شیر شاہ سوری: وہ افغان سردار جس نے مغلوں اور افغانوں کی کمزوریاں جان کر ہندوستان پر راج کیا

مرزا اے بی بیگ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی


شیر شاہ سوری

یہ آج سے تقریباً 500 سال قبل سنہ 1528 کی بات ہے، ہندوستان کے دارالحکومت آگرہ میں گہما گہمی ہے۔ مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر چندیری کی فتح کے بعد آگرہ لوٹ آئے ہیں اور بابر کی حکمرانی ہندوستان پر قائم ہو چکی ہے۔

فتوحات کے ساتھ شاہی ضیافت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امرا اور سرداروں کی دعوت میں طرح طرح کے کھانے آئے دن لگائے جاتے ہیں۔ ایک دن اسی قسم کی ایک ضیافت میں مرغ، مچھلی، ہرن کے گوشت، کباب، پلاؤ، نان کے ساتھ مختلف کھابوں میں ماہیچے بھی دسترخوان پر رکھے گئے۔

بادشاہ بابر بھی اپنے امیروں اور وزیروں کے ساتھ وہاں موجود ہیں کہ ان کی نگاہ ایک افغان سردار پر پڑتی ہے جو ماہیچے کو کھانے کا طریقہ نہیں جانتا ہے لیکن اپنے انداز میں خنجر نکال کر اس کی قاش کر کے اسے آرام سے کھا رہا ہے۔

بادشاہ بابر کے دل میں اس کے چہرے کے اطمینان اور اس کے کھانے کے انداز کو دیکھ کر تشویش پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے پاس موجود اپنے وزیر اعظم اور افغان سردار شاہ جنید کے بھائی میر خلیفہ وزیر اعظم سے کہتے ہیں کہ اس شخص کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خلفشار کا باعث بنے گا، ’اسے فورا گرفتار کر لیا جائے۔‘

خلیفہ وزیر اعظم نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اس کو گرفتار کروانا خلاف مصلحت ہو گا اور پٹھان سرداروں میں یہ تاثر جائے گا کہ بادشاہ پٹھانوں کے خلاف ہے۔

گرفتاری کا حکم تو منسوخ کر دیا گیا لیکن بابر کو تسلی نہ ہوئی اور انھوں نے کہا کہ اس پر کڑی نظر رکھی جائے اور اس کے احوال سے انھیں باخبر رکھا جائے کیونکہ ‘وہ بہت چالاک آدمی ہے اور اس کی پیشانی پر حکومت کے آثار نمایاں ہیں۔‘

’میں نے کتنے ہی افغان سورما دیکھے ہیں لیکن کسی نے بھی مجھے پہلی ملاقات میں اتنا متاثر نہیں کیا جتنا اس شخص نے کیا ہے۔ اس کے جاہ و جلال کے آثار ہمارے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔’

بابر کے عہد میں ایک ضیافت
بابر کے عہد میں ایک ضیافت

ادھر اس افغان سردار نے بادشاہ کو اپنی جانب کینہ توز نظروں سے دیکھتے اور اپنے وزیر سے بات کرتے دیکھا۔ فاصلے کی وجہ سے باتیں تو نہیں سن سکا لیکن جہاندیدہ سردار نے سمجھ لیا کہ بات اسی کے بارے میں ہو رہی ہے اور بادشاہ کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔

چنانچہ کھانے سے فراغت کے بعد وہ وہاں سے نکلا اور پھر اس نے کسی کو بتائے بغیر ہی آگرہ چھوڑ دیا۔ یہ سردار کوئی اور نہیں بلکہ مغلوں کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور اور ہندوستان سے بے دخل کرنے والا پٹھان اور سور سلطنت کا بانی شیر شاہ سوری تھا۔

آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک سٹڈیز میں ساؤتھ ایشین اسلام کے پروفیسر معین احمد نظامی نے شیر شاہ سوری سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ بابر کا خدشہ ان کی موت کے بعد سر ابھارنے لگا اور دس سال بعد تو وہ کسی پیشگوئی کی طرح بالکل سچ ثابت ہوا جب شیر شاہ سوری نے بابر کے جانشین اور مغل حکمراں ہمایوں کو ہندوستان سے بے دخل کر دیا۔

شیر شاہ سوری نے شمالی ہندوستان پر مکمل طور پر فقط پانچ سال (17 مئی 1540 سے 22 مئی 1545) حکومت کی لیکن انھوں نے تاریخ میں اپنا ایک ان مٹ نقش چھوڑا ہے۔

جس میں ان کا حسن انتظام ایک ایسا روشن مینارہ ہے جس سے ان کے بعد آنے والے بادشاہوں بطور خاص مغل بادشاہ اکبر نے رہنمائی حاصل کی اور ملک گیری میں ان کی ڈالی طرز کو پروان چڑھایا۔

ان کا چلایا ہوا روپیہ آج نہ صرف انڈیا اور پاکستان میں رائج ہے بلکہ کئی اور ممالک میں بھی اسی نام کی کرنسی زیر استعمال ہے۔ روپیہ تو پہلے بھی رائج تھا لیکن اس کی مقدار طے نہ تھی۔

بابر

ابتدائی حالات زندگی

شیر شاہ کی پیدائش کے بارے میں تاریخ دانوں میں اتفاق نہیں ہے لیکن جمہور کی رائے ہے کہ وہ 1486 میں حصار یعنی آج کی انڈین ریاست ہریانہ میں پیدا ہوئے۔ اس طرح وہ بادشاہ بابر سے تقریباً تین سال چھوٹے تھے لیکن کئی جگہ آتا ہے کہ وہ ان کے ہم عمر تھے۔

شیر شاہ کا اصل نام فرید خان تھا اور حسن خان کے پہلے بیٹے تھے۔ حسن خان کے والد ابراہیم خان سلطان بہلول لودھی کے دور میں ہندوستان آئے تھے اور اور جاگیر حاصل کی تھی۔

فرید خان کے والد حسن خان نے کالکاپور کے مسند اعلیٰ اور سلطان بہلول کے منظور نظر وزیر عمر خان سروانی کے یہاں ملازمت اختیار کی جنھوں نے پرگنہ شاہ آباد میں کئی گاؤں حسن خان کو بطور جاگیر عطا کیے۔ سکندر لودھی کے عہد میں جب جمال خان کا اقبال بلند ہوا تو انھوں نے حسن خان کو ان کے والد ابراہیم خان کی جاگیر کے علاوہ 500 گھڑ سواروں کا افسر مقرر کیا اور ان کی ملکیت میں بنارس کے پاس سہسرام، حاجی پور اور ٹانڈہ کی جاگیریں عطا کیں۔

تاریخ شیر شاہی

حسن خان اپنی محبوب نظر بیوی کی خوشی کے لیے اپنے بیٹے فرید خان سے کبیدہ خاطر رہنے لگے جس کا احساس فرید خان کو ہو گیا اور وہ روٹھ کر جونپور جمال خان کے ہاں چلے گئے، جہاں انھوں نے اپنی نوجوانی تعلیم کے حصول میں لگائی اور اس کی بدولت ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی۔

شیر شاہ سوری کے دور پر نظر رکھنے والے اہم تاریخ داں کالکا رنجن قانون گو نے شیر شاہ کے علمی شغف اور کثیرالمطالعہ ہونے کی خصوصیت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’بچپن میں ادب کے مطالعے نے اسے اس کی فوجی زندگی کی راہ میں ممتاز کر دیا جس پر چل کر شیواجی، حیدرعلی اور رنجیت سنگھ جیسے ان پڑھ بہادر عام انسان اور معمولی سطح سے اونچے اٹھ کر شہنشاہ بننے کی سعادت حاصل کر لیتے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں ہمیں کوئی دوسرا ایسا شخص نہیں ملتا جس نے اپنی ابتدائی زندگی میں غیر فوجی ہوتے ہوئے کسی حکومت کی بنیاد رکھی ہو۔‘

فرید خان کی ابتدائی حالات اور سوتیلی ماں کے سلوک نے غور و خوض اور فکر و تدبر کی طرف مائل کیا تھا۔ بہت سے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کی زندگی میں سوتیلی ماں نہ ہوتی تو ان میں اتنی اولوالعزمی پیدا نہیں ہوتی اور ان کی فطرت میں وہ لچیلاپن نہیں ہوتا جو ان کی ترقی کا ضامن بنا۔

سٹامپ
شیر شاہ سوری کی یاد میں سنہ 1970 میں یہ ڈاکٹ ٹکٹ جاری کیا گیا تھا

فرید خان سے شیر خان بنے

فرید خان کو ان کے والد حسن خان نے کئی قصبوں کا انتظام سونپا اور فرید کے حسن انتظام کا جب چرچا عام ہوا تو والد کو خوشی ہوئی لیکن سوتیلی والدہ کے دل میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی۔

فرید خان نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فرائض سے دست برداری کا اعلان کیا اور اپنی جداگانہ راہ اختیار کی۔ اس وقت ہندوستان میں ابراہیم لودھی کی حکومت تھی لیکن بہت سے علاقوں میں شورش تھی اور باغی افغانوں کے سردار دریا خان لوہانی کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے بہار خان لوہانی نے اپنی خود مختار حکومت کا اعلان کر دیا۔

فرید خان کے پرگنے بہار خان کی سلطنت میں شامل تھے اس لیے انھیں یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ ان کی بقا بہار خان کے ساتھ ہے۔

تاریخ داں ودیا بھاسکر نے اس وقت فرید خان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے ‘شیر شاہ سوری’ نامی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ‘فرید خان فطرتاً وفادار، جفاکش اور جانثار انسان تھے، انھیں یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگی کہ بہار خان لوہانی کی خدمت گزاری میں ہی ان کا فائدہ ہے۔۔۔ بہار خان کو بھی جلد ہی معلوم ہو گیا کہ فرید خان لائق، محنتی، وفادار اور جانثار ہونے کے ساتھ ساتھ ہر لحاظ سے قابل اعتماد ہے۔’

چنانچہ دونوں کے درمیان قربت بڑھتی گئی اور دوستی مضبوط تر ہوتی گئی۔ اس دوران بہار خان نے سلطان محمد کا لقب اختیار کر کے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا اور بہار کو آزاد صوبہ قرار دے کر اپنا سکہ جاری کیا۔

اس سے ذرا قبل ہی پانی پت کی پہلی جنگ میں بابر نے ابراہیم لودھی کی بڑی فوج کو شکست دے کر ہندوستان کا تخت حاصل کر لیا تھا۔

اسی ہم نشینی کے دوران ایک بار بہار خان کے ساتھ فرید خان شکار پر گئے۔

جنگل میں گھومتے تھے کہ اچانک ان کی جانب شیر آ گیا اور شیر نے فرید کی طرف چھلانگ لگا دی، فرید نے شیر کا وار خالی جانے دیا اور اسی دوران تلوار سے ایسا وار کیا کہ ایک ہی ضرب میں شیر ڈھیر ہو گیا۔ چاروں طرف سے مرحبا اور آفریں کی صدائیں بلند ہونے لگی۔

بہار خان فرید خان کی اس بہادری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس نے انھیں شیر خان کا خطاب عطا کیا اور اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کر دیا۔ لوگ پھر فرید خان کو شیر خان کے نام سے ہی پکارنے لگے اور اس کے بعد یہی ان کی شناخت بن گئی۔

اگلا صفحہ پڑھنے کے لیے اس بٹن پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp