لٹے شہر کی دھول


مرینا لزاریا اس کا نام تھا۔ وہ دوسری ڈچ لڑکیوں سے مختلف تھی، بہت مختلف۔ میں جب لندن سے نکلا تھا تو دوستوں نے کچھ اور ہی افسانے سنائے تھے۔ ”ارے، ایمسٹرڈم جا رہے ہو! موج کرو گے موج۔“ ایمسٹرڈم میں یورپ کا سب سے بڑا طوائفوں کا بازار ہے۔ کئی سو سال سے یہ بازار مقامی اور غیر مقامی، یورپین، ایشین، افریقن، امریکن سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ شراب تو خیر ملتی ہی ہے، ساتھ میں چرس کا انتظام بھی ہے۔ اس جگہ محدود مقدار میں قانونی طور پر چرس خرید کر پی جا سکتی ہے۔

ہمارے لوگ بھی عجیب عجیب خواب بنتے ہیں۔ ہر ایک کی اپنی دنیا ہے، خوابوں کا محل ہے، خیالات کا ایک پرستان ہے۔ ہر کہانی الگ اور ہر داستان جدا۔ ایسی ہی داستانوں کو لے کر میں ایمسٹرڈم پہنچا تھا۔

ایمسٹرڈم ائرپورٹ کے باہر وہی نفسانفسی کا عالم تھا جو دنیا بھر کے ائرپورٹوں کے باہر ہوتا ہے۔ لیکن وہاں کے لوگ ذرا مختلف تھے۔ لندن کے لوگوں کی طرح موئے اور بھدے نہیں تھے۔ دبلے پتلے، لانبے اور خوبصورت تھے۔ میں نے لندن میں ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ کسی ہوٹل میں نہیں ٹھہروں گا۔ ایمسٹرڈم تو ہے ہی نہروں کا شہر اور شہروں میں چھوٹے بڑے جہاز تیرتے ہوئے ہوٹل ہیں۔ ان جہازوں کے اوپر کی منزلوں کا زیادہ کرایہ ہوتا ہے اور نیچے کی منزلوں کا کم۔ میں ائرپورٹ سے ٹرین کے ذریعے سٹی سینٹر پہنچ گیا تھا۔

سٹی سینٹر یورپ کے دوسرے پرانے شہروں سے مختلف نہیں ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں گزری ہوئی حکمرانی کے آثار خوب نظر آتے ہیں۔ جس وقت یورپ کی حکومتیں ایشیا اور افریقہ کے ممالک کو فتح کر رہی تھیں اس وقت ولندیزیوں نے بھی اپنی مضبوط بحری فوج کے ذریعے دنیا فتح کرنے کے خواب دیکھے تھے۔ انڈونیشیا سے ہندوستان اور افریقہ تک اپنے کاروبار کا جال بنا تھا۔ انہوں نے کئی شہروں کو جلا کر لوٹ مار کا بازار گرم کیا تھا۔

کئی شہروں ملکوں پر قبضہ کر کے حکمرانی کی تھی، کہیں تجارتی حویلیاں بنا کر کاروبار کا بازار سجایا تھا۔ یہاں بھی تاریخ کا ورق ورق حساب موجود ہے۔ یورپ کے ممالک میں حکومتیں اور عوام تاریخ سے خوفزدہ نہیں رہتے ہیں، ان کے آبا و اجداد نے اچھا برا جو بھی کیا ہے، وہ ہر ایک کے سامنے ہے۔ کسی سے چھپا نہیں ہے۔ نہ اپنے بچوں سے اور نہ دوسرے ممالک کے لوگوں سے۔ جو بھی ہے سامنے ہے اور ہر ایک کو آزادی ہے کہ اپنے طریقے سے اس کی توجیح بھی کر لے۔

ایمسٹرڈم میں ہیروں کا بڑا بازار ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی تھی، میری سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ اس طرح سے دکانوں میں ہیروں کا کاروبار ہوتا ہے۔ مجھے جہاز کے منیجر نے بتایا تھا کہ جب ہم لوگوں نے افریقہ میں حکومت کی تھی تو اس وقت سے ہیروں کی صنعت کو فروغ ملا تھا اور دنیا بھر سے ہیرے تراش خراش اور پالش کے لیے ایمسٹرڈم آتے ہیں۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ آج بھی یہ صنعت ہالینڈ کی معیشت کا اہم حصہ ہے۔ ہیرے بھی اپنے اندر کیا کشش رکھتے ہیں، شہنشاہوں، بادشاہوں سے لے کر عام آدمی تک ہیروں کا اسیر لگتا ہے۔ انسانوں کو وہی چیز اچھی لگتی ہے جو رنگ بدلتی ہے اور اگر ان میں چمک ہو تو کیا بات ہے۔ میں شیشے کے اندر رکھے ہوئے ہیروں کو سحر زدہ انسان کی طرح تکتا رہتا تھا، ہر ہر زاویے سے اور قوس قزح کے بکھرتے ہوئے رنگوں سے مجھ پر سحر کی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ ہیرے واقعی کیا عجیب کشش رکھتے ہیں۔

مجھے ایک اچھے سے جہاز کی دوسری منزل پر ایک اچھا سا کمرہ مل گیا تھا جس کی کھڑکیاں ایک طرف سمندر کی جانب کھلتی تھیں اور دوسری جانب سے شہر کا نظارہ ہو سکتا تھا۔ کرایہ بھی کم تھا جس کے ساتھ ناشتہ شامل تھا۔

یورپ کے شہروں میں گھومتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے آپ تاریخ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے ہیں، جہاں پرانا شہر، پرانی عمارتیں، پرانا انداز لیے ہوئے زندہ ہے، وہاں جوش و جذبے سے بھرا ہوا، گرم صبح کی سورج کی طرح تازہ، حال بھی آگے کی جانب رواں دواں ہے۔ پرانے شہر میں بننے والی نئی عمارتیں اس طرح بنائی گئی ہیں کہ 70 اور 80 منزل ہونے کے باوجود پرانے شہر کی رونق پر داغ نہیں بنتی ہیں، ہمارے یہاں کے بیوپاریوں کی طرح نہیں کہ جہاں جہاں پرانا شہر برباد کر سکتے ہیں کرتے چلے جاتے ہیں، ہائے پیسہ ہائے پیسہ۔

ایمسٹرڈم میں تاریخ ایسے تمام تر ہوش ربا جلوؤں کی طرح موجود ہے، لمحہ لمحہ میوزیم میں محفوظ ہے، جنگوں کے قصے، شہروں کی لوٹ مار کا روزنامچہ، قتل و غارت گری کا ریکارڈ، قوموں اور ملکوں کی بے حرمتی کی داستان، ہالینڈ کے قومی جذبوں امنگوں کی تصویر۔ پرانے سرداروں اور بحری قزاقوں کے جنگ و جدل کا قصہ اور آج کے بیسویں صدی کے ہالینڈ کی باتیں۔ میں جتنا ان گلیوں، سڑکوں، شاہراہوں پر گھومتا تھا اتنا ہی اس قوم کے ماضی اور حال کا معترف ہوتا جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ شہر میرے تن من میں اترتا جاتا تھا۔ ایک عجیب سے تعلق کا احساس تھا جو وجود کا حصہ بن رہا تھا، بڑے ہی نامانوس طریقے سے۔

یہاں کے نائٹ کلبوں کا بھی جواب نہیں۔ میں لندن کے لسٹراسکوائر کے ناچ گھروں میں رات رات بھر ناچتا تھرکتا رہا ہوں مگر ایمسٹرڈم کے ناچ گھر کا تو جواب ہی نہیں تھا۔ شاید ڈسکو سے زیادہ ڈسکو دیوانوں کی مستی تھی جنہوں نے یہاں کا حسن بڑھایا ہوا تھا۔ لگتا تھا کہ گانے والے بھی نشے میں ہیں، بجانے والے بھی نشے میں ہیں، ناچنے والے بھی نشے میں ہیں۔ ایسی ہی ایک رات کو سفید و شفاف لباس میں ملبوس وہ ناچ رہی تھی۔ مختلف رنگوں کی روشنی کی برسات اس کے جسم کو بھگوتی ہوئی نکلتی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ وہ بار بار جنم لے رہی ہے۔

رنگ اور روشنی کا نیا جنم۔ اس کے ناچنے کا انداز بھی ایسا تھا جیسے وہ نہیں ناچ رہی ہے بلکہ دھرتی ناچ رہی ہے اور دھرتی کے ساتھ ساتھ ہر ایک ناچ رہا ہے۔ میں اسے دیکھ رہا تھا اور سمرناف کی چسکیاں بھی لیتا جا رہا تھا۔ کچھ شراب کا نشہ تھا، کچھ اس کے ناچ کا اثر تھا کہ میں ساری ذہنی و فطری رکاوٹوں کو جھٹکتا ہوا اس کے پاس چلا گیا تھا۔ ”میرا نام ارشد ہے۔ میں تمہارا شہر گھوم رہا ہوں۔ تم تو غضب کا ڈانس کرتی ہو۔ میں تمہارے لیے شراب خریدنا چاہتا ہوں۔“

”میں مرینا لزاریا ہوں، ضرور۔“ پھر ہم دوست ہو گئے تھے۔ ساری رات اس کلب میں ناچتے رہے تھرکتے رہے، گاتے رہے۔ ایسا بہت کم ہوا ہے لیکن نہ جانے کیوں وہ فوراً ہی دوست ہو گئی تھی۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ میں پاکستانی ہوں، لندن میں رہتا ہوں، بزنس کرتا ہوں اور دنیا گھومتا ہوں اور وہ مسکرائی تھی جیسے مجھے جانتی ہو، پہچانتی ہو۔

اس رات کے بعد دوبارہ اس سے ملاقات دوسرے دن ہوئی جب میں نے اسے رات کے کھانے کے لیے مدعو کیا تھا۔ وہ بڑی خوبصورت شام تھی، ہلکی ہلکی سردی پڑ رہی تھی اور میں سینٹ مائیکل کے گرم کپڑوں میں ملبوس مین اسٹریٹ کے بارہویں پل پر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ میں وقت سے بہت پہلے پہنچ گیا تھا، شاید اس لیے کہ کرنے کو کچھ تھا نہیں اور جہازی مسافر خانے سے اس جگہ کا فاصلہ بھی کچھ زیادہ نہیں تھا۔ وہ ٹھیک وقت پر آ گئی تھی۔ اس نے ڈھیلا ڈھالا لانبا سا لباس پہنا ہوا تھا اور بلا کی خوبصورت لگ رہی تھی۔

نہ جانے کتنی لڑکیوں کے ساتھ اس قسم کی شامیں گزری ہیں لیکن شدید قسم کی انسیت کا احساس، چاہنے کی خواہش اور محبت کا امڈتا ہوا جذبہ کبھی بھی محسوس نہیں ہوا تھا شاید روایتی محبت ایسی ہی ہوتی ہے۔ جب ایک نظر ملتے ہی محبت ہوجاتی ہے۔ اس کے گورے یورپین رنگ میں ایک خاص قسم کی آمیزش تھی، ہلکا سا نمک تھا، ایسا نہیں جو دھوپ میں بیٹھنے سے ہوتا ہے بلکہ ایسا لگتا تھا جیسے ہمیشہ سے اس کے ساتھ ہے۔ بڑی دیر تک ہم لوگ گلیوں میں گھومتے رہے تھے اور دنیا جہان کی باتیں کرتے رہے تھے۔ وہ ایمسٹرڈم کی ہی رہنے والی تھی۔ یہاں کے پرانے شہر کی پتلی پتلی گلیوں کی باسی۔

برسوں سے اس کا خاندان یہاں آباد تھا۔ اس نے ایمسٹرڈم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی اور اب دواؤں کی ایک کمپنی میں اچھے عہدے پر کام کر رہی تھی۔ یہ میرے لیے ایک طرح سے تعجب کی بات تھی۔ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ کسی ہسپتال میں کلرک یا ٹائپسٹ ہوگی یا کسی کمپنی میں کمپیوٹر پر کام کرتی ہوگی۔ یورپ میں ہر آدمی یونیورسٹی نہیں جاسکتا ہے۔ صرف وہی لوگ یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، جو مناسب حد تک ذہین ہوں اور تعلیم کا خرچ بھی دے سکیں۔

خرچ کا انتظام تو پھر بھی ہوجاتا ہے لیکن بغیر ذہانت کے داخلہ نہیں مل سکتا۔ اس کی ذہانت کا اندازہ تو مجھے ہو گیا تھا۔ میں نے بھی سائنس پڑھی تھی۔ میرے باپ نے سوچا تھا کہ میں سائنس پرہ کر یونیورسٹی میں پڑھاؤں گا۔ اپنی زندگی میں ہی انہوں نے مجھے پی ایچ ڈی کرنے کے لیے وظیفے کا انتظام بھی کر دیا تھا کہ میں لندن یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کروں، مگر قسمت میں کچھ اور لکھا تھا۔ میں لندن آ کر تعلیم کے بجائے بزنس میں لگ گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments