جدید افسانے کی دستاویز: گونجتی سرگوشیاں


”سربستہ رازوں کو نہ کھوجنے والے اپنی نسل کے کاندھوں پہ چہ مگوئیاں چھوڑ جاتے ہیں، جن کی سرگوشیاں ساری زندگی سینوں میں گونجتی رہتی ہیں“ ۔

افغان افسانہ نگار ثروت نجیب کے افسانے ”ایلے سارینا“ کے اس جملے سے اخذ کیے گئے نام سے شائع شدہ جدید افسانوں کے مجموعے ”گونجتی سرگوشیاں“ میں سات نوجوان خواتین کے پانچ پانچ افسانے شامل کیے گئے ہیں۔ اس منفرد کتاب کو فرحین خالد اور صفیہ شاہد نے ترتیب دیا ہے، جن کے افسانے بھی کتاب میں شامل ہیں۔

سکھر سے تعلق رکھنے والی ابصار فاطمہ کا تعلق نفسیات کے شعبے سے ہیں، وہ افسانوں میں اپنا الگ انداز بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔ ابصار کے افسانوں میں سندھ کی سوندھی مٹی کی خوشبو بھی محسوس کی جا سکتی ہے تو دریائے سندھ کے مٹیالے پانی کی مٹھاس بھی۔

”لچھی کی کرسی“ ابصار فاطمہ کا ایک بہترین افسانہ پے جس میں مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات کو عمدگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، ساتھ ہی سیاست دانوں کی چرب زبانی اور غربت کی چکی میں پسے ہوئے طبقات کی محرومیوں کو بھی مناسب انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

افسانے ”کنوار“ میں این جی اوز سے وابستہ لوگوں کی نفسیات بیان کرتے ہوئے ، ان کے انسان دوستی کے دعوؤں کی قلعی اس خوبصورتی سے کھولی گئی ہے کہ قاری کو سوچنے کے لئے بہت بڑا مواد مل جاتا ہے۔

ان کے افسانوں ”مقام“ ، ”پرزور احتجاج“ اور ”ناٹ سو لٹل ریڈ رائیڈنگ ہڈ“ میں طبقاتی تفریق اور انسانی نفسیات کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے، جس سے نہ صرف ابصار فاطمہ کی اپنے شعبے ( نفسیات) میں مہارت ظاہر ہوتی ہے بلکہ ایک ابھرتی ہوئی افسانہ نگار کے طور پر ان کی مشاہدے کی نمایاں صلاحیت کا بھی مظہر ہے۔

کابل افغانستان سے تعلق رکھنے والی ثروت نجیب کو میں نے پہلی مرتبہ پڑھا ہے، ان کے انداز بیان، تحریر کی شستگی اور تحریر میں مطالعہ و مشاہدے کی خوبیاں عیاں ہیں۔ وہ اپنی دھرتی اور لوگوں سے جذباتی لگاؤ رکھنے کی وجہ سے ان کی تکالیف اور دکھ کا عمدگی سے اظہار کرتی نظر آ رہی ہیں۔

ثروت نجیب کے پہلے ہی افسانے ”ایلے سارینا“ نے مجھے بے حد متاثر کیا، جس میں محبت کو بہت ہی منفرد اور نفیس انداز میں پیش کرتے ہوئے افغانستان میں پیدا شدہ انسانی المیے کے دکھ سے بھی آشنا کرتی ہیں۔

کچھ سطریں تو دل کو مٹھی میں بند کر لیتیں ہیں۔

وہ لکھتی ہیں کہ ”ادھوری محبتیں اپاہج رشتوں کو جنم دیتی ہیں۔ محض میلان کو محبت مان کر رشتے میں بندھنے والے احمق ہوتے ہیں“

اس کے علاوہ کتاب میں شامل افسانے ”خاک و آتش“ ، ”ایمل کا المیہ“ ، ”شہر ہائے ذغالی“ اور ”میربل شاری“ پڑھ کر افغان عوام پر پچھلی نصف صدی سے مسلط شدہ جنگ کی اذیت اپنے ساتھ بیرونی حملوں، دھماکوں، آگ اور خون کی صورت میں نمودار ہوتی نظر آتی ہے۔

سمیرا ناز کے افسانوں میں بہترین منظرنگاری اور استعاروں کے ساتھ تحریر پر مکمل گرفت نظر آتی ہے۔ ان کے افسانے ”دائرے“ میں جس خوبصورتی کے ساتھ ذہنی الجھن کو تحریر کیا گیا ہے، وہ کمال ہے۔

سمیرا ناز کا افسانہ ’’بلا ”پڑھ کر جنسی نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کے درد کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتے ہوئی معاشرے کے عمومی رویے کا نوحہ لکھا ہے۔ یہ افسانہ پڑھتے ہوئے مجھے ان خواجہ سراؤں کے انٹرویوز یاد آئے جو یہ دکھ جھیلتے زندگی گزار دیتے ہیں کہ اگر ان کے خاندان نے انہیں قبول کیا ہوتا تو یہ اذیت بھری زندگی نہ گزارتے۔ سمیرا ناز نے گویا ان لوگوں کے ساتھ اختیار کیے جانے والے رویے کو بھی آشکار کیا ہے جو ایسے بچوں کو خود سے الگ نہیں کرتے۔

سمیرا نے ”تنہائی کے دو پل“ میں دو ملازمتیں کرنے والوں کے ذہنی اور سماجی مسائل کو بھی تحریر کیا ہے، ”سوڈے کی بوتل“ اور ”سنگ برگ“ میں بھی انہوں نے تحریر کی انفرادیت برقرار رکھی ہے۔

صفیہ شاہد اس کتاب کی مُرتِّب ہیں۔ ان کے افسانے ”بے چاری انارکلی“ میں کمال کی منظر نگاری اور خیال کی بنت نظر آتی ہے، افسانے کا اختتام اتنا جاندار ہے کہ کہانی کا کردار کھلے دروازے سے نکلتے ہوئے گویا قاری کو جھنجھوڑتا چلا جاتا ہے۔

اس افسانے میں کثرت سگریٹ نوشی کو فرش پر پڑی راکھ سے جوڑا گیا ہے، جو ٹی وی پر سگریٹ کے ٹوٹے اور راکھ سے بھری ایش ٹرے سے زیادہ اثر انگیز ہے۔

ان کے افسانے ”کہانی کے کردار کا حقیقی جنم“ میں ادبی دنیا سے وابستہ منفی کرداروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کی منافقی پر گویا طمانچہ مارا گیا ہے۔ افسانے میں ایک جملہ ہے کہ ”ملنے اور مزید جاننے میں کیا حرج ہے، اس کی باتوں میں کچھ وزن ہوا تو ایک نئی کہانی بن جانے گی، اور وزن نہ ہوا تو بھی کہانی تو بن ہی جائے گی“ ۔

میں سوچ رہا تھا کہ ملے بغیر بھی تو کہانی بن چکی ہے، مگر افسانے کے اختتام پر لگا کہ واقعی کہانی تو اب بنی۔

افسانہ ”طیب“ شرافت کے لبادوں میں چھپی محرومیوں کو تار تار کرتے ہوئے کئی سوال چھوڑے جاتا ہے۔ ”منہ زور مرکزی کردار“ اور ”گنتی کے بوجھ تلے دبی لاشیں“ بھی منفرد افسانے ہیں۔

فاطمہ عثمان کے پانچ افسانوں میں عورت کا ایک منفرد روپ دکھایا گیا ہے، جس سے جدیدیت کا رنگ صاف جھلکتا ہے۔ فاطمہ کے تخلیق کیے ہوئے نسوانی کردار صرف ظلم اور ناانصافیاں سہتے نہیں، بدلہ بھی لیتے ہیں۔ فاطمہ عثمان کی تخلیق کردہ عورت انگریز کے ظلم کا حساب اپنے ایسے خون کے رشتوں کو بھی معاف نہیں کرتیں، جو ظالم سے رغبت رکھتے ہیں۔

فاطمہ عثمان اپنے افسانوں میں وہ گھر کی ذمہ داریوں سے آنکھیں چرانے والے تبلیغی اور بیٹیوں کی پیدائش پر ماں سے خفا ہونے والے سسرالیوں کو ایک ہی رسی سے باندھ کر ان کی پیٹھ پر گویا چابک برساتی ہیں۔

فاطمہ کے افسانوں ”اجالوں کا اندھیرا“ اور ”اشک لازم“ میں تو ظلم سہتی عورت نہ صرف اچھی طرح سے حساب برابر کرتی ہیں بلکہ انتقام لینے کا اعتراف بھی اس انداز سے کرتی ہیں کہ جس کا جواب دینا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔

افسانہ ”سنو وائیٹ“ قاری کو خیالات کے جھولے میں جھلاتا رہتا ہے مگر افسانہ نگار نے اس جھولے کی باگ کو اس مضبوطی سے تھام کر رکھا ہے کہ ایک لمحہ بھی جھول محسوس نہیں ہوتا۔

کتاب کی ایک اور مُرتِّب فرحین خالد کے افسانوں میں تحریر کا انداز جارحانہ ہے، وہ خود زندگی میں پھیلے ہوئے تضادات کو افسانوں کے محرک سمجھتی ہیں۔ ان کے پہلے افسانے ”در زنداں نہ کھلا“ نے موضوعاتی جدت اور دلفریب انداز بیان نے بہت متأثر کیا۔ ایک مشکل کردار کو سفاکی کی حد تک پریکٹیل بنا کر پیش کرنا اور اپنی بات کہہ دینا کمال لگا۔

اس افسانے میں کچھ ایسی لائنیں ہیں، جو سوچ کے نئے دریچے وا کرتی ہیں۔ مثلاً شروعاتی لائنیں:

”مہذب دنیا کا باشندہ اپنے آپ کو فکری اور نظریاتی اعتبار سے آزاد تصور کرتا ہے، شاید اسی لیے آکاش پر پھیلی سنہری کہکشاوں کے سراغ لگا پایا ہے اور اب اس فکر میں سرگرداں ہے کہ وقت کے حصار سے کیسے نکلا جائے جبکہ دوسری طرف ایسے بھی آزاد منش مادھو ہیں جو طلسماتی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں جن کو وہ کبھی روایات کا نام دیتے ہیں تو کبھی مذہب کا“ ۔

یا یہ دیکھیے:
’’واپسی کا راستہ کبھی آسان نہیں ہوتا مگر منزل نظر میں ہو تو کٹ ہی جاتا ہے۔‘‘

ان کا افسانہ ”ٹیکسٹیشن شپ“ انٹرنیٹ پر بننے والے تعلقات کے موضوع پر لکھا گیا ہے، 20 سال پہلے تأثر تھا کہ نوجوانوں طبقہ ہی نیٹ فرینڈشپ میں مصروف ہے مگر اب سوشل میڈیا ہر عمر کے لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسے میں عام زندگی کی طرح دوستیاں، محبتیں، نفرتیں سب کچھ ہی ہو رہا پے۔ افسانے میں یہ بات بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بعض لوگوں کو کسی کو جانے بنا ان سے جذباتی وابستگی ہو جاتی ہے، جس سے احتیاط کرنی چاہیے۔

”ڈبل ایکس ایل“ میں وہ نام نہاد مذہبی پیشواؤں کی اصلیت سے پردہ اٹھاتی ہیں تو ”بے ڈھب بڑھیا“ اور ”تم کیا جانو پریت“ میں وہ انسانی سوچ اور رویوں کے نئے زاویے تلاش کرتی نظر آتی ہیں۔

اس کتاب کی ساتویں افسانہ نگار معافیہ شیخ کو میں جانتا تو نہیں لیکن ان کے افسانے اور ان کے کردار اس بات کی چغلی کھاتے ہیں کہ اندرونی دکھ یا کوئی کمی ان کے لکھنے کا اہم محرک ہے۔ یہ اندرونی کیفیت عموماً کسی قریب ترین ہستی یا خونی رشتے کے بچھڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔ (کم از کم میری یہ رائے ہے)

معافیہ کا افسانہ ”خط اور انتظار“ اپنی بنت اور طرز تحریر میں انفرادیت کی وجہ سے متاثر کن ہے مگر خطوط کے ذریعے تجسس پیدا کرنے کی کوشش شاید اس لیے زیادہ مؤثر نہیں بنی کہ کہیں نہ کہیں داخلی کیفیت لکھت پر غالب آتی دکھائی دیتی ہے۔

”دیواریں“ ایک چیختا چلاتا افسانہ ہے جو جدیدیت کے ہاتھوں جذبات کی موت پر نوحہ کناں ہے۔ معافیہ نے افسانے ”رقص“ میں غربت کی ایسی خوبصورت تصویر پیش کی ہے کہ جدت کا منفرد رنگ ابھر آتا ہے۔

”تکون میں قید لڑکی اور“ کوزہ گر کا گلدان ”بھی پراثر افسانے ہیں۔

دھرتی رنگ ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے عکس پبلیکیشنز سے شائع کروائے گئے اس کتاب کی قیمت 800 روپے ہے۔ جس کو یہ جاننا ہو کہ آج کے دور میں اردو افسانہ کہاں کھڑا ہے تو اسے ”گونجتی سرگوشیاں“ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments