تربیت افراد کا ذمہ دار کون؟


گزشتہ دن سے سوچ رہا تھا کہ بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے دور کرنے میں ہی میری عافیت ہے کیونکہ میرا مشاہدہ بتا رہا ہے کہ انٹر نیٹ، لیپ ٹاپ اور موبائل سے نہ صرف بچے بد تمیز ہوتے جا رہے ہیں بلکہ دین اور تعلیم سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ذہن میں سوال یہ پیدا ہوا کہ اس سارے تنازعے کا ذمہ دار کون ہے؟ لیپ ٹاپ لیا، کی بورڈ پر ہاتھ رکھا تو آنکھوں کے سامنے اپنے قوم کے معماران کی موجودہ تصویر سامنے آ گئی۔ عید پر رشتہ داروں کے گھر جانا ہوا تو ان کے ایک 10 سال کے بچے کے ہاتھ میں ذاتی موبائل دیکھا تو سوچنے لگا کا اس موبائل کی مدد سے وہ کون سی تعلیم اور تہذیب سیکھ رہا ہوگا؟

میرا ایک دوست کہنے لگا کہ بچپن میں ہمارے پاس کھیلنے کو کوئی کھلونا نہ تھا اور اب میرا بچی 40 ہزار کے موبائل کو کھلونے کی طرح استعمال کرتا ہے۔ انسانیت کی اس ترقی نے جہاں میرے دماغ کی بتی گل کی وہاں میں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بھی کوشش کی کہ ہم ایک قوم کیوں نہیں بن سکے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی بنا پر ہم آج تک بھیڑوں کا ایک ریوڑ ہی رہے ہیں؟ کیا مستقبل میں بھی ایسی صورت حال برقرار رہے گی؟

معاشرے کا کوئی بھی فرد اس وقت تک مفید شہری نہیں بن سکتا جب تک کہ اس کی تعلیم و تربیت نہ کی جائے اور اسے اس قابل نہ بنایا جائے۔ کوئی بھی قوم ترقی یافتہ قوم اس وقت کہلاتی ہے جب اس کا ہر فرد ایک قوم نہ بن جائے جیسے کسی جاندار کا ایک خلیہ اکیلا بھی وہی تمام افعال سر انجام دیتا ہے جو کہ ایک جاندار دیتا ہے۔ افراد کا اخلاق، رویہ اور نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ ان کی اجتماعی سوچ اور جذبہ حب الوطنی ہی ایک قوم کو عظیم قوم بناتے ہیں۔

اس لئے افراد کی تربیت انتہائی ضروری ہے اور اس تربیت میں ماں کی آغوش، گھر کا ماحول اور مدرسے کی تربیت ہی ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر دوڑائیں تو ہمارے علم میں یہ بات آئے گی کہ جیسے ہی ایک گھر میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا پہلا تعارف موبائل فون سے کروایا جاتا ہے۔ میرے مشاہدے میں یہ بات ہے کہ گھر میں جیسے ہی چھوٹا بچہ روتا ہے تو اس کے سامنے کوئی ویڈیو چلا کر کر دی جاتی ہے تاکہ وہ آواز اور حرکت کرتی تصویر کو دیکھ کر چپ کر جائے۔

اس کے بعد آہستہ آہستہ اس نونہال کی آنکھیں اس موبائل کی جانب ہی رہتی ہیں جو یا تو اس کی والدہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے یا پھر اس کا والد دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس کے سامنے لاتا ہے۔ آپ نے اکثر ایک سال سے کم عمر بچوں کو موبائل پر اپنی انگلیاں چلاتے دیکھا ہو گا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ سیکھنے کے مراحل میں ہوتا ہے اور اس نے یہ سیکھ لیا ہوتا ہے کہ اس موبائل پر انگلیاں چلانے سے میں اپنی مرضی کی کوئی بھی ویڈیو چلا سکتا ہوں، اس دن کے بعد دور جدید میں وہ جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے تو اس کے کانوں میں نہ تو دادی اماں کی پرانی کہانیوں کی آواز پڑتی ہے اور نہ ہی ماں کی وہ لوک لوری کے بول جن کو سن سن کر ہمارے بزرگ جوان ہوئے تھے۔

لوری سننے کی بجائے اس کو انگریزی کارٹون کیریکٹر اور مختلف بچوں کی انگریزی نظموں پر لگا دیا جاتا ہے۔ اپنی ثقافت سے سے اپنی اولاد کو دور کرنے کے ساتھ اسلامی تہذیب سے بھی اب روشناس نہیں کروایا جاتا کیونکہ والد کو حصول معاش کی فکر سے اور ماں کو اپنے گھر کے کام کاج سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ اس کے مقابلے میں موجودہ دور کی سب سے ترقی یافتہ قوم یہودی النسل لوگوں کی بات کی جائے تو ڈاکٹر اسٹیفن کی تحقیق کے مطابق جب یہودی ماؤں کو حمل ٹھہرتا ہے تو وہ ریاضی کی مشکل مشقیں حل کرتی ہیں اور ان کے شوہر اس میں ان کا ساتھ دیتے ہیں۔

وہ دونوں مل کر ایسی مشقیں حل کرتے ہیں جن میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ ”اگر یہ ہو تو کیا بنے گا؟“ جب ان کا بچہ دنیا میں آتا ہے تو وہ تین زبانیں عربی، انگریزی اور عبرانی ضرور سیکھتا ہے۔ بچے کو طفولیت میں ہی تیر اندازی، دوڑ اور شوٹنگ سکھانے کے ساتھ ساتھ مقابلہ اور مسابقت سکھائی جاتی ہے تاکہ وہ مستقبل قریب میں نہ صرف جسمانی طور پر صحت مند ہو بلکہ زندگی کی دوڑ میں پہلے نمبر پر رہنے کے لئے تگ و دو کرنا بھی جانتا ہے جبکہ ہمارے موجودہ معاشرے میں اس کے بالکل برعکس ہے، بچے کی وہ عمر جس میں اس کی تمام عادات پختہ ہو رہی ہوتی ہیں وہ یا تو ایک موبائل کو دیکھتے ہوئے گزارتا ہے یا پالنے میں خاموشی کے ساتھ سو سو کر گزارتا ہے۔

ہمارے اکثر بچے اپنی یہ عمر ٹیلی ویژن یا موبائل و ٹیبلٹ وغیرہ پر کارٹون دیکھنے میں گزار دیتے ہیں۔ مشہور ضرب المثل ہے کہ ”ماں کی گود بچے کا پہلا سکول ہوتی ہے“ لیکن موجودہ دور میں ایک ماں جب بچے کو دودھ پلا رہی ہوتی ہے تو وہ اپنے موبائل پر کسی نہ کسی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک، سنیک ویڈیو، واٹس ایپ یا فیس بک سے بھی ساتھ ساتھ محظوظ ہو رہی ہوتی ہے جس کا بلاشبہ اثر بچے کی تربیت پر ہوتا ہے۔ میں اکثر اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ والدین اپنے چھوٹے بچوں کی ٹک ٹاک ویڈیو کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے نہ صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ داد وصول کرنے کے لئے بھی بے چین ہوتے ہیں۔

میں کئی تعلیم یافتہ ماؤں کو اپنی نوجوان بیٹیوں اور بیٹوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بطور سٹوری اپ لوڈ کرنے کا بھی عینی شاہد ہوں۔ میرے علم میں کئی ایسے والدین بھی ہیں جو گھر بیٹھ کر نہ صرف اپنے بچوں کو ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کی تربیت دیتے ہیں بلکہ ہمسائے کے بچوں کو بھی ساتھ خراب کر رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ بچے کی وہ عمر جس میں اس کی خفتہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا تھا، جب اسے معاشرے کے اصول و ضوابط سکھانے ہوتے ہیں، جب ایک نونہال کو سچ اور جھوٹ کی پہچان سکھانی مقصود ہوتی ہے ہم اسے ایک خیالی دنیا میں تعمیری سرگرمیوں کی بجائے تخریبی سوچ پیدا کرنے کا موجب بن رہے ہوتے ہیں۔ سائنس نے بھی اس بات کو قبول کیا ہے کہ بچے کے ڈی این اے میں والدین سے بہادری، حیا اور اچھے اخلاق جیسے اوصاف منتقل ہوتے ہیں۔

ماہرین نفسیات کے مطابق جیسے ہی ایک بچہ پانچ سال کی عمر تک پہنچتا ہے تو وہ ایسی تمام بنیادی باتیں کچھ سیکھ چکا ہوتا ہے جو اس کے مستقبل کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو معاشرے کا ایک مفید شہری بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اس لئے ہمارے کچھ سفید پوش والدین تین سال کی عمر میں ہی بچے کو نرسری سکول میں داخل کروا دیتے ہیں لیکن وائے بدقسمتی کہ وہاں بھی والدین بچے کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور ہمارا بچہ بدیسی کنڈر گارٹن یا مانٹیسوری کے چکر میں اپنی اصل یعنی اسلامی تعلیم سے نہ صرف دور ہوتا جاتا ہے بلکہ مذہب کا عنصر، سچائی، نیکی، بھلائی، ایثار کی بجائے اس کے ذہن میں سرمایہ دارانہ سوچ کو پروان چڑھایا جاتا ہے تا کہ مستقبل میں اس کے اندر حب الوطنی، اخوت و ایثار اسلامی کا دور دور تک شائبہ بھی نہ ہو۔

ہمارے ملک میں تقسیم برصغیر سے لے کر آج تک ایسا کوئی تعلیمی اور تربیتی نظام متعارف نہیں کروایا گیا جو ایک فرد کی شخصیت کی تکمیل کرنے میں معاونت کرے۔ بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ اور ملکی سیاست دانوں نے مل کر ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھی ہے جہاں عدل و انصاف اور میرٹ کی سر عام دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہر وہ برائی پائی جاتی ہے جس سے دنیا کے تمام مذاہب منع کرتے ہیں۔ چوری، جھوٹ، بددیانتی، اقرباء پروری اور رشوت کا پورے ملک میں دور دورہ ہے۔

ان تمام برائیوں کی جڑ غلط تربیت ہے جس کے ذمہ دار نہ صرف والدین ہیں بلکہ مدارس کے ساتھ ساتھ حکمران بھی ہیں جو ڈالر اور غیر ملکی سکونت کی خاطر ہمارے ملک کا مستقبل داؤ پر لگانے پر ہمیشہ تلے رہتے ہیں۔ تعلیمی نظام پر ایک نظر ڈالیں، جماعت ہشتم کے بعد علوم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے، آرٹس اور سائنس۔ سائنس کے طلباء چونکہ ذہین اور محنتی ہوتے ہیں جبکہ تمام غبی اور کند ذہن طلباء کو آرٹس میں بھیج دیا جاتا ہے جو کچھوے کی مانند آہستہ آہستہ اپنے تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے یا تو بی ایڈ کر لیتے ہیں یا پھر ماسٹرز ڈگری کے بعد استاد کے عہدے پر فائز ہو جاتے ہیں اگر طالب علم کچھ زیادہ محنتی ہو تو وہ ایم فل کر کے لیکچرر بھی بھرتی ہو جاتا ہے۔

اس سارے کھیل میں ایک اور مرحلہ بھی آتا ہے کہ کچھ ایسے طالب علم بھی ہمیں مل جاتے ہیں جو اپنی قوت یادداشت اور رٹے کے ساتھ ساتھ ذہانت کی بنیاد پر سول سروس میں بھی چلے جاتے ہیں اور غریب عوام پر حکمرانی کے لئے منتخب ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے موجودہ تعلیمی نظام سے ایسا کون سا تیر مار رہے ہیں جس کی بنا پر ہماری قوم ایک عظیم الشان قوم بن سکے؟ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے نادیدہ دشمن نے ہمارے تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ ہمارے خاندانی نظام پر ایک ایسا وار کیا ہے جس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل اپنے بزرگوں نصیحت پر عمل کرنا تو درکنار، ان کی عزت کرنے میں بھی کوتاہی برت رہی ہے۔

غیر ملکی طاقتوں نے انٹرنیٹ اور جدید نصاب کے ساتھ ساتھ غداران وطن کی مدد سے ہمارے ہر کمزور اور نازک پہلو پہ ایسا وار کیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں ذہنی اور جسمانی طور پر بنجر افراد پیدا ہو رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو اپنے کسی بھی ایم۔ اے پاس نوجوان سے ایک رسید لکھوا لیں یا کوئی درخواست یا خط لکھوا کر دیکھ لیں، آپ کو ہمارے معیار تعلیم و تربیت کا اندازہ ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments