمہاری بچپن کی زنجیر ہے جو تمہارے خاندان ، تمہارے معاشرے نے تمہارے ذہن اور تمہارے دل پر ڈال دی تھی۔ اب تم اس سے آزاد ہو رہے ہو۔ جب تم آزاد ہو جاؤ گے تو ہوا میں اڑتے پرندے کی طرح اور پانی میں تیرتی مچھلی کی طرح محسوس کرنے لگو گے۔‘

پھر صوفیہ نے مجھے ایک چڑیا گھر کے ہاتھی کی کہانی سنائی جس کے پاؤں میں مالک نے بچپن میں ایک چھوٹی سی زنجیر ڈال دی تھی کیونکہ وہ بہت شرارتی بچہ تھا۔ وہ ہاتھی ساری عمر اس زنجیر کے ساتھ زندہ رہا کیونکہ اسے یقین تھا کہ وہ اس چھوٹی سی زنجیر کو نہیں توڑ سکتا لیکن پھر ایک دن چڑیا گھر مین آگ لگ گئی اور سب جانور بھاگے۔ اس لمحے وہ ہاتھی بھی بے خیالی میں بھاگا۔ اس کی زنجیر ٹوٹ گئی اور وہ آزاد ہو گیا۔ صوفیہ نے کہا اس ہاتھی کی طرح تم بھی روایت کی ان دیکھی زنجیر توڑ رہے ہو اور آزاد ہو رہے ہو،

میں جب بھی صوفیہ کی باتیں سنتا میں پرسکون محسوس کرتا کیونکہ وہ دانائی کی باتیں کرتی۔

(6)

ایک دن خضر نے مجھ سے کہا: ’اب تم دانائی کے قریب آ رہے ہو اب تم گہری محبت کو محسوس کرنے کے قابل ہو رہے ہو‘ ۔

’یہ گہری محبت کیا ہوتی ہے؟‘ میں نے ایک معصومانہ سوال پوچھا۔

خضر کہنے لگا میں تمہیں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ گاؤں میں جب لوگ ایک کنواں کھودتے ہیں تو انہیں چند فٹ کی گہرائی پر پانی مل جاتا ہے۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ وہ پانی صاف نہیں ہوتا ، اس سے کپڑے تو دھوئے جا سکتے ہیں لیکن وہ پیا نہیں جاتا کیونکہ اس میں بہت سی کثافتیں اور آلائشیں ہوتی ہیں۔ وہ لوگ جب کچھ اور کھودتے ہیں تو انہیں بیس فٹ کی گہرائی پر ایک اور طرح کا پانی ملتا ہے۔ وہ پانی صاف ہوتا ہے ، پاک ہوتا ہے ، وہ پیا بھی جا سکتا ہے کیونکہ وہ کثافتوں اور آلائشوں سے پاک ہوتا ہے۔

کنویں کے پانی کی طرح انسانی دل میں بھی دو طرح کی محبت ہوتی ہے
سطحی محبت۔ جس میں انا بھی ہوتی ہے حسد بھی ، اضطراب بھی ہوتا ہے پریشانی بھی۔

گہری محبت۔ جو بے لوث محبت ہوتی ہے۔ اس میں خلوص بھی ہوتا ہے اور روحانیت بھی۔ سخاوت بھی ہوتی ہے اپنائیت بھی۔

سطحی محبت گھر کے چراغ کی طرح ہوتی ہے جس سے صرف ایک گھر ہی روشن ہوتا ہے۔

گہری محبت چاند کی طرح ہوتی ہے جو سارے جہاں کے لیے ہوتی ہے۔ وہ اپنوں کے لیے بھی ہوتی ہے غیروں کے لیے بھی۔ وہ ساری انسانیت کے لیے ہوتی ہے۔

خضر نے کہا کہ میں اس مقام پر پہنچ رہا ہوں جہاں میرے دکھ میرے سکھ بن جائیں گے۔ جہاں تاریکیوں کی کوکھ سے روشنی جنم لے گی۔

(7)
ایک شام میں نے مرد دانا خضر سے پوچھا
’ انسانی ارتقا کا راز کیا ہے؟‘
خضر نے کہا

’انسانیت صدیوں سے ارتقاء کا سفر طے کر رہی ہے۔ وہ مذہبی دور سے روحانی دور میں اور روحانی دور سے سائنسی دور میں داخل ہو رہی ہے۔‘

’ایک صوفی اور ایک سائنس دان میں کیا فرق ہے؟‘ میں نے طالب علمانہ سوال پوچھا

’صوفی اندر کی آنکھ سے آنکھ سے دیکھتا ہے۔ سائنس دان باہر کی آنکھ سے دیکھتا بھی ہے اور سب کو دکھاتا بھی ہے۔ صوفی جو وجدان سے جانتا ہے سائنس دان اسے منطق سے ثابت کرتا ہے۔ ہر صوفی سائنس دان نہیں ہوتا لیکن ہر سائنس دان پہلے صوفی ہوتا ہے وہ وجدان کی نگاہ سے دیکھتا ہے پھر اسے منطق سے ثابت کرتا ہے تاکہ وہ علم وہ آگہی وہ بصیرت ساری انسانیت کے لیے عام ہو جائے۔‘

’کیا صوفی اور سائنس دان ایک دوسرے کے دشمن ہیں یا دوست؟‘ میں نے ایک اور سوال پوچھا

خضر نے جواب دیا ’وہ سائنس دان اور صوفی دشمن ہیں جو خود غرض ہیں۔ جو سب کام دولت اور شہرت کے لیے کرتے ہیں اور وہ سائنس دان اور صوفی دوست ہیں جو اپنی زندگی انسانیت کے لیے وقف کر دیتے ہیں اور خدمت خلق کو عبادت کی طرح کرتے ہیں۔ ان کے لیے سچ ان کی انا سے زیادہ محترم ہوتا ہے۔ وہ زندگی کے راز جانتے ہیں اور پھر ان رازوں کو عوام و خواص کو تحفے کے طور پر پیش کرتے ہین۔ ایسے دانشور انسانی ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

(8)

جوں جوں وقت گزرتا گیا میرا بینک بیلنس خالی ہوتا گیا لیکن میرا دل بھرتا گیا۔ آخر وہ دن بھی آ گیا جب میرے پاس نہ کھانے کے پیسے تھے نہ گھر کا کرایہ دینے کی رقم۔ میری جیب خالی تھی لیکن پھر بھی میں پرسکون تھا۔ اس رات جب میں سویا تو میں نے ایک خواب دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک جھیل کے کنارے بیٹھا ہوں ، وہ جھیل ایک آئینے کی طرح اتنی شفاف اور پرسکون ہے کہ اس میں چودھویں کے چاند کا دلفریب عکس دکھائی دے رہا ہے۔ میں خواب میں چاند کا عکس دیکھ کر بہت خوش تھا۔

اگلے دن میں نے اپنا خواب خضر اور صوفیہ کو سنایا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ خواب اس بات کی پیشین گوئی کر رہا ہے کہ میں درویش بننے کے لیے تیار ہوں۔

خضر اور صوفیہ نے مجھ سے کہا میں ان کے لیے کام کر سکتا ہوں اور کچھ رقم کما سکتا ہوں۔ اس دن مجھے اس بات پر یقین آیا کہ جب زندگی میں ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو دوسرا پراسرار طریقے سے کھل جاتا ہے۔

مجھے اس دن خضر اور صوفیہ نے بتایا کہ ساری دنیا میں ان کے درویشوں کے ڈیرے ہیں جو مختلف طریقوں سے انسانیت کی خدمت کرتے ہیں تاکہ انسانیت ارتقاء کے اگلے مرحلے کی طرف سفر کر سکے۔

خضر اور صوفیہ نے مجھے بھیجا کہ میں دنیا کے چاروں کونوں میں جاؤں اور مختلف کلچروں اور روایتوں کا دانائی کا ادب جمع کروں اور ایک کتاب مرتب کروں۔

میں نے جو دانائی کی کتاب تیار کی اس میں
ایشیا سے بلھے شاہ اور کبیر داس کا کلام
یورپ سے چارلس ڈارون اور البرٹ آئن سٹائن کے مضامین
اور
امریکہ سے والٹ وٹمین اور چیف سئیٹل کے فرمودات
کے علاوہ ساری دنیا سے اور بھی بہت سے ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کی تخلیقات شامل تھیں۔

میں نے اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کروایا تاکہ ان دانائی کی باتوں سے زیادہ سے زیادہ انسان استفادہ کر سکیں۔

اگلے چند سال میں دنیا میں مختلف ممالک میں گھوما پھرا اور بہت سے عوام و خواص سے ملا۔

مجھے اس سفر کے دوران احساس ہوا کہ انسان ہزاروں سالوں کے ارتقاء کے باوجود ابھی بھی ذہنی طور پر نابالغ ہے۔ اس نے رنگ ، نسل، زبان ، مذہب سے اوپر اٹھ کر انسان دوستی نہیں سیکھی۔ دوسرے انسانوں کے ساتھ محبت پیار آشتی اور امن سے زندہ رہنا نہیں سیکھا۔ اس نے یہ نہیں جانا کہ ہم سب انسان دھرتی ماں کے بچے ہیں اور ہمارے دشمن بھی ہمارے دور کے رشتہ دار ہیں۔ ہم سب انسان دھرتی ماں کی کوکھ سے پیدا ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد اسی کی کوکھ میں سو جاتے ہیں۔

جوں جوں انسانوں نے دانائی کا ادب پڑھا اور ان میں دانائی آئی تو انہوں نے انفرادی طور پر پرسکون زندگی گزارنی اور اجتماعی طور پر دوسروں کے ساتھ مل کر پرامن معاشرہ تعمیر کرنے کی کوشش شروع کر دی۔

وہ آہستہ آہستہ تشدد اور جارحیت کے ریڈ زون سمندر میں پرسکون اور پرامن گرین زون جزیرے بن گئے۔

جب میں دنیا کے اس سفر سے لوٹا تو میری زندگی میں نمایاں تبدیلی آئی۔ میں دولت اور شہرت سے جتنا بے نیاز ہوا وہ خود میرے قریب آ گئے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ دولت ایک سائے کی طرح ہے ، اگر آپ حریص بن کر اس کی طرف جائیں تو وہ دور ہوتی جاتی ہے اور بے نیازی سے آپ اس سے دور ہوں تو وہ خود آپ کے پیچھے آتی ہے۔ پہلے تو میں اس سے کتراتا تھا لیکن پھر میں نے اسے قبول کر لیا۔

(9)

ایک دفعہ جب میں ایک طویل سفر سے لوٹا اور اپنے سفر کی کہانی صوفیہ اور خضر کو سنائی تو انہوں نے مجھ سے کہا:

’جب تم پہلی بار ہمارے پاس آئے تھے تو تم ایک بے چین مادہ پرست انسان تھے اور اب تم ایک پرسکون درویش بن گئے ہو۔‘

میں نے کہا:
’پچھلے چند سالوں میں میں نے جو کچھ کھویا تھا اس سے زیادہ پا لیا ہے۔‘
پھر میں نے خضر اور صوفیہ سے پوچھا کہ انہیں اتنے عرصے کے بعد مجھ میں کیا فرق نظر آتا ہے؟ کہنے لگے:

’اب تم ان چیزوں کے ساتھ جذباتی طور پر جڑے ہوئے نہیں ہو۔ اب تم جان گئے ہو کہ زندگی ایک سمندر کی طرح ہے اور انسانی دل ایک کشتی کی طرح۔ پانی کشتی کے باہر رہے تو کشتی محفوظ ہے پانی کشتی کے اندر آ جائے تو اسے ڈبو سکتی ہے۔ جب تم آئے تھے تو پانی کشتی کے اندر آ گیا تھا ، اب وہ کشتی کے باہر ہے۔ اب اگر تم ان تمام چیزوں کو کھو بھی دو گے تو جذباتی بحران کا شکار نہیں ہو گے‘

جب انہوں نے یہ باتیں کیں تو مجھے اندازہ ہوا کہ میں ایک گرین زون انسان بن گیا ہوں اور میں نے پرسکون زندگی گزارنے کا راز پا لیا ہے۔

(10)
میں نے یہ راز جان لیا کہ
زندگی میں ہر چیز عارضی ہے
چیزیں آتی ہیں
اور چیزیں چلی جاتی ہیں
زندگی ایک دریا کی طرح ہے
جو بہتا رہے تو اچھا ہے

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments