مونا لیزا کی مسکراہٹ والی اداکارہ دیبا


” کیا یہ بات درست ہے کہ فلم کے مقابلے میں تھیٹر پر کام کرنا زیادہ مشکل ہے؟“۔

” جی ہاں یہ بالکل صحیح بات ہے! عمل اور رد عمل کا فوراً ہی جواب مل جاتا ہے کہ آپ کا کام پسند کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ تھیٹر تو براہ راست ہوتا ہے۔ پھر کہاں کھڑا ہونا ہے اور کس زاویے سے آپ کی آواز ہال میں پیچھے تک جاتی ہے اس کا بہت زیادہ دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ آپ نے اپنا چہرہ دیکھنے والوں کی جانب ہی رکھنا ہوتا ہے، کن زاویوں سے حرکات کرنا ہیں اور مکالمے بھی بولنے ہیں۔ واقعی یہ باتیں سیکھنے والی ہیں۔ اسٹیج سب سے مشکل چیز ہے۔ پھر سونے پہ سہاگہ اگر سامنے والا اپنا مکالمہ بھول گیا تو آپ نے اس کو بھی نبھاتے ہوئے اپنا مکالمہ بولنا ہے“۔

” میں نے سب سے پہلے 1965 کی جنگ میں پاکستان ٹیلی وژن سے براہ راست نشر ہونے والا ڈرامہ“ کشمیر جل رہا ہے ”کیا تھا۔ یہ جنگ کے دوران ہوا تھا جن دنوں میڈم نورجہاں ملی نغمات گا رہی تھیں۔ اس ڈرامے کے پروڈیوسر آغا ناصر صاحب تھے۔ کس کا لکھا ہوا تھا، یاد نہیں۔ اس میں حمید وائیں صاحب ڈوگرا سپاہی کے کردار میں تھے اور میں کشمیرن تھی۔ بعد میں پی ٹی وی کے پانچ چھ ڈرامے کیے۔ پھر نجی ٹی وی چینلوں پر تو کافی ڈرامے کیے جن کے نام بھی اب مجھے یاد نہیں۔ میری آخری فلم“ شمع ”( 1974 ) تھی۔ اس فلم میں بیک وقت کئی ایک فلمی ستارے یکجا تھے۔ ٹائٹل رول میرا تھا۔ اس کے بعد میں سعودی عرب چلی گئی۔ یہاں میں نے چھوٹی اور بڑی اسکرین سے دور ہو کر اپنی بچوں اور شوہر کے ساتھ وقت گزارا“۔

” کہا جاتا ہے کہ آپ نے کسی شریک فلمساز کے ساتھ ایک فلم“ جیون ساتھی ”بنائی تھی؟“۔

” جی ہاں!“ جیون ساتھی ”میری ذاتی فلم تھی۔ میرے ساتھ اس فلم میں کوئی شریک فلمساز نہیں تھا۔ لیکن کسی وجہ سے وہ ریلیز نہیں ہوئی۔ وہ کسی تقسیم کار کے پاس نہیں ہے۔ اس کا پرنٹ بھی نہیں مل رہا ہے۔ وہ فلم باری اسٹوڈیوز میں بنی تھی۔ وہاں سے سب چیزیں اٹھا دی گئیں۔ پھر ان کا کیا ہوا؟ کچھ علم نہیں۔ میں تو یہاں تھی ہی نہیں۔ جب واپس آئی تو فلم کا پرنٹ نہیں ملا۔ مجھے اس قدر افسوس ہے کہ میں نے وحید مراد کو ہیرو لے کر ایک بہترین فلم بنائی تھی۔ اب بھی مجھ سے لوگ اس فلم کا پوچھتے ہیں“۔

” کیا لکھنے لکھانے سے بھی شغف رہا؟“

” میں نے چند ناول اپنے شوق کی خاطر لکھے جو شائع بھی ہوئے۔ لوگوں نے یہ پڑھے اور پسند کیے لیکن وہ میری وجہ شہرت نہ بن سکے۔ پھر شادی اور بچوں میں مصروف ہو کر لکھنا لکھانا نہیں ہو سکا۔ فلم“ جیون ساتھی ”کا اسکرپٹ میرا نہیں بلکہ آفاقیؔ صاحب کا تھا“۔

” طویل دورانیہ اسکرین سر دور رہنے کے بعد آپ کی پہلی فلم کون سی تھی؟“۔

” میری پہلی فلم بطور مہمان اداکار“ قربانی ”( 1981 ) تھی۔ پھر جب میں یہاں مستقل آ گئی تو سب ہی ڈائریکٹروں کے ساتھ کام کیا۔ جیسے سودی بٹ ( مسعود بٹ) ، حیدر چوہدری اور کئی دوسرے۔ میں نے کیریکٹر ایکٹنگ کی۔ اس کے ساتھ کراچی کے ٹی وی سیریل اور ٹیلی فلموں میں بہت کام کیا۔ ان میں ہمایوں سعید کے بھی تین چار سیریل بھی ہیں“۔

دوران گفتگو دیبا کے بچوں سے متعلق بات ہوئی۔ ان کا ایک بیٹا تو کافی عرصے سے ٹی وی اسکرین پر اداکاری کر رہا ہے۔ اس کے بارے میں انہوں نے دلچسپ انکشاف کیا: ”میرا بڑا بیٹا سلمان تو ملک سے باہر ہی کام کرتا تھا اس نے شو بز میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ دوسرے بیٹے عمران کے شوبز میں آنے کا پس منظر یہ ہے کہ ایک سلسلے وار ڈرامہ“ تیرے پہلو میں ”بن رہا تھا۔ میں اس میں کام کر رہی تھی۔ وہ مجھے سیٹ پر کبھی لینے کبھی چھوڑنے جاتا تھا۔

ڈائریکٹر افتخار صاحب نے کہا کہ میڈم یہ اداکاری کیوں نہیں کرتا؟ میں نے کہا کہ یہ کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اگر کرنا چاہے تو ضرور کرے۔ تو پھر ان کے کہنے سے ہی عمران اسی ڈرامے سے فیلڈ میں آیا۔ اور ماشاء اللہ کامیاب ہو گیا۔ وہ اب بھی کام کر رہا ہے لیکن آج کل کرونا کی وجہ سے کام ہی ذرا کم ہے۔ میری بیٹی مدیحہ اس وقت ماشا ء اللہ کافی کام کر رہی ہے ”۔

” آپ کے بچے آپ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ آپ کو کیسا لگتا ہے؟“۔

” مجھے اچھا لگتا ہے۔ لیکن میں سوچتی ہوں کہ جیسے ہم نے اداکاری کے ساتھ کوئی اور کام نہیں کیا تو پریشان ہوتے ہیں۔ ان بچوں کو کو اداکاری کے ساتھ ساتھ کوئی متبادل ذرائع رکھنے بھی بہت ضروری ہیں۔ ٹھیک ہے یہ ان کا شوق ہے اس کو ضرور کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کوئی اور ذرائع آمدن ضرور رکھیں کہ گھر بار چلتا رہے“۔

” ہماری آج کی فنکاراؤں کے بڑے بڑے خواب ہیں، ان کے لئے کوئی پیغام؟“

” اس وقت تو انڈسٹری میں کوئی زیادہ کام ہو ہی نہیں رہا۔ سال میں چند ہی فلمیں بنتی ہیں۔ پرائیویٹ ٹی وی چینل زیادہ فعال ہیں۔ اسی میں کوشش کریں اور کام کریں۔ لیکن رکھ رکھاؤ اور وقار کے ساتھ! جو بھی کام کریں محنت کے ساتھ کہ اپنی یاد چھوڑ کر جائیں۔ جہاں اور جس کے لئے کام کر رہے ہیں اس کا بھی نام بنائیں۔ یاد رکھیں کہ شاٹ کٹ یا راتوں رات کچھ بننے کا خیال غلط ہے“۔

” فلم انڈسٹری کے حالات کس طرح بہتر ہو سکتے ہیں؟“۔

” ہمارے پاس تکنیکی ماہرین اور کارکن نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دو تین ہی ڈائریکٹر رہ گئے ہیں۔ کہانی نگار نہیں ہیں۔ آرٹسٹ ہمارے پاس نہیں۔ نئے اور منجھے ہوئے لوگوں کو تیار کرنے میں وقت لگتا ہے۔ اور اس میں بڑی محنت درکار ہوتی ہے۔ ہماری غلطی تھی کہ ہم نے صحیح وقت پر اپنے بچوں کو اس میدان میں داخل ہی نہیں کیا۔ چلیں بچوں کو نہ بھی کرتے تو جو ان کے پاس سیکھنے آتے تھے ان کو ہی اس قابل بنا دیتے کہ وہ آنے والے زمانے میں کارآمد ستون بن کر جم جاتے۔

آج انڈسٹری میں چار چھ ڈائریکٹر ہوتے اور چار چھ رائٹر اور اتنے ہی آرٹسٹ ہوتے۔ پھر یہاں کوئی فلمی درسگاہ بھی ایسی نہیں کہ جہاں یہ سب کچھ سکھایا جا سکتا۔ اب جو بھی لوگ یہ کام کر رہے ہیں بہت ہی مشکل میں کر رہے ہیں۔ پھر رہی سہی کسر سنیماؤں کے ٹوٹنے اور ان کی جگہ پلازوں کے بننے سے پوری ہو گئی۔ اس وقت جو فلم بن رہی ہے اور جن سنیماؤں میں لگ رہی ہے ان کا ٹکٹ بہت زیادہ ہے کہ بس ایک چھوٹا سا طبقہ ہی وہ فلمیں دیکھتا ہے ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments