کاش میں نے منٹو کو نہ پڑھا ہوتا


(11 مئی منٹو کا یوم ولادت ہے)

میں نے استاد سے سنا کہ علم حاصل کرنا شاید افضل بات ہو لیکن علم کا بوجھ اٹھانا ہر انسان کے بس کی بات نہیں، علم کا بوجھ ہلکان کر دینے والا ہوتا ہے، اور اگر خدانخواستہ علم آپ کی شخصیت میں جذب ہو جائے اور جو بات آپ پڑھ رہے ہوں وہ آپکو سمجھ بھی آنا شروع ہو جائے تو یہ وہ قیامت ہے جو آپ پر مسلسل ٹوٹتی ہے، جون ایلیا کا ایک جملہ ہے یا ان سے منسوب ہے کہ ” اس دنیا میں خوش رہنے کے لیے بہت زیادہ امیر ہونے کی نہیں بے حس ہونے کی ضرورت ہے”“ …

آپ ذرا خود سوچیں کہ آپ کسی چوک سے گزر رہے ہوں اور وہاں پر ایک ماں اپنی دو دو بیٹیاں لے کر بھیک کی تلاش میں کھڑی ہر روز نظر آئے اور اگر آپ کے سینے میں دل بھی ہو تو کیا یہ منظر کم از کم اس رات کی نیند اڑا دینے کو کافی نہیں ہے؟؟ کیا آپ کسی ہسپتال جائیں اور وہاں پر کسی مریض کو دیکھیں کہ جو آکسیجن ماسک منہ پر لگا ہونے کے باوجود سانس نہ لے پا رہا ہو اور آپکے سینے میں دل ہو تو کیا وہ رات اس مریض کے لیے دعائیں کرتے نہیں گزرنی چاہیے؟؟ چار سال کا بوٹ پالش کرتا بچہ فٹ پاتھ پر کوڑے کے ڈھیر کے ساتھ سویا ہو جس نے نا جانے آخری دفعہ کھانا کب کھایا تھا آپ دیکھیں اور اس کے بعد اپنے بچے کو میکڈونلڈ لے جائیں تو یقین جانیے آپکو اپنی انسانیت پر شک کرنا چاہیے، ایک طوائف کہ جس کی آپ کہانی سنیں کہ کس طرح وہ اغوا ہو کر کوٹھے پر لائی گئی اور کس کس طرح استعمال ہوئی، کس نے اس کو سگریٹ سے جلایا، تو کس نے شراب میں نہلایا، کتنے لوگوں کے ہجوم میں وہ برہنہ ناچی، کتنے لوگوں نے اس کے ساتھ ایک وقت میں ہم بستری کی آپ یہ سب سنیں اور اس کے بعد اس پر جانور کی طرح چڑھ جائیں اور اس سب کے بعد آپ معزز رہیں اور وہ رنڈی ہی رہے تو یقین کریں کہ آپ کسی انسانی معاشرے کا حصہ نہیں ہیں، وہ مزدور کہ ٹھیکے دار جس کی روزی بھی کھا جائے اور اس کی بیوی، بیٹی، بہن اور گھر پر نظر بھی رکھے تو وہ جانور بھی نہیں ہے۔۔

آج اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی سالگرہ ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کاش میں نے منٹو اور اس جیسوں کو نہ پڑھا ہوتا تو میں بھی اسی بیانیے پر یقین رکھ پاتا کہ جس پر عام پاکستانی یقین کرتے ہیں۔ کاش میں مطالعہ پاکستان کی کتاب کو سچ مان سکتا، کاش میں انُ شخصیات کی تکریم کر پاتا کہ جو تلواریں اور بندوقیں لے کر اٹھے اور ہماری نصابی کتب کی زینت بن گئے۔ کاش مجھے بھی کوٹھے پر بیٹھی عورت ایک گوشت کا مجسمہ دکھائی دیتی، کاش میں اسی عورت کو ویشیا کہہ پاتا، کاش مجھے اس کے اغوا کنندگان کے نام اور شکلیں معلوم نہ ہوتیں۔

کاش میں نے “لائسنس” نہ پڑھا ہوتا تو میں بھی اس معاشرے کی عزت کرتا کہ ”جو عورت کو کوٹھا تو چلانے دیتا ہے ٹانگہ نہیں“ کاش میں نے “ٹوبہ ٹیک سنگھ” نہ پڑھا ہوتا تو میرے لیے بھی تقسیم کی کہانی اتنی ہی دلآویز ہوتی جتنی میرے ملک کے مطالعہ پاکستانیت کے شکار لوگوں کے لیے ہے، کاش میں نے “کھول دو” نہ پڑھا ہوتا تو میرے لیے وہ رضا کار اسلام کے سچے فرزند ہوتے کہ جنہوں نے تقسیم کے وقت رضاکاری کی تھی، کاش میرے دماغ پر سیکس اتنا حاوی ہوتا کہ جتنا منٹو کے زمانے کے مجسٹریٹس کے سر پر تھا تو کم از کم میں ٹھنڈا گوشت کے آخری حصے پر غور تو نہ کر پاتا، کاش میں نے “چور بازار” نہ پڑھا ہوتا تو میں بھی ہر صاحبِ مزار کی اتنی ہی عزت کر سکتا کہ جتنی ہمارے لوگ کرتے ہیں، کاش میں نے ہتک، دھواں، نیا قانون، بلاوز، اوپر نیچے اور درمیان، کالی شلوار کچھ نہ پڑھا ہوتا تو میں خوش ہوتا کاش میں نےنسیم حجازی پڑھا ہوتا، کاش میں نے ایسی زندگی گزاری ہوتی جس کی تصویر کشی رضیہ بٹ نے کر رکھی ہے، کاش میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ سے فیض حاصل کر پاتا۔ کاش میں قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامے پر ایمان لا سکتا، کاش مجھ پر بھی بملا کماری کی بے چین روح کی ہیبت طاری رہتی، کاش میرے سرہانے عمیرہ احمد اور نمیرہ احمد کی کتابیں ہوتی۔ کاش میں بشریٰ رحمن کے ناولوں کی شرمیلیوں سے دل لگا پاتا تو آج میں بھی ایک خوش باش شہری ہوتا۔۔

کاش میں نے منٹو اور اس کے قبیلے کے نا آسودہ لوگوں کی کتابیں نہ پڑھی ہوتی تو میں آج اس ریاست کے بیانیے اور اس کے مسلک کا احترام کرتا، مجھے بھی پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں میں پاکستانی فوجیوں کی قربانیوں پر رشک آتا، اگر میں نے یہ سب نہ پڑھا ہوتا تو ریاستی مسلمان ہوتا جو ریاست کے کسی بھی فعل کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھ سکتا، جس کے لیے اس کے ریاستی تعصبات کسی بھی علمی و عقلی اور حقائق پر مبنی دلیل سے بڑے بلکہ کہیں بڑے ہوتے، جس کو کسی بھی جھوٹی سچی بات پر طیش دلانا آسان نہیں، بہت آسان ہوتا۔ اگر یہ سب نہ پڑھا ہوتا تو میں بھی شاید فرانس کے صدر کی جانب سے کی گئی گستاخی پر اپنے ہمسائے کی موٹر سائیکل جلا سکتا، یہ سب نہ پڑھا ہوتا تو اپنے ساتھ والے مکان میں گزشتہ پچاس سال سے رہائش پذیر شیعہ کے گھر پر پتھراؤ کر پاتا، پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتا، اس کے بم کو اسلامی بم کہتا، اس کی فوج کو اسلامی فوج اور نجات دہندہ سمجھتا، مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کو اسلام سے دوری اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی سے تعبیر کرتا، بہن کی طلاق کو اس کے کردار سے جوڑتا، اپنے بھائی یا بیٹے کے کئے گئے ریپ کو اس لڑکی کے کپڑوں اور بے پردگی سے جوڑتا، عورت کی حاکمیت چھوڑیے اس کی ڈرائیونگ تک کو حرام سمجھتا، میں یہ سب نہیں کر پایا اس کی وجہ منٹو ہے اور اب یہ عالم ہے کہ میں اس معاشرے کی وہ چولی کہ منٹو کے زمانے میں ہی پھٹ چکی تھی کو سینے میں ذرا برابر بھی دلچسپی نہیں لیتا….

منٹو تم نے اور تمہاری کتابوں نے مجھ پر بہت بڑا ظلم کیا کہ مجھے ایک فرمانبردار شہری نہیں بننے دیا۔ مجھے میری ریاست، اس کے بیانیے، کسی پر بھی یقین نہیں اس کی وجہ تم ہو، مجھے اس معاشرے کے اعلیٰ حکام ان کی باتوں، ان کے بنائے گئے قوانین سب تمہاری وجہ سے جھوٹ کا بدبودار پلندہ معلوم ہوتے ہیں….. میں آج حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ منٹو کی ہڈیاں اس کی قبر سے نکال کر اس کی کتابوں کے درمیان رکھ کر ان کو جلانا چاہیے تاکہ مجھ ایسے عبرت حاصل کریں ملک میں بڑھتے ہوئے انتشار، بے ہودگی، فحاشی، بدکاری اور کافرانہ افکار کی ترویج میں اس کا بہت بڑا کردار ہے مجھے نہیں معلوم کہ پاگل خانے کے کون سے گوشے میں لیٹ کر تم نے اس مملکت کو وہ بدعائیں دیں کہ جو ہر روز قبول ہو جاتی ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments