سنکیانگ میں اویغور مذہبی شخصیات کی مبینہ گرفتاریاں اور اموات: جہاں داڑھی رکھنا ہی جرم قرار دیا جائے وہاں ’مذہبی آزادی‘ کیسی؟

جوئل گنٹر - بی بی سی نیوز


A man arrives for morning prayer in Kashgar, Xinjiang, a mostly Muslim region in north-western China

چین نے سنہ 2014 سے سنکیانگ کے خطے میں جاری کریک ڈاؤن میں کم از کم 630 آئمہ اور دیگر اسلامی مذہبی شخصیات کو حراست میں لیا ہے یا قید میں رکھا ہے۔

یہ دعویٰ اویغور مسلمانوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم کی تازہ تحقیق میں سامنے آیا ہے۔

اویغور ہیومن رائٹس پراجیکٹ کی جانب سے بی بی سی کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق تنظیم کو شواہد ملے ہیں کہ 18 آئمہ کی حراست کے دوران یا اس کے فوراً بعد ہلاکت ہوئی۔

ان میں سے کئی افراد پر ‘انتہاپسندی پھیلانے’ یا ‘امن خراب کرنے کے لیے مجمع جمع کرنے’ اور ‘علیحدگی پسندی کو فروغ دینے’ جیسے الزامات لگائے گئے ہیں۔

رشتے داروں کی گواہیوں کے مطابق ان ’بےبنیاد الزامات‘ کے پیچھے ان کا اصل جرم دراصل تبلیغ کرنا، مذہبی اجتماعات منعقد کروانا یا پھر صرف امام ہونا ہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

خصوصی رپورٹ: چین کے خفیہ کیمپوں میں سنکیانگ کے لاپتہ اویغوروں کے ساتھ کیا ہوا؟

’چینی حکومت اویغور خواتین کی نس بندی اور نسل کشی جیسے جرائم میں ملوث ہے‘

اویغور کیمپوں میں منظم انداز میں مبینہ ریپ کا انکشاف: ’پتا نہیں وہ انسان تھے یا جانور‘

اس تنظیم نے کُل 1046 آئمہ کے متعلق عدالتی دستاویزات، خاندانی گواہیوں اور سرکاری و نجی ریکارڈز کی مدد لیتے ہوئے مطالعہ کیا۔

اگرچہ تمام کے تمام امام مبینہ طور پر کبھی نہ کبھی چینی حراست میں رہے ہیں، کئی معاملات کی تصدیق اس لیے ممکن نہیں تھی کیونکہ سنکیانگ میں معلومات کے تبادلے پر چین کا سخت کنٹرول۔

جن 630 کیسز میں شواہد دستیاب ہو سکے اُن میں سے کم از کم 304 آئمہ کو ‘تعلیمِ نو مراکز’ کے بجائے جیل بھیجا گیا۔ تعلیمِ نو کے مراکز چین کی جانب سے اویغور افراد کو اجتماعی حراست میں رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=v5k607sI1R4

جن کیسز میں عدالتی دستاویزات یا دیگر ثبوتوں سے اُن کی قید کے دورانیے کا پتا لگایا جا سکتا تھا، اُن سے سنکیانگ کے نظامِ انصاف کی سختی کا پتا چلتا ہے۔ تقریباً 96 فیصد افراد کو کم از کم پانچ سال اور 26 فیصد کو 20 سال یا زیادہ کی سزا سنائی گئی جبکہ 14 افراد کو عمر قید بھی دی گئی۔

یہ ڈیٹابیس جو انسانی حقوق کے اویغور کارکن عبدالولی ایوب کی تحقیق، سنکیانگ وکٹمز ڈیٹابیس اور اویغور ٹرانزیشنل جسٹس ڈیٹابیس پر مبنی ہے، کسی بھی طرح سے مکمل صورتحال کا احاطہ نہیں کرتا اور یہ صرف سنکیانگ میں آئمہ کی کُل تعداد کے کچھ حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔

مگر یہ سنکیانگ میں مذہبی شخصیات کو نشانہ بنائے جانے پر روشنی ڈالتا ہے اور اس سے ان الزامات کو تقویت ملتی ہے کہ چین اویغور افراد کو ہان چینی ثقافت میں ڈھالنے کے لیے اُن کی مذہبی روایات کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔

چین نے ان الزامات سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ سنکیانگ میں اس کے ‘تعلیمِ نو’ پروگرام کا مقصد اویغور اور دیگر مسلمان اقلیتوں سے انتہاپسندی کا خاتمہ ہے۔

مذہب کو انتہاپسندی سے ملانا

خیال ہے کہ چین کے بارے میں اس نے دس لاکھ سے زیادہ اویغور اور دیگر مسلمانوں کو سنکیانگ میں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ سنکیانگ شمال مغربی چین میں ایک بڑا خطہ ہے جو ترکی النسل افراد کا گھر ہے۔ چین پر الزام ہے کہ اس نے یہاں ریپ، جبری نسبندی اور مزدوری جیسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔

سنکیانگ میں زیرِ حراست زیادہ تر افراد کو ’تعلیمِ نو‘ کے مراکز میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ قید خانہ نما کیمپس ہیں جہاں لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے طویل عرصے تک بند رکھا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو جیل کی سزا بھی سنائی جاتی ہے، جن میں سنہ 2017 سے اب تک ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔

گرفتاریوں کی عوامی معلومات یا پھر مقدمات کی دستاویزات عام نہیں ہیں مگر جو موجود ہیں اُن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست نے کس طرح سنکیانگ میں مذہبی عقائد کے اظہار کو ہی انتہاپسندی یا سیاسی علیحدگی پسندی سے منسلک کر دیا ہے۔

سنکیانگ کے علاقے قبا کے رہائشی 51 سالہ قزاق امام اوکن محمد کی گرفتاری کے نوٹس میں ان پر ‘انتہاپسندی پھیلانے’ کا الزام لگایا گیا ہے۔

سنکیانگ وکٹمز ڈیٹابیس کے جمع کردہ شواہد میں اُن کے خاندان کا مؤقف یہ ہے کہ اُنھیں جمعے کی نماز کی امامت اور مسجد میں نکاح پڑھانے پر گرفتار کیا گیا ہے۔

محمد کی ابتدائی حراست کے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اُنھیں ‘لوگوں کو شادی کے ایجاب و قبول، تعلیم اور حکمرانی سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی پر اکسانے اور انتہاپسندی سے منسلک چیزوں کی تیاری اور تقسیم’ پر حراست میں لیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اُنھیں آٹھ سے 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

چین

باقیثان میرزان سرکاری کے منظور کردہ 58 سالہ امام ہیں۔ اُنھیں بھی ‘انتہاپسندی پھیلانے’ پر حراست میں لیا گیا ہے

باقیثان میرزان سرکاری کے منظور کردہ 58 سالہ امام ہیں۔ اُنھیں بھی ‘انتہاپسندی پھیلانے’ پر حراست میں لیا گیا ہے۔ میرزان کو اگست 2018 میں حراست میں لیا گیا جہاں وہ مئی 2019 تک قید رہے۔ اس کے بعد انھیں 14 سال کی سزا سناتے ہوئے بنگتوان ارمچی جیل میں بھیج دیا گیا۔ میرزان کے خاندان کا کہنا ہے کہ اُن کا واحد جرم امام کے طور پر کام کرنا تھا۔

اس کے علاوہ عابدین ایوب نامی عالم اور امام کے مبینہ جرائم کے بارے میں واحد اشارہ ایک اور ہان چینی حکومتی عہدیدار کے خلاف مقدمے کی ایک طویل دستاویز میں ملتا ہے۔

اس دستاویز میں الزام ہے کہ اُنھوں نے ایوب کے بیٹے کو اجازت دی کہ وہ اپنے والد سے گرفتاری کے بعد حراستی مرکز کے ہسپتال میں ملاقات کر سکیں۔ عدالتی دستاویزات میں سنہ 2017 میں گرفتاری کے وقت 88 سالہ عابدین ایوب کو ‘مذہبی انتہاپسند’ کہا گیا ہے۔

اُن کی بھانجی مریم محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ایک ‘رحمدل، محنتی، دریا دل، نفیس اور صاحبِ علم شخص تھے جو نوجوانوں پر صرف مذہب ہی نہیں بلکہ تمام مضامین پڑھنے کے لیے زور دیتے۔’

مریم اب امریکہ میں مقیم ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ اُن کے خاندان کے تقریباً 60 افراد کو عابدین ایوب کی گرفتاری کے بعد حراست میں لیا، جن میں اُن کے شوہر اور عابدین ایوب کے آٹھ بچے شامل ہیں۔

امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے منسلک چینی قانون کے ماہر پروفیسر ڈونلڈ کلارک کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں ‘کمزور قانونی بنیادوں’ پر ‘ایسے جرائم کے لیے انتہاپسندی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں جنھیں جرائم بھی نہیں قرار دینا چاہیے۔’

‘ایک لمحے کے لیے اس بات کو ایک طرف رکھیں کہ آپ ‘انتہاپسندی پھیلانے’ کو جائز الزام سمجھتے ہیں یا نہیں، تو سوال یہ ہے کہ کیا حقائق اس الزام کے لیے ایک قابلِ یقین بنیاد فراہم کرتے ہیں؟’

‘اور جو مبینہ جرائم ہم نے دیکھے ہیں، مثلاً داڑھی رکھنا، شراب نہ پینا یا بیرونِ ملک سفر کرنا، ان سے ایسا نہیں لگتا۔’

اویغور ہیومن رائٹس پراجیکٹ کے سینیئر پروگرام افسر پیٹر اروِن کہتے ہیں کہ آئمہ کو ہدف بنانے کی اصل وجہ ‘لوگوں کو اکٹھا کرنے کی اُن کی صلاحیت’ ہے۔

‘ریاست ایک طویل عرصے سے آئمہ سے احتیاط سے نمٹتی آئی ہے کیونکہ اسے اُن کے اثر و رسوخ کا علم ہے۔ گذشتہ کچھ برس میں سامنے آنے والی حراستیں اور قید کی سزائیں تین دہائیوں سے جاری جبر کا عروج ہیں جس کا مقصد اویغور ثقافت اور مذہب کو مٹانا ہے۔’

چینی حکومت کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ سنکیانگ کو ‘مذہبی عقائد کی بے مثال آزادی حاصل ہے۔’

A closed down mosque near Kashgar, with barbed wire and a surveillance camera in the foreground

کاشغر کے قریب بند کی جانے والی ایک مسجد جس کے گرد تاریں دکھائی دیتی ہے اور نگرانی کے لیے کیمرا لگا ہے

اُنھوں نے کہا کہ ‘سنکیانگ میں انتہاپسندی سے نمٹنے کی کوششوں نے مذہبی انتہاپسندی کو مؤثر انداز سے قابو کیا ہے اور عالمی طور پر انتہاپسندی کے خاتمے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔’

‘تعلیمِ نو’ کی شروعات

شمال مغربی چین میں ترکی النسل گروہوں کو ہدف بنایا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں 1950 اور 1970 کی دہائیوں میں بھی یہاں کے لوگوں کو طویل جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے جب قرآن جلائے جاتے، مساجد اور قبرستانوں کی پامالی کی جاتی اور ثقافتی کپڑوں اور بالوں کی روایتی تراش خراش پر پابندی عائد تھی۔

پھر 1980 کی دہائی میں نسبتاً آزادی اور بحالی کا دور آیا۔ تباہ شدہ مساجد کی تعمیرِ نو کی گئی، نئی مساجد تعمیر کی گئیں، مذہبی اجتماعات اور تہواروں کی اجازت دی گئی اور آئمہ و دیگر شخصیات کو سفر کی اجازت دی گئی۔ اسی عرصے میں پہلی مرتبہ مایہ ناز اویغور عالمِ دین محمد صالح حاجم نے پہلی مرتبہ قرآن کا اویغور زبان میں ترجمہ کیا۔

مگر 1990 میں سنکیانگ کے بیرن قصبے میں اویغور عسکریت پسندوں کی پرتشدد تحریک کے بعد چینی ریاست نے کریک ڈاؤن شروع کیا اور یہیں سے بتدریج سخت ہوتے دو دہائی طویل کنٹرول کی ابتدا ہوئی۔ حکام آئمہ کو با اثر شخصیات تصور کرتے ہیں چنانچہ ان پر ریاست سے وفاداری ظاہر کرنے کا دباؤ بڑھنے لگا۔

اس کے بعد 2000 کی دہائی میں کئی آئمہ پر زور ڈالا گیا کہ وہ رسمی تعلیمی پروگرامز میں شمولیت اختیار کریں۔ یہ سب کورسز آج عام آبادی کے خلاف شروع کیے گئے ‘تعلیمِ نو’ کے پروگرامز کے پیشرو تھے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 16 ہزار آئمہ اور دیگر مذہبی شخصیات کو سنہ 2001 سے 2002 کے درمیان ‘سیاسی تعلیمِ نو’ سے گزرنا پڑا۔

ان میں سے ایک امام ترسن تھے جنھیں پہلی مرتبہ سنہ 2001 میں حراست میں لیا گیا کیونکہ اُن کی عزیزہ کے مطابق وہ اپنے اجتماع کے لیے دعائیں عربی سے اویغور میں ترجمہ کر رہے تھے۔

اُن کی عزیزہ چین کے باہر ایک ملک سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ترسن کو دو سال تک ‘تعلیمِ نو بذریعہ مزدوری’ کیمپ میں رکھنا ریاست کے ہاتھوں اویغوروں کے دو دہائی طویل استحصال کا آغاز تھا۔

ترسن کو 2002 میں چھوڑ دیا گیا مگر اس کے بعد اُنھیں بار بار پولیس ہراساں کرتی رہی اور اکثر اُنھیں ‘تعلیم’ کی غرض سے دو ہفتوں کے لیے اپنے ساتھ لے جاتی۔ اس کے بعد سنہ 2005 میں اُنھیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا مگر اب کی بار اُنھیں چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔

ان کی بھتیجی نے بتایا کہ انھیں کورٹ کی جانب سے کوئی بھی نوٹس موصول نہیں ہوا۔

وہ کہتی ہیں میرا خاندان پولیس سٹیشن گیا تاکہ پتہ چلے کہ ان کے چچا کے ساتھ کیا ہوا تو پولیس نے انھیں ہاتھ سے لکھی ایک تحریر دی جس میں ان کی قید کی سزا اور جیل کا پتہ درج تھا۔

ٹرسن کو سنہ 2009 میں جیل سے رہائی ملی اور پھر دوبارہ انھیں سنہ 2017 میں گرفتار کر لیا گیا۔ اسی وقت سخت گیر سیاست دان چِن کوانگو کو سنکیانگ میں انچارچ لگایا گیا تھا اور جنھوں نے اویغوروں کے خلاف مہم کو بڑھایا تھا۔

اس وقت جب اس خطے کے دیگر آئمہ کے ساتھ جو معاملہ ہوا ٹرسن کی بھتیجی جنھوں نے چین چھوڑ دیا تھا بتاتی ہیں کہ بعد میں ان کے خاندان کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ جب میں نے سنا کہ میرے انکل اور ان کی بیوی کو گرفتار کر لیا ہے میں نے سنا کہ میری والدہ اور میرے رشتہ داروں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ 14 برس کی عمر سے بڑے تمام لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ گذشتہ چار رس سے میں اپنے خاندان خاص طور پر اپنی ماں کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہی ہوں کہ وہ کہاں ہیں۔

تقریباً ایک ماہ پہلے ٹرسن کی بھتیجی کو پتہ چلا کہ ان کی والدہ کو 13 سال قید ہو گئی ہے اور ان کے چھوٹے بھائی کو پانچ برس قید کی سزا ہوئی ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ ان پر کیا الزامات تھے۔ ان کے والدہ تو پہلے ہی عمر قید کاٹ رہے ہیں۔ جس کی ابتدا سنہ 2008 سے ہوئی تھی اور ان پر الزام تھا کہ وہ ’غیر قانونی تبلیغ‘ اور علیحدگی کا پرچار کرتے ہیں۔

میری والدہ ایک سادہ سی گھریلو خاتون ہیں انھیں تیرہ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے نہیں معلوم میرے انکل کو کتنے عرصے کے لیے جیل بھجوایا گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ انھیں ان کی غیر مرئی قوت کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

’ریاست نے انھیں توڑنے انھیں تباہ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ فقط مذہبی رہنما نہیں بلکہ وہ بھی جو خاموشی سے اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں انھیں بھی، اور ان سے اویغور ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ انھوں نے انھیں تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔‘

کچھ وہ لوگ ہیں جو گرفتار ہوئے لیکن پھر اسیری سے کبھی واپس نہیں لوٹے۔ 18 آئمہ کے بارے میں ڈیٹا بیس میں اطلاع ملی ہے کہ وہ قید کے دوران یا گرفتار ہونے کے تھوڑے ہی عرصے بعد مر گئے تھے۔

نورگزے ملک دو بچوں کے والد ہیں اور سنکیانگ کے اسلامک انسٹی ٹیوٹ سے گریجویٹ ہیں۔ وہ یہاں منظور شدہ مذہبی میگزین کے ایڈیٹر انچیف ہیں۔ ان کی سنہ 2019 میں دوران قید ہلاکت ہوئی۔

غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ چینی حکام نے ان کے خاندان کو ان کی موت کی تصدیق تو کی لیکن ان کی لاش کو ان کے حوالے نہیں کیا گیا۔ یہ صورتحال دیگر ایسی ہی رپورٹس کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ ملک کے والد اور دیگر رشتہ داروں نے کزاکستان میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔

Uyghur men pray at an open air mosque in old Kashgar, Xinjiang, in 2014

خفیہ نماز

سنہ 2019 کے اواخر میں دوبارہ تعلیم و آگہی کے نیٹ ورک کے باعث ان کیمپوں کو عالمی طور پر بہت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ چین کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس سسٹم کے اندر موجود ہر شخص کو رہا کر دیا ہے۔ بڑی تعداد میں لوگوں کو جو کہ گھروں میں نظر بند تھے یا انھیں ایک مخصوص ماحول میں رکھا گیا تھا کو رہا کیا گیا۔ لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں میں سے بہت سوں کو رسمی طور پر موجود جیلوں میں بھجوا دیا گیا۔

یہ بھی ثبوت موجود ہے کہ اس دوران ہزاروں کو حراست میں لیا گیا۔ قید کیے جانے کی شرح سنہ 2017 اور سنہ 2018 میں سنکیانگ میں بڑھت گئی۔ نیویارک ٹائمز اور دیگر کی رپورٹ کے مطابق یہ تعداد اس عرصے میں 230000 تک پہنچی جو اس سے پچھلے برس کے مقابلے میں زیادہ تھی۔

چینی حکومت کے ڈیٹا کے مطابق سنہ 2017 میں پورے ملک میں جرائم کے نتیجے میں گرفتار ہونے والوں میں سے 21 فیصد سنکیانگ سے تھے۔ تاہم اس علاقے میں ملک کی ایک اعشاریہ پانچ فیصد آبادی ہے۔

جینی بونن جنھوں نے سنکیاگ کے متاثرین کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کے لیے تحقیق کی ہے کا کہنا ہے کہ دوبارہ تعلیم و آگہی کے نظام کے برعکس باضابطہ طور قید کی سزا پر تحریری طور پر مقدمے کا آغاز ہونا چاہیے۔ لیکن کورٹ کے کی دستاویزات کہیں نہی ملتیں۔

بونن کے مطابق سنہ 2018 میں سنکیانگ میں 74348 جرائم کے کیسز درج ہونے کے باوجود فقط 7714 جرائم سے متلعق کیے جانے والے فیصلے موجود ہیں۔

تقریباً تمام کیسز میں اویغور افراد پر „شدت پسندی کو پھیلانے اور علیحدگی پر ابھارنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ انڈیا ریکارڈ کو ختم کر رہا ہے۔

Experts say about 16,000 mosques have been destroyed in Xinjiang — two thirds of the total

سنہ 2018 میں آنے والے فیصلے جسے اب حکومتی ریکارڈ سے حذف کر دیا گیا ہے لیکن یہ سنکیانگ کے متاثرین کے ڈیٹا بیس میں موجود ہے کے مطابق 55 سالہ اویغور کسان ’شدت پسندی کو پھیلانے‘ کے الزام میں اب دس سال کی سزا کاٹ چکے ہیں۔ ان کی سزا کو اس وقت دوہرا کر دیا گا جب انھوں نے جیل میں ایک سادہ اور طریقے سے چھپ کر نماز ادا کرنے کی کوشش کی۔

اسماعیل صادق خفیہ طور پر جیل میں نماز پڑھتے ہیں۔ ان کے ایک ساتھی نے ان کی اس سرگرمی کی اطلاع کر دی جس کے بعد ان پر یہ چارج لگا کہ وہ ’غیر قانونی مذہبی سرگرمیوں` میں ملوث ہیں۔ اور یہ بھی کہ وہ نسلی منافرت اور امتیازی سلوک کو ہوا دے رہے ہیں۔

انھیں اب 2038 میں رہائی ملے گی۔

وہ لوگ جو کیمپوں میں زیر حراست تھے ان کے پاس چند ماہ کے بعد رہائی حاصل کرنے کا اچھا چانس تھا۔ لیکن سنکیانگ میں رہائی کا مطلب ضروری نہیں کہ کسی کو آزادی بھی مل گئی ہے۔

محمد، اویغور ہیں جو سنکیانگ سے فرار ہوئے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے والد کو سنہ 2017 میں کئئ برس امام کے فرائض سرانجام دینے کے بعد گرفتار کیا گیا۔

محمد کئی برس تک اپنے خاندان والوں کے بارے میں ایک جاننے والی خاتون کے ذریعے آگاہی حاصل کرتے رہے۔ وہ خاتون وی چیٹ اکاؤنٹ کے ذریعے ان سے رابطہ کرتی تھیں۔ مگر انھوں نے چار برس سے عملی طور پر اپنے والد کی حالتِ زار کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا۔

حال ہی میں انھوں نے سنا کہ ان کے والد کو رہا کر دیا گیا ہے۔ محمد نے سوچا کہ وہ ان سے برسوں بعد رابطہ کریں۔ انھوں نے اپنے خاندان کے جاننے والوں میں سے ایک خاتون سے رابطہ کیا کہ آیا وہ اپنے فون سے ان کے والد سے دوبارہ رابطہ کروانا چاہیں گی۔

جس دن کل طے تھی اس روز محمد کو وی چیٹ اکاؤنٹ پر ایک واقف کار سے ایک پیغام موصول ہوا۔ انھیں بتایا گیا کہ ان کے والد کا پتہ چلا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ بہتر ہو گا کہ وہ اپنے بیٹے سے بات نہ کریں۔

یہ پیغام دینے کے بعد انھوں نے محمد کو اپنے اکاؤنٹ سے بلاک کر دیا تاکہ وہ دوبارہ ان سے رابطہ نہ کر سکیں۔

٭کچھ نام تبدیل کیے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp