ضیا شاہد اور یادیں


آج چھٹا دن ہے۔ میں روزانہ اپنے فون کو دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ ابھی فون آئے گا اور وہ کہیں گے ”ہاں جی۔ دنیا کی سب سے بیمار اور سست ترین عورت۔ کیا خبریں ہیں“ اور میں ہنستے ہوئے انہیں اندر کی خبریں اس شرط پر بتاؤں گی کہ وہ مجھے کوٹ کر کے نہیں چھاپیں گے۔ لیکن میرا فون خاموش ہے۔

ضیا صاحب دنیا کے لئے پاکستان کی جدید صحافت کے بانی اور مایہ ناز نڈر صحافی تھے لیکن میرے لئے۔ صرف ایک صحافی یا میرے چیف ایڈیٹر نہیں تھے۔ وہ میرے دوست تھے، میرے استاد تھے، اور میرے باپ تھے۔ میرا ان سے تعلق اگست 2013 سے شروع ہوا۔ میں تب برطانیہ کے ہفنگٹن پوسٹ کے لئے انگریزی میں لکھتی تھی کہ مجھے خبریں کے کالم نگار مکرم خان نے کہا کہ میں ضیا صاحب کے اخبار کے لئے اردو میں لکھنا شروع کروں۔ مکرم بھائی ہی نے میری ضیا صاحب سے پہلی بار بات اگست دو ہزار تیرہ میں کروائی اور اس پہلی بات چیت کے بعد ہی ہم فیملی بن گئے۔

میں یاسمین آنٹی کو آنٹی کہتی تھی لیکن ضیا صاحب کو میں نے ہمیشہ سر کہا۔ کیونکہ میرے بابا کی بہت ساری نصیحتوں میں سے ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ استاد سے انتہائی محبت یا قریب ترین رشتے کے باوجود ان کی تعظیم کرو اور سر کہا کرو۔ میں نے اپنے تمام استادوں کو ہمیشہ سر کہا۔ اور ضیا صاحب سے تو میں نے ہمیشہ، ان سے کی گئی ہر فون کال میں، ان سے سیکھا۔ ان کی یادداشت اتنی بلا کی تھی کہ انہیں انیس سو ساٹھ یا ستر کی دہائی کے واقعات بھی یوں یاد رہتے تھے جیسے کل کی بات ہو، جب کہ میں اپنی پچھلی کال بھی یاد نہیں رکھ سکتی تھی جس پر وہ مجھے بھلکڑ عورت کہہ کے قہقہے لگاتے تھے۔

انہیں پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ کا ہر بڑا واقعہ کسی فلم کے تازہ سین کی طرح یاد ہوتا تھا۔ چاہے وہ جنرل ایوب یا یحییٰ کی داستانیں ہوں، بھٹو صاحب کا وقت ہو یا بینظیر شہید اور نواز شریف کے ادوار۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے ایک جیتے جاگتے انسائیکلو پیڈیا تھے جس کا ثبوت ان کے کالم، تجزیے، اور کتابیں ہیں۔

ذاتی طور پر وہ ہر وقت، اور مشکل ترین وقت میں بھی ہنسنے اور ہنسانے والے انسان تھے۔ میں نے اپنی مشکلوں اور دکھ میں اپنے آپ پر ہنسنے کا فن ضیا صاحب سے سیکھا۔ ان پچھلے آٹھ سالوں میں صرف انہی پچھلے تین ہفتوں کے علاوہ کوئی ایسا ہفتہ نہیں تھا جب ہماری تقریباً روزانہ یا کم از کم ہفتے میں دو تین بار بات نہ ہوئی ہو۔ میری سرجری کے کچھ گھنٹوں بعد بھی۔ جب میری مشکل سے آواز نکل رہی تھی، میں نے اپنے بیٹے سے بات کرنے کے بعد جو واحد کال لی وہ ضیا صاحب کی تھی۔

انہوں نے حسب معمول اپنے انداز میں کہا ”چلو بچ گئیں نہ۔ اب آواز بھی ٹھیک ہو جائے گی“ ۔ مجھے کینسر کی تشخیص کے بعد وہ میری اپنی اہلیہ یاسمین آنٹی سے بھی باقاعدگی سے بات کرواتے جو کہ خود بھی تھائی رائیڈ کینسر سروائیور ہیں۔ میں سرجری کے بعد کندھے کے فالج اور اپنی آواز خراب ہونے کے بعد شدید ڈپریشن میں چلی گئی اور لوگوں سے فون پر بات کرنا تقریباً ختم کردی لیکن یہ ضیا صاحب ہی تھے جو مجھے پچھلے مہینے زبردستی چینل فائیو پر دوبارہ لائے کہ آپ پر یہ بھاری مردانہ آواز بھی جچتی ہے اور مجھے پاکستان میں بھاری آواز والی خواتین کے سیاسی لطیفے سناتے رہتے۔

میں نے سرجری کے فوراً بعد والا کالم بھی ضیا صاحب کے کہنے پر ہی لکھا۔ مجھے ہر فون کال میں کالم نہ لکھنے پر سخت سست کہتے اور ساتھ بہت ہنساتے بھی تھے۔ وہ مجھے بتاتے تھے کہ زندگی تمہیں دکھ دیتی ہے تو رونے کی بجائے اسے انگوٹھا دکھاؤ، ہنستے رہو اور لکھو۔ وہ بتاتے تھے کہ عدنان کی کم عمری میں وفات کے بعد انہوں نے کس طرح خود کو اور یاسمین آنٹی کو سنبھالا۔ کس طرح اپنی جوان سالہ بیٹی کے شوہر کے انتقال کے بعد اسے کام کی طرف راغب کیا اور خود بھی کئی شاہکار کتابیں لکھیں۔

ان کی ہر کتاب ایک تاریخ سموئے ہوئے ہے، میں خود کو انتہائی خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ انہوں نے اپنی کتاب میں میرا ذکر انتہائی اعلیٰ الفاظ میں کیا ہے۔ ان کے کالم لکھنے کے اصرار پر میں ہر فون کال کے بعد ”جی سر۔ ابھی لکھتی ہوں“ کہہ کے دوبارہ دو تین ٹویٹ کر کے بیٹھ جاتی اور کالم نہ لکھ پاتی جس پر دوسرے دن دوبارہ ان کا ڈانٹ بھرا فون آ جاتا اور میں معافی مانگتے ہوئے انہیں کوئی ایکسکلوسیو خبر سناتی تاکہ وہ ناراض نہ ہوں۔

میں انہیں کہتی تھی کہ سر خبر دے رہی ہوں لیکن میرا نام نہ لکھیں۔ وہ میری اس بات سے نالاں ہوتے تھے کہ یہ کیسی صحافی ہے جو اپنی خبر کا کریڈٹ نہیں لیتی، جبکہ میں اپنے شوہر کی سرکاری ملازمت کی وجہ سے پریشان رہتی تھی کہ میری وجہ سے اسے لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ ضیا صاحب کی مجھے زندگی میں سب سے بڑی نصیحت یہ تھی کہ صحافی کا خون ہمیشہ سرد ہونا چاہیے اور خبر بریک کرنے کے حوالے سے اسے کسی کا بھی لحاظ نہیں کرنا چاہیے۔

میں بنیادی طور پر دوستیاں نبھانے والی بندی ہوں اور میری یہ عادت انہیں بہت بری لگتی تھی۔ مجھے انہوں نے پانامہ کیس کے دوران میری ”جمہوریت پسندی“ پر بھی کافی جھڑکا اور پروگرام تک میں باقاعدہ ناراضگی کا اظہار کرتے تھے کہ میں غیر جانب دارانہ صحافیانہ حدود سے باہر نکل کے ”وزیراعظم نواز شریف“ کے نعرے کیوں لگاتی ہوں۔ وہ مجھے کہتے تھے کہ صحافی کا کوئی قبلہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک اچھا صحافی جب تک سیاسی طور پر ملحد نہیں ہو گا، اس کا کام نہیں نکھرے گا۔

پی ڈی ایم کی حالیہ سیاسی پیش رفت کے بعد بھی وہ مجھ سے بہت ناراض تھے کہ میں ”پٹوارن“ ہونے کے باوجود میاں نواز شریف کا انٹرویو کیوں نہیں لے سکی۔ انہوں نے پیمرا کی پابندیوں کے باوجود چینل فائیو پر اسحاق ڈار صاحب کا انٹرویو نشر کر کے جرمانے بھرے اور مجھے دعوے سے کہا کہ اگر میں میاں صاحب کا انٹرویو کروں تو وہ کسی بھی پابندی کی پرواہ نہیں کریں گے لیکن جب میں میاں صاحب سے وقت نہ ملنے کے باوجود ان کی سائیڈ لیتی تو وہ کہتے کہ تم شریفوں کو نہیں جانتیں یہ ”سندھی صحافیوں“ کو پوچھتے تک نہیں اور صرف ان سے بات کرتے ہیں جو ان کے دروازے پر دربانوں کی طرح گھنٹوں کھڑے رہیں۔ آپ ان کے ”دروازے“ پر کھڑے ہونے والوں میں سے نہیں، وہ آپ کو کبھی انٹرویو نہیں دیں گے۔

ضیا صاحب ہی نے مجھے حال ہی میں کہا کہ ایجنسیوں نے شریفوں کی طرف داری پر آپ کے بھائی تک کو اٹھا لیا لیکن مریم نواز نے کینسر ہونے کے باوجود آپ کی صحت کے لئے ایک ٹویٹ تک نہیں کیا۔ میں نے انہیں کہا کہ میں زرداری صاحب کی طرح ایسا دل ہی نہیں رکھتی جو ٹوٹ جائے۔ لیکن بہرحال انٹرویو کے حوالے سے ان کا یہ سخت شکوہ لفظ بہ لفظ ڈار صاحب تک پہنچا دیا جن سے میرا تقریباً روزانہ ہی رابطہ رہتا ہے۔ ڈار صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ لاک ڈاؤن کے بعد خبریں کے لئے ضیا صاحب اور میرے ساتھ میاں صاحب کا انٹرویو ارینج کروائیں گے لیکن وہ انٹرویو اب ضیا صاحب کی زندگی میں نہ ہو سکے گا!

ضیا صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتے تھے۔ وہ نہ صرف ڈرتے نہیں تھے بلکہ وہ بڑے سے بڑے فرعون کو منہ پر بھی سنا دیتے تھے اور ساتھ خبر بھی لگا دیتے تھے۔ وہ پاکستان کے واحد صحافی تھے جنہوں نے سارے ہی لیڈروں کے سامنے ان پر تنقید کی اور تنقید برائے تعمیر کی۔ وہ کبھی نہیں ڈرے اور کسی سے بھی نہیں ڈرے۔ ان پر جرمانے لگے، پابندیاں لگیں، لیکن وہ نہیں ڈرے۔

پاکستان میں دو ہزار سترہ سے صحافت مشکل ہو گئی، بہت سارے صحافیوں کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ اخباروں میں کالم چھپنا مشکل ہو گئے، لیکن خبریں واحد اخبار رہا جس نے میرے تمام کالم چھاپے اور بغیر سنسر کے چھاپے کیونکہ یہ ضیا صاحب کا وعدہ تھا کہ آپ لکھو، ہم بھگت لیں گے۔ جو دیکھ رہی ہو وہ لکھو، لیکن بس لکھتی رہو۔ میں نے اپنی پی ایچ ڈی کے دوران انتہائی کم لکھا لیکن جو لکھا وہ ضیا صاحب نے چھاپا اور بلا خوف و خطر چھاپا۔ ان کے اسٹاف کے لڑکے اگر میرے کالم میں ایڈیٹنگ کرتے تو وہ اس پر بھی ناراض ہو جاتے کہ میرے کالم کو کیوں چھیڑا۔

پی ایچ ڈی تھیسس کے دوران لکھنے پر پابندی کے باعث میرے کالم تو کم ہو گئے لیکن ضیا صاحب میری اسٹوریز خبریں میں چھاپتے رہے۔ مجھے لوگ کہتے تھے کہ آپ خبریں ہی میں کیوں لکھتی ہیں اور میرا جواب تھا کہ خبریں ہی واحد اخبار ہے جو مجھے بغیر کسی خوف کے چھاپ سکتا ہے۔ وہ نہ صرف قلم پر پابندی کے خلاف تھے بلکہ دوسرے کے انتہائی اختلافی نکات بھی کھلے دل سے سنتے تھے۔

میرے اور ضیا صاحب کے نقطہ نظر میں ایک سو اسی ڈگری کے زاویے کی طرح اختلاف ہوتے تھے۔ میمو گیٹ کے دوران مجھے زرداری گورنمنٹ کی طرف داری پر ”خوابیدہ جیالی“ کہہ کر چھیڑتے اور ”آپ کی پی پی پی حکومت“ کہہ کے طنز کرتے جس پر میں چیخ پڑتی کہ میرا پی پی پی سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن میری بھٹو صاحب سے عقیدت کو وہ خوابیدہ جیالی کی محبت کا نام دیتے جس پر میں بھی ہنس پڑتی۔ میں دو ہزار سولہ میں جنرل راحیل شریف کو ایکسٹینشن دینے کے حق میں تھی، جبکہ ضیا صاحب کسی چیف کو بھی ایکسٹینشن کے بنیادی خیال ہی سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔

ہماری ٹی وی پر کئی بار لائیو بحث ہوئی لیکن انہوں نے شدید اختلاف کے باوجود بھی مجھے کبھی اپنے پروگرام سے ”کٹ“ نہیں کیا۔ یہ الگ بات کہ مجھے دو ہزار انیس میں جاکر ان کے فلسفے کی سمجھ آئی کہ وہ ایسا کیوں کہتے تھے۔ سیاستدانوں کو بہرحال وہ فلسفہ اگلے عشرے تک بھی نہیں آئے گا۔

ہمارا پی ڈی ایم پر بھی شدید اختلاف رہا۔ وہ کہتے تھے کہ پی ڈی ایم کی ریلیاں چار دن کی چاندنی ہیں لیکن آگے مقدر میں اندھیری رات ہے۔ میں پرجوش ہوکے کہتی کہ نہیں سر آپ دیکھیں گے کہ جمہوریت کی جیت کیسے ہوتی ہے اور وہ ”اچھا جی“ کہہ کے خوب ہنستے۔ میرے مارچ کے آخری کالم کے بعد وہ خوب محظوظ ہوئے کہ پی ڈی ایم ٹوٹنے لگی ہے جب کہ میں خفت مٹانے کے لئے کہتی کہ آپ دیکھئیے گا کہ یہ پھر ساتھ مل بیٹھیں گے، لیکن اختلاف بڑھتے گئے اور ضیا صاحب کی بات ٹھیک ہی ثابت ہوئی۔

اسی طرح میں نے پانامہ کیس کے بعد میاں صاحبان کے حق میں جو بھی لکھا، ضیا صاحب کو اس سے شدید اختلاف رہا۔ وہ لاہور کے دل میں رہتے تھے ان سے لاہور کی گلی کوچوں میں رینگنے والے حشرات الارض تک پوشیدہ نہ تھے، ان کے پاس جو راز اور کہانیاں تھیں، اگر وہ چھپ جائیں تو تہلکہ مچ جائے۔ لہٰذا میاں صاحب کے کیس پر ہماری فون کالز پر تقریباً شدید لڑائی ہو جاتی لیکن انہوں نے ہمیشہ میری رائے پر اپنی رائے کو اثر انداز نہ ہونے دیا اور یہی ان کا وہ بڑا پن تھا جو ہمیں اب نئے زمانے کے استادوں میں نظر نہیں آتا۔ اور یہی وہ بات ہے جس کو میں اپنی تمام عمر محسوس کروں گی کہ مجھے ضیا صاحب جیسا استاد اب نہیں ملے گا۔ بلکہ اب صحافت میں استاد رہے ہی نہیں، یہاں پر نئے لکھنے والوں کو سب سے زیادہ خطرہ اور مخالفت سینئر لکھنے والوں سے ہے جو انہیں اس ڈر سے اخباروں میں گھسنے نہیں دیتے کہ وہ ان سے آگے نہ نکل جائیں۔

مارچ کے آخر میں مجھے کینسر کے علاج کے دوسرے مرحلے میں ریڈیو ایکٹو ٹریٹمنٹ کے لئے اسپتال میں داخل ہونا تھا۔ ضیا صاحب نے یاسمین آنٹی سے لمبی بات کروائی جو کہ خود بھی اس مرحلے سے گزر چکی تھیں۔ میری ضیا صاحب سے آخری اور ادھوری بات اسپتال میں داخل ہونے کے بعد ہی ہوئی۔ میرے فون کا اسپیکر پلاسٹک فلم میں پیک ہونے کی وجہ سے جام ہو رہا تھا اور مجھے ان کی آواز ٹھیک طرح سے سنائی نہیں دے رہی تھی۔ میں نے انہیں کہا۔

سر سگنلز ٹھیک ہوجائیں تو میں آپ کو کال کرتی ہوں۔ لیکن میں کال نہیں کر سکی۔ میں ایک ہفتہ اسپتال میں رہی اور دوسرے ہفتے گھر کے ایک کمرے میں بند، جس نے میرے اعصاب پر بہت برا اثر ڈالا۔ میں اپنے ہی بچوں کے ساتھ دو میٹر کے فاصلے پر کچھ منٹوں کے لئے چہل قدمی کے دوران بات کرتی تھی، کیونکہ میرے ریڈیو ایکٹو ہونے کی وجہ سے وہ نزدیک نہیں آسکتے تھے۔

پچھلا پیر ہی وہ پہلا دن تھا جب میں نے بچوں کے ساتھ مل کے لنچ کیا اور گھر سے باقاعدہ واک کے لئے اکیلی باہر نکلی کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کا ٹیکسٹ آیا کہ ضیا صاحب کا انتقال ہو گیا۔ میرے قدم لڑکھڑا گئے اور میں شدید سردی اور برف میں وہیں فٹ پاتھ پر ایک گھر کی منڈیر پر بیٹھ کے رونا شروع ہو گئی اور تب تک وہیں بیٹھی رہی جب تک میری نوشین سے بات نہ ہوئی۔ ہم دونوں رو رہی تھیں اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں پرسا کیسے دوں یا تعزیت کے لئے کیا کہوں۔ میری یاسمین آنٹی سے بات کرنے کی ابھی تک ہمت ہی نہیں ہوئی کہ مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ میں ان سے کس طرح تعزیت کروں کہ ابھی تک اپنے واٹس ایپ پر ضیا صاحب کا اسٹیٹس دیکھتی ہوں جو کہتا ہے ”لاسٹ سین سنڈے 2 : 21“

میں بس سوچتی ہوں کہ یہ سب غلط ہے اور وہ فون کر کے کہیں گے ”ہاں جی۔ دنیا کی بیمار ترین عورت۔ آپ ابھی زندہ ہیں؟“ اور میری ہیلو سن کے پھر ایک قہقہہ بھی لگائیں گے۔

لیکن۔ ۔ ۔
لیکن!

شمع جونیجو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمع جونیجو

شمع جونیجو علم سیاسیات میں دلچسپی رکھنے والی ماہر قانون ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن سے ایل ایل بی (آنرز) کے علاوہ بین الاقوامی تعلقات میں میں ایم اے کیا۔ ایس او اے ایس سے انٹر نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز اور ڈپلومیسی میں ایم اے کیا۔ آج کل پاکستان مین سول ملٹری تعلاقات کے موضوع پر برطانیہ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ تعلیم کے لئے بیرون ملک جانے سے پہلے شمع جونیجو ٹیلی ویژن اور صحافت میں اپنی پہچان پیدا کر چکی تھیں۔

shama-junejo has 15 posts and counting.See all posts by shama-junejo

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments