کیسٹ سے کلاؤڈ تک موسیقی کے داستان


بچوں کی کمپیوٹر کی کتاب میں ابھی تک سی ڈی اور ڈی وی ڈی کا تعارف موجود ہے۔ حیرت ہے کہ بچوں کو باقاعدہ سمجھانا پڑتا ہے کہ یہ کیا چیز تھی اور اس کا فنکشن کیا تھا۔ حالانکہ یہ سی ڈی تو ابھی کل کی بات ہے کہ اسے ایک انقلابی تبدیلی سمجھا گیا۔ پرانے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ میں تو اب بھی سی ڈی ڈالنے والا خانہ موجود ہوتا ہے لیکن نئے کمپیوٹر میں تو یہ چیز عنقا ہو چکی۔ اسی لئے نئی نسل سی ڈی اور ڈی وی ڈی سے بھی نا آشنا ہو چکی۔ سی ڈی اور ڈی وی ڈی میں کمپیوٹر پروگراموں کے علاوہ گانے دستیاب تھے۔ وہی سی ڈی جسے سینت سینت کر رکھا جاتا کہ کوئی خراش نہ پڑ جائے ورنہ عجیب کھانسی اور دمہ زدہ گانے سننے کو ملیں گے۔

ہم وہ آخری جنریشن ہیں جنہوں نے گانوں والی کیسٹ بھی سن رکھی ہے۔ بڑی محنت سے گانوں کی ایک فہرست بنا کر میوزک سٹور سے کیسٹ ریکارڈ کرائی جاتی یا کسی دوست کی کیسٹ پسند آجاتی تو اس کی کاپی کرائی جاتی۔ اچھی کوالٹی کے لئے سونی یا TDK کی کیسٹ حاصل کی جاتی۔ اس کیسٹ کا فیتہ کبھی ٹیپ ریکارڈر میں پھنس جانا اسے پوری احتیاط سے نکالنا اور اس کم بخت کا سو احتیاطوں کے بعد بھی ٹوٹ جانا۔ پیسوں کے علاوہ بھی دوبارہ ریکارڈنگ کرانے کے جھنجھٹ سے بچنے کے لئے اس ٹوٹے فیتے کو بڑی محنت سے دوبارہ جوڑا جاتا۔

باریک سا پیچ کس نہ ملتا تو کچن میں پڑی چھری کا کونا کیسٹ کھولنے میں ممد ثابت ہوتا، گوند کا کام نیل پالش بخوبی کر دیا کرتی تھی اس لئے کسی بہن یا خالہ، پھوپھو کی نظر بچا کے اس کی نیل پالش کھسکائی جاتی اور بڑی مہارت کے ساتھ فیتہ جوڑا جاتا۔ اب فیتہ کاٹنے جوڑنے سے گانے کے کچھ الفاظ یا پورا مصرعہ ہی غائب ہوجاتا۔ شروع میں کوفت ہوتی پھر آہستہ آہستہ گانے کے بول اسی طرح یاداشت کا حصہ بن جاتے۔ اب بھی بعض پرانے گانے سنے جائیں تو لاشعور میں وہی کٹی ہوئی آواز گونج جاتی ہے۔

شروع میں ٹیپ کی ایک سائیڈ ختم ہو جانے پر کیسٹ نکال کر اس کی سائیڈ تبدیل کی جاتی لیکن جلد ہی اس جھنجھٹ سے نجات مل گئی جب ایک سائیڈ ختم ہونے پر وہی فیتہ الٹ چل پڑتا اور دوسری سائیڈ کے گانے بغیر کیسٹ تبدیل کیے سنے جانے لگے۔ بعض اوقات دو ٹیپ ریکارڈر آمنے سامنے رکھ کر بھی ریکارڈنگ کی جاتی۔ اس کے لئے کسی تنہا اور خاموش جگہ کا انتخاب بہت ضروری ہوتا تھا۔ پھر بھی عین ریکارڈنگ مکمل ہونے سے چند لمحے پہلے کوئی نہ کوئی بچہ یا بڑا کمرے میں پہنچ کر ریکارڈنگ میں خلل ڈال دیتا۔

ڈبل کیسٹ والے ٹیپ ریکارڈر بھی کسی کسی کے گھر تک پہنچ گئے جن سے ریکارڈنگ کی سہولت ہو گئی۔ کچھ مسائل بہرحال قائم رہے کہ ایک گانا ہائی پچ پہ ریکارڈ ہوتا تو دوسرا بہت کم پچ پر۔ پھر گانے کا مکمل ریکارڈ ہونے پر عین وقت پر ریکارڈنگ روکنا بھی مہارت کا متقاضی تھا۔ وگرنہ اگلے گانے کے بول ریکارڈنگ میں شامل ہو جاتے یا موسیقی کی آخری دھنیں ریکارڈ ہونے سے رہ جاتیں۔

شروع میں پسند رفیع، کشور، مکیش، لتا تک محدود تھی۔ بلکہ کہا جائے کہ گلوکار سے زیادہ موڈ کے مطابق گانوں کے بول تک کا ذوق تھا۔ شاید اسی لئے ایک پاکستانی گلوکار ظفر اقبال ظفری کی ایک کیسٹ بہت مشہور ہوئی کہ رفیع صاحب کے ہٹ گانے اس نے ایک ہی کیسٹ میں جمع کر دیے تھے۔ لیکن اس سے کہیں زبردست انتخاب بناکا گیت مالا کی ایک کیسٹ تھی جس میں ایک دہائی کے بہترین گیتوں کا اوریجنل انتخاب شامل تھا۔ امین سیانی کی پاٹ دار آواز میں گلوکاروں کے علاوہ سنگیت کاروں اور شاعروں سے بھی واقفیت ہوئی۔ غزل کی سمجھ آنا شروع ہوئی تو جگجیت اور مہدی حسن فہرست میں شامل ہو گئے۔ نصرت فتح علی خان اپنی مشہور قوالی دم مست قلندر مست مست کے بعد پسند آئے۔

نوے کی دہائی میں عمر کے اس حصے میں داخل ہوئے جب جذبات میں اتھل پتھل شروع ہوجاتی ہے، کوئی چہرہ اچھا لگنا شروع ہوجاتا ہے، رومانوی گانے ہر وقت ورد زبان رہتے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی یا بدقسمتی کہ انڈیا میں وہ دور رومانس بھری فلموں اور مدھ بھرے گیتوں کا تھا۔ عمر اور جذبات کے لحاظ سے اس وقت صرف وہی گیت بھلے لگتے۔ فلموں میں مادھوری ڈکشٹ اور جوہی چاولہ ( جنہیں ہمارے ایک دوست جوہی جی کہنے کی تلقین کرتے ) آنکھوں کو تسکین دیتیں تو دوسری طرف کمار سانو، انورادھا پوڈوال، الکا یاگنک، ادت نرائن کے گانے اطمینان قلب کا باعث بنتے محسوس ہوتے۔

ان دنوں پاکستانی اشیا کا معیار انڈیا سے بہت بہتر تھا۔ کیسٹوں میں بھی سانک کی ریکارڈنگ اور کیسٹ پر موجود تصاویر کا معیار ہندوستانی کمپنیوں سے بہت بہتر تھا۔ لیکن پاکستانی کیسٹ دیر سے ملتے اس لئے ہمیشہ دو البم خریدنے پڑتے۔ ایک شروع میں فلم کی ریلیز کے فوراً بعد انڈین کمپنیوں وینس اور ای ایم آئی کے کیسٹ اور پھر دستیاب ہونے پر اپنی کولیکشن کے لئے سونک۔

آج کی نسل کیا جانے کس کس طریقے سے پیسے جمع کر کے سونی کا واک مین خریدا گیا۔ اس میں سیل ختم ہونے پر نئے سیل خریدنے اور ڈالنے اور والد صاحب سے چھپانے تک کیا کیا امتحانات درپیش تھے۔ والد صاحب ان ”خرافات“ کے شدید مخالف (موقع ملا تو ٹی وی اور وی سی آر سے ان کی شدید مخالفت پر لکھوں گا) ۔ پہلے کیسٹس چھپا کر رکھنی پڑتی تھیں پھر واک مین بھی ان سے چھپا کر رکھا جاتا۔ پتہ چلنے پر کئی دفعہ گوشمالی بھی ہوئی۔ تھوڑے عرصے بعد وہ واک مین پراسرار طور پر غائب ہو گیا جو ایک دن پہلے تک ٹرین کے ایک سفر میں ساتھ تھا۔ مصیبت یہ کہ آج تک اس واک مین کا نہ ٹرین میں بھولنا یاد آیا نہ ابو کو منوا سکے کہ ان کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔

بعد کو سی ڈی واک مین آئے، ایم پی تھری، سی ڈی کی جگہ سونی اور دوسری کمپنیوں نے مختلف ڈسکوں کے تجربے بھی کیے۔ یہ چیزیں بھی ختم ہو گئیں۔ اب یو ٹیوب پہ ایک سے بڑھ کر ایک گانا دستیاب، کلاؤڈ کا دور ہے، یو ایس بی بھی شاید آخری دموں پر ہے۔ سپوٹی فائی، گوگل کا پلے میوزک، آئی فون کا میوزک ایپ اور نہ جانے کیا کچھ۔ لیکن کیسٹ کا تھرل اور چارم ”ون کلک اوئے جنریشن“ تم کیا جانو۔ اور ہاں تحریر پڑھنے کے بعد ہمیں ٹیپو سلطان کا ہم عصر نہ سمجھ لینا کہ کیسٹ سے کلاؤڈ تک کا یہ سفر بہت تیزی سے گزرا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments