پاکستان تحریک انصاف کا 25واں یوم تاسیس: کیا عوام کے پیسوں سے چلنے والے چینل پی ٹی وی پر کسی سیاسی جماعت کی تشہیر مناسب ہے؟

منزہ انوار - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


عمران خان

آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہی ہو گا کہ ’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، اور دکھانے کے اور۔‘ کچھ ایسا ہی حال سیاسی جماعتوں کا بھی ہے۔۔۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے وہ برسرِ اقتدار پارٹیوں پر جس بنا پر تنقید کرتی ہیں، اقتدار ملتے ہیں خود اسی معاملے پر تنقید کا نشانہ بن جاتی ہیں۔

اب پاکستان تحریکِ انصاف کی مثال ہی لے لیجیے۔۔

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف آج اپنا 25واں یومِ تاسیس منا رہی ہے اور اس حوالے سے سرکاری و ریاستی ذرائع ابلاغ پر ہر جانب وزیرِ اعظم عمران خان کی تصاویر اور ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی 25 سالہ جدوجہد اور کامیابیوں کا چرچا ہے۔

یاد رہے 25 اپریل 1996 کو پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم اور سابقہ کرکٹر عمران خان نے اس جماعت کی بنیاد رکھی تھی اور وہی اس کے پہلے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔

قومی نشریاتی چینل پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) نے اس حوالے سے سات ٹویٹس پر مبنی ایک تھریڈ پوسٹ کیا ہے جس کا آغاز چینی فلاسفر لاؤ ژو کے ایک قول سے کیا گیا ہے ’ہزاروں میل کے سفر کا آغاز ایک قدم سے ہوتا ہے۔۔ اور آج سے 25 برس پہلے عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور رکاوٹوں، مشکلات اور چیلنجوں پر قابو پاتے ہوئے سنہ 2018 میں وزیر اعظم پاکستان کا عہدہ سنبھالا۔‘

اس تھریڈ میں وزیرِ اعظم عمران کی بطور کرکٹر کامیابیاں، شوکت خانم ہسپتال کا قیام اور ان کے سیاسی سفر کا ذکر شامل ہے۔ مگر اس معاملے میں محض تحریک انصاف کی مثال ناکافی ہوگی۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی برسرِ اقتدار جماعت نے اپنی سیاسی جدوجہد اور کامیابیاں پیش کرنے کے لیے ریاستی وسائل یا ذرائع ابلاغ کا سہارا لیا اور انھیں جماعت کے مقاصد دکھانے کے لیے استعمال کیا ہو۔

مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت پاکستان میں ماضی کی حکمراں جماعتیں بھی کسی نہ کسی بہانے کبھی آٹے کے تھیلوں اور کبھی لیب ٹاپ پروجیکٹ کے ذریعے تشہیری مقاصد کے لیے اپنی تصاویر سرکاری منصوبوں پر استعمال کرتی آئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پی ٹی وی واقعی غیر سیاسی ہو گیا ہے؟

آمنہ مفتی کا کالم اڑیں گے پرزے: پی ٹی وی کی سالگرہ کا تحفہ!

‘سر صرف پی ٹی وی ہوم اور پی ٹی وی سپورٹس کی اجازت ہے’

تاہم تحریکِ انصاف پر تنقید کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جب یہ جماعت اپوزیشن میں تھی، اس وقت سرکاری وسائل کو اپنی سیاسی جماعت کی تشہیر کے لیے استعمال کرنے پر دیگر جماعتوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیتی تھی۔

شاید اسی لیے آج اس جماعت کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا سامنا ہے اور پاکستانی عوام انھیں ماضی میں کیے گئے وعدے یاد دلا رہے ہیں۔

ایسے میں کئی صارفین یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ’کیا پی ٹی وی کو ایک سیاسی جماعت کے لیے اس طرح کی مہم چلانی چاہیے؟ پی ٹی وی عوام کے پیسوں پر چلتا ہے، پی ٹی آئی کے پیسوں پر نہیں چلتی۔‘

جنید نامی صارف نے لکھا ’پی ٹی وی کو تو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ یہ شرم کا مقام ہے۔

جبکہ نعمان وڑائچ اپنے ٹویٹ کے ذریعے پوچھتے ہیں کہ ’کیا عمران خان کو ذاتی تشہیر کا اتنا شوق ہے کہ سرکاری چینل جو عوام کے پیسوں سے چلتا ہے، اس پر اپنی اور اپنی پارٹی کی تشہیر کی جارہی ہے؟‘

ایک اور صارف سعود نے لکھا ’مسلم لیگ ن جب اقتدار میں آئے تو اس ایئر ٹائم کا بل عمران خان کو ضرور بھجوائے اور ساتھ نیب ریفرنس بھی داخل کرے۔‘

دوسری جانب تحریکِ انصاف کے 25ویں یومِ تاسیس پر سوشل میڈیا پر مبارکبادوں کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اور پارٹی کارکنان کے علاوہ اس جماعت کے مداحوں کی بڑی تعداد وزیرِ عمران خان کے طویل سیاسی سفر اور ان کی انتھک جدوجہد پر انھیں خراجِ تحسین پیش کررہے ہیں۔

تحریکِ انصاف کے سینیٹر شہزاد وسیم نے لکھا ’25برس قبل چیئرمین عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور ایک طویل و انتھک جدوجہد کے بعد بلآخر دو پارٹیوں کے نظام کو توڑا اور برسراقتدار آئے۔ اب وزیراعظم عمران خان کی زیر قیادت پاکستان قانون کی حکمرانی، کرپشن کے خاتمہ، معیشت کی مضبوطی، ترقی و خوشحالی کی منزل کی جانب گامزن ہے۔

سرفراز نے لکھا ’مجھے فخر ہے کہ میں نے عمران خان کو اپنا قائد مانا اور پھر اپنی آج تک کی زندگی عمران خان کے نظریے پہ گزاری۔ میں عمران خان کی تحریک کا ایک مجاہد ہوں۔ انشاءاللہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک عمران خان کے نظریے پر کھڑا رہوں گا۔‘

’ریاست اور عوام کا ذاتی یا پارٹی کی حیثیت سے کی گئی جدوجہد سے کوئی لینا دینا نہیں‘

اس حوالے سے صحافی سید طلعت حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب پچھلی حکومتیں کسی ترقیاتی منصوبے پر اپنا نام لکھتیں یا کسی آٹے کے تھیلے پر تصاویر چھاپتیں تھیں تو پاکستان تحریکِ انصاف ان کی خوب دھلائی کرتی اور کہتی کہ یہ مغلیہ بادشاہ ہیں جو ریاست اور عوام کے وسائل کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں لیکن اب وہی کام بڑے پیمانے پر ہوتا نظر آ رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تحریکِ انصاف پر تنقید کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ جماعت ماضی کی حکومتوں کو اسی بنا پر موردِ الزام ٹھہراتی آئی ہے اور دوسری جماعتوں پر اعتراض کرنے، ان کا احتساب کرنے اور معیار مقرر کرنے والی جماعت اگر خود اس معیار کی دھجیاں اڑائے تو ان کے خلاف تو پھر دہرا مقدمہ بنتا ہے۔‘

طلعت حسین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی 25 سالہ جدوجہد سے ’ریاست اور عوام کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اور ایسی جدوجہد یا کامیابی کو عوام کے پیسوں سے فنڈ کرنا بہت ہی معیوب بات ہے۔‘

انھوں نے کورونا وائرس کے باعث پاکستان میں موجودہ حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ایسے موقع پر حالات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے، اس وقت پاکستان میں کورونا کی وبا نے لوگوں کی جانوں کو گرفت میں لیا ہوا ہے اور اگر ویکسینشن کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو اب تک ہم نے صرف 0.7 فیصد آبادی کو ویکسین لگائی ہے جبکہ عراق نے اپنی آبادی کے 0.8 فیصد کو ویکسین لگا دی ہے۔۔۔ اور ہم اس کی توجیہ یہ پیش کرتے آئے ہیں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔

طلعت حسین کا کہنا تھا کہ ’ایک ایسی حکومت جو ہر جگہ پر پیسے نہ ہونے کا رونا روتی ہے اور اس بنا پر شہریوں کی جانوں سے متعلق معاملات کو مؤخر کرتی ہے، ایسی حکومت کی جانب سے یہ شاہ خرچیاں اور بھی بری بات ہے۔‘

عمران

فیصل جاوید: ’ہم نے برسرِ اقتدار آ کر پی ٹی وی کو نیوٹرل (غیر جانب دار) بنایا ہے‘

جہاں پاکستان تحریکِ انصاف اپوزیشن میں رہتے ہوئے ماضی کی برسرِ اقتدار جماعتوں پر اپنی پارٹی کا پرچار اور تشہیر کے لیے حکومتی وسائل استعمال کرنے پر تنقید کرتی آئی ہے، تو کیا اقتدار میں رہتے ہوئے خود وہی کام کرنا اور سرکاری ٹی وی (پی ٹی وی) اور ریڈیو پاکستان کو پارٹی کی تشہیری مہم کے لیے استعمال کرنا کچھ منافقت نہیں؟

بی بی سی سی بات کرتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف کے سینٹیر فیصل جاوید جو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ ’پہلے جو حال تھا وہ سب کو پتا ہے ، ہم نے برسرِ اقتدار آ کر پی ٹی وی کو نیوٹرل (غیر جانب دار) بنایا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی وی ریاست کی ترجمانی کرتا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور پی ٹی آئی ریاست کا حصہ ہے اور اگر پی ٹی وی تشہیری مہم چلا رہا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں، یہ بالکل مناسب ہے۔‘

فیصل جاوید نے دعویٰ کیا کہ ’ماضی کی حکومتوں میں ہمیں ریاستی میڈیا پر کوئی نمائندگی نہیں ملتی تھی، عمران خان کی پارلیمنٹ میں تقریر بھی بین تھی اور اگر 1992 کے ورلڈ کپ کی جھلکیاں چلائی جاتیں تو ان میں سے بھی عمران خان کو بیچ میں سے نکال دیتے تھے۔‘

انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت میں پاکستان ٹیلی ویژن پر سب جماعتوں کو برابر کی کوریج مل رہی ہے اور ہم نے باقی کی سیاسی جماعتوں کو بھی ریاستی چینل (پی ٹی وی) پر سیاسی نمائندگی دی ہے۔‘

فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ ’آج سے تین سال پہلے میری کمیٹی میں دیگر سیاسی جماعتوں کو ٹاک شوز، نیوز بلیٹن اور دیگر کوریج میں برابری دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور پی ٹی وی پر دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین جن میں بینظیر بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور ضیا الحق وغیرہ شامل ہیں، ان کے متعلق بھی مواد نشر ہوتا ہے۔‘

عمران

سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پیڈ کونٹینٹ (تشہیری مواد) پر جماعت کے لیڈران کی تصویر لگانا منع ہے اور وہ ہم نہیں لگاتے۔

یاد رہے سنہ 2018 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے فیصلہ دیا تھا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو حکومت کے سپانسر کردہ اشتہارات میں سیاسی رہنماؤں کی تصاویر لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اس سوال کے جواب میں کہ اگر کل کوئی اور جماعت برسرِ اقتدار آ کر اسی طرح سیاسی مقاصد کی تشہیر کے لیے ریاستی میڈیا کا سہارا لے تو ان کا کیا ردِعمل ہو گا؟ فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ ’اپنی بھی تشہیر کریں اور ہماری بھی، ہم برا نہیں مانیں گے۔‘

پاکستان تحریکِ انصاف کے سینٹیر فیصل جاوید نے گذشتہ 25 سالوں کی سیاسی جدوجہد کے دوران سب سے یادرگار اور سب سے مایوس کن لمحات بھی شئیر کیے۔

25 سالہ سیاسی جدوجہد کے دوارن سب سے یادرگار لمحے کے متعلق سینیٹر فیصل جاوید نے بتایا کہ ان کے نزدیک دو لمحات بہت بڑے ہیں: پہلا 30 اکتوبر 2011 کو مینارِ پاکستان پر ہونے والا جلسہ اور دوسرا سنہ 2014 میں دیا جانے والا دھرنا۔

فیصل جاوید کا ماننا ہے کہ جہاں 30 اکتوبر 2011 کے جلسے نے’پاکستان میں سیاست کا رخ بدل کر رکھ دیا، وہیں ’126 دن کے دھرنے سے ہمارا پیغام گاؤں، دیہاتوں تک ہر جگہ پہنچا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان 25 سالوں میں مایوسی کا کوئی لمحہ نہیں آیا ’کیونکہ عمران خان نے کبھی ہار نہیں مانی‘ تاہم ان کا ماننا ہے کہ سنہ 2013 کے الیکشن میں دھچکا ضرور لگا ’ہم جیتے ہوئے تھے لیکن جیت نہیں پائے تھے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp