امید اور حوصلے کا شاعر: اشہر اشرف


شاعر دوطرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جہنیں بہت جلد شہرت اور مقبولیت ملتی ہیں۔ ان کی شاعری کے گرویدہ اور پرستار بہت سارے لوگ بہت جلد ہو جاتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے مداح ان کی شاعری کو نگر نگر پھیلانے اور شہر شہر پہچاننے میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔ ان میں چند ایسے بھی ہوتے ہیں جو مشہور تو ہوتے ہیں لیکن ان کی شاعری میں وہ دم خم اور پائیداری نہیں ہوتی۔ ایسے شعراء اپنی شاعری کے چرچے خود کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسے شعراء بہت جلد ادبی منظر سے غائب ہو جاتے ہیں۔

ان جلد مشہور و معروف اور جلد ہی منظر سے غائب ہونے والے شعراء کو ایسے ناقدین اور پارکھ مل جاتے ہیں جو ان کی شاعری میں وہ سب کچھ ڈھونڈ ڈھانڈ کر نکالتے ہیں جو بعض دفعہ ان کی شاعری میں نہیں بھی ہوتا ہے۔ ان کے دوست واحباب کا حلقہ بھی وسیع ہوتا ہے جو ان کی شہرت کے دروازے وا کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ دوسری قسم کے شعراء وہ ہیں جو شاعری کے باغ کو اپنے لہو سے سنیچتے ہیں۔ یہ شعراء گمنام اور غیر معروف رہ کر شاعری کی دیوی کو خوش کرتے رہتے ہیں۔

ان شعراء کو بزم آرائی کا شوق اور جنون نہیں ہوتا ہے۔ یہ دنیا کے ہنگاموں سے دور، بڑی خاموشی سے اپنے احساسات اور جذبات کو فن کا لبادہ اوڑھ کر صحفہ قرطاس پر اتار رہے ہوتے ہیں۔ جہاں جہاں اردو کی بستیاں آباد ہیں اور دنیا میں جہاں بھی اردو بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں ایسے شعراء ضرور موجود ہوتے ہیں جو شاعری کے پودے کو سینچ کر اس کو تناور درخت اور ثمردار بناتے ہیں۔ دبستان کشمیر میں بھی شاعری کے باغ کو سجانے سنوارنے کے لیے ایسے بہت مالی ملے ہیں جنہوں نے اس کو خوبصورت اور دلکش بنانے میں بہت محنت کی ہے۔

وادی کشمیر ادبی لحاظ سے بڑی زرخیر ہے کہ اس وادی سے تعلق رکھنے والے نام نامی شعراء گزرے ہیں۔ میر کمال الدین حسین اندرابی رسوا سے لے کر ہرگوپال خستہ تک، رسا جاودانی سے لے کر غلام رسول نازکی تک، شہ زور سے حامدی تک، حیکم منظور ہو یا فاروق نازکی، رفیق راز ہو یا ہمدم کاشمیری یہ شعراء نہ صرف کشمیر کی ادبی فضا پر چھائے رہے بلکہ برصغیر کے ادبی حلقوں میں بھی خوب جانے پہچاننے جاتے ہیں۔ ان شعراء کے یہاں موضوعاتی تنوع، جدید حسیت کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کا لطف بھی موجود ہے۔ انہوں نے اپنے تجربات، حوادثات، جذبات اور احساسات کو قارئین تک پہنچا کر ایک وسیع حلقے کو اپنا شیدائی بنانا ہے جو آسان نہیں۔ بقول آتش

بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

ایسے شعراء جو بنا غرض اور فن برائے فن کی شاعری کو پروان چڑھا رہے ہیں ان شعراء کو نہ صلح کی تمنا ہوتی ہے نہ شہرت کی پرواہ۔ یہ گمنام ہو کر بھی اپنا کام جاری و ساری رکھتے ہیں۔ دبستان کشمیر کے ایسے ہی نوع بنوع شعراء میں ایک نام اشہر اشرف کا ہے۔ جو اشہر ہو کر بھی غیر معروف ہی رہے۔

اشہر کا تعلق کشمیر کے ایک خوبصورت اور ادبی حوالے سے زرخیز ضلع بارہمولہ کے دولت پورہ پائین گاؤں سے ہے۔ ان کا اصل نام محمد اشرف میر ہے اور اشہر تخلص جو کہ ڈاکٹر الطاف انجم کے ایما پر اختیار کیا۔ ان کے والد کا نام غلام احمد میر تھا۔ جو محکمہ بجلی میں ملازم تھے۔ اشہر 15 اپریل 1982 ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی طبیعت کا میلان شعر و شاعری کی طرف تھا۔ اشہر کا شاعری میں کوئی باقاعدہ استاد نہیں ہے۔ تلمذ الرحمن ہے۔ اشہر جناب شکیل جے پوری صاحب کو استاد سے کم نہیں مانتے کہ ان سے کبھی کبھار شاعری اور عروض پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔

اشہر کا خاص میدان غزل ہے اور وہ غزل کی روایات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ انہوں نے اپنی غزلوں کے ذریعے روایت شکنی نہ کی بلکہ اپنے منفرد شعری اسلوب، بے ساختہ پن اور لہجے کی انفرادیت سے اپنی ایک الگ راہ نکالی۔ جس طرح ان کا لہجہ ذاتی اور منفرد نوعیت کا ہے اسی طرح ان کے خیالات اور مشاہدات بھی ذاتی اور منفرد نوعیت کے ہیں۔ یہ روایات سے منحرف نہیں لیکن غزل کے ذریعے عشق و عاشقی اور گل و بلبل کے تذکرے نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہر عہد کے اپنے الگ تقاضے اور اپنے مسائل ہوتے ہیں جو تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ لہذا تغیر و تبدل سے صنف کی مقبولیت جڑی ہوتی ہے اس لیے ان کے نزدیک غزل میں پیام کے ساتھ ساتھ احتجاج اور غم دوراں کی بھی عکاسی ہونی چاہیے۔ ان ہی کا شعر ہے کہ۔

پیام جو ہو غزل میں تو احتجاج بھی ہو
غم دوراں غم دنیا کا امتزاج بھی ہو

جذبات ہر انسان میں ہوتے ہیں۔ شدت جذبات کو ابھارنا اور نا امیدی کے بجائے امید اور حوصلے کا سبق دینا اچھے فن کار کی نشانی ہے۔ اشہر نے اپنی شاعری کے ذریعے نرم اور شیریں لہجے میں امید اور حوصلے کی وکالت کی ہے۔ وہ اس راز سے واقف نظر آتے ہیں کہ ”نا امیدی کفر ہے“ ۔ وہ نہ خود اس کے مرتکب ہوئے اور نہ ہی قاری کے جذبہ شوق، جستجو اور لگن کو ٹھنڈا پڑنے دیتے ہیں۔ ان کی شاعری کو پڑھ کر حوصلے ٹھنڈے نہیں پڑتے بلکہ زندگی میں ایک نئی رمق، ایک نیا جذبہ اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔

ان کی شاعری جوانوں کو ہی کوشش اور حوصلے کا سبق نہیں دیتی بلکہ ہر عمر کے قارئیں کے قلوب کو گرم کرتی اور تاؤ دیتی ہے۔ ان کی شاعری نشاط امید کی شاعری ہے غم اور مغلوب غم کی شاعری نہیں جو نا امیدی اور یاس کی کیفیت کو ابھارتی ہے۔ کٹھن سفر کے باوجود ان کی شاعری چلنے کا حوصلہ، ہمت اور جذبے کو ابھارتی ہے، دار پر مسکرا کر یہ ہواؤں کا رخ تبدیل کرنی کی قوت رکھتی ہے، مظالم سے گبھرانے کا درس نہیں دیتی بلکہ سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرنے کا سبق دیتی ہے کہ تیرے ہاتھوں میں قوم کی آبرؤ ہے۔ ان کے یہ اشعار دیکھیں۔

طلوع نو کوئی مژدہ ہمیں سنائے گا
چمن میں پھر وہی موسم حسین آئے گا
سفر کٹھن ہے تو کیا غم ہے سفر ہی تو ہے
سنبھل سنبھل کے چلو گے تو کٹ ہی جائے گا
دار پر بھی سدا مسکرائے ہم
رخ ہواؤں کا بھی موڑ آئے ہم
ہم مظالم سے اگر گھبرائیں گے
دفعتا بے موت مارے جائے گے

ان کی شاعری ظلم کے خلاف ڈھٹے رہنے کا سبق اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اگر زمانے سے ٹکر لینا پڑے تو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے کا درس دیتی ہے۔ ان کے خیال میں اپنے حق کی خاطر آواز اٹھانی چاہیے بہتر یہ ہے کہ طوفان اٹھایا جائے۔

حق نہ مل جائے تو طوفان اٹھایا جائے
ظلم کے آگے کبھی سر نہ جھکایا جائے

ان کی شاعری کو پڑھنے والا نا امیدی کو چھوڑ کر امید، حوصلے اور مسلسل کوشش کا سبق حاصل کرتا ہے۔ زندگی سے بیزار نہیں ہوتا بلکہ کچھ کرنے کی امنگ اور دنیا پر چھا جانے کی ہمت اس میں پیدا ہوتی ہے۔ حوصلے اور جذبے کا جمال ان کی شاعری میں در آیا ہے۔

ہر شاعر کی سوچ، فکر، احساسات، جذبات اور زاویے نگاہ الگ اور منفرد ہوتے ہیں۔ شاعر تک ہے کہ وہ کس چیز کو کس نگاہ اور زاویے سے دیکھتا ہے۔ بعض شعراء اپنی ذات کو شاعری کا موضوع بناتے ہیں تو بعض آس پاس کے حالات، اپنے عہد میں ہونے والے مظالم اور نا انصافیوں، سماجی برائیوں اور انسانی خصلتوں کو موضوع بناتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی تخلیق فنکار کے ذاتی تجربات، مشاہدات، احساسات اور جذبات سے مبرا نہیں ہوتی۔

نجی حالات، ماحول اور اپنے عہد کی سماجی، سیاسی، اور طرز معاشرت تخلیق پر اثر پذیر ہوتے ہیں۔ ذاتی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی دونوں کی جھلکیاں شعراء کی تخلیقات میں ملتی ہیں۔ اشہر اپنے اردگرد کے ماحول اور حالات سے بے خبر نہیں۔ انہوں نے کشمیر کے خوبوصورت اور دلکش مناظر کو موضوع بنانے کے بجائے یہاں کی عوام پر ہو رہی ظلم و زیادتیوں کو موضوع سخن بنایا۔ ان کی شاعری احتجاجی اور ظلم و ظالم کے خلاف بغاوت کا علم لی ہوئی ہے۔

یہ اپنے زمانے کی آسیبی قوتوں سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری ظلم و ستم کے خلاف احتجاج اور تاریکی کے بعد روشنی کی نوید سناتی ہے۔ چونکہ کشمیر سے تعلق ہے اس لیے یہاں کے درد وکرب، ظلم و ستم، ویرانی، جبر، بدامنی، بے چینی، پابندیوں اور قدغنوں اور استحصال کی عکاسی اپنی غزلوں میں کرتے ہیں۔

کسی سے حال دل اپنا سنانے پر ہے پابندی
کسی کو یاں شریک غم بنانے پر ہے پابندی
خوشی کی بات کرتے ہو عجب ہی بات کرتے ہو
یہاں ماتم پر اشک بہانے پر ہے پابندی
ظلم اتنا بڑ گیا ہے وادی میں
کربلا ہر دن نیا سجتا رہا
یہ چمن میرا سدا جلتا رہا
ظلم گلچیں پھولوں پر ڈھاتا رہا

کبھی خدا سے التجا کرتے ہیں اور یہ آزور کرتے ہیں کہ اب اس ظلم و ستم کا خاتمہ ہو، تو کبھی ظالم سے سوال کرتے ہیں کہ کیوں بے کسوں پر ظلم ڈھا رہے ہو۔ خوف خدا نہیں ہے۔ جب نا انصافی کو دیکھ کر دل ملول ہوتا ہے تو سوال کرتے ہیں کہ

مقتول کو انصاف ملا ہے کہ نہیں ہے
اس شہر میں قاتل کی سزا ہے کہ نہیں ہے
وطن میرا ظلم و ستم سے ہو آزاد
یہی آرزو ہے یہی التجا ہے۔

جن لوگوں کو کشمیر خوبوصورت، دلکش اور یہاں کے نظارے جنت کا نمونہ لگتے ہیں ان کو اشہر اپنے شاعری کے ذریعے یہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے آنکھوں سے یہاں کا حال دیکھیں۔ یہاں کے جلتے گھر اور اجڑی بستیاں، روتی مائیں اور بلکتے بچے غرض یہاں کی ویرانی اور بربادی کا نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔

وادی کا حال یہاں آ کر دیکھے
جلتے گھر اور ویران مکاں دیکھے
چار سو خالی جلتی ہوئی بستیاں
میری جنت میں خالی دھواں دیکھے
روتی مائیں بلکتے ہوئے بچے ہیں
ہر طرف ظلم برپا جہاں دیکھے

ہر شاعر کے کلام میں عاشقانہ مضامین، محبوب سے میل جول، لگاو اور محبت کے معاملات کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو پھر اس میں کوئی خصوصیت ہی نہیں رہتی لیکن اسلوب اور بیان شاعر کی خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ کس طرح عاشقانہ مضامین، محبت اور جذبات کی مصوری کرتا ہے۔ شعراء نے محبت کے قصے اور محبوب سے لگاؤ کو قلم کی جنبش سے جب صحفہ قرطاس پر اتارا تو بعض کے قصے حقیقی لگنے لگے اور بعض کے خیالی۔ اشہر جب محبت کی روداد بیان کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ حقیقی زندگی کے تجربات بیان ہو رہے ہیں۔

ان کی شاعری میں عاشق کی نظر، ذہن اور ساری کیفیات موجود ہیں۔ قلبی واردات، ذہنی اضطراب، دل کے جذبات اور حسن کے انداز غرض گونا گوں تاثرات کی عکاسی ملتی ہیں۔ کبھی محبوب کے آنے سے انہیں اپنا گھر اچھا لگتا ہے تو کبھی محبوب کا حال یہ دل لگا کر سننے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ اپنے محبوب کے آنے کی خبر میں تو انہوں نے راہوں میں پھول بچھائے ہیں۔

تیری آمد کی جب سے ہوئی ہے خبر
پھول راہوں میں تیری بچھائے ہیں ہم
دشت صحرا کو گھر بنائے ہیں ہم
عشق میں اپنا سب کچھ لٹائے ہیں ہم
اب یہ محرابیں یہ دیواریں یہ در اچھا لگا
آپ کے آنے سے مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا
محبت سے میں دل لگا کر سنوں گا
کبھی حال دل تم سنا کر تو دیکھو

اشہر ہر رنگ اور ہر طرز میں لکھنے کی اہلیت اور قابلیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں زبان و بیان کی لطافت، احساسات و جذبات کی تازگی اور ہیتی تجربات بھی ملتے ہیں اور نئے نئے موضوعات اور عصری مسائل کی عکاسی بھی۔ ان کے منفرد تجربات اور منفرد لہجہ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں برجستگی، تازہ کاری، خلاقانہ پن، عصری شعور اور خود آگاہی ملتی ہے۔ داخلیت اور خارجیت کا باہم ملاپ، بھر پور زندگی کی عکاسی، گہری اور تلخ صداقتوں کا انکشاف اور تعمیری سوچ اور سیاسی واقعات، تصورات کا براہ راست ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔

ہر ایک لفظ میں خوشبو سمائی ہو اشہر
غزل حسین ہو غزل آئینہ سماج بھی ہو
ستم گر ہم تمہاری نیند پل پل اڑائیں گے
صدا حق لگا کے ہم زمانے کو جگائیں گے

اچھی شاعری کل بھی مقبول تھی اور آئندہ بھی اس کے قدر دان، سردھننے والے اور واہ کرنے والے رہیں گے۔ افکار میں پختگی ہو، خیالات میں ارتفاع ہو، بیان میں جدت اور ندرت ہو، اسلوب میں انفرادیت، لہجے میں حلاوت اور جذبات میں شدت ہو تو قارئیں ایسی شاعری سے ضرور متاثر ہوتے ہیں۔ اشہر کی شاعری میں معاشرے کی حالت حال کا بیان بھی ہے اور دل لگانے کی صدا بھی، میر کا سوز بھی ہے اور ناصر کاظمی کا رنگ و آہنگ بھی۔ چونکہ گمنام ہیں اس لیے اہل نظر نے ان کی شاعری کی طرف کم توجہ دی۔ ان کی شاعری کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی شاعری میں وہ تمام کیفیات، خصوصیات اور خوبیاں موجود ہیں جو کسی بھی اچھے شاعر کی شاعری میں موجود ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments