ظلم کی مذمت میں بھی دوہرا معیار؟ (اضافہ شدہ کالم)


پہلا واقعہ: کابل میں ’سید الشہدا‘ نام کا ایک اسکول ہے، زیادہ تر وہاں غریب بچے بچیاں پڑھتے ہیں جو اپنی فیس بھی بمشکل ادا کر پاتے ہیں۔ آج سے تین دن پہلے ہفتے کے روزاس اسکول کے باہر ایک گاڑی میں زور دار دھماکہ ہوا، دھماکہ اتنا شدید تھا کہ بچے خوف کے عالم میں باہر نکل آئے جس کے ساتھ ہی یکے بعد دیگرے مزید دو دھماکے ہوئے اور ان معصوم بچوں کے جسموں کے چیتھڑے ہوا میں اڑ گئے۔ جب دھماکہ ہوا تو ایک بچی کی بہن ابھی اسکول میں تھی، وہ اندر بھاگی کہ اپنی بہن کو دیکھ سکے، اسی اثنا میں دوسرا دھماکہ ہوا، اس کی دوست بھی ساتھ تھی، مگر جب اس نے مڑ کر دیکھا تو لرز اٹھی، دھماکے سے اس کا نچلا دھڑ کٹ کر ختم ہو چکا تھا۔ ایک باپ نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کی بیٹی پندرہ سال کی تھی، آٹھویں میں پڑھتی تھی، بہت لائق تھی، کبھی اسکول سے چھٹی نہیں کرتی تھی، ہفتے کو اس کی ماں نے کہا کہ آج اسکول نہ جاو_¿، بچی نے کہا کہ آج جاؤں گی، کل چھٹی کر لوں گی، اسے کیا معلوم تھا کہ اب وہ کبھی اسکول نہیں جائے گی۔ عینی شاہد نے بتایا کہ دھماکے کے بعد ہر طرف بچیوں کے جسموں کے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے، کسی کی ٹانگ، کسی کا بازو، یوں لگتا تھا جیسے قیامت کا سماں ہو۔ کچھ والدین کو اب تک اپنے بچوں کے ٹکڑے بھی نہیں مل سکے جنہیں لے کر وہ تدفین کر سکیں۔ معصوم بچیوں کے کتابیں اور کاپیاں خون سے لتھڑی ہوئی جائے وقوعہ پر پائی گئیں اور انہی کے درمیان کسی کا سر اور کسی دھڑ مل گیا اور کسی کا ابھی تک نہیں مل سکا۔ اس خون آلود سڑک کو اب دھو دیا گیا ہے، مراد یہ کہ وہاں سے بچیوں کے اعضا صاف کر دیے گئے ہیں اور ان کے خون آلود بستے اٹھا لیے گئے ہیں۔ آخری اطلاعات تک دھماکے میں شہید ہونے والے بچے بچیوں کی تعداد پچاسی سے تجاوز کر چکی ہے۔ سی این این کے مطابق سڑک کے اطراف میں دکانوں پر اب عید کی خریداری کا رش ہے۔

دوسرا واقعہ :گزشتہ چند ہفتوں سے فلسطینی مظاہرین مقبوضہ مشرقی یروشلم میں وقتاً فوقتاً دھرنا دے رہے تھے، ان کا احتجاج اس بات کے خلاف تھا کہ اسرائیل انہیں گھروں سے بے دخل کر کے وہاں یہودی آباد کاروں کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ شہر میں کشیدگی اپنے عروج پر تھی، مسلمان مسجد اقصیٰ میں جمع تھے جب اسرائیلی پولیس نے مسجد پر دھاوا بول دیا اور وہاں فائرنگ کی، اس دوران حماس نے یروشلم میں راکٹ فائر کیے، جواب میں اسرائیل نے غزہ پر راکٹ داغ دیے، نتیجے میں نو بچوں سمیت بیس افراد شہید ہو گئے۔ بین الاقوامی میڈیا میں اس واقعے کو یوں رپورٹ کیا گیا ہے جیسے اسرائیل نے اپنے دفاع میں کم سے کم طاقت استعمال کی ہے۔ نیو یارک ٹائمز کی سرخی ایسی تھی کہ پڑھ کر لگا جیسے اسرائیلی پولیس کے پاس غلیلیں تھیں اور مسجد اقصیٰ میں نمازیوں کے ہاتھ میں راکٹ لانچر۔ امریکہ اور برطانیہ نے بھی اسرائیل کی حمایت اور حماس کے راکٹ حملے کی مذمت کی۔

بظاہر یہ دو مختلف واقعات ہیں مگر ان میں کم از کم ایک بات مشترک ہے کہ دونوں جگہ مرنے والے مسلمان ہیں اور مظلوم ہیں۔ تاہم یہ عجیب بات ہے کہ ان واقعات پر ہمارا رد عمل ایک جیسا نہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ سوشل میڈیا دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے جہاں اسرائیلی کی مذمت میں تو ہم پاکستانیوں نے ٹویٹس کی بوچھاڑ کر دی ہے، مسجد اقصیٰ کا ٹرینڈ چلا دیا ہے اور فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے مگر دوسری طرف کابل میں شہید ہونے والی بچیوں کے بارے میں ہمارے دکھ اور درد کا اظہار اتنا شدید نہیں جس قدر شدید اور خوفناک وہ دھماکہ تھا۔ بے شک دونوں واقعات ہی اندوہناک ہیں، دونوں کی شدید مذمت کی جانی چاہیے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری مساجد میں فلسطینیوں کے لیے دعائیں مانگی گئیں مگر افغان بچیوں کے لیے نہیں؟ ہم نے فلسطینی بچوں کی تصاویر تو شیئر کیں جن میں وہ اسرائیلی فوجیوں کے نرغے میں سہم کر بیٹھے ہیں مگر اسکول جانے والی افغان بچیوں کے بارے میں یہ خبر پڑھ کر کہ ان کے ماں باپ ابھی تک اپنے جگر کے ٹکڑے اکٹھے کرتے پھر رہے ہیں، ہمارا دل کیوں نہیں دہل گیا؟

کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ افغانستان میں مرنے والوں کا تعلق کسی خاص فرقے سے تھا؟ نہیں، میرا دل یہ نہیں مانتا کہ محض ہم مسلک نہ ہونے کی وجہ سے کوئی شخص اس لرزہ خیز واقعے کی مذمت نہ کرے۔ پھر اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں اندر کھاتے ہم جانتے ہیں کہ ان مسلمانوں کو مارنے والے بھی مسلمان ہیں؟ نہیں، میں یہ وجہ بھی قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ کوئی بھی انسان، مسلم ہو یا غیر مسلم، سفاکی کی اس حد تک نہیں جا سکتا کہ پہلے قاتل کا مذہب معلوم کرے اور اگر وہ ہم مذہب نکلے تو اس کی مذمت سے گریز کرے۔ افغان حکومت نے اس واقعے کا الزام طالبان پر لگایا ہے جبکہ طالبان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں طالبان حکومت لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگاتی رہی ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ داعش کی کارروائی ہے۔ آج سے ٹھیک ایک سال پہلے مئی کے مہینے میں ہی کابل کے اسپتال کے زچہ بچہ وارڈ میں اندھا دھند فائرنگ کی گئی تھی جس میں نوزائیدہ بچوں، ان کی ماؤں اور نرسوں سمیت چوبیس لوگ جاں بحق ہوئے تھے۔ اس وقت بھی رمضان کا مہینہ تھا۔

میں افغان امور کا کوئی ماہر نہیں جو تجزیہ کر کے بتا سکوں کہ امریکی فوجوں کے انخلا کے نتیجے میں تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے یا طالبان اور امریکی فوجوں کے باہمی تعاون سے داعش کے خلاف ہونے والی کسی کارروائی کا یہ ’رد عمل‘ ہے۔ تاہم یہ بات دودھ پیتا بچہ بھی بتا سکتا ہے کہ اس قسم کی کارروائیاں ماضی میں جن گروہوں نے علی الاعلان کیں وہی اس کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور سفاکیت بھی۔ ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ظلم جہاں بھی ہو اس کی بلا تفریق مذمت کریں، ظالم اور مظلوم کا مذہب اور فرقہ دیکھ کر اس بات کا تعین نہ کریں کہ ہم نے کیسا بیان جاری کرنا ہے یا کس قسم کی ٹویٹ کرنی ہے۔

بھارت میں جس روز ہندو جنونیوں نے بابری مسجد پر قبضہ کر کے مسمار کیا اس روز پوری قوم سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئی تھی۔ مگر آج سے ایک ہفتہ پہلے لاہور میں نرسوں نے ایک اسپتال میں واقع گرجے میں جا کر وہاں مسیحیوں کو بے دخل کر دیا تو سوائے اکا دکا لوگوں کے کوئی نہیں بولا، میڈیا میں تو خیر یہ خبر ہی نہیں آئی، اس بات کا علم تو سوشل میڈیا کے ذریعے سے ہوا۔ با کمال اور نڈر لکھاری نور الہدی شاہ نے اس پر سوال اٹھایا کہ ”مسیحی نرسیں اگر اپنی فریاد لے کر نبی کریم ﷺ کے حضور جا کھڑی ہوں تو کیا ہو!“ میں تو ایک عاجز اور گناہ گار انسان ہوں، اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا، کیا ہی اچھا ہو اگر کوئی مذہبی عالم گرجے جانے والی ان نرسوں کو یہ حدیث سنائے کہ ”جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا وہ مجھے قیامت والے دن (اپنے خلاف ) اس ذمی کا وکیل پائے گا۔“ (مفہوم) ۔ امریکہ اور یورپ کے بے شمار گرجا گھروں میں مسلمانوں کو عبادت کی اجازت ہے، یہ خبر ہم بخوشی ٹویٹ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو ہوا، اس پر خاموشی کیوں؟

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments