صبا بخاری: پاکستانی شوبز انڈسٹری میں کاسٹنگ کاؤچ کا الزام، ‘مجھے کہا گیا اچھے کردار اور پیسے کے بدلے آپ ہمیں کیا دیں گی؟’


‘مسئلہ یہ ہے کہ تم گڈ گرل (اچھی لڑکی) ہو اور اس فیلڈ میں گڈ گرل نہیں چلتی۔ ہم تمھیں کام اور پیسے کیوں دیں جب یہاں لڑکیاں کام کے لیے سونے کو تیار ہیں۔ مختلف لوگوں کے ان الفاظ نے مجھے اندر سے توڑ دیا۔’

حال ہی میں یہ الفاظ پاکستانی اداکارہ صبا بخاری نے اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر شیئر کیے اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ مختلف لوگوں، مردوں اور ڈائریکٹروں کے ان الفاظ نے انھیں اندر سے توڑ دیا۔

سنہ 2013 سے شوبز سے وابستہ اداکارہ صبا بخاری نے صحافی براق شبیر کو بی بی سی کے لیے دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ انھیں بچپن سے اداکاری کا شوق تھا اور انھوں نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد سے اس فیلڈ سے وابستہ ہوگئیں۔

انھوں نے ڈراموں کے کسی تخلیق کار یا ہدایتکار پر براہ راست کاسٹنگ کاؤچ کے الزامات نہیں لگائے مگر وہ اس بات پر قائم ہیں کہ ان سمیت کئی نوجوان لڑکیوں کو اس قسم کی پیشکش کی گئی ہے اور بعض نے تو یہ ‘غلط قدم اٹھا کر پچھتاوا بھی کیا ہے۔’

شوبز انڈسٹری میں صبا کا سفر کیسے شروع ہوا؟

سنہ 2013 میں وہ کم عمر تھیں اور بڑی مشکل سے انھیں ‘ہم سب امید سے ہیں’ نامی ایک شو میں مزاحیہ کردار نبھانے کا موقع ملا تھا۔

اس کے بعد جب ایک دوسرے پراجیکٹ کے لیے وہ پہلی مرتبہ ایک آڈیشن کے لیے اپنی والدہ کے ساتھ پہنچیں تو انھوں نے دیکھا کہ یہاں تو سب ایک سے بڑھ کر ایک چہرے ہیں۔

‘میں تو ٹھیک طرح گروم بھی نہیں تھی۔۔۔ جیسے شروع میں لوگ گھریلو قسم کے ہوتے ہیں۔’ لیکن چھوٹی عمر کے کردار کی مانگ کی وجہ سے انہی کا انتخاب کر لیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا ہے کہ ان کے لیے شعبے میں کام کرنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ ‘میرے جیسی لڑکی کو تو کام ملنا ہی نہیں تھا لیکن پھر ملا اور میرے لیے سارے پراجیکٹ ایک معجزہ ہیں۔’

وہ سمجھتی تھیں کہ شوبز میں اتنے بڑے ستاروں کے ساتھ کام کرنا بڑی قسمت کی بات ہوتی ہوگی۔ مگر آہستہ آہستہ ان کی نظروں میں یہ ‘چارم’ مانند پڑگیا۔

‘شروع میں ہم سوچتے ہیں کہ پتا نہیں اتنے بڑے ناموں کے ساتھ کام کرنے کا موقع کتنا بڑا ہوگا۔ ہم اپنے ذہن میں انڈیا پہنچے ہوتے ہیں۔ لیکن اندر آ کر بس خیالی پلاؤ رہ جاتا ہے۔ اندر بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اگر آپ کے پاس پیسے یا تعلقات نہیں تو آپ رہنے ہی دیں۔’

لاہور سے تعلق رکھنے والی صبا اب شوبز میں کام کے بدلے جنسی تعلقات کی پیشکش سے تنگ آچکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘جب میں چھوٹی تھی تب مجھے یہ باتیں سننے کو نہیں ملی تھیں۔ پھر میں نے خود کو گروم کیا تاکہ بڑے رول مل سکیں۔

https://www.instagram.com/p/CMeu-n5h8Ga/?utm_source=ig_embed

‘اب اگر ان (کاسٹنگ ٹیم) کے سامنے جاؤ تو ان کی نیت ہی کچھ اور ہو جاتی ہے۔ دل بہت زیادہ ٹوٹ گیا ہے۔’

اپنے کرئیر کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ایک بار ایک پراجیکٹ کے لیے انھوں نے آڈیشن دیا اور ان کی سلیکشن بھی ہو گئی لیکن بعد میں انھیں وہ کردار نہیں دیا گیا۔

‘مجھے رات کے گیارہ بجے کال آئی کہ سوری ہم آپ کو ابھی نہیں رکھ رہے، اگلی بار رکھیں گے۔ میرا بہت دل ٹوٹا۔’

وہ بتاتی ہیں کہ پھر اسی پروڈکشن نے ان کا دوبارہ آڈیشن لیا۔

‘مجھے رات کو کال آئی کہ آپ کی سلیشکن ہو گئی ہے۔۔۔ ہم آپ کو اچھا کردار دے رہے ہیں، پیسے دے رہے ہیں۔ لیکن اس کے بدلے آپ ہمیں کیا دیں گی؟’

یہاں صبا کا اشارہ کاسٹنگ کاؤچ کی طرف ہے، یعنی فلموں یا ڈراموں میں کام کے بدلے جسمانی استحصال۔ ماضی میں خواتین کے حقوق کی می ٹو موومنٹ کے دوران بھی کچھ پاکستانی فنکاروں نے شوبز میں جنسی ہراسانی کا دعویٰ کیا تھا۔

صبا کہتی ہیں کہ ‘میرے ذہن میں بالکل نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں تو میں نے کہا کہ آپ تھوڑے سے پیسے رکھ لیجیے گا تو انھوں نے ساتھ سونے کی بات کی، میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور میں نے کال کاٹ دی۔’

ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے انھیں سمجھ آ گئی کہ پہلے بھی انھیں اسی وجہ سے نہیں رکھا گیا تھا۔

ایک اور پراجیکٹ کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ اس میں بھی ان کی سلیکشن ہو گئی لیکن کام شروع نہیں ہو سکا۔

‘میں نے انھیں کال کر کے پوچھا کہ کب کام شروع ہو رہا ہے تو انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو جلد بتائیں گے لیکن چند دن بعد مجھے ایک لڑکی کی کال آئی اور اس نے بتایا کہ میری جگہ یہ پراجیکٹ اسے دے دیا گیا ہے۔’

صبا بخاری

‘کچھ سینئر اداکاروں نے بہت ٹف ٹائم دیا’

صبا کہتی ہیں کہ اس انڈسٹری میں اگر آپ کو مشکل سے کام مل بھی جائے تو ساتھ کام کرنے والے سینیئر آرٹسٹس بھی بہت مسئلہ کرتے ہیں۔

‘مجھے ایک پراجیکٹ میں ایک سینئر اداکارہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا لیکن انھوں نے مجھے بہت ٹف ٹائم (مشکل وقت) دیا۔’

‘ایک بار انھوں نے مجھے سامنے بیٹھا دیکھ کر یہ بھی کہا کہ آج کل تو ذرا سا بھی چہرہ ہوتا نہیں اور منھ اٹھا کر آ جاتی ہیں۔’

صبا نے بتایا کہ وہ ایک حساس طبیعت کی مالک ہیں اور ان کے خیال میں آرٹسٹ بھی حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔

‘میں نے ایک بار ایک پراجیکٹ میں ثمینہ پرزادہ سے پوچھا کہ آرٹسٹ لوگوں کے دل تو بہت حساس ہوتے ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ سب ایسے نہیں ہوتے کچھ کے دل پتھر بھی ہوتے ہیں اور جلد ہی مجھے اس بات کو اندازہ بھی ہو گیا۔’

صبا

‘میری پوسٹ پر بہت لوگ حمایت میں آگے آئے’

صبا کا کہنا ہے کہ شوبز کی دنیا کے لوگ ہوس سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘مجھے اداکاری کا خواب نہیں دیکھنا چاہیے تھا لیکن اب میں اس فیلڈ میں آ چکی ہوں۔’

وہ بتاتی ہیں کہ ایک ڈائریکٹر نے انھیں جب یہ کہا کہ اچھی لڑکیاں یہاں پر نہیں چلتیں تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئیں کہ اب آگے کیا ہو گا۔

‘یہ بات کافی عرصہ میرے ذہن میں چلتی رہی اور میں سوچنے لگی کہ میں واقعی یہاں پر نہیں چل سکتی لیکن جب مجھے ‘دل نا امید تو نہیں’ کا پراجیکٹ ملا تو میں توقع نہیں کر رہی تھی کہ ایسا ہو جائے گا۔’

اس کے بعد مجھے لگے لگنا کہ نہیں ایسا ممکن ہے۔

لیکن اب انسٹاگرام پر اپنی پوسٹ کے بعد ان سے کئی لوگوں نے رابطہ کیا ہے اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے۔

‘میں تو حیران ہوگئی ہوں کہ اتنا سپورٹ۔۔۔ مجھے تو سوشل میڈیا پسند بھی نہیں تھا کیونکہ یہاں ایک دوسرے کی برائی کی جاتی ہے۔ لیکن مجھے کافی مثبت ردعمل ملا ہے۔ میں سوچ رہی ہوں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟’

‘مجھے اور بھی لڑکیوں نے بتایا ہے کہ انھیں بھی اس سب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کچھ نے تو غلط قدم بھی اٹھا لیا۔ یہ سن کر بہت افسوس ہوا۔ اب ان لڑکیوں کو پچھتاوا ہے۔ وہ اپنے خوابوں سے پیچھے ہٹ گئی ہیں۔’

صبا نے تاحال شوبز انڈسٹری میں کام جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ انھیں اپنی محنت اور ہنر کے بل پر اچھا کام ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp