خاکستر بن چکی کتاب کی کہانی


یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرا پہلا شمارہ چھپا۔ ادب سے گہرا لگاؤ رکھنے والے نوجوان طالب علموں، سنجیدہ خواتین اور بوڑھوں نے میرے ساتھ چھپنے والے ہمنواؤں کو ایک ایک کر کے کتاب گھر سے خریدنا شروع کیا۔ کتابوں کی الماری میں بالکل کونے میں الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی خریدنے والا مجھ پر ایک نگاہ بھی نہ ڈالتا اور میرے ساتھیوں کو میرے سامنے پیار سے اٹھاتا اور ان کی قیمت ادا کرنے، ادائیگی والے میز کی طرف بڑھ جاتا۔ میں ہر بار اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دیتی کہ ہر چیز کے آگے آنے اور نمایاں ہونے کا ایک وقت ہوتا ہے اور یقیناً میرا وقت بھی آئے گا۔

ایک روز جب کہ میں اپنے ساتھیوں کے پہلو میں بیٹھی ان کی کہانیاں سن رہی تھی ، میں نے ایک خاتون کو اپنے سامنے سے کئی بار گزرتے دیکھا اور پھر وہ ہماری طرف پلٹیں اور مجھے اپنے دونوں نازک ہاتھوں میں اٹھا لیا۔ اس مہربان لمس کو شاید میں کبھی نہ بھول پاؤں کیونکہ میری زندگی میں واحد یہی پہلا اور آخری ناقابل فراموش مہربان لمس ہے۔

اس خاتون کو میرا سرورق، میرا انتساب اور اچانک کھل جانے والے صفحے پر، اس سطر کا ہر لفظ اچھا لگا جس پر اس کی پہلی بار نظر پڑی۔ میں نے اس سنجیدہ خاتون کو مسکراتے دیکھا تو مجھے عمر میں کئی سال کم دکھتی محسوس ہوئی۔ اس نے مجھ پر لگی قیمت کی رسید پہ نگاہ ڈالی اور مجھے مضبوط ہاتھوں میں تھامے ادائیگی قیمت میز کی طرف لپکی۔ میں نے اپنے بچ جانے والے ساتھیوں پہ الوداعی نگاہ ڈالی اور اپنے مستقبل کے بارے میں پیشین گوئیاں کرنے لگی۔

مجھے آنے والے دن زیادہ روشن، ہوادار، کھلے، چمکتے محسوس ہو رہے تھے۔ ابھی میں اپنی مالکن اور اس کے گھر کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ خاتون نے مجھے کھولا اور بہت پیار سے اس کتاب پہ وہ نام لکھنا شروع کیا جسے میں تحفے میں دیے جانے والی تھی۔ میرا دل ڈوب سا گیا اور اس مہربان خاتون سے بچھڑنے کا خیال مجھے ستانے لگا۔ اس خاتون نے بہت خوبصورتی سے مجھ پہ لگی قیمت کی رسید کو اکھاڑ پھینکا اور اس لمحے مجھے بہت اپنائیت کا احساس ہوا۔ مالکن کے چہرے پہ انوکھی مسکراہٹ دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ تحفے کے طور پہ میں جس کو بھی پیش کی جاؤں گی، اس کا مالکن کی زندگی میں یقیناً خاص مقام ہے۔

مالکن نے اپنے دستخط کیے، تاریخ لکھی، گاڑی اسٹارٹ کی اور مجھے اپنی ساتھ والی نشست پر رکھ دیا۔ اس روز کالی گھٹا چھائی تھی جس میں بہار کے آنے کی نوید اور جاڑے کے جانے کا پیغام تھا۔ میں جذبات سے مغلوب خاموش بیٹھی تھی اور میرا دماغ خیالات کے تسلسل سے بھرا پڑا تھا۔ کسی ایک لمحے میں، میں خود کو ہوا میں اڑتا، جلتا، خاکستر ہوتا محسوس کرتی اور دوسرے ہی لمحے میں ایک اجاڑ کمرے میں پڑی میز پر جمی مٹی کی دبیز تہہ پر خود کو محسوس کرتی اور مجھے اپنا آپ ویران، وحشت زدہ محسوس ہوتا۔ اسی ہذیانی کیفیت سے دو چار ہم ایک کافی شاپ پہنچے جہاں مجھے کسی کی نذر ہونا تھا۔

نیا مالک مجھے بہت بے غرض اور جذبات سے عاری محسوس ہوا۔ کتاب لیتے ہوئے اس کے سخت ہاتھوں کا لمس مجھے اجنبیت کا احساس دلا گیا اور مجھے اس خاتون پہ غصہ آنے لگا جس کی میری زندگی میں کوئی اہمیت نہ تھی اور جو ایک بے قدرے انسان کو مجھے تحفتاً دے رہی تھی۔

کافی کے بعد نیا مالک مجھے بغل میں دبائے کچھ دیر چلا اور مجھے اپنی گاڑی میں پھینک دیا۔ مجھے نہیں معلوم میں کن راہوں پہ جا رہی تھی۔ مجھے اپنا مستقبل ایک اندھیر کوٹھڑی کے سوا کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ اچانک گاڑی رکی اور مالک نے بے دلی سے اٹھا کر مجھے گاڑی کے شیشے سے باہر کوڑادان میں پھینک دیا۔ بہت دیر تک تو میں سنبھل ہی نہ پائی۔ میرا سر ورق، جس پہ مجھے ناز تھا، کیونکہ اس کی وجہ سے ہی میں کسے قاری یا اپنے خریدنے والے کو متوجہ کر سکتی تھی، اب سر ورق نہیں رہا اور میں نے خود کو گمنام محسوس کیا۔

نئے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے میں کافی دیر نیم بے ہوشی کے عالم میں پڑی رہی۔ میری آنکھ اچانک گلے سڑے کھانے کی بو سے کھلی۔ میں نے روشن بوڑھے آسمان کی طرف دیکھا اور دھوپ کی تمازت کا احساس مجھے اپنے ہر پور میں محسوس ہوا۔ میں نے کتاب گھر کی الماری سے کوڑے دان تک کے سفر کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور مجھے احساس ہوا کہ انسانوں کی طرح کچھ بے جان، بے زبان چیزیں بھی کسی بھی انسان، جگہ یا واقعہ میں ساری عمر اپنی کوئی جگہ نہیں بنا پاتیں۔

پھر فلم ”دی آور گلاس سینیٹوریم“ سے یہ خیال ابھرا کہ کچھ چیزیں اس قدر شاندار ہوتی ہیں کہ وہ صرف رونما یا واقع ہونے کی کوشش کر سکتی ہیں مگر کسی بھی واقعے یا حادثے کے پردے پہ پورا نہیں اتر سکتیں۔ یہ خیال میرے بنجر دل کو تسلی دینے کے لیے کافی تھا۔

رہ رہ کے اپنے حال کی ذمہ دار میں اس خاتون کو ٹھہرا رہی تھی جو خود مہربان ہو کر مجھے کسی بے رحم انسان کے حوالے کر گئی۔ اس رات کوڑے دان میں، میں نے اس خاتون کے خواب میں جا کر اس کے چین کو بے آرام کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ میرے بارے میں سوچ کر، مجھ پہ بیتا لکھ سکے۔

اگلی صبح سنہری تھی اور بہت سے بچے میری طرف لپک رہے تھے کہ جیسے انہیں قارون کا خزانہ مل گیا ہو۔ ہر کوئی میرا مالک ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا۔ آخر میں مل بیٹھ کر انہوں نے مجھے پھاڑ کر میرے برابر حصے کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ سب ساتھی خوش ہو سکیں۔ جب مجھے پھاڑا جا رہا تھا، میری آنکھیں نم تھیں مگر میرے جذبات کا اندازہ کسی کو کیوں کر ہو سکتا تھا کیونکہ کوئی بھی کتاب ادھار کی زندگی ہی گزارتی ہے۔

مجھے برابر حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد ، سبھی نے میرے ایک ایک ورق کو پھاڑ کر ہوا میں پھینکنا شروع کر دیا۔ مجھے اڑتا اور جلتا دیکھ کر ان بچوں کے چہروں پہ جو رونق، شگفتگی اور تازگی ابھری اس نے مجھے راکھ والے فرضی پرندے کی طرح مجھے اپنی ہی اڑتی راکھ سے تقویت بخشی۔

میرے آخری لمحے جو بہت سوں کی خوشی کو ابھار رہے تھے مگر مجھے معلوم تھا کہ میری مالکن کو اس مسترد اور خاکستر ہونے والی کتاب کی ہر ممکن متوقع حالت اور مستقبل کے کے بارے میں تمام ممکن فرضی کہانیاں سوچ کر، کسی ایک فرضی کہانی کو الفاظ میں ڈھال کر مجھے میری راکھ سے دوبارہ زندگی فراہم کرنا ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments