“پریم چند گھر میں”: ایک فیمنسٹ ادیب کی زندگی کی کتھا


کسی بڑی ادبی شخصیت کا اصل روپ دیکھنا ہو تو اسے گھر میں دیکھیں. اکثر اوقات انسان دوستی اور عورتوں کے حقوق کے دعویدار دانشور جلوت اور خلوت میں بہت مختلف رویہ رکھتے ہیں. ان کا بس نہیں چلتا کہ گھر میں سوال اٹھانے والی بیوی کا منہ کس طرح بند کردیں. جبکہ باہر کی دنیا میں ان کا رویہ بالکل برعکس ہوتا ہے. مگر منشی پریم چند کا شمار ان سچی اور ستھری ہستیوں میں ہے کہ جن کا اندر اور باہر ایک تھا. یقین نہ آئے تو کتاب “پریم چند گھر میں” پڑھ کے دیکھیں، جس کے مطالعہ کے بعد مجھے یقین ہوا کہ پریم چند نے اپنی تحریروں میں نوآبادیات اور برطانوی سماج کے ہاتھوں ملکی غلامی، جاگیر داری اور معاشی ناہمواری کے نظام، سماجی غربت، اور جہالت کے باعث پھیلی توہم پرستی کو ہی نہیں چیلنج کیا، بلکہ اپنے قلم کی سب سے کاری ضرب سماج میں عورتوں کے حقوق سلب کرنے والوں اور انہیں کمتر درجہ کا فرد سمجھنے والوں پہ لگائی. اس طرح میری نظر میں صنفی تفریق کے خلاف لڑنے والے فیمنسٹ ادیبوں میں پریم چند کا نام سر فہرست ہے. جنہوں نے آج سے سوا سو سال قبل چکلے میں بیٹھی مجبور عورتوں سے لے کر کمسنی میں بیاہ اور بیوہ لڑکیوں کی دوسری شادی کے لیے قلم ہی نہ ہیں اٹھایا بلکہ سماج سے ٹکر لے ایک بیوہ عورت شیو رانی سے شادی کر کے دیرینہ الفت و رفاقت کا رشتہ بھی جوڑا.

“پریم چند گھر میں” ایک سوانح اور پیار کی وہ کتھا ہے جو ادب کی نامور ہستی منشی پریم چند کی وفات کے بمشکل تین سال کے دوران ان کی بیوی شیو رانی دیوی نے دکھ کی شدت سے رواں آنسوؤں میں ڈوب کے رقم کی. مگر ان کی تحریر کا کمال یہ ہے کہ غم سے مغلوب جذباتی ریلے نے ان کی تحریر کی سچائی، سادگی اور روانی کو زک نہیں پہنچائی. بلکہ کتاب کو ایسے شفاف آئینہ کی صورت دی جس میں ہم پریم چند کی اجلی شخصیت کا عکس بالکل واضح طور پہ دیکھ سکتے ہیں. یہ پریم کی وہ داستان ہے کہ جسے شو رانی نے ( 1905ء سے 1936ء) اپنے پتی پریم چند کے ساتھ گزارے پہلے دن سے آخری سانسوں تک کے لمحات کو رقم کیا. جو انہوں نے اپنی یاد داشت کی بنیاد پہ ایک دوسرے کے درمیان ہونے والے مکالموں کی صورت لکھا ہے.

ہندی میں لکھی گئی یہ کتاب پہلی بار 1944ء میں چھپی. اردو میں اس کا ترجمہ ہمارے عہد کے اہم ادیب ڈاکٹر حسن منظر نے کیا. اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھ پہ پریم چند کی زندگی کے وہ پہلو کھلتے چلے گئے جس نے انہیں سماج میں بسنے والے عام اور غریب انسان کے مسائل سے جڑا ہوا اور حق کی آواز اٹھانے والا عظیم ادیب بنا دیا.

پریم چند 31 جولائی 1880ء میں بنارس میں پیدا ہوئے. ان کا پیدائشی نام دھنپت رائے تھا. سات برس کی عمر میں محلے کے مدرسے بھیجے گئے جہاں مولوی صاحب سے اردو اور فارسی زبان، گلستان بوستان، حکایت سعدی غرض وہ کچھ سیکھا جس کا آج کے متعصب اور رواداری سے عاری معاشرہ میں تصور بھی نہیں. سب سے چھوٹی اولاد ہونے کے ناتے پیار تو بہت ملا. لیکن ابھی آٹھ سال کے تھے کہ لاڈ اٹھانے والی ماں کا انتقال ہو گیا. باپ نے جلد ہی شادی کرلی. باوجود اس کے کہ سوتیلی ماں کا سلوک ان سے کبھی بھی اچھا نہ رہا، پریم چند نے مرتے دم سوتیلے رشتوں کی ہر طرح سے خبر گیری کی. تاہم کم عمری میں ماں سے محرومی اور تنہائی نے انہیں عمر بھر کے لیے کتابوں سے جوڑ دیا.

وہ زمانہ جہاں عالمی سطح پہ سیاسی بیداری کا تھا. وہاں برطانوی سامراج کے تسلط کے ہاتھوں غلام ہونے والی ہندوستانی قوم کا بھی کا تھا جہاں آزادی کی اٹھنے ولی تحریکوں کو کچلا جا رہا تھا. ایسے میں پریم چند کی تحریریں مذہبی اور لسانی تفریق سے بے نیاز اور رنگ و نسل کی قیود سے آزاد قومی تحریک کی صورت تھیں. جس میں سیاسی طاقت کے استعمال کے بجائے گاندھی کی عدم تشدد کا اثر تھا.

گھر میں ان کا بیوی سے روایتی رشتہ نہ تھا جہاں بیوی زندگی کی ساتھی ہونے کے بجائے شوہر کی تابع فرمان اور ماتحت ہوتی. پریم چند اپنی بیوی کے ہر قدم کے ساتھی تھے. انہوں نے مذہبی، سیاسی، اور ادبی تربیت میں بیوی کو ساتھ ہی نہیں دیا بلکہ آگے رکھا. ان کو خدمت گزار اور زبان بند تابع فرمان بیوی کے بجائے صاحب الرائے محبوبہ کا درجہ دیا. پریم چند بیوی سے خدمت لینے کے قائل تھے نہ عادی. نہ ان سے پاؤں دبوائے اور نہ حاکم بن کر گھر میں فرمان جاری کیے. ہاں البتہ وقت پڑنے پہ انہوں نے بیمار بیوی کے سر میں تیل لگایا، بال سنوارے، بچوں کا خیال رکھا اور کھانا پکایا. “میں چاہتا ہوں اس گھر کی ملکہ بن کر مجھ پربھی حکومت کرو.” اب وہ الگ بات ہے جب لکھنو کے راجہ نے چار سو روپے نان نفقہ، بنگلہ اور موٹر کار کی پیشکش کی تو وہ انہوں نے تنگدستی کے باوجود رد کر دی.

عورتوں کے متعلق ان کا کہنا تھا
“جب عورتیں اپنے کو مرد سے الگ سمجھنے لگیں تو یاد رکھنا دنیا بہت ڈرائونی جگہ ہو جائے گی.”
“عورت مرد کا ٹکراؤ کیسا؟ عورتوں سے نفاق میں تو ہم زندہ بھی نہیں رہ سکتے.”
اور یہ بھی کہ

“ایسا معلوم ہوتا ہے سارے شکنجے عورتوں کے لیے ہیں. اس سے مردوں کو کوئی بحث نہیں. سارے قاعدے قانون جو اپنے لیے بنائے ہیں ان سے الٹ عورتوں کے لیے بنائے ہیں.”

اپنے گھر میں ادب، سیاست اور مذہب پہ گفتگو کا سلسلہ رکھا. بلکہ بیوی کی آگہی کے لیے باقاعدگی سے انگریزی اخبار کا ترجمہ کرتے رہتے. یہ اسی ادبی، علمی اور ذہنی تربیت کا نتیجہ تھا کہ معمولی گھریلو پڑھی لکھی شیو رانی نے جب ادب کی دنیا میں قدم رکھا تو اہم موضوعات پہ بہت سے معیاری افسانے لکھے. لیکن بات قلم سے دوستی پہ ہی نہ رکی. ان کی سیاسی بالیدگی نے برطانوی سامراجیت کے خلاف کانگریس کی ملکی آزادی کی جنگ نے شیو رانی کو جیل کی راہ بھی دکھا دی. ان کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ با اعتماد، سچی اور دبنگ خاتون تھیں. پریم چند ان کے متعلق لکھا ہے “وہ ایک نڈر، ہمت ور، مصالحت آشنا، پرخلوص خاتون ہیں. اپنی غلطی کو ماننے والی، لیکن ضرورت سے زیادہ مضطرب مزاج، وہ عدم تعاون تحریک میں شریک ہوئیں اور جیل گئیں. میں ان کے ساتھ خوش ہوں، اس کی تمنا نہیں کرتا جو وہ نہیں دے سکتی ہیں. انھیں لچکایا نہیں جا سکتا چاہے وہ اس میں ٹوٹ ہی جائیں.” یہی وجہ ہے کہ پریم چند کی خواہش کے باوجود انہیں پردہ اتارنے میں دس سال لگ گئے.

واضح رہے کہ شیو رانی پریم چند کی دوسری بیوی تھیں. پہلی شادی پندرہ برس کی عمر میں اپنے سے خاصی بڑی، بدمزاج، لڑاکا اور بگڑی ہوئی امیر خاتون سے ہوئی تھی. جن سے رشتہ ٹوٹنے کے بعد 1905ء میں شیو رانی سے اپنی مرضی سے دوسری شادی پچیس سال کی عمر میں کی.

پریم چند نے اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں جم کے لکھا. وہ انسانوں کے درمیان مذہب اور لسانی تفریق کے خلاف تھے. ان کا کہنا تھا. “حقیقت تو یہ ہے کہ میرے لیے کوئی مذہب نہیں. رام، رحیم، عیسیٰ سب برابر ہیں. ان بڑی ہستیوں نے جو کچھ کیا، درست کیا. ان کے پیچھے چلنے والوں نے اس کا الٹ کیا. کوئی مذہب ایسا نہیں کہ جس میں انسان سے حیوان ہونا پڑے. اسی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ میرا کوئی مذہب نہیں.”

افسانے ناولز، بچوں کا ادب اور فلمی کہانیاں غرض دیہاتی کاشتکاروں اور بے بس عوام حمایت میں ان کا قلم پھاوڑا بن گیا. وہ تمام عمر اپنی نڈھال کرنے والی پیچش (غالباً امیبک اسہال) میں مبتلا ہونے کے باوجود مسلسل اپنا ادبی کام کرتے رہے. آزادی کی تحریک میں وہ گاندھی کو مہاتما جانتے تھے لیکن جو رہنمائی پریم چند نے اپنے قلم سے کی اس نے انہیں ادب کا مہاتما بنا دیا.

گو ہم پریم چند کے عہد میں نہیں پیدا ہوئے لیکن کیا یہ ہماری خوش نصیبی نہیں کہ ہم اردو ادب کے نامور ادیب ڈاکٹر حسن منظر کے عہد میں سانس لے رہے ہیں. جنہوں نے پریم چند کی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے انسان دوستی، سچائی اور سادگی سے اپنے قلم کو مظلوموں کی آواز اور سماج میں تبدیلی کا ذریعہ بنایا.

1936ء میں جب چھپن برس کی عمر میں پریم چند کا انتقال ہوا تو شیو رانی دیوی نے اپنے محبوب ساتھی کی یاد میں ڈوب کر جو لکھ دیا وہ ادب پڑھنے والوں کے لیے آنسوؤں میں لپٹا وہ تحفہ ہے جس کے لیے شکریہ کا لفظ بے معنی ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments