کیا اِنسان تعصب سے آزاد ہو سکتا ہے؟


ماہرین نفسیات کی غالب اکثریت کی یہ متفقہ رائے ہے کہ آپ اگر ایک انسانی دماغ کے حامل ہیں تو پھر آپ متعصب ہیں۔ تعصب انسانی دماغ کی ساخت میں موجود ہے۔ تعصب اور انسانی دماغ کا وہی رشتہ ہے جو چکوری کا چاند کے ساتھ ہے۔

انسان جو کائنات میں تخلیق کا شاہکار ہے جب رنگ، نسل، زبان، عقیدہ یا پھر قومیت کے سبب تعصب اور بدظنی کا شکار ہوتا ہے تو پھر وہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک جاتا ہے۔ اس کی عظمت گہنا جاتی ہے۔ اسی تعصب کے سبب ہم اپنے جیسے انسانوں کو کسی نہ کسی بہانے ”وہ ہم میں سے نہیں ہے“ قرار دے کر اپنی نفرت کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

ہم سب بالعموم ان انسانوں کو اپنے حلقے میں شامل کرتے ہیں جن میں اور ہم میں کوئی قدر مشترک ہوتی ہے۔ گورے رنگ والے گوروں میں اٹھنا بیٹھنا پسند کرتے ہیں اور وہ جن کا رنگ گندمی ہے ان کے دوست بھی گندمی رنگت کے حامل ہوتے ہیں۔ دین دار لوگوں کے حلقہ احباب میں دین سے شغف رکھنے والے شامل ہوتے ہیں۔ آزاد خیال لوگوں کی محفل اس وقت جوبن پر ہوتی ہے جب ان جیسے کچھ اور آزاد لوگ اپنے مادر پدر آزاد خیالات کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔

سیاست دان انتخابات میں فتح سے ہمکنار ہونے کے لیے بھی تعصبات کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ کبھی پنجابیوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ ان کی پگڑی کو داغ لگنے والا ہے۔ اس لیے انہیں کسی پنجابی کو وزیراعظم بنا کر پنجابیوں کی پگڑیوں کو داغ سے محفوظ رکھنا ہوگا اور کبھی پختونوں کو ان کا احساس محرومی بار بار یاد کرایا جاتا ہے تاکہ اپنے لیے ایوان اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ہموار کیا جاسکے۔ اردو بولنے والے بے شک ایک طویل مدت سے پاکستانی بن چکے ہو لیکن کوئی سفاک سامری جادوگر اٹھتا ہے اور انہیں یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ وہ تو اس پاک وطن میں مہاجرین ہیں۔ ان کی بقا ان کے ایک ہونے میں ہیں۔

گوروں کے دیس میں کوئی خالی آسامی ہوتو کسی گورے کو گندمی یا کالے رنگ والے پر سبقت دی جاتی ہے۔ ملازمتوں کے اشتہار دیتے وقت یہ تک لکھ دیا جاتا ہے کہ اس آسامی پر صرف ان لوگوں کو بھرتی کیا جائے گا جو کسی مخصوص تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں۔ کچھ آسامیوں پر صرف خواتین کو بھرتی کیا جاتا ہے اور کچھ آسامیاں صرف مردوں کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ یہ انسانی تعصبات ہی کی کارستانی ہے کہ کچھ پیشے مردوں کے نام سے منسوب ہو گئے ہیں اور کچھ پروفیشن خواتین کے لیے موزوں تصور کر لیے گئے ہیں۔

انسان خرد پسندی کے جتنے مرضی دعوے کرے تعصبات کے سانپ اس کی آستین میں سوئے رہتے ہیں۔ انسان کی نظر خوگر پیکر محسوس ہے۔ اسے جو نظر آتا ہے وہ اسے ہی سچ مان بیٹھتا ہے۔ انسانوں کی غالب اکثریت دھوئیں سے آگ تک پہنچنے کا تردد نہیں کرتی ہے۔ انسانی فیصلوں پر کیونکہ جذبات کے آٹے میں گوندھے ہوئے تعصبات کی حکمرانی ہوتی ہے اس لیے انسانوں کے فیصلے چٹ منگنی پٹ بیاہ جیسے ہوتے ہیں۔ میگھن مارکل جب ہیری شہزادے کے اعصاب پر سوار ہوتی ہے تو پھر وہ شاہی خاندان سے جدائی کا احمقانہ فیصلہ کرتا ہے اور بادشاہی ترک کر کے امریکہ جا کر خوشی خوشی ملازمت کا طوق اپنے گلے میں پہن لیتا ہے۔ جذبہ محبت جیسا مثبت ہو یا پھر نفرت جیسا منفی ہو تعصبات کی پنیری لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

اکثریت بھی اقلیت کے خلاف بدگمان رہتی ہے۔ اقلیت کو بیگانگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہجرت کرنے والوں کو گرین کارڈ تو مل جاتا ہے لیکن اپنائیت کبھی نہیں ملتی ہے۔ اقلیت اکثریت کے عتاب سے محفوظ رہنے کے لئے کوشش کرتی رہتی ہے کہ وہ اکثریت کی ہم شکل بن جائے اور ان کے طور طریقے اپنا کر ان کے قہر سے بچ سکے۔ جب تک ہم انسانوں کو تعصبات کی عینک پہن کر دیکھتے رہیں گے تمام انسان ایک نامیاتی کل نہیں بن سکیں گے اور ہم ایک دوسرے کے قریب ہو کر بھی ایک دوسرے سے کوسوں دور رہیں گے۔

انسانوں پر کسی بھی قسم کا لیبل چسپاں کرنا ان کی توہین ہے۔ وہ ہم میں سے نہیں ہے کا سلسلہ کہیں بھی رکتا نہیں ہے تنگئی دل ایک ایسا وائرس ہے جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتا ہے اور پھر انسانوں کو متحارب گروپوں میں تقسیم کر کے ان کی توانائیوں کو کارلا حاصل میں الجھا دیتا ہے۔ ہر قوم میں وہ لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو انسان دوست ہیں اور ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اندھے تعصبات میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔ ہم اگر چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے تعصبات سے رہائی ملے تو پھر ہمیں ایک ہی برش سے اور ایک ہی رنگ سے کسی ایک ہی کینوس پر پوری تصویر بنانے سے پرہیز کرنا ہو گا۔ منصف بن کر انسانوں کو جج کرنا چھوڑنا ہوگا۔ انسانوں کو نیک و بد کے خانوں میں ہمیشہ کے لئے مقید کرنا نادانی ہے۔ چور میں قطب بننے کا امکان موجود رہتا ہے اور قطب بھی شرارتوں کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔

ہم سب میں حسن عمل کا خمیر بھی موجود ہے اور شرانگیزی کا بیج بھی پایا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خود احتسابی کو دوسروں کا احتساب کرنے پر فوقیت دی جائے۔ آج ہمیں من حیث القوم ان لوگوں کی شدید ضرورت ہے جو دھاگوں سے ہمارے تار تار قومی لباس کی رفو گری کر سکیں۔ ہمیں قینچی کی طرح کانٹے والوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالتے ہوئے انہیں بے اثر کرنا ہوگا تاکہ ہمارے آگے بڑھنے کے راستے ہموار ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments