ٹلا جوگیاں کا شاعر نصیر کوی اور اس کے اندر کی تپش


21 ستمبر 2011 کے انگریزی روزنامہ ً ڈان ً میں ایک خبر شائع ہوئی۔ 65 سالہ شاعر نصیر کوی لاہور کے محافظ ٹاؤن میں اپنے اک دوست کے گھر بیٹھے شوکت خانم کینسر ہسپتال میں علاج کی خاطر فنڈ کے لئے کسی معجزے کا انتظار کر رہے ہیں۔ بنیادی طور پر پنجابی شاعرنصیر کوی اپنی قسمت پر مطمئن تھا۔ جہلم میں جی ٹی روڈ پر واقع دوست کے ہوٹل کے باہر ایک کھوکھے میں پان سیگریٹ بیچتے ہوئے آمرانہ حکومتوں کے خلاف انقلابی نظمیں لکھتے ہوئے، اس سال فروری میں اس کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی، تو اسے لاہور شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کینسر ہسپتال میں لایا گیا۔

یہاں مختلف ٹیسٹوں کے بعد کوی کو بتایا گیا کہ انھیں پروسٹیٹ کا کینسر ہے۔ دوستوں کی ان کے علاج کے لئے جمع کی گئی دو لاکھ پچاس ہزار روپے کی رقم ابتدائی اخراجات میں ہی ختم ہو گئی تھی۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر مارچ میں پی پی پی کے اس نظریاتی کارکن کی اذیت کو اجاگر کرنے والی ایک دستاویزی فلم نشر ہونے کے بعد کوی کو ایک دن اور دو راتوں کے لئے گورنر ہاؤس لاہور میں مدعو کیا گیا تھا۔ اس وقت کے گورنر لطیف کھوسہ نے کوی کے علاج کے تمام اخراجات برداشت کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ابھی تک ان کے کسی حکم کا انتظار ہی ہے۔ یہ خبر ایک اخباری خبر ہی رہی، نصیر کوی اپنی غربت اور غیرت کی وجہ سے کینسر کے خلاف جنگ جاری نہ سکا، اس کے دو ماہ بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

نصیر کوی نے اکتوبر 1947 میں جہلم کے ایک سفید پوش گھرانے میں آنکھ کھولی۔ جہلم شہر میں دریاء جہلم کی ٹھنڈی ہواؤں اور پر سکون گلیوں میں بچپن گزار کر اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ وہ مالی نا آسودگی کا دور تھا، جس کا شکار ان کا گھرانا بھی تھا۔ خراب معاشی حالات کی ستم ظریفی اور تنگدستی کے ہاتھوں اسے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔ چھوٹا سا شہر ہونے کی وجہ سے میٹرک پاس کو نوکری کیا ملتی، مزدوری ملنی بھی مشکل ہو گئی تھی۔

انہی دنوں تربیلا کے مقام پر بہت بڑے ڈیم کی تعمیر شروع ہو رہی تھی۔ شہر سے کافی لوگ تربیلا ڈیم میں مزدوری کے لئے گئے ہوئے تھے۔ اس نے بھی وہاں جانے کی ٹھانی اور بطور ترکھان وہاں پر نوکری کر لی۔ اپنے جیسے دوسرے بہت سے نوجوانوں کے ساتھ وہ بھی کام میں جتا ہوا تھا، جن کی کمائی سے پیچھے ان کے گھروں کے چولہے جل رہے تھے۔ تربیلا ڈیم مکمل ہوا تو ستر کی دیہائی کے درمیان تیل کی دولت دریافت ہونے پر مڈل ایسٹ میں ہنرمندوں کی بہت ڈیمانڈ ہو گئی تھی، نصیر کو بھی سعودی عرب میں نوکری مل گئی۔ سعودی عرب میں چار پانچ سال کی سخت محنت کے بعد وہ اپنے وطن واپس لوٹا۔ وطن واپس کے بعد اس نے اپنی محنت سے پس انداز کیے ہوئے تھوڑے سے سرمائے سے جہلم شہر میں میں ایک مناسب سا ہوٹل کھول لیا۔ زندگی ایک ڈگر پر چل نکلی۔

اسے روزی کمانے کا ایک مستقل ٹھکانہ مل گیا تھا۔ ابتدا میں اس کا کام چل نکلا تو زندگی کے معمولات میں کچھ بہتری آ گئی۔ انہی دنوں نصیر سیاست میں متحرک ہوا، اس وقت ایم آر ڈی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ اب اس کا ہوٹل ایک سیاسی کارکن کا ہوٹل بن گیا تھا، ظاہر ہے اس میں سیاسی کارکن ہی زیادہ آ کر بیٹھتے تھے جو سارا دن ایک چائے کی پیالی پر گزار دیتے تھے۔ دیکھتے دیکھتے اس کا ہوٹل پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔

اس میں کارکنوں کے اجلاس ہونے لگے تو ہوٹل پر چھاپے پڑنے شروع ہو گئے۔ ایک چھاپے کے بعد ہوٹل سیل ہو گیا اور نصیر کو بھی زیر زمین جانا پڑا۔ مستقل کمائی کا ذریعہ ختم ہوا تو مالی مشکلات شروع ہو گئیں۔ زیر زمین رہنے پر کچھ عرصہ پس انداز کی گئی رقم پر گزارہ ہوا لیکن آخرکب تک۔ اس کے بعد وہ کبھی مالی طور پر سنبھل نہیں سکا۔ دوبارہ کاروبار سیٹ کرنے میں اور اسی طرح کے چھوٹے موٹے کاروبار کرتے کرتے وہ اپنی ساری جمع پونجی ختم کر بیٹھا تو اس نے جی ٹی روڈ پر اپنے ایک دوست کے ہوٹل کے باہر ٹھنڈی بوتلوں اور سگریٹ کا ایک کھوکھا لگا لیا۔ جوان بیٹا بیروزگار تھا لیکن اس کی نوکری کے لئے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اس کو کب گوارا تھا۔ اور سیاسی جماعتیں اپنے ایسے کارکنوں کا کب خیال کرتی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے ساتھ چار دہائی وابستگی کے طویل عرصہ کے دوران شاعر نے بھٹو کے نظریے سے وابستگی کے اعتراف کے سوا کبھی کسی انعام کی توقع نہیں کی۔ حبیب جالب کی طرح وہ بھی ایک روایتی باغی تھا۔ وہ بھی غریبوں اور عوام کے استعسال کا پرجوش نقاد تھا۔ اس کی کہانی ایک عام آدمی کی کہانی ہے جس نے غربت اور غاصبوں کے خلاف اپنے آخری ایام تک نظمیں لکھیں۔ وہ طبقاتی معاشرے کے لئے لڑنے کے اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا اور نہ ہی ڈگمگایا۔ کینسر جیسے موذی مرض نے اندر ہی اندر اس کو کھا لیا تھا۔ جس کے لکھے ہوئے ایک ترانے ً یہ بازی جان کی بازی ہے اور تم یہ بازی ہارو گے ٭ ہر گھر سے بھٹونکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے ً نے پیپلز پارٹی میں نئی جان ڈال دی تھی، وہ آخرکارکینسر سے ہار گیا اور ایک گم نام بیچارگی کی موت مر گیا۔

عرفان جاوید اپنی کتاب ً دروازے ً میں ان کے متعلق لکھتے ہیں۔ ً اس کے سادہ حلیے اور کھوکھے کو دیکھ کر گما ن بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اس جسم کے اندر قومی جذبے دہکتے اور آنکھوں کے پیچھے خواب مچلتے ہیں۔ اس کے منہ سے نکلنے والے اشعار مجمع میں آگ لگا دیتے ہیں اور اسے تنویمی کیفیت میں لے آتے ہیں۔ شاعر سے اپنی ایک ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ جہلم کے اندر نیم شہری، نیم قصباتی، خاموشی اور سکون میں سستاتی ایک تنگ گلی میں پھول کی بیلوں سے ڈھکا چھوٹا سا مکان شاعر اور اس کے اہل خانہ کی خوش ذوق ی کا آئینہ دار تھا۔

صاف ستھرے صوفے پر بیٹھا وہ شخص جس کی شاعری جلسوں میں پڑھ کر سیاسی راہنما اقتدار کی غلام گردشوں سے گزر کر مسند تک پہنچتے تھے مجھے بہت تنہا محسوس ہوا۔ ایک بے دوا لاچارگی تھی۔ حسرت تھی یا نا امیدی جو اس شاعر کے اندر سرایت کر گئی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ کیا کھوکھے پر ٹھنڈی بوتلیں بیچنے والے شخص کی سیاسی اور سماجی فہم و فراست اہم دانشوروں سے بڑھ کر ہو سکتی ہے۔ ان کی شخصیت میں اضطراب، دھیمی گفتگو کے دوران پہلو بدلنا، خاموش ہو جانا، موضوع سے ہٹ کر کوئی اور بات شروع کر دینا، جذباتی ہو جانا اور متلون مزاجی شاعر کی شخصیت کے لازمی اجزا تھے۔ ً

نصیر کا اپنا یہ کہنا تھا کہ ان کی عادت رہی ہے کہ انہوں نے جو بھی کام کیا ہے پوری نیک نیتی اور خلوص سے کیا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر مزدور، ترکھان اور روغن گر میں ایک فنکار چھپا ہوتا ہے۔ شاعر اپنے فن کا اظہار شعر سے کرتا ہے تو ترکھان لکڑی کے ایک ٹکڑے میں۔ نصیرکوی نے اپنی نظموں اور غزلوں میں جو استعارے اور تشبہیات استعمال کی ہیں وہ اپنے گردو پیش اور اپنی پنجابی روایات سے لئے گئے ہیں۔

نصیر کوی کی زندگی کا بہت سارا حصہ بہت عسرت میں گزرا۔ ان کی ساری زندگی ایک جہد مسلسل میں گزری۔ سیاسی وابستگی کی وجہ سے ان پر بہت کڑا وقت بھی آیا جس وجہ سے ان کا روزگار ختم ہو گیا۔ پارٹی کی بے توجہی بھی ان پر بہت گراں گزری۔ زندگی کی ان کٹھنائیوں کا ان کے اشعار میں بھی اظہار ہوتا ہے۔ ان کازیادہ تر کلام انقلابی نظموں اور بہت ہی اداس غزلوں پر مشتمل ہے۔

بکھ وچ پردہ داری کاہدی ٭ چادر چار دیواری کاہدی۔
زویں اسمان دا میل بھلیکھا ٭ چن چکور دی یاری کاہدی
میرے گھر دیاں کندھاں وی نہیں ٭ بوہا کاہدا، باری کاہدی
دل والے جے دار تھیں ڈردے ٭ ہوندی فیر دلداری کاہدی

(جب بھوک لگی ہو تو پھر کوئی پردہ نہیں رہتا۔ چادر اور چاردیواری کا کہاں خیال رہتا ہے۔ بھو ک سب کچھ کرا لیتی ہے۔ زمین اور آسمان کبھی آپس میں نہیں مل سکتے۔ زمین آسمان کا ملاپ ایک بھول ہے اسی طرح چاند اور چکور کی دوستی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ چکور جتنی بھی کوشش کر لے وہ چاند تک نہیں پہنچ سکتی۔ میرے تو گھر کی دیواریں بھی نہیں ہیں۔ دروازوں اور کھڑکیوں کی کیا بات کریں۔ اگر دل میں محبت کا جذبہ رکھنے والے پیار میں دار ( پھانسی) پر چڑھنے سے ڈر جائیں تو پھر دلداری کس بات کی۔ )

اپنی اس غزل میں وہ اپنے رب کے سامنے اپنا حال رکھ کررب سے کہتے ہیں کہ میں بہت ہی حقیر سا انسان ہوں میں مقابلہ نہیں کر سکتا آپ ہی میرا خیال کریں۔

مہینوں ساری دنیا چھڈ گئی ٭ دکھ نہیں مینوں چھوڑدے ربا
گل کیہ کرئیے گل نہیں سندے ٭ گل سن کدے نہ موڑدے ربا۔
بندیاں اگے جھکنا پیندا ٭ نہ توں اینی تھوڑ دے ربا۔
چڑیاں وانگر عمر وہائی ٭ تیلا تیلا جوڑدے ربا۔
اپنے کوجھ نوں دور نہیں کردے ٭۔ شیشے رہندے توڑ دے ربا۔
ساڈے نال نہ آڈھا لا توں ٭ اسیں نہیں تیری جوڑ دے ربا۔

( ساری دنیا نے مجھے چھوڑ دیا ہے تو اے میرے رب دکھ میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ تے۔ لوگوں کی کیا بات کریں وہ جو کبھی میری کوئی بھی بات ٹالتے نہیں تھے وہ اب میری کوئی بات نہیں سنتے میرے رب۔ اے میرے رب مجھے اتنا زیادہ مجبور نہ کرنا کہ مجھے لوگوں کے سامنے جھکنا پڑے۔ میں نے بڑی مشکل زندگی گزاری ہے چڑیوں کی طرح تنکا تنکا جوڑ کر ایک آشیاں بنایا ہے۔ اس کو بچا کر رکھنا میرے رب۔ لوگ اپنا آپ درست نہیں کرتے ان کو آئینے میں جب اپنی بدصورتی نظر آتی ہے تو وہ شیشے کو توڑ دیتے ہیں۔ اپنے رب سے وہ درخواست کرتے ہیں اے میرے رب میرے ساتھ آپ کیوں ناراض ہوتے ہیں میں تو ایک لاچار سا بندہ ہوں میرا اور آپ کا کیا جوڑ ہے۔ )

ساڈی مٹی گئی اسمان تے ٭ سانوں چکیا وا ورولیاں۔
نہیں لال گواچے لبدے ٭ ہنجواں د ے موتی پھرولیاں۔
کیہ حال غریباں پچھنا ایں ٭ تک بھٹھی بھجھدے چھولیاں

( جب بگھولے آتے ہیں تو ہوا گرم ہو کر اوپر آسمان کی طرف اٹھتی ہے تو وہ اپنے ساتھ نیچے سے مٹی اور درختوں کے پتے بھی ساتھ لے اڑتی ہے اسی کیفیت کو وہ بیان کرتے ہیں کہ ہماری مٹی آسمان تک جا پہنچی ہے ہمیں توبگھولوں نے اٹھا لیا ہے۔ وہ اپنے حالات کو ان سے تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو موتی ایک دفعہ گم ہو جائیں تو رونے دھونے سے وہ واپس مل نہیں سکتے۔ اگر ہم اس کی گہرائی میں جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چا ہیے۔ اگر ایک دفعہ آپ کچھ غلط کر لیں تو پھر جتنا مرضی ہے آپ رو لیں وہ واپس نہیں ہو گا۔ ہم غریبوں کا حال آپ کیا پوچھتے ہیں ہمار حال تو گرم بھٹھی میں بھنتے ہوئے چنوں کی طرح ہے۔ اس غزل میں انہوں نے جو تشبہات اور استعارے استعمال کیے ہیں وہ سب ہمارے آس پاس میں ہونے والے واقعات میں سے ہیں۔

والاں د ا رنگ پھکا ہویا ٭ سونا جثہ سکا ہویا
بچے جس دن دے وڈے ہوئے ٭ اس دن دا میں نکا ہویا
نہ میں پیر دی جھانجھر بنیا ٭ نہ متھے دا ٹکا ہویا
میں سدھراں دی سولی چڑھیا ٭ میرے نال تے دھکا ہویا۔

(میرے بالوں کا رنگ پھیکا پڑ چکا ہے۔ سونے جیسا میرا بدن اب تانبے کی طرح ہو گیا ہے۔ جس دن سے میرے بچے بڑے ہوئے ہیں، میں بہت ہی چھوٹا ہو گیا ہوں۔ نہ تو میں ماتھے کا جھومر بن سکا اور نہ ہی میں پیروں کی پازیب بن سکا۔ میں اپنی خواہشات کی سولی پر لٹکا ہوا ہوں میرے ساتھ دھوکہ ہو گیا ہے ’)

اسیں تے ساں کمزور نی مائے ٭ لے گئے سینہ زور نی مائے۔
پتلی وانگ نچاندے رہندے ٭ جہناں دے ہتھ ڈور نی مائے
مکیا نہیں تھلاں د ا پینڈا ٭ تپدی رہندی گور نی مائے۔
نہ گھر بنیاں کیچ اساں دا ٭ نہ بنیاں بھنبھور نی مائے۔

(میری ماں ہم تو بہت کمزور سے بندے تھے۔ ہمیں ہمیشہ طاقتوروں نے مارا ہے۔ جن کے ہاتھوں میں ہماری ڈور ہے وہ پتلی کی طرح ہمیں نچاتے رہتے ہیں۔ ابھی تک ہمارا سفر ختم نہیں ہوا ہر وقت ہمار ی قبر تپتی رہتی ہے۔ سسی کا نہ تو کیچ میں گھر بن سکا اور نہ ہی اس کا گھر بھنبمور میں بن سکا۔ وہ اپنی زندگی کے دکھوں کو بیان کرتے ہیں کہ ہم غریب اور بے آسرا لوگ ہیں ہمیں طاقتور مارتے ہیں اپنی مرضی سے چلاتے ہیں ہمارا کہیں بھی کوئی گھر نہیں ہے۔ )

وہ پیپلز پارٹی کے جیالے تھے۔ انہوں نے اس وقت اس پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی جب سب بڑے اس کوچھوڑ کر جا رہے تھے۔ 1977 کے مارشل لاء کے بعد بڑے بڑے لیڈر۔ وزیر اور مشیر روپوش ہو گئے تھے۔ بہت سوں نے پارٹی چھوڑ دی تھی اور بہت سارے اس وقت اندھیروں میں گم ہو گئے تھے۔ لیکن نصیر کوی جیسے جیالوں نے اس وقت میدان نہیں چھوڑا۔ اپنے آپ کو آگیں لگائیں، خودکشیاں کیں۔ مارشل میں گرفتاریاں دیں، جیلیں کاٹیں اور کوڑے بھی کھائے۔

وہ ایک انقلابی کارکن تھے اور بڑی ولولہ انگیز نظمیں اور گیت لکھتے تھے۔ پنجابی میں لکھی ہوئی ان کی یہ نظم بھی ان اور ان جیسے ہزاروں کارکنوں کے ولولوں اور جذبات کی ترجمانی کرتی ہے لیکن صد افسوس کہ پارٹیاں جب برسر اقتدار آتی ہیں تو وہ اپنے اصل اور نظریاتی کارکنوں کو بھلا دیتی ہیں بلکہ ان کے گرد مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ اکٹھاہو جاتا ہے اور نصیر کوی جیسے نظریاتی لوگ پیچھے ہ جاتے ہیں۔

اسیں سولی چڑھدے ڈولے نہیں ٭ اسیں سی نہیں کیتی بولے نہیں۔
اسیں ٹکٹکیاں تے چڑدھے رہے ٭ اسیں اپنی گل تے اڑے رہے۔
اسیں کوڑے کھادے شاناں نال ٭ اسیں جیلاں کٹیاں آناں نال۔
ظلماں نو ں ہس کے سہندے رہے۔ ٭ غاصب نوں غاصب کہندے رہے۔
اساں ہیراں دل چوں کڈھیاں نہیں ٭ اساں منگاں کدے وی چھڈیاں نہیں

اسیں شاہ حسین تے بلھے ہاں ٭ اسیں ساندل بار دے دلھے ہاں ٭ ناگاں نال منجھیاں بن لیندے ٭ سولاں دیاں سیجاں چن لیندے۔

( ہم ہنسی خوشی دار پر چڑھ جاتے ہیں کبھی ہمارا قدم ڈولتا نہیں ہے۔ دار پر چڑھتے ہم کوئی بات نہیں کرتے اور نہ ہی شور مچاتے ہیں۔ مارشل لاء میں اپنی بات منوانے کے لئے ہمیں جیلوں میں ٹکٹکیوں پر چڑھایا جاتا رہا لیکن ہم اپنی بات پر ہمیشہ ڈٹے رہے۔ ہم نے بڑی شان سے کوڑے کھائے اور بڑی آن سے جیلیں کاٹیں لیکن پھر بھی ڈگمگائے نہیں۔ ہم نے ہر ظلم ہنس کر سہہ لیا لیکن حق سچ کی آواز نہیں چھوڑی۔ غاصب کو ہمیشہ غاصب ہی کہا۔

ہر ظلم و ستم سہہ کر بھی ہم نے ہیر کا پیار اپنے دل سے نہیں نکالا۔ ہمارے دلوں میں آج بھی ہیروں کے لئے محبت ہے ہمارے دل پیار محبت سے اب بھی بھرے ہوئے ہیں۔ ہم اپنی مانگ کبھی نہیں چھوڑتے۔ اسے ہر حال میں ضرور بیاہتے ہیں۔ ہم پنجاب کے واسی ہیں، شاہ حسین اور حضرت بابا بلھے شاہ کے پیروکار ہیں۔ ہم ساندل بار کے دلا بھٹی کو ماننے والے ہیں جس نے اکبر بادشاہ سے ٹکر لے لی تھی۔ ہم وہ ہیں جو سانپوں سے ڈرتے نہیں ہیں بلکہ ان کو رسیاں سمجھ کر ان سے اپنی چارپائیاں بنتے ہیں۔ ہم ہمیشہ ثابت قدم رہتے ہیں اور خوشیوں کو چھوڑ کر دکھ کی سیج پسند کر لیتے ہیں )

اردو کی چند ایک غزلیں اور نظموں کو چھوڑ کر آپ کا سارا کلام پنجابی میں ہے۔ اپنی ماں بولی پنجابی کو بہت پسند کرتے ہوئے اس کی شان میں ایک لمبی نظم لکھی ہے اس کے چند اشعار جو مجھے بہت پسند آئے۔ پنجابی زبان کی یہ بدقسمتی ہے کہ پنجاب میں بسنے والے بھی اب اس زبان کو بولنا چھوڑتے جا رہے ہیں۔

گنج شکر نے لوکاں دے نال جہیڑی بولی بولی ٭ نانک ہوراں اشلوکاں وچ اوہدی شکر گھولی
بھر بھر پئیو پیالے ایہہ امرت نہ ڈھولھو ٭ مان بولی وچ لکھو پڑھو تے ماں بولی وچ بولو

( حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کو پنجابی شاعری کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے اس زبان کو اپنایا اور اپنے لوگوں سے، اپنے ماننے والوں سے جس زبان میں بات کی وہ پنجابی ہی تھی۔ سکھوں کے بانی بابا گورو نانک نے بھی اس زبان کی شرینی اپنے گرنتھ صاحب میں شامل کیا۔ بابا فرید گنج شکر کے ایک سو تیس اشعاربابا گرو نانک نے اپنی کتاب میں شامل کیے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک امرت ہے اس کے پیالے بھر بھر کر پیو اس کو گراؤ نہیں۔ اپنی ماں بولی پنجابی میں لکھو پڑھو اور گھروں میں یہ زبان بولو۔ )

پنجاب پانچ دریاؤں کی سرزمین ہے۔ جس میں دریاء جہلم ہزاروں سال سے بہہ رہا ہے۔ اسی دریا کے کنارے پر جہلم شہر آباد ہے۔ دریا کی طرح یہ شہر بھی بہت قدیم ہے۔ یہی شہر نصیر کوی کا بھی مسکن تھا۔ کسی زمانے میں یہ دریا اپنی پوری آب و تاب سے بہتا تھا۔ گرمیوں میں جب برفیں پگھلنا شروع ہوتی تھیں تو دریا میں پانی کی روانی اور تیز ہوجاتی تھی پھر برسات کے موسم میں اس میں کانگیں بھی آتی تھیں۔ لیکن تقسیم کے بعد دریا پر ڈیم بننے کی وجہ سے پانی کا بہاؤ بہت ہی کم ہو گیا۔ اسی بات کا رونا روتے ہوئے نصیر کوی دریا سے شکوہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی اس نظم کا عنوان ہے جہلم میرا دل دریا۔

جہلم تیرے پانیاں اندر پہلے جہیاں گلاں کتھے ٭ ریتاں دے وچ بیڑے پھسدے گھمن گھیر تے چھلاں کتھے
منت دے مچھوئے وچ دیوے بال کے کتھے چھوڑاں گا میں ٭ پاک کلام دے پاٹے ورقے کتھے جا کے روڑاں گا میں
سینہ چیر وکھاواں کس نوں کراں میں دل دیاں گلاں کتھے ٭ جہلم تیرے پانیاں اندر پہلے جہیاں گلاں کتھے

(جہلم دریا تیرے پانیوں میں اب پہلے والی بات نہیں رہی۔ پتہ نہیں اب وہ پانی کا بہاو کہاں گیا وہ گہرایاں کہاں گئیں۔ چھلاں اور گھمن گھیریاں کہاں رخصت ہو گئیں۔ تیرا پانی کم ہونے کی وجہ سے اب تو کشتیاں ریت میں پھنسنا شروع ہو گئی ہیں۔ اب ہم مانی گئی منت کی کشتیوں میں چراغ جلاکر کہاں پانی میں رکھیں گے۔ اب قرآن مجید کے پھٹے ہوئے ورق اکٹھے کر کے کس پانی کے سپرد کریں گے کیونکہ تم تو پانی سے خالی ہو گئے ہو۔ پہلے میں اپنے دل کی باتیں تمہارے کنارے پر بیٹھ کر تمہارے پانی سے کرتا تھا لیکن اب میں اپنے دل کی باتیں کس سے کروں گا اور اپنا سینے میں چھپی باتیں کس کے سامنے کروں گا۔ کیونکہ اے میرے دل اے میرے دریاء جہلم اب تم میں وہ پہلے جیسی بات نہیں رہی۔

بری نظامی پنجابی کے ایک بہت بہترین شاعر تھے جن کی لکھی ہوئی غزلیں اور گیت گا کر نصرت فتح علی خان نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا لیکن وہ بیچارہ شاعر نصیر کوی کی طرح گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو کرعسرت کی زندگی گزار کر اس جہاں سے رخصت ہو گیا۔ ان کی ایک مشہورغزل ہے۔

دل مر جانے نوں کی ہویا سجناں ٭ کدے وی نی اج جناں رویا سجناں
عشق ہوراں جدے ول پایاں چاتیاں ٭ پیار جنھیں کیتا اہو ہی رویا سجناں
شکر دوپہریں بری شاماں پے گیاں ٭ ظلفاں نے مکھ جاں لکویا سجناں
اسی زمین میں انہوں نے بھی ایک غزل لکھی جس کا نام انہوں نے رکھا۔ بری نظامی دی ویل
درداں دا راگ جد چھوہیا سجناں ٭ دل والا کوٹھا بڑا چوہیا سجناں
کنوں کنوں دتی چناں زندگی دی چاننی ٭ موت دے ہنیرے کہیڑا مویا سجناں
زندگی توں لینیاں نیں پوریاں مجوریاں ٭ زندگی دا بھار بڑا ڈھویا سجناں

( جب بھی میں نے درد کا راگ گانا شروع کیا تو دل سے آنسوؤں کی بارش شروع ہو گئی۔ اے چاند تم نے کس کس کو اپنی زندگی کی روشنی دی اور موت کے اندھیرے میں کون مر ا۔ کس کی زندگی ختم ہو گئی۔ ہم نے زندگی سے اپنی ساری مزدوریاں لینی ہیں کیونکہ ہم نے زندگی کا بہت سا وزن اٹھایا ہوا ہے۔ ’

امرتا پریتم گوجرانوالہ میں جنم لینے والی ایک بہترین پنجابی شاعرہ اور ادیب تھیں۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد دونوں طرف کے عوام کے قتل عام کے پس منظر میں لکھی گئی ان کی مشہور زمانہ نظم ً اج آکھاں وارث شاہ نوں درد میں ڈوبا ہوا ایک ایسا شہکار ہے جو پنجابی ادب میں ان کی ایک پہچان بن گیا۔ ان قتل اور اغوا ہونے والی عورتوں کا نوحہ لکھنے والی امرتا پریتم کا جب انتقال ہوا تو ان کے انتقال پر ان کی یاد میں نصیر کوی کی لکھی ہوئی ایک نظم جس کا عنوان بھی امرتا پریتم کی یاد وچ ہے۔

توں انکھی دھی پنجاب دی ٭ تیرا پورس جناں قد
توں ساک حسین فقیر دی ٭ شاہ مادھو تیری جد
توں وارث وارث شاہ دی ٭ تیرا آدر حدوں ود
تیرے اندر بلھا بولدا ٭ توں دوئی دتی رد
توں وارث وارث کوکیا ٭ ایتھے بھیڑ پئی سی جد
ہن کون کہے گا وارثا ٭ کتوں قبراں وچوں بول ٭ تے اج کتاب عشق دا ٭ کوئی اگلا ورقہ پھول

( نصیر امرتا کو ایک بہادر لڑکی گردانتے ہیں۔ تم پنجاب کی ایک بہادر بیٹی ہو۔ تمہار قد پورس سے بھی بڑا ہے۔ پورس بھی اسی خطے کا بادشاہ تھا جس نے سکندر کی اطاعت کرنے کی بجائے اس سے جنگ کرنا بہادری سمجھا۔ تم مجھے شاہ حسین کی رشتہ دار لگتی ہو اور مادھو تمہاری اولاد ہے۔ تو سید وارث شاہ کی وارث ہو، تمہاری عزت واحترام کی کوئی حدنہیں۔ تم بلھے شاہ کی آواز ہو۔ تم نے اس وقت وارث کو پکارا تھا جب یہاں پر شورش ہوئی تھی۔ اب وارث شاہ کو کون پکار کر کہے گا وارث شاہ اپنی قبر سے اٹھ کر بولو اور اس عشق کی کتاب کا ایک نیا ورق لکھو۔ ایک نئی داستان لکھو۔

اپنے ایک جواں مرگ رشتہ دار کی موت کانوحہ انہوں نے لکھا ہے۔ اس میں اتنا درد ہے کہ ہر پڑھنے والے کی بے اختیار آنکھیں بھر آتی ہے۔ درد میں گندھے الفاظ سے لکھی اس نظم کا عنوان ہے۔ مکدی نہیں مکان۔ ( مکا ن پنجابی میں کسی کی موت پر پرسہ دینے کو کہتے ہیں )

اسیں نوحے لکھ لکھ تھک گئے۔ ساڈی قلم ہوئی ہلکان۔
کسے ماں نے مڑ نہیں جمنا کوئی تیرے جئیا جوان۔
روزی دے گھاٹے دیس وچ۔ جائیے پردیس کمان
ایہہ ظالم موت نہیں رجدی۔ پتراں دی لے لے جان۔
اسیں جنجاں کنویں چاڑئیے۔ ساڈی مکدی نہیں مکان۔

( ہم موت کے نوحے لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں اتنے زیادہ نوحے لکھ کر ہماری قلم بھی ہلکان ہو گئی ہے۔ تمہارے جیسا کڑیل جوان پھر کسی ماں نے دوبارہ جنم نہیں دینا۔ اپنے دیس میں روزی کمانے کے مواقع بہت ہی کم ہیں اس لئے ہمار ے جوان بیرون ممالک میں روزی کی تلاش میں جاتے ہیں۔ یہ موت اتنی ظالم ہے کہ ہمارے بیٹوں کی جان لے لے کر تھکتی نہیں ہے۔ ہم اپنے بچوں کی براتیں کیسے لے کر جائیں ہمیں تو موت کے پرسے دینے سے ہی فرست نہیں ملتی)

جہلم کے لوگ صدیوں پہلے سے بہت بہادر اور جنگجو رہے ہیں۔ پورس نے جہلم کے مقام پر ہی سکندر اعظم کی فوجوں کا مقابلہ کیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ضلع جہلم کے لوگ بہت جری اور دلیر ہیں۔ کیونکہ وہ خود بھی اسی خطہ کے واسی تھے اس لئے انہوں نے اپنے لوگوں کی فطرت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

اسیں ڈنگے وانگ کمان دے ٭ اسیں سدھے وانگر تیر
سانوں خواج خضر دا تھاپڑا ٭ ساڈی کنڈ تے پنج پیر
اک وار دے نال سوار نوں ٭ سنے گھوڑے دیساں چیر
اسیں لوہا موم بناوندے ٭ ساڈ ے ہتھ اگنی دا تاء

( وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ دشمن کے لئے کمان کی طرح ٹیڑے لوگ ہیں لیکن دوستوں کے لئے ہم تیر کی طرح سیدھے ہیں۔ ہمیں خواجہ خضر کی حمایت حال ہیں اور ہماری رکھوالی پانچ پیر کر رہے ہیں۔ ہم تلوار کے ایک ہی وار میں گھوڑے سمیت سوار کو کاٹ دیں گے۔ ہم تو لوہے کو موم بنانے کی طاقت رکھتے ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاتھوں میں آگ سے زیادہ گرمی ہے۔ )

اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ مضامین اور کتابوں سے مدد لی گئی ہے۔

( 1 ) عرفان جاوید کی کتاب ً دروازے ً۔ مضمون ٹلا جوگیاں کا مصلی۔ نصیر کوی۔ ( 2 ) ساڈے ہتھ اگنی دا تاء۔ نصیر کوی ( 3 ) Ailing poet forgotton by the Party۔ 21.09.2011 The Dawn News ( 4 ) ”The News۔ Literati Magazine 19.06.2017۔ Writers and Rebels۔

a


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments