تھیٹر پلے ”دی جاب“ کا تجزیہ


نائن الیون کے بعد پاکستان میں ہونے والے سنگین حالات کے پس منظر میں معروف پلے رائٹ اکرام بسرا کا یہ ڈرامہ اس وقت امریکہ کے تھیٹرز میں پیش کیا جا رہا ہے

پلے کا ٹائٹل سامنے آتے ہی جو پہلا امپریشن ذہن پہ پڑتا ہے وہ جاب/نوکری سے ہی متعلق ہے۔ وائٹ بورڈ کے گرد پھیلا اندھیرا بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی عام شخص کے لئے ایک نوکری کی چمک کے گرد پھیلتے ہوئے مسائل کی تاریکیوں کا انبار۔ اکرام بسرا ”پلے کے رائیٹر کہتے ہیں کہ تھیٹر کی اپنی دنیا ہے اس کا اپنا ایک لہجہ جو حقیقت سے قریب ترین ہے۔ دی جاب“ بنیادی طور پر اس دور کی طرف لے کے چلتا ہے جو نہ صرف پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا بلکہ اس کی سیاہیاں بہت دور دور تک گئیں۔

امریکہ کے لٹریری شہر آئیوا کے تھیٹرز میں آئیوا یونیورسٹی کی شراکت سے پیش کیا جانے والا تھیٹر پلے جس اس وقت صحافت کے پیشے سے وابستہ پلے رائٹ اکرام بسرا اپنی زندگی کے ایک پورے دور کو مونولاگ/خودکلامی کے انداز میں پیش کرتے ہیں اور مجھے لگا کہ جس صورتحال سے وہ گزرے اس میں ایک طویل خود کلامی بہت ضروری تھی۔ ایک عام صحافی، ایک عام شہری پہ کیا کیا بیتتا رہا اس خودکلامی کی ڈرامائی پیشکش کو غور سے دیکھیں تو ایسے لگتا ہے جیسے ایک دور ہمارے سامنے کھڑا ہمیں پوچھتا ہے کہ میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ پاکستان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب کسی کے بھی پاس نہیں۔ اور سوال ہنوز منہ تک رہا ہو۔

پلے شروع ہی ایسے ہوتا ہے کہ ایمرجنسی نافذ ہے اور دیکھنے والا بھی اسی ایمرجنسی کی زد میں آ جاتا ہے جہاں رائیٹر کو ڈر تھا کہ ہیلی کاپٹر سے میرا سر کٹ جائے گا اور پھر وہ ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں کہیں سر، کہیں دھڑ اور ایک جگہ تو کسی معصوم بچے کی چھوٹی سی انگلی تک کٹی ہوئی ملتی ہے اور رائیٹر کتنی دیر بیٹھ کر سوچتا ہے کہ یہ بچہ اس وقت کیا کر رہا ہوگا۔ اکرام بسرا نے اپنے پرفیکشن سکلز سے جس طرح اس صورتحال کو ڈرامائی صورت دی دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اپنوں کے تصادم میں ہمیشہ کی طرح اپنا ہی خون بہا۔

ایک صحافی کا اسی دن قتل ہوجانا جس دن اس کے ساتھ ان کی ٹیم کا پروگرام ہونا تھا، خبریں سنتے ہوئے یہ ایک روزمرہ کی بات لگتی ہے لیکن جب آپ کے سامنے کوئی اس طرح قتل ہو اور آپ ہی کے شعبے سے ہو اور حالات بھی دہشت گردی اور خانہ جنگی کے ہوں کہ جہاں پتہ بھی نہ ہو کس نے کس کو کس جرم کی پاداش میں مار ڈالا ایسے میں انسان جتنا بھی مضبوط ہو اعصاب شل ہونے لگتے ہیں تحت الشعور ان حادثات کو جذب کرتا جاتا ہے اور ایک عام انسان کس کرب میں جا گرتا ہے کبھی ہم نے سوچا کہ جن نڈر فوجیوں کو بہادری کے تمغوں سے نوازا جاتا ہے ان کے اندر کی توڑ پھوڑ سے کوئی بھی واقف نہیں ہو پاتا۔ ان کے مزاج کی سختی ڈسپلن سے زیادہ ان کے اندر ہونے والی تباہی کا نتیجہ ہوتی ہے

پلے آگے چلتا ہے، صحافی عام شہریوں سے مل کے ان کی رائے جاننا چاہتا ہے اور اپنی رہائشی سکول میں کسی بھی فوجی افسر کو بتائے بنا، اجازت لئے بنا وہ ایسے علاقے میں آزادانہ گھومنے نکل کھڑا ہوتا ہے جو کہ پاکستان میں آؤٹ آف گورنمنٹ ایریا ہے۔ پشتونوں کے قبائلی حلیے سے یکسر مختلف موصوف کلین شیو پنجابی خود کو دوسروں سے مختلف پا کے تھوڑا سا گھبراتے ضرور ہیں مگر یہاں ایک بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ اگر انسان حقیقت جاننا چاہے تو وہ اس کے پاس پہنچتا ضرور ہے۔

ادھر سے ڈرامے کا کلائمکس سامنے آتا ہے بلکہ یوں کہنا کہ رائیٹر کی زندگی کا کلائمکس تو زیادہ مناسب ہوگا

اپنی تمام تر مثبت سوچ اور علاقائیوں سے ہمدردی کے باوجود صحافی کو مقامی دہشتگرد تنظیم طالبان پکڑ کر لے جاتی ہے ہمارے وقت کی سب سے بڑی دہشتگرد تنظیم۔ اور وہی ہوا جو ایک عام انسان کا حال ہو سکتا ہے ایسی صورتحال میں۔ صحافی کو پورا یقین تھا وہ مارا جائے گا یہ لوگ اسے نہیں چھوڑیں گے وہ گورنمنٹ کے چینل کے لئے کام کرتا ہے اور فوج جو اس وقت طالبان سے برسر جنگ تھی یہ ان کے ساتھ ٹھہرا ہوا تھا مطلب دشمن اور وہ بھی نہتا۔

ایک عام صحافی جو چند ہزار روپے مہینے کماتا ہے اس نوکری کے ذریعے کس طرح اپنی موت تک پہنچ گیا۔ ٹی وی پر خبر چلتی بھی تو عام سی بات لگتی ہے لیکن کبھی کسی نے سوچا کہ یہ روزمرہ کے حادثات جو ہم ایک نظر دیکھ کے بھول بھی جاتے ہیں وہ سہنے والوں کی زندگی پر کیا اثرات چھوڑتے ہوں گے؟ کیا یہ سارے خون سے لتھڑے حادثات، ہر قدم پر بکھری ہوئی موت دیکھ لینے اور سہہ لینے کے بعد وہ اپنی زندگی کے معاملات میں پہلے جیسا توازن برقرار رکھ پاتے ہوں گے؟ خیر اتنا کون سوچے؟

اور صحافی جسے اپنی آنکھوں کے سامنے سوائے موت کے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا جانے کون کون سے ناکردہ گناہوں تک کے بارے میں سوچنے لگ گیا۔ اتنی قریب موت پہ کوئی بھی ہو ہراساں ہی ہوگا۔ طالبان کی صورت میں سامنے کھڑی موت کو دیکھ کے صحافی اپنے گناہوں کو گن رہا ہے وہ گناہ جو محض کسی عمل کا رد عمل تھے گناہ نہیں تھے۔ وہ ملاں کا سوچتا ہے ملاں معصوم بچوں کو تشدد کے زور پہ قرآن پڑھا رہا ہے قرآن جو خدا کی اپنی مخلوق سے محبت کی نا ختم ہونے والی زندہ حقیقت ہے، دوسری جناب رائٹر ان کیفیات میں حقیقت کا رنگ بھر رہا ہے۔ تھیٹر کے پردے پر جس طرح ان تاریک حقائق کو فلمایا گیا دیکھنے والا خود کو پوری طرح رائیٹر کی جگہ پر بیٹھا محسوس کر سکتا ہے اور یہی مقصود بھی ہے ہر آرٹ کا پس منظر اور کامیابی یہی ہے کہ دیکھنے والا خود اس منظر میں اتر آئے۔ آرٹ مکمل آئینہ بن جائے

اویس احمد جس نے صحافی کا یہ کردار پوری دلجمعی سے نبھایا اس کی آنکھوں میں موت کو سامنے پانے کا بے انتہا خوف، سیاہ بیک گراؤنڈ کی آمیزش سب مل کے دہشت کا وہ منظر قائم کر رہے تھے اور جن لوگوں کے سامنے موت کھڑی ہو اس طرح۔ مجھے خیال آیا کہ ان کی آنکھیں کیسی ہوتی ہوں گی؟

صحافی کہتا ہے اس کا نام ہے ”نعمت اللہ“ یہ اللہ کو ماننے والے لوگ ہیں اسے چھوڑ دیں گے گو کہ اس نے کبھی نام کے ساتھ ”اللہ“ نہیں لگایا تھا لیکن آج اسے اپنے نام پہ یقین تھا۔ اپنے نام کے بیچ میں موجود ”اللہ“ تھا کہ یہ لوگ اسے جانے دیں گے، اور جو خوف وہ روز اخباروں میں پڑھتا تھا وہ کہتا تھا یہ اس کی لاش چوک میں ٹانگ دیں گے۔ موت کی اس ہیبت کو لئے اس نے آنکھیں بند کر دیں قاتل کے حکم پہ۔

صحافی کو طالبان نے کچھ نہیں کہا۔ اور پوری روداد کا لب لباب جو مجھے سمجھ آیا وہ یہی تھا کہ طالبان نے صحافی کو قتل نہیں کیا۔

یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ گورنمنٹ کا بندہ ہے، فوجیوں کے ساتھ ٹھہرا صحافی ہے کیا کچھ نہیں لکھے گا ان کے خلاف اگر زندہ بچ گیا تو، طالبان نے صحافی کو قتل نہیں کیا۔ اس واقعے میں بہت سارے پیغامات ہیں کہ مسائل کا حل جنگ نہیں بلکہ پر امن مذاکرات تھے جس کے لئے عمران خان نے کتنی تگ دو کی تھی۔

صحافی زندہ بچ گیا مگر اس نے جو جو کچھ دیکھ لیا تھا، قتل و غارت، خون، خوف، موت اور صرف موت۔ وہ جس جگہ بھی نیوز کوریج کے لئے گیا اسے ہر جگہ یہی ملا۔ وہ تنگ آ گیا تھا۔ بم دھماکے، لاشوں کی دھجیاں۔ دوستوں، صحافیوں کی ادھڑی ہوئی لاشیں۔ اور سب سے بڑھ کر گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ایک میجر کا گود میں کٹا ہوا سر لئے ہوئے اس کا ساتھی۔

وہ صحافت چھوڑنا چاہتا تھا مگر اسے پیسوں کی ضرورت تھی سو اسے ہر بار ایسی ہی جگہ پر بھیج دیا جاتا۔ کوئی سوچ سکتا ہے اس کی ذہنی حالت اس وقت کیا ہوگی جس نے اپنی ذہنی حالت سے تنگ آ کر اینٹرٹینمنٹ چینل جوائن کیا تو وہ بھی خبروں کا چینل بن گیا۔ اسے پھر وار زون میں کوریج کے لئے بھیج دیا گیا۔

صحافت کی اس نوکری نے مصنف کی ذہنی حالت پہ جو اثرات چھوڑے ہوں گے کیا ہماری گورنمنٹ نے کبھی کوشش کی کہ وار زون میں کام کرنے والے ان بچ جانے والوں کے لئے کچھ کیا جائے؟ کوئی گرانٹ، کوئی طبی گرانٹ؟ کوئی فنی / خدماتی گرانٹ؟

ڈرامے کا مرکزی کردار صحافت کی نوکری چھوڑ دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ بس وہ کہانیاں لکھے اور شاعری لکھے۔ کیا ایسے رائیٹرز کے لئے ہمارے پاس کوئی مستقل ذریعہ معاش ہے یا وہی جو ہمارے ہاں ڈرامہ/ کہانی رائیٹرز کے ساتھ ہوتا آیا ہے؟

ریاستوں کی پاور کی لڑائی میں کتنی جانیں، کتنی زندگیاں مٹی تلے چلی جاتی ہیں جو بچ نکلتے کیا ان کی زندگیاں پہلے جیسی گزر پاتی ہیں دوبارہ؟

صحافی ایک سروائیور ہے اور اس بات کی زندہ مثال ہے کہ اگر امن پسند مذاکرات ہوسکتے ہیں تو طاقت اور جنگ کیے بغیر بھی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں

ڈرامے کا لنک شیئر کر رہی ہوں
https://youtu.be/gLdpYPx6SeQ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments