بھٹو نے جنرل ضیا کو آرمی چیف کیوں لگایا؟


سولہ دسمبر 1971 ء سانحہ مشرقی پاکستان ہوا۔ پاکستانی قوم کو تاریخ کے شدید ترین بحران کا سامنا تھا۔ پاکستان کا وجود پارہ پارہ ہو چکا تھا۔ دشمنوں اور اپنوں کے دیے ہوئے زخموں سے خون رس رہا تھا۔ قوم کے حوصلے پست ہو چکے تھے ایسے میں بھٹو اقتدار سنبھالتے ہیں۔ قوم کی امیدوں کا محور ذوالفقار بھٹو تھے انھوں نے بھی قوم کو مایوس نہیں کیا۔ قوم کی امنگوں کے عین مطابق ایک بہترین منتظم، زیرک سیاست دان کے طور پر کام کیا۔ انھوں نے بعض انقلابی اقدامات کیے جس سے مایوسی اور نامرادی کے اندھیروں سے امید کی کرن پھوٹی۔

بھٹو صاحب کو تختہ دار تک پہنچانے میں عالمی اسٹیبلشمنٹ ملوث تھی جس نے مقامی اسٹیبلشمنٹ کو مہرے کے طور پر استعمال کیا ہوا کچھ یوں کہ 1973 ءکے اوائل میں قومی اسمبلی نے متفقہ آئین منظور کیا آئین کی منظوری سے عین قبل 14 فضائیہ اور 21 آرمی افسران کو منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا اٹک قلعہ میں ان پر مقدمہ چلایا گیا اور انہیں سزا سنائی گئی کورٹ مارشل کی صدارت میجر جنرل ضیاءالحق نے کی۔

جنرل ضیاءالحق کی بطور چیف آف آرمی اسٹاف تقرری بھی مضحکہ خیز انداز میں ہوئی۔ الطاف حسن قریشی اپنی کتاب ”ملاقاتیں کیا کیا“ میں لکھتے ہیں

”جنرل ضیاء الحق سے پوچھا کہ کبھی آپ نے اس نقطے پر غور کیا کہ بھٹو نے آپ کو آرمی چیف کیوں بنایا۔ سنا ہے کہ بعض مواقع پر آپ نے غیرمعمولی نیازمندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ جس کے جواب میں ضیاءالحق کہتے ہیں کہ مجھے ایسا کوئی واقع یاد نہیں میں نے کبھی حدود سے تجاوز کیا ہو۔ فروری کا مہینہ اور سال 1972 ء ایک روز بھٹو صاحب نے ملاقات کے لیے پیغام بھیجا میں چلا گیا۔ پوچھنے لگے پاکستان کی سیاسی صورتحال کیسی ہے۔ میں نے کہا آپ بہتر جانتے ہیں ہمارا دائرہ تو فوجی سرگرمیوں تک محدود ہے پھر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد بھٹو صاحب کہنے لگے میں نے تمھیں چیف آف آرمی سٹاف بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں حیران رہ گیا میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ اتنی بڑی ذمہ داری میرے کمزور کندھوں پر آنے والی ہے۔ بڑے ادب سے کہا کہ آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں کیونکہ میں بہت جونئیر ہوں۔ اس پر انھوں نے ایک ایک سینئر افسر کا تجزیہ شروع کیا وہ ایسا اور وہ ایسا۔ عرض کیا کہ میری موجودگی میں یہ باتیں مناسب نہیں کیونکہ میں سب کا احترام کرتا ہوں۔ اگر مجھ پر ذمہ داری ڈالی گئی تو اسے نبھانے کی پوری کوشش کروں گا۔ لیکن میری گزارش ہے کہ آپ اپنے فیصلے پر مزید غور و فکر کریں انھوں نے کہا میرا فیصلہ قطعی اور آخری ہے تمھاری گفتگو کے بعد مجھے یقین ہو چلا ہے کہ میرا انتخاب بالکل صحیح ہے“

بات ہو رہی تھی بھٹو صاحب کی پھانسی کی کہ بیچ میں جنرل ضیاءالحق کی تقرری کا احوال آ گیا۔ بھٹو کی کامیاب خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان کو بہت جلد اقوام عالم میں اس کا کھویا ہوا مقام دوبارہ مل گیا۔ بھٹو کی صلاحیتوں کا معجزہ تھا کہ چین، شمالی کوریا، لیبیا اور شام پاکستان کے بہترین دوستوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ بھٹو کی ساری توجہ خارجہ امور پر تھی پڑوسی دیس ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو بھٹو کو ادراک ہوا کہ پاکستان کا وجود برقرار رکھنے کے لیے ایٹمی قوت کا حصول ناگزیر ہو گیا ہے۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ ارشاد ترمذی اپنی کتاب ”احساس ادارے“ میں لکھتے ہیں کہ ”بھٹو کے انقلابی اقدامات نے مغرب کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی کیونکہ ذوالفقار بھٹو تیسری دنیا اور اسلامی دنیا کے لیڈر کی حیثیت سے ابھر رہے تھے اور پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی سعی امریکہ اور اس کے حواریوں کے لیے بڑا چیلنج تھی جو مستقبل میں ان کے مفادات کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔“

وہ مزید لکھتے ہیں کہ جب بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو ہمیں انٹیلی جنس اطلاعات ملی کہ امریکہ جو بھٹو سے پہلے ہی خوفزدہ تھا، مخالف سیاسی جماعتوں میں پوری طرح شامل ہو گیا اس نے نہ صرف صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا بھٹو کے خلاف نفرت کی آگ پر تیل چھڑکا بلکہ بھٹو کا تختہ الٹنے کی خاطر اپوزیشن کو بھرپور مالی اور سیاسی امداد بھی فراہم کی۔ وہ ہر قیمت پر بھٹو کو راستے سے ہٹانے کی پالیسی پر گامزن تھا۔ ہماری فوجی قیادت اور اپوزیشن رہنماء امریکہ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے ”

بریگیڈیئر ترمذی لکھتے ہیں کہ ”متعدد امریکی سفارت کار بھٹو کے خلاف اس مہم میں نہ صرف ملوث تھے بلکہ اس کی مکمل نگرانی بھی کرتے تھے۔ لاہور میں امریکی قونصلیٹ جنرل کے پولٹیکل افسر جین این گوہن کا کردار اس حوالے سے خاصا فعال تھا۔ کئی ایک مقامی رہنماء اس کی بھرپور امداد کر رہے تھے اور مرکزی سطح کے چند سیاست دانوں سے مل کر وہ ایک سیاسی دلال کا کردار ادا کر رہا تھا۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کے امیر مولانا مودودی اور شیرانوالہ گیٹ کے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا عبیداللہ انور کے ساتھ جین نے مسلسل ملاقاتوں اور رابطوں کا اہتمام کر رکھا تھا۔

امریکی مولانا مودودی کی سوچ اور دوراندیشی کو بہت اہمیت دیتے اور سیاسی نوعیت کے مبہم نقطوں پر ان سے اظہار رائے کی درخواست کرتے۔ یہ جین ہی تھا جس نے لاہور سے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے چیف آف پولٹیکل افسر ہاروڈ بی شیفر کو یہ پیغام دیا کہ ”پارٹی ختم ہو گئی مال لٹ گیا“ جس کے جواب میں بھٹو نے یہ مشہور جملہ کہا تھا ”پارٹی ابھی ختم نہیں ہوئی یاد رکھو ہاتھی کے کان بہت لمبے ہوتے ہیں“

میں جب بھٹو کی پھانسی کے محرکات کھنگال رہا تھا تو مجھے نواز شریف اور بھٹو میں کچھ کچھ مماثلت نظر آئی۔ میں نے چونکہ پانامہ کیس کور کیا اور مجھے ادراک ہے کہ نواز شریف بھی عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سازش کا شکار ہوئے۔ نواز شریف نے ایک لیڈر کے طور پر سوچنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اپنے گھر کی صفائی کے ساتھ ساتھ آئین کی حکمرانی کی بات کرنے لگا تھا۔ عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کی تڑپ ان کے اندر جاگ اٹھی تھی ووٹ کو عزت دو کا بلند آہنگ نعرہ گونج رہا تھا ایسے میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کا حرکت میں آنا بنتا تھا۔ العزیزیہ اور دیگر تمام ریفرنسز میں نواز شریف کے خلاف عالمی اسٹیبلشمنٹ نے مبینہ ثبوت فراہم کیے جس کی وجہ سے انھیں اقتدار سے نکال کر پس زنداں کر دیا گیا نواز شریف بیماری کے باعث ملک سے باہر چلے گئے اگر وہ ملک سے باہر نہ جاتے تو بار دیگر ان کا حال بھی بھٹو جیسا ہو جاتا۔

بھٹو کو 5 جولائی 1977 کو پہلی دفعہ نظربند کیا گیا اور 29 جولائی یعنی چوبیس روز بعد نظر بندی ہٹا دی گئی۔ 3 ستمبر 1977 کو پہلی بار گرفتار کیا گیا اور انہیں 13 ستمبر 1977 کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے ذوالفقار علی بھٹو نے اسی عرصے کے دوران ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ ”اگر میں رہا ہو گیا تو جنہوں نے آئین توڑا ہے ان کے خلاف آرٹیکل چھ لگاؤں گا“ ۔ اور پھر اس کے بعد 16 ستمبر 1977 جب انہیں تیسری بار گرفتار کیا گیا تو ان پر قتل میں اعانت کا الزام لگایا گیا۔

24 اکتوبر 1977 کو مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ 18 مارچ 1978 کو سزا ہوئی۔ 18 دسمبر 1978 کو مقدمہ سپریم کورٹ میں گیا۔ 23 دسمبر 1978 کو سپریم کورٹ نے 4 روزہ سماعت مکمل کی۔ 6 فروری 1979 کو سپریم کورٹ نے سزا برقرار رکھی۔ 24 فروری 1979 کو سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کی گئی اور 24 مارچ 1979 کو سپریم کورٹ نے نظرثانی کی اپیل بھی مسترد کردی۔ جس کے بعد 4 اپریل 1979 کی صبح انھیں دار پر لٹکا دیا گیا۔ بھٹو پھانسی کے پھندے کو چوم کر تاریخ میں امر ہو گیا اور جنھوں نے انھیں پھانسی پر لٹکایا ان کی قبریں ویران ہیں۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments