امی جان!


ماؤں کے عالمی دن کی آمد آمد ہے سو دنیا کی سب ماؤ صدا سلامت رہو!
اور میری ماں کیسی ہیں آپ؟ امی جب یہاں مئی کا مہینہ آتا ہے تو سردی اور برف سے ٹھٹھری زمین چوری چوری رنگ بدلنے کی کوشش کرتی ہے اور انگڑائی لے کر چھپے خزانے اگلنے لگتی ہے، گھاس سر سبز ہونے لگتا ہے، کلیاں چٹخنے لگتی ہیں، تتلیاں ایک دوسرے کے تعاقب میں نکلتی ہیں تو مدرز ڈے آن پہنچتا ہے۔ آپ تو اس کے بارے میں جانتی ہی ہیں، اس کی تیاریاں تو جلدی شروع ہو جاتی ہیں، گفٹ باکسز تیار ہوتے ہیں، پھول خریدے جاتے ہیں اور ماؤں کو ان کے پسندیدہ ریسٹورنٹس میں سپیشل لنچ اور ڈنر پہ لے جاتے ہیں اور کچھ لوگ گھروں میں ہی بہت اہتمام کرتے ہیں غرض کہ ایک ہلہ گلہ رہتا ہے، لیکن بہت سی مائیں اس دن بھی اپنے جگر گوشوں کی منتظر رہتی ہیں مگر جن کا کچھ اتا پتہ نہیں ہوتا اور ایسے لوگ ہر سوسائٹی میں پائے جاتے ہیں۔

یہاں پر تمام تہوار اور دن بہت جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں مگر مدرز ڈے ہمارے دل کے بہت قریب ہے، حالانکہ ہمارے بعض لوگوں کے خیال میں یہ سب گوروں کے ڈھکوسلے ہیں بھئی، ہم جہاں سے آئے ہیں وہاں ہر دن ہی ماں کا ہے اور یہ بھی ٹھیک ہے لیکن ایک خاص دن مقرر کر کے اگر ماں باپ کی بلا مشروط محبت کو محسوس کریں تو کیا حرج ہے۔

ہر مدرز ڈے پہ سوچتے تھے کہ آپ کو خط لکھیں اور آپ کی تمام زندگی کی خدمات کا اعتراف کریں مگر جب قلم بند کرنے بیٹھتے تو لگتا ہم یہ حق ادا نا کر سکیں گے اور کاغذ پین ایک طرف رکھ کر فون کھڑ کا دیتے۔

امی جان! ہم کبھی بھی آپ کی محبت کی گہرائی کو محسوس نا کر سکتے اگر ہمارے اپنے بچے نا ہوتے مگر سچ یہ ہے کہ جو محبت اور توجہ آپ نے ہم لوگوں کو دی وہ شاید ہم اپنے بچوں نہیں دے سکے اور ہمیں ایسا ہی لگتا ہے اور جوں جوں عمر بڑھ رہی ہے یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے۔

جب ہم لوگ سکول اور کالج سے گھر آتے اور کسی دن کسی وجہ سے آپ گھر پر نا ہوتیں تو گھر بالکل ویرانہ لگتا تھا اور ٹائم گزارنا مشکل ہو جاتا کیونکہ آپ کے دم سے ہی رونق تھی۔ گھر صاف ستھرا، بلکہ آپ ہر دو تین ہفتے کے بعد سیٹنگ بھی چینج کرتی تھیں اور ابو اور بھائی جو بمشکل ابھی پرانی سیٹنگ سے مانوس ہوتے تھے نئی سیٹنگ سے ٹکراتے اور کراہتے، لنگڑاتے اور بڑبڑاتے۔ کھا نا تیار ہوتا، ہمارے کپڑے ریڈی اور آپ خوش باش اور تازہ دم ہوتیں اور سردیوں کی شاموں میں ابو کے ساتھ اپنے لانگ کوٹ پہنے تیار ہو کر ملنے جلنے کے لئے نکلتیں تو ہمیں تو کوئی ہیروئن ہی لگتیں اور امی ہمیں یاد ہے کہ آپ کے پاس ایک لائٹ پنک اور ایک براؤن چیک کا کوٹ تھا جو مال روڈ پر موجود ایک مشہور ٹیلر صوبے خان نے سیے تھے۔

ویسے تو آپ ہر فن مولا تھیں اور اور ایک سگھڑ اور سلیقہ مند خاتون کے طور پر جانی جاتی تھیں ککنگ، سٹچنگ اور نٹنگ آپ پر ختم تھی اس وقت ریٖڈی میڈ کپڑے اور سویٹر عام نہیں تھے مگر ہمارے فراک اور بیل باٹمز، بھائیوں کے سویٹر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتے تھے اور دعوتوں میں کھانے پکانے کا ہنر آپ سے سیکھا مگر بنائی اور سلائی میں ہم بے حد پھوہڑ تھے، اتنے پھوہڑ کہ آپ خود بھی قدرت کی اس صناعی پر حیران رہ جاتی تھیں۔

امی! صبر کرنا اور لوگوں کے عجیب و غریب رویوں کو ہنس ہنس کر برداشت کرتے جب آپ کو دیکھتے تو حیرت ہوتی مگر آہستہ آہستہ خود بھی اسی پٹڑی پر چڑھ گئے۔ سچ بولنا اور دانستہ کسی کا دل نا دکھانا، جوانی سے ہی نماز روزہ کا پابند ہونا، آپ کی انھی عادتوں کو دیکھتے ہوئے ہم بڑے ہوئے۔

مجھے یاد ہے کہ ”حور“ اور ”زیب النسا“ اور مختلف ماہانہ ڈائجسٹ ہمارے گھر میں مستقل آتے تھے اور رات کو کچھ نا کچھ پڑھ کر سونا آپ کی اور ابو کی عادت تھی اور یہی وجہ ہے کہ ہم سب بہن بھائی بھی مطالعے کی عادت میں مبتلا ہو گئے۔ اور ریڈیو کے ڈرامے بھی آپ اور ابو سنتے تھے پھر آہستہ آہستہ اس کی جگہ ٹی وی نے لے لی۔ پتہ نہیں کب کب کی یادوں نے آج غلبہ کر رکھا ہے امی اور اپنے آنسو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ آپ نے عام ماؤں کی طرح بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کبھی نا کی اور مار نے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو تا تھا۔

امی آپ نے کبھی ہم سے کوئی خاص کام بھی نا لیا تھا جو عموماً مائیں بیٹیوں کو سگھڑ بنانے کے چکر میں ان کا کچومر نکال دیتی تھیں مگر امی اب بہت ندامت ہوتی ہے کہ آپ کی کوئی خدمت نا کی بلکہ ہمیشہ خدمت لی۔

ہمیں پتہ ہے کہ ہماری ملاقات میں ایک لمبا وقفہ آ گیا ہے، پہلے ہماری سستی سمجھ لیں اور پھر اس کم بخت COVID۔ 19 نے ہی سب کے چھکے چھڑا دیے مگر آپ کا ہمیشہ کہنا کہ پہلے اپنا گھر، شوہر اور بچے دیکھو اور سب سے بڑھ کر اپنی صحت پھر ملاقات بھی ہو جائے گی تو ہم گھٹ کر رہ جاتے ہیں، اور امی آپ نے بھی تو امریکہ کا چکر نہیں لگایا، وہی روایتی سوچ مگر بہانہ کہ میں اتنا لمبا سفر نہیں کر سکتی، آپ کو پتہ ہے کہ اگر ہم کسی کو یونہی کبھی بتائیں کہ آپ کے پاس دس سال کا امریکن ویزہ تھا مگر آپ آئیں کبھی نہیں تو اگلا انسان ہمیں یوں دیکھتا ہے کہ گویا ہمارے سر پر سینگ ہوں۔

امی آپ نے تمام زندگی ابو سے محبت اور اطاعت کی مگر ان کے آخری تین سال جو خدمت آپ نے دن اور رات کے فرق کو مٹا کر کی اس کے اعتراف کے لئے الفاظ تو کبھی بھی کافی نہیں ہوں گے اور اس کا صلہ صرف اللہ کی ذات ہی دے سکتی ہے یا جو ابو کا آخری وقت میں آپ کو خراج تحسین تھا۔

ایک بات بتائیں امی کہ اپنی اتنی خراب صحت کے باوجود ابو کی دیکھ بھال میں جو دن رات ایک کر دیا اور ایک چاق و چوبند تیمار دار کا رول اس طرح ادا کیا کہ وقت اور دنوں کا حساب بھی بھول گئیں مگر ابو کے انتقال کے بعد آپ یک دم ڈھے کیوں گئیں؟ پندرہ سال کی عمر میں شادی کے بعد جس گرہستی کو آپ نے نصف صدی تک کامیابی اور بھر پور دلچسپی سے چلایا وہ سب کچھ چھوڑ کر ایک خاموشی اور لاتعلقی کی چادر کیوں اوڑھ لی امی جان؟

اللہ تعالی آپ کو لمبی زندگی اور صحت کے ساتھ سلامت رکھے اور آپ اپنے بیٹے اور بہو کے گھر میں اسی سکون عزت اور محبت کے ساتھ عمر بسر کریں جہاں وہ خود، ان کے بچے اور بچوں کے بچے بھی ما شا اللہ آپ کے ارد گرد ہیں۔ امی جان آپ کی محبت اور خدمت کا کوئی ازالہ نہی ہے بس ایک دعا ہے

آپ سلامت رہیں، تا قیامت رہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments