بدلے بدلے سے میرے سرکار نظر آتے ہیں


سید یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تقرری کے ساتھ ہی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان جاری رومانس اپنی اختتامی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ اگر دونوں پارٹیوں کی ٹاپ قیادت نے معاملہ فہمی سے کام نہ لیا تو بنی ہوئی بات بگڑ بھی سکتی ہے۔ اور اپوزیشن اتحاد کی ماضی میں کی گئی جدوجہد پر پانی پھرنے کا بھی امکان ہے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے۔ کہ بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال میں نون لیگ اپنے مہروں میں ردو بدل کرے۔

کیوں کہ وہ کھیل سے باہر رہنے کی متحمل ہرگز نہیں ہو سکتی۔ اگر میاں شہباز شریف ضمانت پر رہا ہو کر باہر آ جاتے ہیں۔ تو اس صورت میں وہ پارلیمنٹ کے اندر رہ کر اپنا کردار ادا کرنے کے خواہاں ہوں گے۔ کیوں کہ وہ روز اول سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی سیاست کے مخالف رہے ہیں۔ نون لیگ کا ایک بڑا دھڑا جو پارلیمنٹ چھوڑنے کا مخالف ہے۔ وہ بھی شہباز شریف کا ساتھ دینے کا خواہش مند ہوگا۔ ماضی میں میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کی مرضی اور منشا کے مطابق پارٹی کو چلاتے آئے ہیں۔

اور اب بھی وہ ایسا ہی کرنا چاہیں گے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی موجودہ سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے نون لیگ کے پاس آپشن بہت کم رہ گئے ہیں۔ لہذا امید ہے کہ اب نواز لیگ میاں شہباز شریف کی مفاہمت پر مبنی پالیسی کو اپنا کر مستقبل کی سیاست میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کرے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والوں دنوں میں مریم نواز پس منظر میں چلی جاہیں۔ اور پارٹی کی کمان اپنے چچا اور حمزہ شہباز کے سپرد کر دیں۔ میاں نواز شریف کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

دوسری طرف پیپلز پارٹی کی قیادت ہر حال میں پنجاب میں اپنے قدم جمانا چاہتی ہے۔ بلاول بھٹو نے پچھلے دنوں حمزہ شہباز سے بزدار حکومت کی تبدیلی کے آپشن پر بات کی تھی۔ بعد میں وہ چوہدری برادران سے بھی ملے تھے۔ مگر نواز شریف نے پنجاب حکومت کی تبدیلی کی کوششوں کی حمایت کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ دراصل وہ آصف زرداری کی چال کو بھانپ چکے تھے۔ ایسا صاف دکھائی دے رہا تھا۔ کہ پیپلز پارٹی چوہدرری پرویز الہی کی مدد سے پنجاب کی حد تک نون لیگ کے قلعے میں شگاف ڈالنا چاہتی ہے۔

مبصرین کے مطابق عثمان بزدار کی تخت پنجاب پر موجودگی سے نون لیگ کے پارٹی ٹکٹ کا ریٹ دنوں کے حساب سے بڑھ رہا ہے۔ نون لیگ کے ایک راہنما کے مطابق بزدار نون لیگ کی انشورنس پالیسی ہیں۔ اسی لئے شریف برادران عثمان بزدار کی تبدیلی نہیں چاہتے۔ اس کے علاوہ حمزہ شہباز بھی اس وقت جب کہ پنجاب کی صورت حال بہت خراب ہو چکی ہے۔ اقتدار سنبھالنے سے گریزاں ہیں۔ شریف برادارن کو بخوبی علم ہے کہ ان کے لئے موجودہ حالات میں پرفارم کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوگا۔

جہاں تک پی ڈی ایم کا تعلق ہے۔ 16 مارچ کے سربراہی اجلاس کے بعد اب وہ بیک فٹ پر جا چکی ہے۔ بلندی سے پستی کے سفر کے بعد دوبارہ اس کا اٹھنا اور اپنے اہداف کی طرف بڑھنا ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام بھی حیران اور پریشان ہیں۔ کہ ایسا کیا غلط ہوا کہ پی ڈی ایم ریت کے محل کی طرح دھڑام سے نیچے آگری ہے۔ اصلی جمہوری حکومت کے قیام کا سفر جو بہت نزدیک دکھائی دے رہا تھا۔ اب وہ ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔

سیاسی مبصرین اپوزیشن اتحاد کے برقرار رہنے کی پیشن گوئی تو کر رہے ہیں۔ مگر استعفوں کا ہتھیار استعمال کرنے کے معاملے پر تمام پارٹیوں کا یک زبان ہونا بڑا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

اب جب کہ حمزہ شہباز جیل سے باہر آ چکے ہیں۔ اور ان کے والد میاں شہباز شریف کی رہائی بھی دنوں کی بات لگتی ہے۔ وہ پی ڈی ایم میں شامل رہ کر ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ ملکی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کریں گے۔

بلاول بھٹو اور مریم نواز کے درمیان اپوزیشن لیڈر سینیٹ کے ایک چھوٹے سے معاملے پر لفظی گولہ باری دونوں کی سیاسی امیچورٹی کو ظاہر کرتی ہے۔ سیاست تحمل برداشت، اور بردباری کا کھیل ہے۔ اور اپنے اہداف کے حصول کے لئے چھوٹی موٹی باتوں کو نظرانداز کر کے آگے بڑھا جاتا ہے۔ ماضی میں مریم نواز اور بلاول بھٹو کے درمیان بہترین تعلقات پر مبنی ورکنگ ریلیشن شپ قاہم رہ چکی ہے۔

پیپلز پارٹی نے بھی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر مقرر کر دیا۔ اگر وہ پی ڈی ایم کی قیادت کو اس معاملے پر اعتماد میں لیتی۔ تو نون لیگ کے ساتھ اس کے اختلافات اس نہج تک نہ پہنچتے۔ دلچسپی کی بات مگر یہ ہے کہ گیلانی صاحب پر سلیکٹڈ اپوزیشن لیڈر کا لیبل چسپاں کر دیا گیا ہے۔ کیوں کہ وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین سینیٹ کے ووٹوں سے اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے ہیں۔ جب کہ اس سے پہلے صادق سنجرانی بھی ان کے ہی ووٹوں سے چئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تھے۔

اپوزیشن اتحاد کو درپیش مسائل کی وجہ سے حکومت کو وقتی طور پر قدرے ریلیف تو حاصل ہوا ہے۔ مگر اس کی پرفارمنس کا معیار دن بدن گررہا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے وزیراعظم کافی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی کابینہ سے فراغت اس بات کی غماضی کرتی ہے۔ کہ خان صاحب اب ایک نئی معاشی ٹیم کو میدان میں اتارنا چاہتے ہیں۔ تاکہ مہنگائی کے جن کو قابو کیا جاسکے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حفیظ شیخ جیسے تجربہ کار وزیر خزانہ کی جگہ نوجوان حماد اظہر معیشت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو سنبھال بھی پاہیں گے کہ نہیں۔ اس وقت حکومتی ٹیم میں کوئی دوسرا چہرہ بھی نہیں ہے۔ جو معیشت کو سنبھالا دے سکے۔ حفیظ شیخ سے پہلے اسد عمر بھی خاطرخواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے۔

خبروں کے مطابق بنگلہ دیش اپنے قیام کی گولڈن جوبلی منا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے 23 سال بعد قاہم ہونے والا ملک ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ حکمران طبقے نے کبھی یہ بات سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے۔ کہ پاکستان اب تک ترقی کی منزلیں کیوں نہیں طے کر سکا۔ ہمارے حکمران ہمیشہ اپوزیشن کو رگڑا دینے میں دلچسپی لیتے آئے ہیں۔ عوامی مسائل کو حل کرنا ان کی ترجیح کبھی نہیں رہی۔

چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ایف آئی اے کو شوگر مافیا کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا ٹاسک سونپ دیا گیا ہے۔ لیکن اس بات کے امکانات بہت کم ہیں۔ کہ طاقتور شوگر مافیا کو نکیل ڈالی جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments