کتب بینی و ادب کے فروغ میں آمنہ احسن کی بے لوث عظیم خدمت


نارمن جودک کہتا ہے کہ ”ادب مراد ہے اس تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آ چکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔“ ادب کی ایسی تعریف جس پر سب کو اتفاق ہو، ایک مشکل کام ہے۔ بعض دانش ور مثلاً میتھیو آرنلڈ ہر اس علم کو جو کتاب کے ذریعہ ہم تک پہنچے، ادب قرار دیتے ہیں۔ والٹر پیٹر کا خیال ہے کہ ”ادب، واقعات یا حقائق کو صرف پیش کر دینے کا نام نہیں بلکہ ادب کہلانے کے لیے اظہار بیان کا تنوع ضروری ہے۔

“ جب کہ کارڈینل نیومن کے الفاظ میں ”انسانی افکار، خیالات اور احساسات کا زبان اور الفاظ کے ذریعے اظہار“ ادب ”کہلاتا ہے۔“ یہ امر قابل غور طلب ہے کہ ہر ملک کا ادب اس کے سماجی ماحول، مذہب، تہذیب و تمدن، اجتماعی خوابوں اور عوامی خواہشات کا ترجمان بھی ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد تخلیق پانے والے شعر اور نثرادب کو پاکستانی ادب کے زمرے میں لایا جاتا ہے اور پاکستانی ادب کی تعریف متعین کی جاتی ہے، مختلف ادیب اپنے اسلوب و بیان کے مطابق ادب کی تعریف کچھ اس طرح وضع کرتے ہیں، مثلاً فیض احمد فیض کے بقول، ”پاکستانی ادب وہ ہے جس میں پاکستانی روایات، حالات، پس منظر اور بیش منظر سے مطابقت موجود ہو۔

اس میں مقامیت کے مقاصد کے ساتھ آفاقیت بھی موجود ہے“ ۔ احمد ندیم قاسمی کے مطابق ”پاکستانی ادب سے مراد ہے وہ ادب جو پاکستان کے وجود، پاکستان کے وقار اور پاکستان کے طریقے کا اثبات کرتا ہو اور جو پاکستان کے تہذیبی و تاریخی مظاہر کا ترجمان ہواور جو یہاں کے کروڑوں باشندوں کی امنگوں اور آرزوؤں نیز شکستوں اور محرومیوں کا غیر جانبدار عکاس ہو۔ ظاہر ہے اس صورت میں پاکستانی ادب، ہندوستانی ادب یا ایرانی ادب یا چینی ادب یا انگریزی ادب سے مختلف ہو گا“ ۔ میرزا ادیب کی رائے ہے کہ ”وہ ادب جو پاکستان میں رہنے والے ادیبوں نے وجود پذیر کیا ہے۔ پاکستانی ادب ہی کہلائے گا“ ۔

ڈیجیٹل دور میں جب دنیا سمٹ کر ایک ہتھیلی میں سما جاتی ہو تو ان حالات میں سرحدوں کی بندش اور خیالات کی وسعت عالمگیر ہوجاتی ہے، تراجم کے ذریعے کسی بھی ملک کا ادب، دوسرے ملک میں منتقل کیا جاسکتا ہے، اگر اردو ادب کی بات کریں تو اس کی چاشنی کو مغربی ادب میں محسوس نہیں کیا جاسکتا، یہی عمل کسی بھی زباں سے دوسری زباں میں منتقلی کے دوران بھی درپیش ہوتی ہے۔ کسی بھی موضوع کی اصل وسعت کو مادری زبان میں بخوبی سمجھنا سہل ہوتا ہے، تاہم ادب سے محبت کرنے والے رنگ و نسل کی قیود سے آزاد ہو کر اس پرندے کی طرح سفر کرنا، زیادہ پسند کرتے ہیں، جو انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ ہوا کے دوش پر اڑائے پھرے۔

جدید دور کی وجہ سے جہاں زندگیوں میں سہل پسندی نے جگہ بنالی ہے اور تعیشات سمیت بے پناہ فوائد بھی مہیا کیے ہیں وہیں انسانوں کو اجہتاد اور ادب کی اصولی دنیا سے دور بھی کر دیا ہے۔ ادب شناس، کتابوں کو پڑھنے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں، ڈیجیٹل سہولیات سے انکار ممکن نہیں، لیکن جس طرح پی ڈی ایف نے کتابوں کو چھوٹے سے میموری کارڈ میں مقید کر دیا ہے، اس سے کتب بینی کے شوق کے ساتھ ساتھ مصنف اور پبلشرو ں کو بھی ناقابل تلافی نقصان کا سامنا ہے، تخلیقی عمل محدود ہو گیا ہے اور صرف دوست احباب تک ادب سمیٹتا جا رہا ہے۔ معرکۃ آرا ادب میں تخلیق کا عمل درپیش مشکلات کی وجہ سے محدود سے محدود ہوتا جا رہا ہے۔

بک فیسٹولز میں شائقین کتب کی بڑی تعداد کی آمد و دلچسپی ورطہ حیرت میں مبتلا کردیتی ہے کہ ابھی بھی کتب بینی سے محبت کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ لڑیچر فیسٹول میں کتابوں کے اسٹال ہوں یا پھر کتابوں کا تعارفی تقریبات، جمہوری اصولوں کے برخلاف بندوں کی تعداد گننیپر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ادب شناس احباب کے شوق و ذوق کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ آمنہ ا حسن بھی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے، جنہوں نے ادب شناس کے نام سے ایک ایسی بیٹھک بنانے کی تگ و دو میں کئی برس صرف کردیے، تا کہ کسی بھی طرح ادب شناس کی بیٹھک سے کتب بینی کا شوق بیدار کرنے کا شعور اجاگرکیا جائے۔

آمنہ احسن معروف لکھاری، بلاگر، تخلیق کار و تجزیہ نگار ہیں، کتابوں پر ان کے سیر حاصل تجزیے و آرا منفرد مقام کی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، بالخصوص ان کی تحاریر مشہور و معروف ادب میں خصوصی مقام رکھتی ہیں، یو ٹیوبر، بلاگر اور منفرد اسلوب ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا ماننا ہے کہ وہ کتابوں اور چہروں کو پڑھنے کا شوق ہے اور معاملات کو بات کر کے حل کرنے پر یقین رکھتی ہیں، آرٹس کونسل کراچی میں صرف چند احباب کی مدد سے انہوں نے ایک فیصلہ کر کے کارواں تک کے سفر میں اپنے عزم کو پختہ اور ارادوں کو مضبوط بنانے کے ساتھ شراکت داری کے لئے ایک تحریک کو جنم دیتے ہوئے کہا کہ ادب شناس ہماری چھوٹی سی بیٹھک ہے جس کا مقصد کتب بینی کو فروغ دینا ہے۔

کوئی بھی اس کا حصہ بن سکتے ہیں ”۔ ہر اتوار کو سہ پہر دو گھنٹے اس مقصد کے لئے وقف کیے جاتے ہیں، شرکا ء کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی لکھی یا کوئی بھی کتاب اپنے ساتھ لائیں گے اور اس میں سے اپنی پسند کا پیراگراف منتخب کر کے خود پڑھیں۔ صاحب کتاب اپنے خوبصورت اسلوب کے ساتھ نثر و شاعری کو پڑھتا ہے اور بے معنی بحث مباحثوں اور لایعنی گفتگو میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ادب شناس کے قافلے میں رفقا ء شامل ہوتے چلے جاتے ہیں اور پیغام محبت کی طرح ہر سو پھیل جاتا ہے کہ ادب کو زندہ رکھنا ہے تو پھر کتب بینی کو اپنانا ہوگا، مصروف ترین اوقات میں سے قیمتی وقت کے کچھ لمحات سوشل میڈیا کو دینے کے بجائے کتابوں کے مطالعے پر صرف کرنا ہوں گے۔

بظاہر یہ سب آسان لگتا ہے لیکن یقین جانئے، اس مشکل کام کا بیڑا آمنہ احسن نے اکیلے اٹھایا۔ جہد مسلسل سے نمود و نمائش و مصنوعی طرز زندگی سے نکل کر حقیقت کو قریب سے دیکھنے اور منجمد اذہان میں اجہتاد و تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لئے بے لوث عظیم خدمت کر رہی ہیں۔ مایوسی کے سمندر سے دور، امیدوں و نا امیدی کے لہروں کو ساحل تک پہنچانے کی تھکا دینے والی کوشش میں ان کے صرف چند رفقا وہ کام سر انجام دے رہے ہیں، جس سے نئی نسل کو مثبت پیغام مل رہا ہے۔

بظاہر اس کے اثرات ظاہری دکھائی نہیں دیں گے لیکن ہر ہفتے محفل میں نئے احباب کی آمد اور سوشل میڈیا میں تذکروں سے کتب بینی کا شوق بیدار ہو رہا ہے، کامیابی کے کسی بھی بلند بانگ دعوؤں سے بالاتر ہو کر ادب شناس کی بیٹھک کسی تعریف و ستائش کی خواہشمند بھی نہیں، اس کا مقصد صرف نئی نسل و جدیدیت میں اپنی اقدار کو بچانے کی ایک ایسی کاوش میں مصروف عمل رہنا ہے، جس سے ادب شناس کے دل میں کتابوں سے محبت و سماجیات کو سمجھنے میں مدد ملے۔ افراتفری کے اس دور میں ایسی بیٹھک کا تصور ناپید ہوتا جا رہا ہے، کچھ شعرا ء نے شاعری کے حوالے سے کونے کدروں میں اپنے کلام پیش کرنے کی روایت کو جیسے تیسے جاری رکھا ہوا ہے لیکن ادب شناس بیٹھک کا منفرد تصور کا عملی مظاہرہ آمنہ احسن کے سر جاتا ہے۔

ادب شناس کی یہ بیٹھک ہماری اڑتی گرد کے تمام خواب اور تعمیر اور حسرت تعبیر کی ہوشربا داستان ہے۔ کتابوں میں سیر حاصل معلومات کا خزینے سے درحقیقت باطنی وجود اور اوج تک رسائی کا سفر طے ہوتا ہے، اضطراب و سیمابی معاشرتی طرز احساس اور طرز فکر کو سمجھنے کے لئے معاشی، سیاسی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ ساتھ ادبی تاریخ کا مطالعہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ بالخصوص اردو زبان کے ارتقائی عمل کو جاری و ساری رکھنے کے لئے ادب شناس بیٹھک کی طرز پر مملکت کے ہر کونے میں نشستوں کا اہتمام کرنا، جہاں علاقائی زبانوں کے ادبیات کو فروغ دے گا تو دوسری جانب پاکستانی ادب و عالمی ادب کی تحریکو ں کے اثرات سے نئی نسل کے تشنگی اور سیلانی کیفیت کو شدت پسندی و انتہا پسند معاشرت سے دور کیا جاسکتا ہے۔

پاکستانی تخلیق کاروں نے ادب کی نمایاں انفرادیت کو موجودہ دور و حالات کے مطابق ڈھال کر سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن منزل کا پتہ دیتی ہے۔ ادب شناس کی کاوشوں کو سرہانے کا بنیادی مقصد ملک بھر کے ایسے احباب کی توجہ مرکوز کرانا بھی ہے، جو نئی نسل کی آبیاری کے لئے درست سمت کے تعین میں دقت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ادب شناس بیٹھک کا دائرہ اپنے علاقوں میں اپنی مدد آپ کے تحت بڑھانا اجتماعی ذمہ داری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments