کورونا وائرس: انڈیا کے بے آسرا خاندان جو کورونا سے متاثرہ اپنے پیاروں کا علاج گھر میں ہی کرنے پر مجبور ہیں

پوجا چھابریا - بی بی سی ورلڈ سروس


آکسیجن لیول

BBC/Getty Images
انڈیا کے ہسپتال کورونا مریضوں کی اتنی بڑی تعداد کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں، اس لیے اب لوگ گھروں پر ہی اپنے پیاروں کی دیکھ بھال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں

یہ آدھی رات کا وقت تھا اور جتندر سنگھ شنٹی سارا دن کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی چتائیں جلانے کے بعد کچھ دیر پہلے ہی فارغ ہوئے تھے۔

وہ گذشتہ کئی روز سے دارالحکومت دہلی کے شمال مشرقی حصے میں موجود ایک شمشان گھاٹ کی پارکنگ میں سو رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ اور دونوں بیٹوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ چکا ہے اور وہ گھر پر ہی قرنطینہ میں ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو فون کے ذریعے دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’ہم نے آج کورونا سے ہلاک ہونے والے 103 افراد کی آخری رسومات ادا کی ہیں، جن میں سے 42 افراد کی لاشیں شہر کے مختلف حصوں میں موجود ان کے گھروں سے اٹھائی گئی تھیں۔‘

جتندر سنگھ کے مطابق ’کورونا وائرس کے باعث ہلاک ہونے والوں کے سرکاری اعداد و شمار میں ان لوگوں کو شامل نہیں کیا جاتا جو گھروں پر ہی وبا کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو تو موت سے پہلے کورونا ٹیسٹ کی نتائج بھی نہیں ملتے۔‘

انڈیا میں اب تک کورونا وائرس کے باعث دو لاکھ 22 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جو دنیا بھر میں امریکہ اور برازیل کے بعد ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ تاہم اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ انڈیا میں اموات کے اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں جو سرکاری سطح پر رپورٹ کیے جا رہے ہیں۔

جتندر ایک ایسی فلاحی سروس کے بھی سربراہ ہیں جو پولیس کو لاوارث لاشوں، اور حادثوں یا خودکشی کے باعث ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات ادا کرنے میں مدد دیتی ہے۔

ان کی 18 رکنی ٹیم کے ممبر گذشتہ برس وبا کے پھیلاؤ کے بعد سے کورونا وائرس کے باعث ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات بھی ادا کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’کورونا کی پہلی لہر کے دوران ہم نے کل 967 لاشوں کی آخری رسومات کی ادائیگی میں مدد دی تھی۔ گذشتہ 15 روز میں ہم یہ ریکارڈ بھی توڑ چکے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں کورونا وائرس کا بحران کیسا دکھائی دیتا ہے؟

کورونا کی لپیٹ میں آئے وارانسی کے شہری اپنے پارلیمانی نمائندے مودی کے منتظر

کورونا: ’میں نے ان سے بستر طلب کیا تو انھوں نے مجھے لاشیں دکھائیں‘

’اس سے قبل زیادہ تر عمر رسیدہ افراد اس وائرس کے باعث ہلاک ہوتے تھے، لیکن اب بہت سارے نوجوانوں کو زندگی سے ہاتھ دھوتا دیکھ کر تشویش ہوتی ہے۔‘

کینیڈا سے کال آئی کہ میرے چھوٹے بھائی کی آخری رسومات ادا کر دیں‘

جتندر کو ہر روز انڈیا اور بیرونِ ملک سے مشکلات میں گھرے خاندانوں کی سینکڑوں فون کالز موصول ہوتی ہیں۔

وہ ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’دوپہر کو ہی مجھے ٹورنٹو، کینیڈا سے کال موصول ہوئی اور کسی اجنبی شخص نے مجھ سے اپنے چھوٹے بھائی کی آخری رسومات ادا کرنے کی درخواست کی جو اپنے گھر پر گذشتہ روز سے مردہ حالت میں پڑا تھا۔‘

’انھیں سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کریں۔ ان کے والد بھی اسی گھر میں موجود تھے لیکن ان کی عمر 80 سال سے زیادہ ہے اور وہ بینائی سے منسلک عارضے میں مبتلا ہیں۔‘

شمشان گھاٹ

جتندر کی ٹیم نے اس شخص سے میسجنگ ایپ کے ذریعے اجازت نامہ منگوایا اور فوری طور پر ان کے گھر سے ان کے بھائی کی لاش شمشان گھاٹ لے آئے۔

’نوجوانوں کو یوں مرتے دیکھ کر اور ان کے خاندانوں کو بے آسرا دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ میں اندر ہی اندر رو رہا ہوتا ہوں۔‘

صحت کے نظام کی ناکامی اب ان خاندانوں کے دکھ کو غصے میں تبدیل کر رہی ہے۔

عام آدمی کے پاس مرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں‘

دلی کی ہمسایہ ریاست اتر پردیش انڈیا میں بری طرح متاثر ہونے والی ریاستوں میں سے ہے۔ سشیل کمار (فرضی نام) نے اس ریاست کے ضلع جان پور میں اپنی والدہ کو کورونا کے باعث کھو دیا تھا۔

ان کا پورا خاندان جس میں ان کی بیوی اور بیٹا بھی شامل ہیں کچھ ہی روز قبل کورونا وائرس سے صحتیاب ہوئے ہیں تاہم ان کی والدہ میں بہتری کے آثار دکھائی نہیں دیے۔

انھوں نے کہا کہ ’ان کا آکسیجن لیول گر رہا تھا، اور میں تین روز تک ان کے لیے آکسیجن سلینڈر اور ہسپتال کا بیڈ ڈھونڈتا رہا۔‘

’چوتھے روز جب میں انتہائی مجبوری کی حالت میں دوبارہ طبی مدد حاصل کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلا تو وہ گھر پر چل بسیں۔‘

پورے ملک میں متعدد افراد ہسپتالوں میں بیڈز کی عدم دستیابی اور آکسجین کی قلت کے باعث ہلاک ہوئے ہیں اور ہسپتالوں کو اس حوالے سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سشیل ایک آکسیجن کنسنٹریٹر خریدنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک حد تک ہی مفید ہوتا ہے اور اس سے انتہائی نگہداشت کے مریضوں کو مدد نہیں ملتی۔ آکسیجن کنسنٹریٹر ایک ایسی مشین ہوتی ہے جس کے ذریعے گھر پر آکسیجن لگائی جا سکتی ہے۔ جیسے جیسے شہر میں ہسپتالوں میں گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے، اس مشین کی اہمیت انڈیا بھر میں بڑھتی جا رہی ہے۔

انھوں نے روتے ہوئے کہا کہ ’میں نے اپنی ماں کو نظام کے باعث کھویا۔‘

’تمام حکام ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں اور کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ ایسا کوئی مرکزی نظام موجود نہیں ہے جس کے ذریعے کسی مریض کو بیڈ میسر آ سکے۔‘

انڈیا میں آکسیجن کی قلت

ریاست اترپردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے بحران کی شدت کم کر کے بیان کر رہے ہیں۔

گذشتہ ہفتے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی گردانے جانے والے ادتیا ناتھ نے کہا تھا کہ ان کی ریاست کے کسی بھی ہسپتال میں آکسیجن کی کمی نہیں ہے حالانکہ صحت کے نظام پر پڑنے والے بوجھ سے متعلق تصاویر اور اطلاعات اب معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔

وہ یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں ایسے افراد جو افواہیں اور پراپیگنڈا کر رہے ہیں ان کی املاک ضبط کر لی جائیں۔

سشیل کا کہنا ہے کہ انھوں نے ذاتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے حکومتی عہدیداروں کو متعدد کالز کیں، لیکن آخر کار انھوں نے مجھ سے رابط منقطع کر دیا۔

سشیل کہتے ہیں کہ ’میں کبھی اس حکومت کو معاف نہیں کروں گا، یہاں عام آدمی کے لیے مرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘

’گھر پر آکسیجن کی فراہمی انتہائی مشکل ہے‘

انڈیا میں کورونا کی دوسری لہر

ایسے میں طبی سہولیات کی کمی کے باعث کچھ خاندانوں کو مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ نندنی کمار کے لیے اس کا مطلب اپنے والد کا گھر پر رہتے ہوئے دیکھ بھال کرنا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے والد کینسر میں مبتلا تھے، انھیں اچانک سٹروک ہونے کا خطرہ بھی لگا رہتا تھا اور وہ حال ہی بستر تک محدود ہو گئے تھے۔ بجائے اس کے کہ میں ہسپتال ایک اور بیڈ حاصل کرتی جہاں پہلے ہی بستروں کی کمی ہے، میں نے ان کی گھر پر رہتے ہوئے دیکھ بھال کرنے کا مشکل فیصلہ کیا۔‘

’ہمیں جلد ہی سمجھ آ گئی کہ گھر پر رہتے ہوئے آکسیجن فراہم کرنا خاصا مشکل ہے۔‘

جیسے جیسے ان کے والد کو سانس لینے میں تکلیف ہوئی نندنی نے چند اجنبی افراد کی مدد سے ایک سلینڈر گھر پر رکھوا لیا۔

’میرا خیال تھا کہ اب ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ صرف آٹھ گھنٹوں تک چل سکے گا۔ مجھے ایک دن میں بہت زیادہ باتیں پتا چلیں، میں کوئی ڈاکٹر تو نہیں ہوں نہ۔‘

انڈیا میں آکسیجن کی قلت

جب تک وہ نیا سیلنڈر ڈھونڈتیں یا پرانے والے کو دوبارہ بھرواتیں تب تک دیر ہو چکی تھی۔ ان کے والد چل بسے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم سے توقع کی جا رہی ہے کہ ہم گھر پر ہی طبی امدار فراہم کر لیں گے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ ممکن ہے۔‘

’میرے خاندان کو وائرس نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، میرا اور میری والدہ کا کووڈ ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔‘

’میرے خاندان کے ساتھ بھی یہی صورتحال ہو سکتی ہے

بیماروں کے خاندانوں کو ایک انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کچھ اپنے پرانے نئے تعلقات کی مدد لے رہے ہیں، کچھ بلیک مارکیٹ سے بھاری قیمتوں پر دوائیں اور سیلنڈر لے رہے ہیں اور ایمرجنسی دیکھ بھال فراہم کرنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔

لیکن اس میں سے کچھ بھی کامیابی کی ضمانت نہیں دیتا۔

اب تک اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار سامنے نہیں آئے کہ کتنے افراد گھروں پر ہی کورونا وائرس سے لڑ رہے ہیں۔ ابھی تک صرف ’غیر رپورٹ شدہ اموات‘ کے تخمینے لگائے جا رہے ہیں۔

اس دوران وزیرِ اعظم مودی پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور ناقدین ان پر دوسری لہر سے قبل سائنسدانوں کی جانب سے دی جانے والی تنبیہات کو نظر انداز کرنے پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔

تیس اپریل کو وزیرِ صحت نے کہا کہ تھا کہ انھوں نے آکسیجن کی کمی کو پورا کرنے اور طبی ڈھانچے میں بہتری لانے کے حوالے سے متعدد اجلاس منعقد کیے ہیں۔

اس سے صرف دو روز قبل حکمران جماعت بی جے پی کے رہنما نریندرہ تنیجا نے برطانیہ میں بی بی سی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے حکومت کا دفاع کیا تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’جنوری اور فروری میں انڈیا میں حالات خاصے بہتر تھے۔‘

’لیکن پھر ہم نے گذشتہ تین یا چار ہفتوں کے دوران ملک کو ایک سونامی کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ تو جانتے ہیں کہ سونامی کسی وارننگ کے بغیر آتا ہے اور ہم نے اچانک کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوتے دیکھا۔ یہ پورے ملک پر ہی غالب آ چکا ہے۔ ہم سنبھل ہی نہیں پائے۔‘

ویکسین مہم

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہ آیا جو اموات کے اعداد و شمار سرکاری طور پر بتائے جا رہے ہیں وہی درست ہیں تنیجا نے کہا کہ ’کسی کو بھی اصل اعداد و شمار معلوم نہیں ہیں۔ انڈیا جیسے ملک میں، جو بہت بڑا ہے، آپ اموات چھپا نہیں سکتے۔ اگر اس حوالے سے کہیں کمی بیشی ہے تو وہ سامنے آ جائے گی۔‘

انھیں یقین ہے کہ موجود بحران کے باوجود انڈیا اس سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

’ہم میں وہ ہمت اور حوصلہ ہے۔ آپ دیکھیں گے۔‘

آکسیجن کی فراہمی بہتر بنانے کے لیے ٹرینوں اور فوجی طیاروں کی مدد لی جا رہی ہے۔ تاہم یہ ان تمام افراد تک نہیں پہنچ رہی جن کو اس شدید ضرورت ہے۔

اس حوالے سے انفرادی طور نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت ان معلومات کو ایک جگہ اکھٹا کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی ٹیلی فون نمبرز لوگوں تک پہنچا رہے جن کے ذریعے ضروری طبی امداد خاندانوں کو پہنچائی جا سکتی ہیں۔

اٹھائیس برس کی تنو تین ہفتے قبل کورونا وائرس سے صحتیاب ہوئی تھیں اور اب وہ ایک ایسی رضاکار بن چکی ہیں جو ایس او ایس کالز کا جواب دیتی ہیں۔

وہ کووڈ کے مریضوں کے رشتہ داروں کی جانب سے آنے والے معلومات کو لوگوں تک پہنچاتی ہیں اور ان معلومات کی تصدیق بھی کرتی ہیں جو اہم طبی ضروریات سے جڑی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ایک ایسا واقعہ ہے جس نے مجھ ہلا کر رکھ دیا۔ یہ ٹوئٹر پر کی گئی ایک ایسی مدد کی درخواست تھی جو 30 سالہ خاتون کے بارے میں کی گئی تھی جو چھ ماہ سے حاملہ تھیں۔‘

’ان کی آکسیجن سیچوریشن انتہائی کم تھی اور ان کے خاندان والے دہلی کے کسی ہسپتال سے ان کا علاج کروانے کے لیے پریشان تھے۔ میں نے اور میرے دوستوں نے ہر ممکن کوشش کر ڈالی لیکن ہم ان کی جان نہیں بچا سکے۔‘

انھیں پتا چلا کہ اس حوالے سے معلومات اکثر جلد ہی پرانی ہو جاتی ہے اسی لیے اب وہ ہر روز جگہ جگہ جا کر ان معلومات کی تصدیق کرتی ہیں جیسے وسائل کی موجودگی یا دہلی میں آکسیجن سیلنڈرز کی مقدار وغیرہ۔

تنو نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے حکومت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے رکھی ہے اور مدد مانگنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’جیسے صورتحال بگڑ رہی ہے، اس بات کا قوی امکان ہے کہ میرے خاندان والوں میں سے کسی کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔‘

’متعدد افراد کورونا وائرس کی وجہ سے نہیں بلکہ طبی سہولیات کی کمی کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں۔ ہمیں حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا ہو گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp