چار درویش اور ایک کچھوا


جیسے شداد نے اپنی موت کے اس منظرنامے کی خواہش کی تھی کہ جب میں مروں تو نہ زمین پر ہوں نہ آسمان میں، نہ سوار ہوں نہ ٹھہرا ہوا ہوں، نہ اپنی بنائی گئی جنت کے باہر ہوں نہ اندر تو اسے تب موت کے فرشتے نے آن دبوچا جب وہ اپنی بنائی گئی جنت کے دروازے پر اپنے گھوڑے سے اتر ہی رہا تھا اور فضا میں معلق تھا بالکل ویسے ہی مجھے سید کاشف رضا کے اس پہلے ناول ”چار درویش اور ایک کچھوا“ کو پڑھنے کے لیے ایک ایسے ماحول کی خواہش تھی کہ جب میں یہ ناول پڑھوں تو نہ لاہور، اسلام آباد یا چکوال کے مصروف ترین شب و روز ہوں اور نہ ہی کسی احساس ذمہ داری کا ڈر، نہ تو کوئی کام ہو اور نہ ہی نیند کے کم یا پورا ہونے کا احساس، نہ تو میں اپنے گھر میں ہوں یا ہاسٹل میں اور نہ ہی کسی دوست/رشتہ دار کے ہاں یا کرائے کے ہوٹل میں۔

بالآخر میری یہ خواہش بھی پوری ہوئی اور فقط دو راتوں میں کئی زمان و مکاں کی سیر کی اور جب یہ ناول مکمل ہوا تو میرے اوسان بالکل ایسے ہی شل تھے جیسے بے نظیر پر لیاقت باغ کے باہر دو فائر کھلنے کے بعد زوردار دھماکے سے گردونواح میں سناٹا چھا گیا تھا۔ سید کاشف رضا سے دوستی کا میرا دعوی شاید یک طرفہ ہی کہلائے گا مگر جب سے یہ ناول شائع ہوا، میری یہ خواہش تھی کہ اسے پورا پڑھ کر اپنے تبصرے کی صورت میں انہیں سرپرائز ضرور دوں گا۔ یہ خواہش طبیعت پر بہت بھاری گزری اور دم تحریر بھی گزر رہی ہے۔

میں فکشن ہاؤس لاہور میں سر حافظ نواز کے ساتھ گیا تو پہلی نظر ہی اس ناول پر ٹھہری اور میں نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ جب تک سر حافظ نواز نے اپنے کالج کے مجلے کے معاملات طے کر لیے تب تک میں ابتدائی تیس صفحات کا مطالعہ کر چکا تھا اور میری تشنگی میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ میری بے چینی کو بھانپتے ہوئے سر نے مجھے یہ ناول تحفہ کر دیا۔ پہلا صفحہ کھولتے ہی جب اکتوبر دو ہزار سات کی تاریخ پڑھی تو میرے ذہن میں بھی سانحہ لیاقت باغ کا منظر گھوم گیا۔

کردار اور مناظر کھلتے چلے گئے۔ جاوید اقبال، مشعال، صادق بھائی، زرینہ، سلطانہ بی بی، کراچی، ٹی وی نیوز روم، کارساز، گلشن اقبال میں جاوید کا کرینہ کپور کی نیم برہنہ تصاویر سے سجا کمرہ اور سامنے والا گھر، اس کا پراسرار کچھوا، مجھے تخیلاتی و نفسیاتی طور پر جکڑتے چلے گئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے، جو مجھے لگتی ہے، کہ میرا شمار ان کے اس ناول کے چند بہترین قاریوں میں ہو گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سید کاشف رضا نے کرداروں کو جہاں جہاں جیسے جیسے حالات میں تخلیق کیا، میں کبھی نہ کبھی حقیر ترین درجے پر ہی سہی مگر ان ان مقامات اور حالات سے گزرا ہوں۔

شہری و دیہاتی زندگی، حسن پرستی، صحافتی معاملات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ایکسپوژر، مرئی و غیر مرئی خیالات، تقدیر و فلسفہ ء ریالٹی، اختیارات کا نشہ، یونیورسٹی کے حالات و واقعات اور مختلف نیچر، بیک گراؤنڈ اور وضع قطع والی لڑکیوں سے میل ملاپ۔ ان سب کا ایک چھوٹے پیمانے پر آمنا سامنا کرتا رہا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ سب کرداروں میں کہیں نہ کہیں ذاتی ریالٹی کی نمائندگی یا ممیسس کا جو لطف مجھے آیا شاید ہی کسی کو آیا ہو۔

ناول کا آغاز رومانس کی شدید ترین لہر سے ہوا، پھر موت اور خون کا پتلی تماشا بھی خوب ہوا۔ جوں جوں آگے بڑھا، نفسیات، جنسیات، فلسفے، سائنس، مابعد الطبیعات مظاہر، دنیا جہاں کے ادب کے حوالے، فلموں، ناولوں، تھیوریوں کے تذکرے، فلاسفروں کے اقوال و تاثرات، خوابوں کی کہانی میں عجیب و غریب انوالومنٹ، مقامی سیاست، مختلف مذاہب و مسالک کی نہ ختم ہونے والی لاحاصل اور نقصان دہ سرگرمیوں اور افسانوں نے ایک جہان آباد کر لیا۔

ایسا جہان جس سے نکلنے کا میں خود بھی خواہش مند نہ ہوا۔ نجانے ان متذکرہ فلسفیانہ مباحث کی گونج کتنے عرصہ تک مجھے سنائی دیتی رہے گی۔ کہانی کو چھوڑیے، اس کا پلاٹ، کلائیمیکس، کانفلیکٹ اور اختتام کیا ہے، اس کو چھوڑیے، وہ تو جب آپ خود یہ ناول پڑھیں گے تو زیادہ محظوظ ہوں گے۔ میں تو ان لہجوں، فلسفوں، بیانات، مکالمات، اقوال اور ہزاروں سالوں کی تاریخ پر محیط بیانیوں اور نظریوں کی مٹھاس اور تلخی سے باہر نہیں نکل پا رہا اور نہ ہی ان کے ذائقے کو کسی طور بھلا پا رہا ہوں۔ بلاشبہ سید کاشف رضا کا دماغ اس گردونواح اور معاشرے میں ایک جدید ترین اور ڈیویلپڈ دماغ ہے جس کی کوکھ سے ایسا شاہکار نمونہ نکلا ہے کہ جس کا چرچا بہت دور تک جائے گا۔

منڈی بہاؤالدین کے نواح میں بنے اقبال محمد خان، امتہ الکریم، سلطانہ، عالم گیر، آفتاب اقبال، بالا داویجی گاٹ کے کردار، لب و لہجے، ڈائیلاگ، تہذیب و ثقافت، زبان اور منظرنامے اور پھر وہاں سے یہی سب کچھ راولپنڈی، ٹنڈو الہ یار، میران شاہ اور سانگھڑ کی طرف ہجرت کرتے نت نئے انوکھے فسانے و کہانیاں ہماری معاشرت اور خود ساختہ رسوم و رواج اور معاشرت کے چیتھڑے اڑا دیتی ہیں۔ یہ سب کچھ پڑھنا بلکہ اس میں سے گزرنا بیک وقت خوفناک، حیرتناک اور اندوہناک حقیقت ہے۔

اس حقیقت کی نمائندگی کرنا جو اس ناول میں موجود کسی اور حقیقت کی نمائندہ ہے، میرے لیے بہت کٹھن ہے۔ سہل اردو، مشکل اردو، سادہ انگریزی، مشکل انگریزی، منڈی بہاؤالدین کے پنجابی لہجے، پوٹھوہاری لہجے، عربی اور سندھی زبانوں میں لکھے مکالمے اور اقوال مصنف کے بہترین اور منجھے ہوئے بزرگ قاری ہونے پر ایمان لانے کو کافی ہیں۔ ٹھٹھے کے مکلی کے قبرستان کی کوکھ سے جنم لیتے کچھوے کی پراسراریت اور راوی کے ساتھ دھینگا مشتی برابر محظوظ کرتی ہے۔ تاریخی و زمانی حوالوں سے مصنف کے کئی ممالک کے اسفار اور کئی لٹریچرز کی جان کنی کی مہک آتی ہے۔

ارسطو اور افلاطون کے نظریہ ممیسس یعنی حقیقت کی نمائندگی، ڈایونئیسس کا امی ٹیشو کا حقیقت کی نقالی کا نظریہ، پرتگالی ادیب فرنینڈوپیسوا کے ناموجود ملاقاتیوں کے سو سے زائد مختلف مگر دلچسپ روپ، سپائی نوزا کے نظریات سے متفق نہ ہونے کے باوجود بار بار سامنا ہونا، میلان کنڈیرا اور خورخے لوئیس بورخیس کی کہانیوں کے نچوڑ اور حوالے، جل تھلیوں (ایمفی بینز) اور خزندوں (ریپٹائلز) کے ارتقا کے قصے اور سب سے بڑھ کر ریالٹی اور مرد و عورت کے تعلقات کو ریالٹی کی کھوج سے مشابہ قرار دینا، اس ناول کے سب سے دلچسپ اور دیر تک آپ کے حواس پر طاری رہنے والے واقعات یا جزئیات واقع ہو سکتے ہیں۔

ناول کا پانچواں کردار کچھوا کہتا ہے کہ ”دنیا کی ہر کہانی اس قابل ہے کہ وہ کم از کم ایک دفعہ میرے اور صرف میرے منھ سے بھی سنی جائے“ بھلے وہ کتنی ہی مضحکہ خیز، بے معنی یا المناک لگے۔ باقی آخر میں فرنود بھائی کے اس سوال کہ ”عالم گیر نے ایسا کیوں کیا؟“ کا جواب میں اپنی دانست میں یہی دینا چاہوں گا کہ عالم گیر کو اپنی ریالٹی کا ادراک شوکت سے نہیں بلکہ اقبال محمد خان سے مل کر ہوا، یہی وجہ تھی کہ اس نے ایسا کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments