مشرف عالم ذوقی: لمحے جو مردار ٹھہرے



چار سو موت کا سکوت محیط
کوئی آہٹ نہ کوئی گونج، نہ چاپ
آسماں دم بخود، زمیں خاموش
اپنی کم مائیگی سے بے دل چاند
ہر ستارہ ہے دیدۂ بے نور
برف سا سرد اور جامد وقت
زندگی جیسے پتھروں کا ڈھیر
اے میرے دل، تجھے کہاں لے جاؤں؟
شب کا سیسہ پگھلنے والا ہے
مان بھی جا۔ وہ اب نہ آئے گا
۔ فہمیدہ ریاض

محبت اور عشق کی نوحہ گری میں وائرس آ گیا ہے ۔ بہت بھیانک اور نیا وائرس۔ سب چہرے پر ماسک لگ گئے۔ آبادیاں شہر خموشاں میں تبدیل ہو گئیں۔ لوگ مرنے لگے۔ شہر خموشاں میں وحشتوں نے اپنے ڈیرے ڈال دیے۔ ہر سمت وحشتوں کی حکومت قائم ہو گئی اور موت نے اپنا تانڈو دکھانا شروع کیا۔ وبا کی وجہ سے ہم موت کا تانڈو دیکھنے لگے۔

اسکرین پر ایک لیڈی صحافی نے اپنی آنکھوں سے آنسو کو اڑاتے ہوئے کہا۔
میں آج آپ لوگوں سے کوئی سوال نہیں کروں گی۔ ہاں ایک سوال ضرور کروں گی۔
’ڈر لگ رہا ہے؟ لگ رہا ہے ناں ڈر؟‘
’ہاں بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘

ایک جج کی بیوی مر گئی اور اس کی لاش کو لے جانے والا کوئی نہیں۔ اندازہ لگائیے کہ عام انسانوں کی حالت کیا ہو گی۔ اسپتال میں بیڈ نہیں ہے۔ شمسان میں مردوں کو جلانے کے لیے جگہ بھی نہیں۔

’ہاں۔ مجھے بہت ڈر۔ لگ رہا ہے۔‘

وبا پھیلی اور پھر پھیلی۔ شہر خالی ہوا اور پھر خالی ہوا۔ مگر پرتو خور میں جھلستے شب و روز کے درمیان لوگوں کی ہلاکتوں والی خبروں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کوئی نہ کوئی مرتا رہا۔ وبائی وقت ایک سال سے زائد کا عرصہ بھی گزار گیا اور ہیلتھ سسٹم آج بھی وہیں کا وہیں۔

ہزاروں اور لاکھوں انسانی موت کی ذمہ دار، صرف یہاں کی حکومت نہیں۔ وہ چالیس فیصدی لوگ بھی ہیں جو ترشول کو ہوا میں لہرا کر ہمیشہ وحشتوں سے محبت کرتے آئے ہیں۔ جو مندر و محراب کی بنیاد پر زعفرانی دہشت گردوں کو اقتدار میں لا کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے آئے اور چہار جانب پھیلتے چلے گئے۔ یہی ذمہ دار ہیں فساد اور کرپشن کے، رشوت اور کالا بازاری کے، ہزاروں ابھرتی دردناک چیخوں اور لاکھوں انسانی موت کے۔

اور انہی کے خلاف نڈر ہو کر لڑنے اور بے باک لکھنے والا تھا اردو فکشن کی عظمت کا نشان، مشرف عالم ذوقی۔ وہ حال کی فضاء میں پھیلے سیاہ دھند سے مستقبل کی ہیبت کے معنی کو کشید کر لیتا اور لفظوں کے کولاز سے کاغذ پر خون کی لکیریں کھینچ کر تلواریں بناتا اور دوسرے ہی لمحے اس کا قلم توپ بن جاتا۔

بم اور دھماکے کی بھیانک آواز قاری کے ذہن و دماغ پر حاوی ہو جاتی اور ایک ہی جست میں قاری خود کو دشت حیرت میں محسوس کرتا۔ خلفشار و تضادات کے خلاف کھل کر بولنے اور لکھنے والا اس جیسا کوئی نہیں تھا اور نہ ایسا کوئی آئے گا۔

اس کا لکھنا، صرف لکھنے تک محدود نہیں تھا۔ احساس کی تپتی گرم ریت سے ہو کر گزرنا ہوتا تھا۔ ذہنی ابال کی آنچ پر بنتی اس کی تحریریں ہوں یا دھند کی چادروں میں گم ہو جانے والے سوالوں کی برچھیاں جو جسم کو اندر تک زخمی کیے دیتی ہیں، وہ صرف جنون کا ایک قطرہ نہیں ہوتا تھا۔ ایک آگ ہوتی تھی جو سب کچھ کو جلا کر راکھ کر دینا چاہتی تھی۔

اب جب دنیا ایک خوفزدہ کر دینے والی خانقاہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ادب کے بڑے بڑے نام دھند کا حصہ بن چکے ہیں تو یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ دنیا، دنیا کہاں ہے؟ ذوقی نے دنیا کو مردہ گھر کہا تھا اور یہاں بسنے والے زندہ انسانوں کو مردار۔ لیکن ٹھہریے۔ یہاں صرف انسان نہیں مرتے۔ احساسات مر جاتے ہیں۔ لمحے، تخیل، خواب اور آسماں سب ایک ساتھ دفن ہو جاتے ہیں۔ لیکن کچھ لمحے ہوتے ہیں جو آپ کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتے۔ کچھ مردار لمحے جن کی موت ہو چکی ہوتی ہے اور ان مردہ لمحوں کی روحیں احساس کے ویران کھنڈروں میں بے چین بھٹکتی پھرتی رہتی ہیں۔ انہی ویران کھنڈروں میں کبھی کبھی عشق کی دستک ہوتی ہے۔

ادب اور ذوقی کا عشق، جیسے رومی اور شمس تبریز کا عشق۔ میں عہد ذوقی میں ہوں۔ اور میں محسوس کر رہا ہوں کہ عشق کی پگڈنڈیوں سے ابھی ابھی حافظ شیرازی نے میری آنکھوں کو چومے بغیر دنیا کو الوداع کہہ دیا ہے۔

ہرکس کہ دیدہ روی تو بوسید چشم من
کاری کہ کرد دیدہ من، بی نظر نکرد
’کیا تم نے ذوقی کو دیکھا ہے؟ مجھ سے یہ سوال کیا گیا۔
’نہیں دیکھا۔‘
’مطلب کبھی ملے بھی نہیں؟
’نہیں۔‘
’تو پھر تم کیسے جانتے ہو؟

اب آبدیدہ ہونے کی باری میری تھی۔ ادب میں کچھ رشتے بہت خاموش ہوتے ہیں۔ ان میں آواز نہیں ہوتی۔ یہ رشتے نہ ملک دیکھتے ہیں اور نہ سرحد۔ کہانیوں کی کائنات سے پیدا ہوتے ہیں اور خود کہانی بن جاتے ہیں۔

میں ذوقی کو اتنا ہی جانتا ہوں۔ جتنا میں منٹو اور پریم چند کو جانتا ہوں۔ مارکیز اور ٹالسٹائی کو جانتا ہوں۔ جتنا میں غالب اور میر کو جانتا ہوں اور ادبی دنیا کے سینکڑوں ایسے ادیبوں اور شاعروں کو جانتا ہوں جن سے نہ میری کبھی ملاقات ہوئی اور نہ کبھی کوئی بات چیت۔ پھر میں ذوقی کو کیسے بھول سکتا ہوں۔

ریختہ کے انٹرویو کا سوال آج بھی میرے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ ’آپ اتنا کیسے لکھ لیتے ہیں؟‘ یہ سوال ذوقی سے تھا۔

’ہاں۔ مجھ سے یہ سوال بار بار کیا جاتا ہے۔ اور یہ الزام بھی مجھ پر لگایا جاتا ہے کہ آپ تو بسیار نویس ہیں۔ مگر آج میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں۔ کیا کسی نے ٹیگور سے پوچھا اس نے اتنا کیسے لکھ لیا؟ کیا کسی نے دوستوئیفسکی سے پوچھا کہ اس نے اتنا کیسے لکھا؟ کیا کسی نے بالزاک سے یہ سوال پوچھا؟ نہیں پوچھا۔ کیوں کہ ان لوگوں کا کام ادب کی دنیا میں سانسیں لینا تھا۔‘

وہ کہہ رہا تھا کہ میں دوستوئیفسکی، ٹیگور، بالزاک اور مارکیز سے الگ نہیں ہوں۔ وہ منٹو کی طرح بے باک اور نڈر تھا اور دوستوئیفسکی کا ناول جرم وسزا اس کا آئیڈیل۔ اٹھاون برس کے طویل عرصے میں اس نے کم و بیش اپنی زندگی کا ہر روز ادب کی آغوش میں گزارا ہے۔ شمس الرحمان فاروقی کے سانحے کے بعد ذوقی جیسے قدآور ادیب کا ہمیں چھوڑ کر چلے جانا ادب کے لیے نہایت نبرد آزما لمحہ ثابت ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments