آدرش : صلاح الدین عادل کے ناول ”خوشبو کی ہجرت“ سے ایک اقتباس


(آج اردو کے معروف ادیب، فلسفی اور دانشور شیخ صلاح الدین کی برسی ہے۔ )

دور گھوڑوں کے فارم کے وسیع سبزہ زار میں چاندنی سبزے کا وصف بنی سو رہی تھی۔ یکایک سبزے کے مشرقی کونے کی پستہ قد عمارت میں سے ایک سفید گھوڑا اور گھوڑے کی اوٹ میں آدھا چھپا ہوا ایک آدمی اس کو ایال سے پکڑے سبزہ زار پر نکل آئے۔ سبزہ زار کے وسط میں پہنچ کر آدمی زمین پر بیٹھ گیا اور اس نے بغل سے سپاٹ سینہ ایک نیم مدور سی شے نکالی اور اس کو فرش پر رکھ دیا اور آہستہ آہستہ اس کے سپاٹ سینے پر ہاتھ مارنے لگا۔ گھوڑے نے کبھی اگلا دایاں، کبھی بایاں، کبھی پچھلا دایاں اور کبھی پچھلا بایاں پاؤں اٹھا اٹھا کر تھاپ کا ساتھ دیا۔ تھاپ تیز ہوتی گئی اور گھوڑے کے پاؤں کے اٹھنے اور زمین پر آنے کی رفتار بھی تیز ہوتی گئی۔ فضا میں اس ننھے طبل اور گھوڑے کے پاؤں میں پڑے ہوئے گھونگھروؤں کی آواز کبھی دور سے کبھی بہت ہی قریب سے آتی ہوئی سنائی دینے لگی۔ وہ اپنے رقص کو بھلا بیٹھی اور سفید گھوڑے کے رقص کو دیکھنے لگی۔ تیز ہوتی ہوئی تھاپ آہستہ آہستہ دھیمی پڑنے لگی، آدمی کے ہاتھ بہت دھیرے دھیرے فضا میں بلند ہوتے اور طبل پر آ گرتے اور اس کی لے پر گھوڑے نے دونوں اگلے پاؤں اٹھا کر رقص کرنا شروع کیا۔ اس کے اگلے پاؤں فضا میں جھولنے اور پچھلے پاؤں آہستہ آہستہ زمین پر تھرکنے لگے۔ گھونگھروؤں کی جھنجھناہٹ اور طبل کی تھاپ سے ایک عجیب آہنگ وجود میں آیا جو نغمہ تو نہ تھا مگر نغمے کا زوج ضرور تھا۔ وہ ابھی اس عجیب و غریب آہنگ کی لے میں کھوئی تھی کہ آدمی نے طبل کو الگ رکھ کے کھڑے ہو کر کمر کو زمین کی طرف جھکاتے ہوئے، ہاتھوں کو ڈھیلا چھوڑ کر جھلاتے ہوئے ناچنا شروع کر دیا۔ اس کے پاؤں اور اس کے ہاتھوں میں شاید گھونگھرو بندھے تھے کہ فضا پر ایک جھنکار تیرتی ہوئی اس کے کانوں میں آنے لگی۔ گھوڑے نے بھی اپنے رقص کی لے بدل لی اور آدمی کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر، کبھی اگلا دایاں، کبھی بایاں، کبھی پچھلا دایاں اور کبھی پچھلا بایاں پاؤں اٹھا کر، کبھی دونوں اگلے پاؤں اٹھا کر رقص کرنے لگا۔ حیوان اور انسان کا یہ انوکھا، انوٹھا رقص اس کے دل کو لبھا لے گیا۔ وہ رقص کو قریب سے دیکھنے کے لیے بے تاب ہو گئی۔ وہ بام بلند کی جنوبی منڈیر سے زینے کی طرف لپکی، اتر گئی، گلی میں اک تنہا، اداس، بجلی کا قمقمہ روشن تھا، گلی کے دونوں طرف کمروں میں اندھیرا تھا۔ سانس روکے اس نے سننے کی کوشش کی۔ ہر طرف خاموشی سو رہی تھی۔ وہ دبے دبے مگر تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے جنوبی صحن میں نکل آئی۔ صحن کی مغربی اور جنوبی منڈیریں چاندنی میں دمکتے ہوئے سو رہی تھیں۔ اس کے قدموں کی چاپ سے، اس نے محسوس کیا کہ، منڈیریں جاگ اٹھی ہیں۔ مگر وہ چاندنی کے نزول سے پیدا ہونے والی دمک تھی جو اب صحن کی منڈیروں کی دیواروں پر بھی اترنے لگی تھی۔ وہ لمحے بھر کے لیے رکی اور منڈیروں کی بیداری کی ماہیت کو جان لینے کے بعد تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے گھوڑوں کے فارم کے سبزہ زار کی طرف بھاگنے لگی۔

فارم کے جنگلے کے قریب پہنچ کر وہ آہستہ رو ہو گئی بلکہ دبے پاؤں چلنے لگی۔ حیوان اور انسان کا رقص جاری تھا۔ اس نے آدمی کو پہچاننے کی کوشش کی مگر اس کے حافظے نے اس کا ساتھ نہ دیا اور وہ پہچان نہ سکی۔ گھوڑے کو اس نے پہچان لیا۔ اس کا نام نور تھا کہ روشنی کی طرح تیز رفتار تھا اور سفید براق تو تھا ہی۔ وہ رقص کو دیکھنے میں محو ہو گئی۔ گھوڑے کے بدن پر اور آدمی کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ رقص کی لے آہستہ آہستہ، دھیمی ہوتی چلی گئی، رقص ختم ہو گیا۔ آدمی اور گھوڑا جب رکے تو ان دونوں کے منہ اس کی طرف تھے۔ دونوں نے اس کو پہچان لیا۔ گھوڑے نے دم اٹھا اٹھا کر، لہرا لہرا کر اس کا استقبال کیا اور آدمی کے چہرے پر حیرانی تھی اور پھر اس حیرانی میں آہستہ آہستہ خوف بھی شامل ہوتا چلا گیا۔ وہ دونوں کی حالت کو دیکھ کر ان کی طرف بڑھی۔ جب وہ ان کے بالکل قریب پہنچی تو اس نے اس آدمی کو پہچان لیا۔ وہ فارم کے رکھوالے کا بڑا بھائی دلاور خان تھا جو ان کا ملازم تو نہ تھا مگر کئی برسوں سے شہر چھوڑ اپنے بھائی کے پاس اٹھ آیا تھا۔ اس نے ایک بار پہلے اس کو دیکھا تھا جب وہ یورپ سے لوٹنے کے بعد پہلی بار فارم پر آئی تھی۔ دونوں بھائی گھوڑوں کے درمیان کھڑے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ اس کے بھائی نے اس کا تعارف کراتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ قریبی شہر کے رئیس اعظم صداقت علی کا میر اصطبل تھا اور اس کی اچانک موت کے بعد اس کے نئی روشنی کے دلدادہ لڑکوں کی عدم دلچسپی سے تنگ آ کر اس کے پاس چلا آیا تھا۔

دلاور خان نے فردوس کو قریب آتے دیکھ کر اس کو جھک کر سلام کیا اور معذرت کرتے ہوئے بولا:

”نور کو میں نے چوری چوری سدھایا ہے۔ میرے بھائی کو اس کا کوئی علم نہیں ہے، اس کو نیند بہت پیاری ہے۔ جب وہ سو جاتا ہے تو میں نور کو لے کر سبزے پر نکل آتا ہوں۔

جب میں نے پہلے پہل نور کو دیکھا تو اس کے بدن کی کساوٹ، اس کی چال کی تمکنت سے میں نے اندازہ کر لیا کہ اس کو رقص سکھانا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ اس کی چال میں اک بے نیازی اور مستی ہے، جس کو آپ نے بھی یقیناً محسوس کر لیا ہو گا۔ جب میں پہلے پہل اس کو ایک رات یہاں لایا اور میں نے اپنے ننھے سے طبل پر تھاپ دی تو یہ، یقین کریں، جھومنے لگا اور پاؤں اٹھا اٹھا کر، اکڑ اکڑ کر میرے گردا گرد گھومنے لگا۔ کئی راتیں میں اسی طرح اس کو طبل کی تھاپ سے آشنا کراتا رہا۔ پھر ایک دن میں اپنے پاؤں میں گھونگھرو باندھ کر اس کے گرد ناچنے لگا۔ کئی راتوں تو یہ مجھے حیرانی سے دیکھتا رہا اور میرا ساتھ بالکل نہ دیا۔ مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور طبل اور گھونگھرؤں کی لے سے اس کو آشنا کراتا رہا۔ ایک رات ایسی ہی چاندنی تھی۔ چاند مغرب میں ڈوب رہا تھا۔ اس کی کرنیں ترچھی پڑ رہی تھیں۔ اس میدان میں ان اونچے درختوں کے باعث کہیں کہیں لمبے لمبے سائے تھے۔ میں نے طبل کو چھوڑ کر پاؤں اور ہاتھوں میں گھونگھرو باندھ کر ناچنا شروع کیا اور چاندنی میں سائے کی حرکت کو دیکھ کر پہلے تو یہ ڈرا، دونوں اگلے پاؤں اٹھا اٹھا کر مجھے ڈرانے لگا مگر میں ڈرے بغیر ناچتا رہا، ناچتا رہا۔ کچھ دیر تو یہ مجھے چپکا کھڑا دیکھتا رہا۔ پھر یہ میرے گردا گرد گھومنے لگا۔ میں نے اس کو تھپکایا اور اپنی بانہوں سے گھونگھرو کھول کر اس کے اگلے پاؤں میں باندھ دیے اور پھر ناچنے لگا۔ جب یہ میرے گردا گرد گھومنے لگا تو اپنے پاؤں کے گھونگھروؤں کی آواز سے ڈرا۔ میں نے اس کو پھر تھپکا، سہلایا اور اس کے ایک ایک پاؤں کو اٹھا اٹھا کر زمین پر ایک مختصر سی لے کے انداز میں رکھا اور رکھتا چلا گیا تو اس کا خوف کم ہوتا چلا گیا۔ پھر میں نے اس کے چاروں پاؤں میں گھونگھرو باندھ دیے، اس پر سوار ہو گیا، اس کو دلکی چلاتے ہوئے اس کو گھونگھروؤں کی آواز سے آشنا کرایا تاکہ یہ صرف ناچنے والا گھوڑا ہو کر نہ رہ جائے۔ (ایسا کرنا مالک کی امانت میں خیانت ہوتی۔ ) کئی مہینے کی چوری چھپے کی محنت کے بعد یہ رقص پر راضی ہوا۔ اور اب جب رات چاندنی ہوتی ہے اور اکیلے جاگتے جاگتے جی گھبرانے لگتا ہے تو اس کو تھان سے کھول کر لے آتا ہوں اور یہ اور میں ناچتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے اور محسوس کیا ہے (میری آنکھیں اور میرے حواس دھوکا نہیں کھا سکتے ) کہ نور کو بھی اس رقص سے خوشی ہوتی ہے اور میرا احسان مند ہوتا ہے۔

آج آپ نے بھی میری محنت کو پسند کیا ہے۔ مجھے میرا اجر مل گیا ہے، اگرچہ میں اجر کا حقدار نہ تھا۔ ”

”میں نے تو کچھ نہیں کہا۔ پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔“

”میں نے برسوں چاکری کی ہے۔ آقا کی مرضی کو کلام کے بغیر جان لینا چاکر کا فن ہے۔ آپ کی خاموش پسندیدگی آپ کی آنکھوں اور آپ کے پاؤں کی جنبش سے عیاں تھی۔ اگر آپ تردید کردیں تو میں آپ کی ناپسندیدگی کو بے چون و چرا، ایک چاکر کی طرح، قبول کرلوں گا اور اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا۔“

اس نے مسکراتے ہوئے، اطمینان دلاتے ہوئے، کہا:

”تمہاری نظر اور تمہارے حواس نے دھوکا نہیں کھایا۔ اس لمحے تمہارے اور نور کے رقص سے مجھے اتھاہ فرحت ہوئی ہے میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔

مگر بابا تم راتوں کو کیوں جاگتے رہتے ہو؟ ”

دلاور خان کے چہرے پر اداسی چھا گئی، اس کی آنکھیں بند ہو گئیں، اس کے سارے بدن میں سے اک کپکپی سی پھوٹ نکلی۔ اس نے اپنے آپ پر قابو پانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ وہ چاندنی میں کانپتا رہا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے بدن کے ساتھ چاندنی، سبزہ زار، اونچے اونچے درخت کانپ رہے ہیں۔ نور جو اب تک دونوں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہا تھا دلاور خاں کی اداسی کو دیکھ کر اداس ہو گیا اور اس کے قریب ہو کر اس کی گردن اور شانے کے سنگم پر اپنی تھوتھنی رکھ دی۔ اس کے تنفس کی گرمی سے دلاور خان کی کپکپاہٹ تھم گئی۔ کچھ دیر وہ خاموش رہا۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ اس کی آنکھوں میں پانی کی آب روشن تھی۔ اس نے ایک دلدوز، لمبی آہ بھری اور بولا:

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments