ندا یاسر: ’سب مجھے چائنا کی حلیمہ کہتے ہیں، میں نے کب کہا میری شکل ان سے ملتی ہے‘


’میرا مارننگ شو انٹرٹینمنٹ ہے، میں کسی کو خراب نہیں کر رہی نہ ہی کسی کو نصیحتیں دیتی ہوں۔ البتہ مشورے ضرور دیتی ہوں، جو میں سنتی ہوں، اپنے ذاتی تجربات لوگوں کو بتاتی ہوں، جیسی اگر دبلے ہونے کا شوق ہے تو ایسا کر لو، میں یہ نہیں کہتی کہ موٹا ہونا کوئی بری بات ہے لیکن اگر دبلے ہونے کا شوق ہے اور آپ کو سمجھ نہیں آ رہا کہ کون آپ کی رہنمائی کرے تو میں مشورہ دیتی ہو کہ یہ کر لو۔‘

یہ کہنا ہے پاکستانی اداکارہ اور نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے مارننگ شو ’گڈ مارننگ پاکستان‘ کی میزبان ندا یاسر کا جنھیں اپنے شو میں زیر بحث لائے جانے والے موضوعات پر اکثر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

صحافی براق شبیر کو بی بی سی اردو کے لیے دیے گئے خصوصی انٹرویو میں جب ندا یاسر سے یہ پوچھا گیا کہ اکثر فیٹ شیمنگ یا رنگ گورا کرنے کو لے کر کافی چیزیں مارننگ شوز پر آتی ہیں جسے لوگ بیکار یا فضول قرار دیتے ہیں اور مارننگ شوز پر ہر وقت تنقید تیار رہتی ہے آپ کیسے اس کو دیکھتی ہیں۔۔۔ تو ندا نے کہا کہ وہ اپنی غلطی کو سدھارنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔

’میں اپنے دونوں کان استعمال کرتی ہوں، کبھی کبھی میری غلطی ہوتی ہے اور جو واقعی غلطی ہوتی ہے اس کو میں سدھارنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن میں یہ نہیں کہتی کہ موٹاپا یا رنگ کا خراب ہونا پر میں کبھی بھی بات نہیں کرتی کیونکہ یہ اللہ نے دیا ہے اس کو ہم گھس گھس کر گورا نہیں کر سکتے، میں رنگ کا خراب ہونا یعنی جلد کا خراب ہونا پر بات کرتی ہو۔‘

’لیکن میں یہ کہتی ہوں کہ جوانی میں جب میں یونیورسٹی جاتی تھی اور دھول و مٹی اور دھوپ سے جو میرا اصل رنگ تھا وہ نہیں رہا تھا، جلد خراب ہوتی تھی، ہاتھ اور پیر خراب ہوتے تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

مارننگ شو والی لڑکی بولے

ندا یاسر: ’اس طرح کے شوز کی زیادہ ریٹنگ ویسے ہی نہیں آتی‘

’اپنے جسم کے ذریعے توجہ حاصل نہیں کرنا چاہتی‘

ندا مزید کہتی ہیں کہ ’پڑھائی کے چکر میں دس ہزار خواریاں اٹھاتے ہوئے جوانی میں چہرہ، ہاتھ پاؤں خراب ہوتے تھے اور پھر ایک دن یاد آتا تھا کہ یہ ہم نہ پڑھائی کے چکر میں اپنا کیا حال بنا لیا۔‘

’میں اپنے بچوں کو بھی ایسا ہی کہتی ہوں، جن دنوں میں سٹرابیریز موجود تھیں تو ان میں بیکنگ سوڈا ڈال کر میں انھیں لگا رہی ہوتی تھی۔ میری بیٹی بھی اس پر چیخ رہی ہوتی ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے ایک زمانے میں مائیں اپنے بچوں کے سر پر تیل لگایا کرتی تھیں۔‘

انھوں نے کہا ’میں اس کو ایسے لیتی ہوں لیکن اگر لوگ کان کو الٹے طریقے سے پکڑیں تو میں کیا کر سکتی ہوں۔‘

ندا یاسر

’اپنی غلطیوں کی ذمہ داری لیتی ہوں اور انھیں ٹھیک بھی کرتی ہوں‘

گذشتہ برس کراچی میں مبینہ طور پر اغوا اور ریپ کے بعد قتل ہونے والی ایک پانچ برس کی بچی پر ندا کے پروگرام کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس حوالے سے ندا نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان سے غلطی ہوئی تھی۔

’یہ جو بچی والا معاملہ تھا، اس میں میری غلطی تھی، مجھے اس وقت بہت سوال نہیں کرنے چاہیے تھے، انھیں کریدنا نہیں چاہیے تھا، میں اس وقت بھول گئی تھی کہ میں ایک شو میزبان ہو، میں اس وقت ایک ماں بن گئی تھی۔‘

’وہ مجھے بتا رہے تھے اور میں بطور ایک ماں یہ بتانا اور سمجھانا چاہتی تھی کہ ہم مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ میں بھول گئی تھی کہ میرے ساتھ اتنے سارے کیمرے ہیں اور میں پوچھے جا رہی تھی، اس وقت میں ایک ماں بن گئی تھی۔‘

ندا کے مطابق اس واقعے کے بعد ان کے بچوں نے انھیں کہا کہ وہ یہ سب چھوڑ دیں لیکن ندا کہتی ہیں کہ اچھے برے وقت آتے رہتے ہیں، لوگ تنقید کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اتنا پیار بھی کرتے ہیں۔

’میں جو بھی کرتی ہوں، دل سے کرتی ہو، میں اپنی غلطیوں کی ذمہ داری بھی لیتی ہوں اور انھیں ٹھیک بھی کرتی ہوں۔ اگر کوئی اچھا کام ہوا تو میرا کریڈٹ ہے اور اگر کہیں کچھ خراب ہوا تو بھی میری غلطی ہے۔‘

’دیکھو تو سہی کتنی پھپے کٹنیاں ہیں لوگ‘

ندا یاسر نے یہ بھی کہا کہ عام زندگی کوئی غلطی ہو تو معافی مانگ کر انسان آگے بڑھ جاتا ہے لیکن بطور مارننگ شو ہوسٹ بعض اوقات ان چیزوں کا بھی دھیان رکھنا پڑتا ہے جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں۔

’میری ساس کا انتقال ہوا تو میرے پروڈیوسر نے کوئی پرانا پروگرام نکال کر چلا دیا۔ تب ہم سب لوگ کہیں بیرون ملک سے گھوم کر آئے تھے اور اس پروگرام میں اپنی اپنی شاپنگ دکھا رہے تھے، اس پروگرام کا فارمیٹ یہ تھا کہ جب سب دوستیں ملتی ہیں تو اپنی شاپنگ دکھاتی ہیں کہ یہ میں نے کپڑے دھونے کا بلیچ لیا ہے، یہ میں نے سیل سے اٹھایا وغیرہ وغیرہ۔‘

’اس شو پر تو جو تنقید ہوئی لیکن کسی نے وہ شو میرے شوہر کو بھیجا کہ دیکھیں آپ کی والدہ کا انتقال ہوا ہے اور ندا ٹی وی پر اپنی شاپنگ دکھا رہی ہے۔ انھوں نے وہ مجھے دکھایا تو میں نے انھیں بتایا کہ یہ پچھلے سال کا شو ہے۔ دیکھو تو سہی کتنی پھپے کٹنیاں ہیں لوگ۔‘

ہمارے محلے میں ایک آنٹی رہتی تھی تو ان کا نام ہم نے ان کا نام بی بی سی رکھا تھا، لوگ رپورٹر بن جاتے ہیں، بی بی سی کا مطلب نیوز بریک کرنی والے ہیں۔

’مجھے بہت باتیں کرنے کا شوق تھا اور مجھے کام بھی ویسا ہی مل گیا‘

ایک اور سوال کے جواب میں ندا نے کہا کہ وہ انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ انفوٹینمنٹ بھی فراہم کرتی ہیں اور جو کوئی بھی کچھ بھی دیکھنا چاہتا ہے وہ اسے وہ فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

’جو لوگ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں یہ دیکھنا ہے، جس بارے میں انھوں نے ایک چھوٹی سی خبر دیکھی ہوتی ہے، میں اس شخصیت کو لا کر اپنے شو پر بٹھا دیتی ہوں، یہ تو میرا کام ہے۔‘

’یہ تو میں اپنے کام سے مخلص ہوں تو میں اس شخص سے رابطہ کروں گی، ورنہ سیدھا سیدھا کام ایک ہی لائن پر چلتا رہے تو کیا مزا آئے گا۔‘

اپنے کام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ندا نے کہا کہ وہ اپنے شو کے لیے بہت محنت کرتی ہیں اور ہر طرح کے لوگوں کے ذہن کے ساتھ اچھا تعلق بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’اگر میرے گھر میں کام کرنے والی ہیلپر (ملازمہ) ہو گی تو میں اس کے ساتھ اس کی طرح کی گپیں ماروں گی جس طرح میں آپ کے ساتھ بیٹھ کر آپ کے مزاج کے مطابق باتیں کر رہی ہوں۔ میری گھریلو ملازمہ میری کمپنی سے لطف اندوز ہوتی ہیں اور جس طرح کے بھی لوگ ہوں مجھے لوگوں سے بات کرنے میں مزا آتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ عام زندگی میں کوئی مجھ سے اردو میں تو کوئی مجھ سے پنجابی میں بات کر رہا ہوتا ہے تو میں اس ہی کی طرح کا لہجہ بنا کر اس سے بات کر رہی ہوتی ہوں۔‘

ندا کہتی ہیں کہ وہ بہت باتونی تھیں۔ ’مجھے بہت باتیں کرنے کا شوق تھا اور مجھے میرا کام بھی ویسا ہی مل گیا۔‘

اگر کردار پر بات کی جائے یا گالی دی جائے تو دکھ ہوتا ہے‘

سوشل میڈیا کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ندا نے کہا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا رویہ منفی ہوتا ہے۔

’چند لوگ بس ایسے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ایک تصویر آنے دیں اس کی کھال کھینچتے ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں کو بہت عزت اور پیار دیتے ہیں۔‘

’سوشل میڈیا اچھا ہے میں تمام طرح کے اچھے برے پیغامات پڑھتی ہو۔ کبھی ایسے پیغامات ہوتے ہیں کہ آنٹی لگ رہی ہو، ایسی لگ رہی ہو ویسی لگ رہی ہو۔ ایسے پیغامات میں برداشت کر جاتی ہوں لیکن اگر کردار پر بات کی جائے یا گالی دی جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔‘

’میں نے تھوڑی کہا کہ میری شکل حلیمہ سے ملتی ہے‘

سوشل میڈیا پر ندا یاسر کے ایک لباس کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں وہ آپ کے ایک لباس پر بہت تنقید ہوئی جس میں انھوں نے ترکی کے مصہور ڈرامے ارطغرل کی اہم کردار حلیمہ سلطان جیسا حلیہ بنا رکھا تھا۔

اس بارے میں میں بات کرتے ہوئے ندا نے کہا کہ ’سچ بتاؤں تو وہ ماہین خان کے ڈیزائن کردہ کپڑے تھے اور انھوں نے مجھے کہا یہ بھی پہن لو اور میں انھیں فیشن گرو مانتی ہوں۔ اگر میں خود سے کرتی تو وہ نہ پہنتی، حالانکہ میں نے ارتغرل ڈرامے کو پورا فالو کیا تھا۔ میں ارتغرل اور حلیمہ دونوں کی مداح ہوں، اس وقت رمضان تھا تو میں نے سوچا کیوں نہ اچھے سے تیار ہو کر منایا جائے میں نے وہ لباس پہنا اور

ندا نے نے مزید کہا کہ ’میں نے تھوڑی کہا کہ حلیمہ سے میری شکل ملتی ہے۔‘

’اگر ماسک لگا کر شو کروں تو یہ اچھا نہیں لگے گا‘

جب صحافی براق شبیر نے ندا سے سوال کیا کہ وہ کووڈ کے دوران ماسک لگا کر شو کیوں نہیں کرتیں تو انھوں نے کہا کہ ’ہم سیٹ پر دور دور بیٹھے ہوتے ہیں ایسے میں اگر ماسک لگا کر شو کروں تو یہ اچھا نہیں لگے گا۔ دوسرا یہ کہ ایک مرتبہ مجھے کووڈ ہو بھی چکا ہے تو اب زیادہ خیال رکھتی ہوں۔‘

’جب میرا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تو میری پوری ٹیم کا کورونا ٹیسٹ ٹی وی چینل والوں نے کروایا تھا، میری میک آپ آرٹسٹ کا بھی ٹیسٹ منفی آیا تھا۔ مجھے کورونا مثبت آنے کے وقت کوئی علامات بھی نہیں تھیں، میرے شوہر کو علامات تھیں اور اس کے بعد ہم سب گھر والوں نے ٹیسٹ کروایا تھا۔‘

ندا نے یہ بھی بتایا کہ کورونا ویکسین لگواتے وقت ماسک ان کے ہاتھ میں رکھا تھا لیکن پہنا اس لیے نہیں کیونکہ ماسک میں کون پہچانے گا کہ یہ ندا یاسر ہیں۔

’نوجوان جوڑے کا محبت کا اظہار کرنا اچھا لگتا ہے‘

اپنے شوہر یاسر نواز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ندا نے بتایا کہ انھیں نوجوان جوڑے کا محبت کا اظہار کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔

’پھول دینا یا کسی اور طرح سے اظہار محبت کرنا اچھا ہے، میں تو اس معاملے میں اپنے شوہر سے بہت لڑتی ہوں۔ایک دن ہم پارک میں واک کرنے گئے تو انھوں نے پودوں سے پھول توڑ کر مجھے دیا۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp