دہائیوں کی گمشدگی کے بعد گھر لوٹنے والے کریم بخش کی کہانی جن کی بیوی نے ان کی راہ تکنا کبھی نہ چھوڑی

محمد زبیر خان - صحافی


کریم بخش

کریم بخش (بائیں) اپنے ایک رشتے دار کے ہمراہ

‘جن کا میں نے 33 سال انتظار کیا، میں نے تو ان کو پہلی نظر میں ہی پہچان لیا۔ مگر وہ مجھے اور اپنے گھر کو نہیں پہچان پا رہے۔’

یہ الفاظ حاجرہ بی بی کے ہیں، جن کے خاوند 1980 کی دہائی میں لاپتہ ہونے کے بعد حال ہی میں گھر لوٹے ہیں۔ لیکن یادداشت کھونے کے باعث وہ اپنے گھر والوں کو پہچان نہیں سکے اور ابھی تک ان سے محبت کرنے والے ان کے لیے اجنبی ہیں۔

تین دہائی قبل حاجرہ بی بی کا اپنے چچا کے بیٹے کریم بخش سے نکاح ہوا تھا۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولپور کی ایک بستی سے تعلق رکھنے والے کریم بخش اس وقت ایک مقامی ہوٹل میں کام کرتے تھے۔

سنہ 1988 میں انھوں نے بہتر مستقبل کی تلاش میں کراچی جانے کی ٹھانی تو والدین نے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی اپنی لاڈلی بھتیجی سے طے کر دی۔ فیصلہ ہوا کہ رخصتی ایک سال بعد ہو گی، جب کریم کراچی سے واپس آئیں گے۔

لیکن وہ دن کبھی نہ آیا۔ کراچی پہنچنے کے کچھ ماہ بعد کریم کی طرف سے خط آنا بند ہو گئے اور ان کا گھر والوں سے رابطہ کٹ گیا۔

خاندان والوں نے کریم کو بہت ڈھونڈا، پولیس کے پاس گئے، لاپتہ شخص کے بارے میں معلومات کے لیے انعام بھی مقرر کیا گیا مگر کریم کا کوئی اتا پتا نہ ملا۔

یہ بھی پڑھیے

عمر کوٹ کا ’شاہ جہاں‘ جس نے بیوی کی یاد میں ’نیا تاج محل‘ کھڑا کر دیا

’دونوں بازو، ٹانگ کٹ گئی تو میں نے سوچا کیا وہ مجھے چھوڑ دے گی؟‘

نابینا انڈین جوڑے کے اندھے پیار کی کہانی

ان تین دہائیوں میں خاندان کے کئی افراد نے، جن میں کریم کے اپنے والدین بھی شامل تھے، حاجرہ بی بی کو مشورہ دیا کہ وہ کسی اور سے شادی کر لیں۔ لیکن حاجرہ نے ٹھان لی تھی کہ وہ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک کریم بخش کا انتظار کریں گی۔

کئی دہائیاں بیت گئیں۔ پھر ایک دن کریم بخش کے بھتیجے محمد قاسم کی نظر سے فلاحی ادارے صارم برنی ٹرسٹ کی ایک ویڈیو گزری۔ اس ویڈیو میں صارم برنی ایک شخص کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ ان کے لواحقین کی تلاش ہو رہی ہے۔

صارم برنی ٹرسٹ

(دائیں سے بائیں) کریم بخش، صارم برنی اور شاہ نواز

محمد قاسم کہتے ہیں: ‘مجھے چچا کریم بخش کی کہانی معلوم تھی۔ جب بھی ایسی کوئی ویڈیو سامنے آتی تو اس میں ہماری دلچسپی پیدا ہو جاتی۔’

قاسم کے مطابق انھیں شک ہوا کہ یہ شخص ان ہی کے گمشدہ چچا کریم بخش ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے ویڈیو میں موجود شخص کی شکل کا معائنہ کیا اور اسے کریم بخش کی بچپن اور جوانی کی تصاویر کے ساتھ ملایا، تو ان کا شک یقین میں بدلنے لگا۔

‘جب یہ ویڈیو میں نے اپنے بزرگوں اور پھوپھی (حاجرہ بی بی) کو دکھائی تو سب کو یہی لگا کہ یہ کریم بخش ہی ہیں۔

شاہ نواز کریم بخش کے چچا زاد اور حاجرہ بی بی کے سگے بھائی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں: ‘ویڈیو دیکھنے کے بعد ہم تقریباً سارے ہی رشتہ دار کراچی میں صارم برنی انٹرنیشنل کے دفتر پہنچ گئے جہاں پر ہم بھائی سے ملے اور کچھ نشانیاں دیکھیں تو ہمیں یقین ہوگیا کہ یہ کریم بخش ہی ہیں۔’

لیکن کریم بخش کو ماضی کی زندگی کے بارے میں کچھ یاد نہیں تھا۔ وہ ٹوٹی پھوٹی زبان میں کچھ کہنے کی کوشش ضرور کرتے رہتے: اپنے علاقے کا نام یا بہاولپور کے نواب صادق کا نام لیتے۔

شاہ نواز کے مطابق کریم بظاہر ایک ہنر مند باورچی ہیں۔ ‘ان سے بات کریں تو وہ مختلف کھانے پکانے کے مکمل طریقے بتاتے ہیں۔’

انھوں نے بتایا کے صارم برنی ٹرسٹ نے کریم بخش کو ہسپتال میں داخل کروایا ہوا تھا جہاں ان کا علاج چل رہا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صارم برنی نے بتایا کہ انھیں پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے کریم بخش کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔

‘ایف آئی اے کے اہلکاروں نے ہمیں بتایا کہ انھیں مسقط سے ہنگامی صورتحال میں ڈی پورٹ کیا گیا اور ان کا ایمرجنسی میں پاسپورٹ تیار کیا گیا تھا۔’

جلدی میں بنے پاسپورٹ پر بھی ان کے بارے میں کوئی واضح تفصیلات موجود نہیں تھیں۔

کریم کی جوانی کی تصویر

کریم کی جوانی کی تصویر

صارم برنی کے مطابق جب کریم ان کے پاس آئے تو ان کی حالت بہت نازک تھی۔ ‘ہمارے خیال میں ان کے جسم پر تشدد کے کچھ پرانے نشانات بھی موجود تھے۔ بظاہر تو وہ کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا نہیں مگر وہ اپنی یاداشت کھو بیٹھے ہیں۔’

پاکستان واپسی پر ڈاکٹروں نے کریم بخش کا تفصیلی معائنہ کیا گیا جس کے بعد انھیں ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ طویل علاج کے باوجود یقین سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی یادداشت لوٹے گی بھی کہ نہیں۔

صارم برنی نے بتایا کہ کریم کے لواحقین کی تلاش ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔ نادرا سمیت کسی بھی سرکاری محکمے میں ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا، جس وجہ سے انھوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد صارم برنی کو ان کے ماضی کے بارے میں کچھ تفصیلات ملیں۔

‘ہمیں بتایا گیا کہ وہ مسقط کی جیل میں رہے تھے۔ ان کے ساتھ قید رہنے والے دو پاکستانیوں نے فون کر کے ہمیں بتایا کہ وہ ان کے ساتھ تھے لیکن تب بھی ان کی یادداشت کام نہیں کر رہی تھی۔’

صارم برنی کے مطابق انھوں نے کریم سے بات چیت کرنے کی کئی بار کوشش کی۔ ‘وہ مبہم باتیں کرتے ہیں۔ پانی، لانچ، ہوٹل، بہاولپور سے تعلق رکھنے والی بڑی شخصیات کا ذکر کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔’

تو آخر کریم بخش کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ یہ 33 سال انھوں نے کہاں گزارے؟ یہ حقائق شاید اس وقت ہی سامنے آئیں گے جب کریم کی یادداشت لوٹے گی۔

لیکن حاجرہ بی بی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ 33 برس انھوں نے کس طرح کاٹے۔

‘جب تک ماں باپ اور چاچا چاچی زندہ تھے، تب تو اتنا تنہائی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ میں ان کے ساتھ مصروف رہتی تھی۔ مگر ایک کے بعد ایک ایک کر کے وہ سب اس دنیا سے چلے گئے تو میں بہت تنہا ہو گئی۔ حالانکہ میرے بھائی، بہنیں اور ان کے بچے میرا بہت خیال رکھتے تھے، لیکن میں پھر بھی اداس تھی۔’

انھوں نے بتایا کہ خاندان کے سارے بزرگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ علاقے کے امام مسجد سے فتوی لے کر ہاجرا کی کسی دوسری جگہ شادی کروا دی جائے لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔

‘میں نے ان 33 سال میں بہت محنت کی، بہی تنہائی دیکھی۔ کھیتوں میں کام کیا، مال مویشی پالے۔ میرے بھائی بھی میری مدد کرتے تھے اور کسی نہ کسی طرح زندگی کی گاڑی چلتی ہی رہی۔’

حاجرہ کو سنہ 1988 کی وہ رات اب بھی یاد ہے جب کریم بخش کراچی جا رہے تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ رات کھانے کے وقت کریم بار بار میرے والدین سے باتیں کرتے ہوئے کہتے کہ ‘بس ایک سال کی ہی تو بات ہے۔ ایک سال بعد دوبارہ گاؤں آؤں گا، پھر دیکھیں گے کہ مستقبل میں کیا کرنا ہے۔’

حاجرہ بی بی کے مطابق ‘اس دوران وہ بات تو میرے والدین سے کر رہے تھے، مگر تسلی مجھے دے رہے تھے کہ میں پریشان نہ ہوں۔’

‘اگلی صبح کراچی جانے سے پہلے وہ بار بار مختلف بہانوں سے ہمارے گھر آ رہے تھے۔ کراچی پہنچ کر انھوں نے قریبی فون سے اپنی خیریت کی اطلاع دی اور باقاعدگی سے خط لکھا کرتے تھے۔’

خطوط کا یہ سلسلہ چار ماہ تک جاری رہا، مگر پھر ایک دن خط آنا بند ہوگئے۔

کریم بخش کی جوانی کی تصویر

کریم بخش کی بچپن کی تصویر

‘چاچا اور دیگر رشتہ داروں نے کراچی جا کر ان کے کام کی جگہ پر معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ کریم کام چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کہاں گئے، یہ کسی کو پتا نہیں تھا۔ چاچا اور چچی مرتے دم تک کریم بخش کو یاد کرتے رہے۔’

شاہ نواز کے مطابق ان کے والدین، چاچا، چچی اور دیگر رشتہ داروں نے کریم بخش کو ڈھونڈنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ ‘وہ کئی دنوں تک کراچی میں رہے اور ہر کچھ دنوں بعد تلاش جارے رکھنے کے لیے کراچی چلے جاتے۔ پولیس میں رپورٹ درج کروائی گئی اور تلاش میں مدد دینے پر انعامی رقم بھی رکھی گئی تھی۔’

شاہ نواز نے بتایا کہ اپنے بیٹے کی خاطر ان کی چچی نے بڑے بڑے افسروں کے دفتروں کے چکر کاٹے۔ ‘الیکشن میں کوئی ووٹ مانگنے آتا تو اس سے کہتی تھیں کہ کریم بخش کا پتا چلاؤ، تب ووٹ دوں گی۔ وہ جو کچھ کر سکتی تھیں کرتی رہیں۔’

حاجرہ بی بی کے مطابق ان کی چچی ہر وقت اپنے بیٹے کے لیے بےچین رہتی تھیں۔ ‘کریم بخش کی گمشدگی کے بعد وہ ہمیشہ اس کے بارے میں ہی بات کرتی تھیں۔ بہت کم ایسے ہوتا تھا کہ وہ کوئی اور بات کر رہی ہوں۔’

یہاں تک کہ انھوں نے کریم بخش کا صندوق اور اس میں موجود تمام اشیا بھی سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں۔ ‘ان کی وفات کے بعد میں نے انھیں سبنھال کر رکھا ہے۔’

حاجرہ بی بی کے بھائی شاہ نواز کے مطابق وہ کریم بخش کو اپنے آبائی علاقے لے آئے ہیں۔ ‘ہم ان کا بہاولپور میں علاج کروائیں گے۔ ہمارا خیال ہے کہ ان کو دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔’

حاجرہ بی بی کا بھی یہی خیال ہے۔ ‘ان کو محبت کرنے والے اور ساری زندگی ان کی یاد میں تڑپنے والے ان کے اپنے ماں، باپ، چچا، چچی، دوست، رشتہ دار، کوئی بھی یاد نہیں۔’

مگر وہ اب بھی مایوس نہیں ہیں۔ ‘میرا دل کہتا ہے کہ کریم بخش کو تھوڑی سی محبت، توجہ اور پیار کے ساتھ ساتھ علاج ملے تو وہ صحتیاب ہوجائیں گے اور ان کی یاداشت لوٹ آئے گئی۔ میں ان کا تھوڑا اور انتطار کر لوں گی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp