آزادی نسواں یا آزادی انسان؟


محترم ڈاکٹر خالد سہیل کا کالم ”کیا مرد ماضی کی زنجیروں سے آزاد ہوسکتے ہیں“ پڑھا اور مجھے احساس ہوا کہ یہ کالم/تقریر نہ صرف ایک انسان دوست ماہر نفسیات نے لکھی بلکہ ایک منجھے ہوئے ہوئے طبیب نے بھی لکھی ہے کیونکہ اس میں نہ صرف مرض کی تشخیص کی گئی ہے بلکہ اس کی وجہ اور اس causing factor کے تدارک پر بات کی گئی ہے۔ میرے لیے یہ ایک خوشگوار حیرت کا باعث بنا کہ یہ کالم اصل میں ایک تقریر ہے جو 2008 میں کینیڈا کے ایک سیمینار میں پڑھی گئی اور دکھ اس لیے ہوا کہ ہم ابھی بھی کولھو کے بیل کی طرح 13 سال بعد بھی اسی کلے کے گرد گھوم رہے ہیں کہ جبر کے نظام کے مسائل وجود نہیں رکھتے اور یہ چند مغربی تعلیم زدہ ذہنوں کی اختراع ہیں۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ احساس ہے کہ ہم آج بھی ایک ایسی دنیا میں رہ رہے جس کی سپر پاور امریکہ میں سیاستدان اور سماجی کارکن برنی سینڈرز، الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیج، الہان ​​عمار، راشدہ طالب، آئنہ پریسلے آج بھی غربا کی بہتر زندگی اور باعزت روزگار کی جنگ لڑ رہے ہیں کہ بے توقیری کا یہ احساس اتنا جان لیوا ہے کے بہت سے امریکیوں کو کورونا کی وبا میں مبتلا ہونے پر سانس میں تکلیف کے باعث ہسپتال میں یہ فکر تھی کہ اخراجات کون ادا کرے گا کہ کہیں مشین پہ لیے یہ سانس ان کے خاندان کی معاشی صورتحال نہ ابتر کر دے۔

کیسی ستم ظریفی ہے کے ایک طرف تو جیف بیزوز علون مسک کے ساتھ خلا کی حکمرانی کی کوششوں میں مصروف ہیں وہیں Amazon اور Walmart میں ملازمین باعزت minimum daily wage، میڈیکل انشورنس اور سوشل سیکیوریٹی کے جائز مطالبے کے لیے اس وبا میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسی امریکہ میں محمد علی کو جنگ سے انکار پر اپنے اولمپک میڈل سے ہاتھ دھونا پڑا، مارٹن لوتھر گنگ نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد پر اپنی جان قربان کی اور آج بھی black lives matter کی مہم جاری ہے اس میں بہت اہم اور ممتاز نام انجیلا ڈیوس کا ہے جنہوں نہ صرف نسلی امتیاز بلکہ سرمایہ درانہ نظام کے خلاف مہم میں اہم کردار ادا کیا اور فیمینزم کی جدوجہد کو گراس روٹ لیول پر لے کر گئیں اور دنیا پر واضح کیا کہ عورتوں کے حقوق دراصل اسی نظام کے غصب کردہ ہیں جس نے کسان سے، مزدور سے، استاد سے، کالوں سے، immigrant سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ کیپیٹلسٹ معاشرے میں حقوق صرف طاقتور کے پاس ہیں اس لیے وہ تمام خواتین کارکن جنہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے مہم چلائی وہ اس جدوجہد کے ساتھ منسلک رہی جو سماج کی تبدیلی اور مساوی حقوق کے لیے کوشاں ہیں۔

پاکستان ان ملکوں میں سے ہے جہاں جمہوریت سے زیادہ فوجی آمریت کا دور رہا لیکن یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کو ایسی روشن خیال سیاسی اور سماجی خواتین کارکن میسر رہی ہیں جنہوں نہ صرف اپنے حقوق بلکہ آمریت کے جبر، سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے جبر کے خلاف ہم خیال مردوں کے ساتھ مل کر ایک طویل اور متحرک جدوجہد کی ہے۔ ان خواتین میں طاہرہ مظہر علی کا نام درخشاں ہے جنہوں نے ایوب اور ضیا دونوں آمریت کے ادوار کا مقابلہ کیا اور مزدورں اور عورتوں کے حقوق کے لیے باقاعدہ مہم چلائی اور 1959 میں ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جس نے عورتوں اور مزدوروں دونوں میں سیاسی شعور بیدار کیا۔

نگہت سعید خان جو ایک متحرک سیاسی کارکن تھیں انہوں نے ضیا دور کے کالے قانون حدود آرڈیننس کے خلاف عملی جدوجہد کے لیے فریدہ شیر، نگار احمد، نجمہ صدیق، فریدہ شہید، زہرہ یوسف، خاور ممتاز، ہلدہ سعید اور لالہ رخ جیسی سیاسی اور سماجی کارکن خواتین کے ساتھ مل کر Women Action Forum کی بنیاد رکھی۔ اسی فورم نے حدود آرڈیننس جیسے کالے قانون کے خلاف جدوجہد کی بنیاد رکھی اور ان خواتین کی تحریک اور عملی کام کے بدولت 2006 میں اس کے اندر اصلاحات کی گئیں اور Women protection bill متعارف کرایا گیا اور 016 2 میں anti rape and anti honour killing bill پاکستان اسمبلی نے پاس کیا۔

نجمہ صدیق نے شرکت گاہ کی 1975 میں بنیاد رکھی جس نے کم عمری کی شادی، اسقاط حمل اور گھریلو تشدد پر کام کیا، ڈیٹا اکٹھا کیا، ریسرچ کی اور آرٹیکل چھاپے، نگہت سعید خان نے Applied socio economic research centre کی بنیاد پاکستان کے انتہائی تاریک دور 1983 میں سماجی انصاف کے درخشاں اصول پر رکھی، نگار احمد نے 1986 میں عورت فاونڈیشن جیسے فعال ادارے کی بنیاد اس اصول پر رکھی کہ وہ انصاف پر مبنی معاشرے کے لیے جدوجہد کریں گے ایک ایسا معاشرہ جہاں عورت اور مرد کو بطور انسان برابری کے حقوق حاصل ہوں اور دونوں اپنی مرضی کی زندگی عزت اور سکون سے گزار سکیں اس فاونڈیشن نے گراس روٹ لیول پر کام کیا اور اس کی اہم کامیابیوں میں مردم شماری میں عورتوں کے کام جو وہ گھر سے کرتی ہیں بطور کام کے رجسٹریشن، اسمبلی میں عورتوں کی مخصوص نشستیں اور حدود آرڈنینس میں ترمیم اور نکاح فارم کے اوپر کراس لگانے کی صورت میں نکاح خواں کو جرمانہ شامل ہیں۔

پاکستان میں فوجی آمریت اپنے ساتھ انسانی حقوق کے استحصال کے ایسے ذرائع لاتی ہے کہ جینا محال ہوتا ہے ایسے میں عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی نے نہ صرف پاکستانی عورتوں بلکہ مردوں کو بھی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا سکھایا اور آئی اے رحمن جیسے قد آور سیاسی کارکن اور صحافی کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی بنیاد رکھی اور ان کی لا فرم نے 1983 میں حدود آرڈیننس کے تحت گرفتار صفیہ بی بی کا کیس لڑا اور 1996 میں پاکستان میں ولی کی مرضی کے بغیر شادی کی کوئی حیثیت نہ ہونے کے خلاف صائمہ وحید کا کیس لڑا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مزدوروں، کسانوں، اقلیتوں اور سماجی کارکنوں کے حقوق کے لیے نہ صرف عملی جدوجہد کی بلکہ ان کو قانونی مدد بھی فراہم کی، انہوں نے خواتین کو یہ شعور دیا کہ نکاح فارم ایک اہم دستاویز ہے اور اس کے کسی بھی حصے کو کراس کرنا ناجائز اور طلاق کا حق مرد کے ساتھ عورت کے پاس بھی ہونا عورت کا آئینی حق ہے۔

مختاراں مائی نے پاکستان میں ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ اپنے لیے آواز بلند کر سکیں حالانکہ ان کے قبیلے کے نظام کے مطابق ان کو اجتماعی زیادتی کے بعد خودکشی کر لینی چاہیے تھی لیکن انہوں نے اعتزاز احسن کی قانونی مدد کے ساتھ اپنا کیس بہت دلیری سے اس وقت کی حکومت اور ملزمان کے خلاف لڑا اور بعد میں اسی گاؤں میں جہاں ان کو تذلیل کا سامنا کرنا پڑا تھا اسکول کھول کر علم کے عمل کا آغاز کیا۔

2010 میں جب عورت مارچ اور سماجی کارکنوں کے اوپر حملوں کی بوچھاڑ ہوئی تو طاہرہ عبداللہ نے اس مہم کا بغیر کسی غیر مہذب لفظ کے انتہائی خوبصورتی سے دفاع کیا اور کہا کے ”یہ وہ حقوق ہیں جو عورتوں کو خدا کی طرف سے دیے گئے ہیں اور وہ کسی سے کچھ چھین نہیں رہیں بلکہ اپنی چیز واپس مانگ رہی ہیں“ ۔ پاکستان میں خواتین کو اپنے حقوق کے حصول میں جہاں قدامت پرست حلقوں کی طرف سے شدید مذمت کا سامنا کرنا پڑا اور ونی، کاروکاری، اجتماعی زیادتی، کم عمری کی شادی، زچگی کی سہولیات کی عدم دستیابی، نکاح فارم کا درست نہ بھرا جانا، جہیز کی عدم موجودگی میں قتل اور تعلیم اور طلاق کا حق چھین لیے جانے والے مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہاں آئی اے رحمن، مبشر حسن، فرحت بابر، اقبال حیدر، اعتزاز احسن، عابد حسن منٹو، میاں افتخار الدین، مظہر علی خان، پرویز ہود بائی، حارث خلیق، نعیم مرزا اور بے شمار روشن خیال مردوں کی عملی حمایت حاصل رہی جنہوں نے بطور ساتھی عورتوں کے حقوق کی جنگ اپنی خواتین کارکنوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑی۔

یہ بات سمجھنی کی ضرورت ہے کہ عورت اور مرد الگ الگ دنیا میں نہیں رہ سکتے اور دونوں کی کامیابی اور فلاح ان روایتی زنجیروں سے آزادی میں ہے جس کے وہ غلام ہیں۔ میری تمنا ایک ایسی دنیا ہے جہاں مرد اور عورت بطور انسان رہ سکیں بقول سیدہ عارفہ زہرہ کے ”i don ’t wish to live in a masculine world and i don‘ t wish to live in a feminine world، I earn and yearn to live in a human world“ ۔ میں نے کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر خالد سہیل کی کتاب ”مغربی عورت ادب اور زندگی پڑھی“ میں امید کرتی ہوں کے وہ اس کی روشنی میں ہمیں انسانوں کی فلاح کی اسی اجتماعی جدوجہد کے بارے میں دوسرے خطے کی خواتین کے بارے مز ید آگاہی دیں گیں تاکہ تابناکی کا یہ سفر جاری رہے اور مرد اور عورت دونوں بطور انسان تہذیب کی نشو و نما کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments