ووٹ والے وزیراعظم اور آر ٹی ایس والے وزیراعظم


ذوالفقار علی بھٹو بھی کن پر آشوب ِحالات میں وزیراعظم بنے۔ ملک دولخت ہو چکا تھا جنگ ہاری جا چکی تھی اور دھرتی ماں کے ایک لاکھ بیٹے بد ترین دشمن کے عقوبت خانوں اور زندانوں میں پڑے تھے۔ لیکن یہ بچے کھچے پاکستان کا منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ھی تھا جو اس وقت تک چین سے نہیں سویا جب تک غالب آئے دشمن سے بھی اپنے ایک لاکھ قیدی نہیں چھڑوا لایا۔ اعتماد ایسا کہ شکست و ریخت کے بد ترین موسموں میں بھی شملہ مذاکرات کے دوران ہندوستانی قیادت کے سامنے حد درجہ پر اعتماد نظر آئے۔ واپس آتے ہوئے اپنے قیدی بھی چھڑوا لایا۔

یہ بھٹو ہی تھا جس نے ایک تجربہ کار سفارت کار کی ہنر کاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لال قلعے پر جھنڈا لہرانے اور ہزار سال تک لڑنے جیسے بظاہر جذباتی اصطلاحات استعمال کیں اور غالب آئے دشمن کو دفاعی پوزیشن پر لے گیا۔

اور ایک وزیراعظم یہ بھی ہے جو صبح و شام کھبی مس کالیں دے رہا ہے۔ کھبی عوام کو چند منٹ کی خاموشی کا احتجاج سکھا رھا ھے اور کھبی سطحی گفتگو یا سفارتی آداب سے عاری لہجہ اختیار کر کے کشمیر کو ڈبو دیتا ہے۔

ایک وزیراعظم نواز شریف نامی شخص بھی تھا۔ جس نے عالمی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جانے والے پاکستان کو موٹر ویز سی پیک ساڑھے پانچ فیصد تک شرح ترقی تریپن ہزار کو چھوتا سٹاک ایکسچینج بارہ ہزار میگا واٹ بجلی اور عالمی سطح پر مارکیٹ فراہم کر کے گرتے پڑتے اور ہانپتے ہوئے پاکستان کو معاشی ٹریک پر سر پٹ دوڑا دیا تھا یہ عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیراعظم یہی نواز شریف ہی تھا جس نے کسی سفاک رات کو  Over my dead bodyکا دلیر اور تاریخ ساز جملہ بولا اور پھر اگلے شب و روز میں اسے گلی گلی ووٹ کو عزت دو تک پھیلا کر تاریخ کا دھارا موڑ دیا اور ایک وزیراعظم یہ بھی ہے جس کا معاشی وژن کبھی کسی کے گھر کے کنویں میں گیس کا سراغ لگا لیتا ھے تو کھبی سمندر میں پائپ اتار کر گیس کے بھبکوں کا منتظر رہتا ہے۔

انڈوں کٹوں مرغیوں اور بکریوں کا “معاشی وژن” الگ سے ملک کا بیڑہ غرق کر نے کےلئے کافی ہیں۔

بائیس سالہ جدوجہد کا نچوڑ یہ نکلا کہ “فوج میرے پیچھے کھڑی ہے” کا خوفزدہ بیانیہ اٹھائے پھر رھا ہے۔

رہا ایک طرف عوام کی ووٹوں سے ایک سربلندی اور اعتماد کے ساتھ منتخب ہونا اور دوسری طرف ایسٹبلشمنٹ کا “نمائندہ” بن کر وزیراعظم ہاؤس میں گھسنا تو عرض ہے کہ ایک الیکشن وہ بھی تھا جسے اُنیس سو اٹھاسی میں بے نظیر بھٹو اور اُنیس سو ستانوے اور دو ہزار تیرہ میں نواز شریف اسٹیبلیشمنٹ کی شدید مخالفت کے باوجود بھی بھاری اکثریت سے جیت گئے تھے اور ڈٹ کر وزیراعظم بن گئے تھے۔

اور ایک الیکشن دو ہزار اٹھارہ کا بھی تھا جو میڈیا کی یاوہ گوئی اور آر ٹی ایس سسٹم کے کسی خچر بر چڑھ کر بھی نہیں جیتا جا سکا اور بالآخر مانگے تانگے کی حکومت ہی بنی۔ جس سے ایک تباہ کن منظر نامہ برآمد ہوا۔

ایک وزیراعظم محمد خان جونیجو نامی سیاستدان بھی تھا جو اگر چہ غیر جماعتی الیکشن کے ذریعے برسراقتدار آیا لیکن حلف لیتے ہی فورا احساس ہوا کہ وزیراعظم کے منصب کے کچھ حد درجہ حساس تقاضے بھی ہیں اور ملک و قوم کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی ذمہ دارانہ طرز عمل اور اقدامات کا مظاہرہ بھی۔ اس لئے حلف اٹھانے کے بعد پہلی ہی ملاقات میں اس وقت کے ڈکٹیٹر ضیاءالحق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ جنرل صاحب بتائیے آپ مارشل لاء کب اُٹھا رہے ہیں اور پھر آگے چل کر اسی جونیجو نے بحیثیت وزیراعظم اپنی ہی مرضی سے جینوا مذاکرات بھی کئے اور ایک آمر کو نظر انداز بھی کیا۔ اور اب ایک وقت یہ کہ کسی ایئر پورٹ پر بچھائے گئے چند فٹ قالین زیادہ سے زیادہ ایک دو سربراہان مملکت کے ساتھ تصویر یا کسی بے ثمر تقریر ہی کو بہادری اور کامیابی کی دلیل بنایا جا رہا ہے۔

اس مملکت خداداد پاکستان کے وزرائے اعظم تو وہ لوگ بھی تھے تھے جو دشمن ملک کے اندرا گاندھی سے نریندرا مودی تک مذاکرات کرتے ہوئے ان کے اعصاب پر حاوی ہوتے اور ایک یہ وزیراعظم جو روز روز انڈین انٹر ٹینٹمنٹ میڈیا کے ایک مسخرے کے استقبال کے لئے پوری کابینہ کا لاؤ لشکر لے کر حاضر ہو جاتا ہے اور پھر اس کے بے ہنگم لطیفوں پر ہنس ہنس کر ہلکان بھی ہو جاتا ھے۔

وہ بھی وزیر اعظم تھے جن کے ساتھ صوبے چلانے والے (وزراء اعلی) مصطفٰے جتوئی سے مہتاب عباسی تک اور حنیف رامے سے شہباز شریف تک کے بہترین منتظم اور حد درجہ اعلٰی صلاحیتوں کے حامل لوگ ہوا کرتے تھے جبکہ موجودہ وزیراعظم کی نگاہ انتخاب بزدار سے محمود خان تک ہی ٹھہری۔

اس مملکت خدا داد کے وزرائے اعظم وہ بھی تھے جن کے حکومتی ترجمان کوثر نیازی، مشاھد حسین، قمر زمان کائرہ اور پرویز رشید جیسے پڑھے لکھے اور خوش گفتار لوگ ہوا کرتے تھے، جو متنازع معاملات کو بھی اپنے شیریں لب ولہجے اور الفاظ پر قدرت کے سبب ایک شہد بھری مٹھاس میں منطق اور دلیل بھی فراہم کرتے اور رائے عامہ کو بھی اپنے حق میں موڑ دیتے لیکن موجودہ وزیراعظم اور حکومت کے ترجمان کون ٹھہرتے ہیں ؟

فواد چودھری شہباز گل شہزاد اکبر یا فردوس عاشق اعوان !

وزیراعظم فیروز خان نون کے بارے میں سنا ہے کہ ایک ایک آرڈر بھی اپنے ہاتھ سے لکھتے اور خود ٹائپ کرتے۔

(تبھی تو سونے کی چڑیا گوادر ھماری جھولی میں ڈال گئے تھے۔)

ذوالفقار علی بھٹو اٹھارہ گھنٹے کام کرتے اور دس دس گھنٹے تک کابینہ کا اجلاس چلاتے رہتے۔

جونیجو ایک سیکشن افسر کو سرکاری رہائش گاہ کی الاٹمنٹ پر جنرل ضیا الحق تک سے اُلجھ پڑے تھے جبکہ نواز شریف سفر کے دوران فائلوں کا پلندہ اُٹھاتے اور متعلقہ افسروں کو ساتھ بٹھا کر ایک ایک فائل ڈسکس کرتے اور حکم جاری کرتے۔

بے نظیر بھٹو واک کے دوران بھی پرنسپل سیکرٹری کو نوٹ بک تھما کر ساتھ لیتی جبکہ یوسف رضا گیلانی کی کوارڈینیشن اور راجہ پرویز اشرف کی یادداشت مثال بن گئے ہیں۔ لیکن موجودہ وزیراعظم یہ تک کہتے ہوئے پائے گئے کہ میری بیوی مجھے یاد دلاتی ہیں کہ آپ وزیراعظم ہیں۔

وہ بھی وزیر اعظم تھے جو اپنے منصب کے تقاضوں اور پروٹوکول سے پوری طرح آگاہ تھے اس لئے حتی الوسع مائیک سے گریز کرتے لیکن اگر با امر مجبوری ایسا کرنا بھی پڑتا تو حد درجہ سنجیدگی کے ساتھ گنے چنے الفاظ کا انتخاب کرتے اور موضوع پر فوکس کرتے۔ لیکن اب تو ایسا لگتا ہے جیسے ہر وقت مائیک اور مجمع کی تلاش ہی اولین ترجیح ہو۔  ادھر مائیک ہاتھ لگا اور سامنے کیمرا یا مجمع نظر آیا تو بس پھر۔۔۔۔۔

یعنی انڈے چوزے مرغے کٹے بھینسیں اور گائے سے لے کر چور ڈاکو۔۔۔۔

وہ بھی وزیر اعظم تھے جو شدید تناؤ اور سیاسی مخالفت کے باوجود بھی در پیش ملکی اور قومی مسائل پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرتے اور انہیں اعتماد میں لیتے اور ایک یہ وزیراعظم ہیں جن کا بیانیہ صرف این آر او نہ دینے، جیل میں ڈالنے اور اے سی اتروانے سے آگے نہیں بڑھ رہا ہے خواہ کشمیر کا مسئلہ تباہ کن نہج پر چلا جائے عالمی برادری میں تنہا ہو جائیں یا معیشت ڈوبنے لگے۔

وہ وزراء اعظم کوئی انٹرویو دینے سے پہلے متعلقہ صحافی یا پینل کے بارے میں نہ صرف پوری چھان بین کرتے بلکہ خود بھی انٹرویو کے لئے پوری تیاری اور مطالعہ کرتے جس سے وزیراعظم اور حکومت کا بہت اچھا تاثر بنتا لیکن اب تو کوئی بھی شخص ایک عدد مائیک اور کیمرہ اُٹھا کر وزیراعظم ہاؤس میں گھس کر الٹے سیدھے سوال کر سکتا ہے بلکہ اس سے زیادہ الٹے سیدھے جوابات سن بھی سکتا ہے۔

وہ بھی وزیر اعظم تھے جن کی ذاتی دوستیاں شاہ فیصل، یاسرعرفات، معمر قذافی، مارگریٹ تھیچر، صدر متراں، جان میجر، بل کلنٹن، نریندرا مودی اور طیب اردوان سے ہوتیں جس کا فائدہ بحیثیت مجموعی ملک و قوم کو پہنچتا لیکن اب ذاتی دوستیاں انیل مسرت سے زلفی بخاری اور اعظم خان سے شہزاد اکبر جیسے عجیب و غریب کرداروں کے ساتھ ہیں جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے تاہم نقصانات کا تخمینہ “فی الحال” لگانا قدرے مشکل ہے۔

ایک وزیراعظم بے نظیر بھٹو بھی تھی، اکسفورڈ سے پڑھی لیکن اپنی سیاسی جدوجہد، پڑھی لکھی چال ڈھال، سنجیدہ شخصیت اور سحر انگیز گفتگو کے سبب آکسفورڈ کا بھرم بھی رکھا اور ایک وزیراعظم عمران خان بھی ہیں اسی آکسفورڈ سے پڑھے لیکن۔۔۔

چلیں چھوڑ دیں کیونکہ ویسے بھی سب کو معلوم ھے

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments