فضل ربی راہی کی کتاب: ”وادیٔ سوات میں جو ہم پہ گزری“


بدھا کی گندھارا تہذیب کے ایک اہم مرکزی حیثیت رکھنے والے جنت نظیر وطن کے چرچے شاید دنیا میں کسی سے مخفی نہیں رہے۔ ‏یہاں آج بھی لوگوں کی عملی زندگی میں بدھا کی امن و آشتی کی تعلیمات پائی جاتی ہیں۔ سرزمین سوات کے پختونوں میں مادر وطن سے محبت، ‏رواداری، بھائی چارے اور کم آمدنی میں قناعت پسندی کے ساتھ زندگی گزارنے کی روایت شاید پشتونوں کی سرزمین پر جنم لینے والی قدیم ‏تہذیبوں، زرتشت اور بدھا سے ورثے میں ملی ہے۔ دین مبین اسلام قبول کرنے کے بعد بھی پشتونوں کی تاریخ، ثقافت، سیاست، رہن سہن اور ‏زندگی کے دیگر معمولات آج بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی کی طرح آگے بڑھ رہے ہیں۔

فضل ربی راہیؔ صاحب کی کتاب ”وادیٔ سوات میں جو ہم پہ گزری“ چوں کہ ان کی اپنی آنکھوں دیکھے احوال پر مبنی سوات کے ایک ‏روزنامہ اخبار میں شائع ہونے والے اداریے اور کالمز ہیں، اس لئے میرے جیسے انسان کے لئے بہت اہم ہیں۔ ہم پشتونوں کا ایک المیہ ہے کہ ‏ہماری تاریخ ہمیشہ سے بے گانے ہی رقم کرتے آرہے ہیں۔ اس ریاست میں اور اس سے پہلے بھی یہی ہوتا آیا ہے۔ پر اب خوشی اس بات کی ہے ‏کہ ہم خود اپنی تاریخ کو محفوظ کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں کیوں کہ بیرونی دنیا سے تعلق رکھنے والے مؤرخوں سے قطع نظر، تاریخ مسخ کرنے ‏میں پاکستان کی مثال نہیں۔ یقین نہ آئے تو خورشید کمال عزیز المعروف کے کے عزیز کی کتاب ”د مرڈر آف ہسٹری“ پڑھ لیں۔

پاکستان میں اب بھی پریس اور پبلی کیشنز پر کافی پابندیاں ہیں، جیسا کہ راہیؔ صاحب خود اپنے ایک کالم میں ذکر کر چکے ہیں کہ سوات ‏کے حالات پر قومی میڈیا سنسرشپ کا شکار رہا اور ہے، میرا نہیں خیال کہ ان کے دل کی آہ وبکا اور بلا جھجک اظہار کو شاید اس سنسرشپ کی ہوا نہ لگی ‏ہو۔ مگر بہرحال اوائل کے ادارئے اور کالمز جن مخصوص حالات اور نازک وقت میں لکھے گئے ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان وقتوں میں پشتونخوا وطن ‏اور خصوصی طور پر جنگ زدہ علاقوں میں کوئی سرگوشی میں بھی ان میں بیان کیے گئے بعض حقائق کا ذکر نہیں کر سکتا تھا۔

اس لئے ہم راہیؔ کے جرات ‏مندانہ قلم سے لکھی گئی باتیں پڑھ کر انہیں ہم اپنے آنے والی نسلوں کے لئے ایک اہم دستاویز سمجھتے ہیں۔ سوات پر گزری قیامت اکیلے سوات ‏پر نہیں بلکہ پورے پختونخوا وطن پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کی پالیسیوں کے تسلسل کی صورت میں گزرتی رہی ہے، اس کا بے لاگ تذکرہ ‏اس کتاب کا طرۂ امتیاز ہے۔ راہیؔ صاحب کی اس کتاب میں سواتی شدت پسندوں اور ان کے تخلیق کارریاستی اداروں کی انسانی حقوق کی خلاف ‏ورزیوں، جنگی جرائم، چاہے وہ ماحولیات سے متعلق ہوں یا جبری گمشدگیوں، اجتماعی سزاؤں اور میڈیا کے بلیک آؤٹ کے بارے میں ہوں یا پھر جنگ مخالف تحریک پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے حوالے سے ہو، ان ‏سب کا ذکر موجود ہے۔

راہیؔ صاحب کی اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ آگ اور خون میں نہلائے جانے والی اس جنت نظیر وادی کی ‏تباہی میں ملوث اہم پہلوؤں کے ساتھ ساتھ یہاں تخلیق کیے گئے ”طالبانائزیشن“ کے فتنے اور اسے مٹانے کے لئے ”عسکری آپریشنوں“ کے علاوہ فوجی چھاؤنی اور ‏ ڈالروں کی امداد جیسی حقیقتوں کو آشکار کرتی ہے۔

اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ طالبان اور ان کے خلاف کیے گئے آپریشنز دونوں کیسے فتنے ہیں تو صرف سوات کے گرین چوک کی مثال لیتے ‏ہیں۔ اسی چوک میں جہاں ایک طرف طالبان سوات کے بے گناہ شہریوں کی لاشیں مارنے کے بعد لٹکاتے تھے تو دوسری طرف اسی چوک میں 8 ‏اگست 2013 ء کو عثمان آباد کے ایک بے گناہ شہری احسان حبیب کو ایک فوجی کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کا ذکر راہیؔ صاحب ‏نے اپنے ایک کالم میں تفصیل سے کیا ہے۔

سوات کی تہذیبی تاریخ کا پتہ تو بدھا کے قدیم سٹوپے دیکھ کر ہی چل جاتا ہے کہ پشتون یہاں پر بسنے والے ہزاروں سال کی تاریخی ‏حیثیت رکھتے ہیں۔ (پشتونوں سے میری مراد ہمیشہ پختون افغان وطن پر رہنے والے لوگ ہیں، خواہ وہ کسی بھی رنگ و نسل، مذہب، زبان، فرقہ ‏اور سوچ سے تعلق رکھتے ہوں، وہ سب پختون ہی ہیں، کیوں کہ جغرافیہ ہی ہماری ڈائیورس قوم کی اساس اور بنیاد ہے ) مگر افغان وطن سوات میں ‏ہم جب بایزیدپیر روخان، خوشحال خان خٹک اور ان سے قبل یوسف زئیوں کے کابل سے ورود کو دیکھتے ہیں اور اسی طرح پختون افغان ملت کی سرزمین پر ‏سکندر یونانی سے لے کر، عربوں، مغلوں، سکھوں اور انگریزوں سے ہوتے ہوئے سوات کی منفرد حیثیت اور اس کی قومی سیاسی جد و جہد پر جب ‏تاریخ و ثقافت کے تناظر میں نظر ڈالتے ہیں تو اس کے بعد ہی ہم راہیؔ صاحب کی کتاب میں اکٹھے کیے گئے اداریوں اور کالموں کو پڑھنے کے بعد ‏حقائق کا ادراک کر کے رائے دے سکتے ہیں۔

انگریزوں کے متحدہ ہندوستان میں سوات دیگر ریاستوں کی طرح والئی سوات کی سربراہی میں ایک الگ منفرد ریاست کی حیثیت کا حامل ‏تھا۔ یہاں کے والی صاحب اور ان کے خاندانی سیاسی تسلسل کے ساتھ لوگ اختلاف رائے بھی رکھ سکتے ہیں مگر جہاں تک سوات کی خودمختار ‏حیثیت کی بات کی جاتی ہے تو اس میں اس کا تمدنی، سماجی اور مترقی ریاست کا حوالہ بہت اہم ہے۔ اس کو نظر انداز کر کے ہم اس ریاست کی ‏اہمیت، اس کی تزویراتی ہئیت، سیاحتی مقام اور یہاں کی تہذیبی ساخت کو سمجھنے اور سمجھانے میں کام یاب نہیں ہوسکتے۔

راہیؔ صاحب نے ایک ‏کمال یہ کیا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب میں سوات کے ہر پہلو کا ذکر کیا ہے مثلاً بادشاہ صاحب کے دور میں سکھوں اور ہندوؤں کو تحفظ کی یقین ‏دہانی اور پھر پاکستان میں شامل ہونے سے پہلے ایک ایسی ریاست جہاں والی صاحب کے حکم نامے کے مطابق 1960 ءکی دہائی میں اٹھارہ سال ‏سے کم عمر لڑکی کا نکاح پڑھانے پر مولوی کو 200 روپے جرمانہ کرنے جیسے احسن اقدامات۔ لیکن پھر پاکستان میں شامل ہونے کے بعد ایک وقت ‏ایسا آتا ہے کہ وہاں سیکڑوں کی تعداد میں لڑکیوں کے اسکولوں کو آگ لگائی جاتی ہے۔

طالبان لڑکیوں کوا سکول جانے سے روکتے ہیں اور راہیؔ ‏صاحب اپنے اداریوں میں اس پر پر امن احتجاج کرتے ہیں۔ جب حالات خرابی کی طرف مزید چلے جاتے ہیں تو پھراسی وادی میں تعلیم نسواں کے ‏حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی 14 سالہ بچی ملالہ یوسفزئی پر طالبان حملہ کرتے ہیں۔ پھر اسی وادی کے علاقے خوازہ خیلہ میں لڑکیوں کی ڈگری ‏کالج کی عمارت پر قبضہ ہوتاہے جسے آج بھی عارضی فوجی ہیڈ کوارٹر کے طور پراستعمال کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی جنگ زدہ علاقے میں سب سے زیادہ ‏جنگی جرائم سے خواتین اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں کئی صفحات میں ان مسئلوں کا ذکر بھی ہے، پر حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر علاحدہ سے کتاب نہیں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔

سوات کی ریاست ایک حقیقت تھی، ریاست کے لئے درکار سکہ، اس کے قوانین اور عدالتی نظام جسے رعایا نے بلا خوف و خطر قبول ‏کر کے رضاکارانہ طور پر اس میں حصہ لیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار میں تعلیم، سماجی انصاف، منفی روایات پر پابندی اور ترقی کے لئے ‏نیا لائحہ عمل طے کرنے کے لئے جرگہ سسٹم (جوکہ مہذب دنیا میں جمہوری پارلیمنٹ پر مشتمل ہے ) ، ریاست کے لئے اہم ستون کی حیثیت ‏رکھتا ہے، ان جیسے اقدامات والیان ریاست کی روشن خیالی اور انسانیت دوستی پر دلالت کرتے ہیں۔

سوال مگر یہاں یہ بنتا ہے کہ ریاست سوات کو ‏کیوں بزور شمشیر ضم کرنے کا اقدام کیا گیا اوریہاں کے عوام سے ان کی رائے پوچھے بغیر ان کا کام یابی سے چلتا ہوا مترقی نظام سب سے پہلے چھین لیا گیا، ‏اوربعد میں جغرافیائی طور پر اس اہم علاقے اور افغانستان میں سٹریٹیجک ڈیپتھ کی آڑ میں مذہبی انتہا پسند تنظیموں کی داغ بیل ڈالی گئی اور ڈیورنڈ ‏لائن کے دونوں جانب پشتون افغان ملت کو بارہا طالبان اور نام نہاد مجاہدین کے ذریعے زیر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی اور پھر نائن الیون کے بعد ‏وار آن ٹیرر میں ڈالرز کمانے اور سوات کو نام نہاد قیام امن کے ذریعے زیر کرنے کے لئے راہی صاحب کی کتاب میں لکھے گئے حالات ہم پر ‏تھوپ دیے گئے۔

یہی حالات پشتونخوا وطن کے دیگر شہروں کے بھی رہے، جہاں لاکھوں کی تعداد میں پشتونوں کو آئی ڈی پیز بنایا گیا۔ ان کے گھروں، ‏بازاروں اور گلی کوچوں کو ان ہی لہولہان پشتونوں کے خون سے رنگین کر دیا گیا۔

مجھے یاد ہے 2009 ء میں جب سوات کے لوگوں کو جبری طور پر بے گھر کیا گیا تو مردان سمیت بہت سے شہروں میں لوگ بے سرو سامانی کی حالت میں سرکاری اسکولوں میں ٹھہرائے گئے۔ بہت سے لوگوں نے ان بے خانماں سواتیوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی۔ ہم نے اپنا ایک گھر اور حجرہ خالی کر کے پیش کیا۔ اس وقت میں باچا خان ٹرسٹ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کے لئے کام کرتی تھی اور باچا خان کے شہباز گھڑی برانچ کے اسکول کے بچوں اور سٹاف کے ساتھ مل کر مختلف اسکولوں میں ان آئی ڈی پیز کے لئے ”امن شو“ کے نام سے ایک تفریحی پروگرام کرتی تھی۔ ہر دفعہ شو میں بچوں کے مزاحیہ ایکٹ یا خاکے پر جب یہ دکھی اور معصوم لوگ ہنستے تو ہم خوشی سے پھولے نہ سماتے، پر یہ خوشی عارضی ہوتی۔ وہ ہنستے ہنستے رو پڑتے اور شو کے آخر میں شکریہ ادا کر کے بھی رو پڑتے۔

ان لوگوں کی پرامن وادی کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکا گیا تھا۔ انہیں جبری طور پر بے گھر کر دیا گیا تھا۔ ان کے پیارے سب درد سے گزر رہے تھے۔ دراصل اس طرح کے حالات اس لئے بنائے گئے تھے کہ ان کا اصل مقاصد دنیا کو پاکستان ایک دہشت زدہ ملک کے ‏طور پر دکھانا مقصود تھا اور القاعدہ و طالبان اور دیگر شدت پسند گروہوں کے وجود کو پاکستان پر حملہ آور دکھا کر بیلنز آف ڈالرز کا ایڈ حاصل کرنا تھا لیکن ‏حقیقت میں پشتونوں کی سرزمین پر ریاستی قبضہ ایک ایسے سٹریٹیجیک پلان کے ذریعے کیا گیا جس میں عوام کو دہشت گردوں کے ذریعے مار کر ‏انہیں فوجی چھاؤنیوں کے قیام کا ذریعہ بنایا گیا اور امن کے نام نہاد نعرے لگاکر اس رچائے گئے ڈرامے میں جان ڈالنے کی کوشش کی گئی۔

یہ ہم ‏نہیں کہتے، خود جرنیل صاحبان ریٹائرمنٹ کے بعد ان حقائق کو اپنی لکھی گئی کتابوں اور مختلف انٹرویوز میں بیان کرتے رہے ہیں اور اگر یقین نہ ‏آئے تواسد درانی، حمید گل، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے پرانے انٹرویوز دیکھ لیں۔ جنرل پرویز مشرف 25 اکتوبر 2015 ء کو دنیا نیوز کو ایک ‏انٹرویو میں کہتے ہیں : ”ہم نے مذہبی انتہا پسندی تخلیق کی۔ ہم نے طالبان کو تربیت دی۔ حقانی اور اسامہ بن لادن ہمارے ہیرو تھے۔“ ضیاء الحق ‏کے دور میں جنرل اختر عبدالرحمٰن اور جنرل حمید گل نے افغانستان کے لئے تزویراتی گہرائی پر مبنی پالیسی ترتیب دی جس کا خمیازہ ہم آج بھی ‏بھگت رہے ہیں۔

29 اپریل 2018 ء میں جب ہم سوات میں پی ٹی ایم کا جلسہ کر رہے تھے تو کمپین کے دوران درجنوں خواتین سے ملے جو جبری طور پر گم شدہ اپنے بھائیوں، بچوں اور شوہروں کی نہ ختم ہونے والی تلاش اور انتظار کی وجہ سے ہر قسم کے خوف اور ڈر سے عاری ہم سے بات کرتے اور خفیہ اداروں کے اہل کاروں کے گاؤں گاؤں جاکر ڈرانے دھمکانے کے باوجوں سیکڑوں کی تعداد میں جلسے میں شرکت کے لئے آئیں۔

اس کتاب کے آخری کالم پی ٹی ایم پر لکھے گئے ہیں۔ میں اس تحریک کی بنیادی رکن کی حیثیت سے ایک حقیقت کا ذکر کروں گی کہ جب ہم فروری 2018 ء میں محسود تحفظ موومنٹ (ایم ٹی ایم) کی طرف سے دھرنا دے رہے تھے تو اس کو پی ٹی ایم بنانے میں ان سارے پشتونوں کاکردار بھی اہم ہے جو اپنے اپنے مطالبے لے کر آئے تھے اور اس کارواں کا حصہ بن کر انہوں نے ثابت کیا تھا کہ مسئلہ ایک قبیلے کا نہیں بلکہ پشتون بحیثیت قوم پس رہے ہیں اور ایک طرح سے ان کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ اس دھرنے میں سوات کی وہ ماں بھی موجود تھیں جن کے پانچ بچوں میں سے دو طالبان نے شہید کیے تھے اور باقی ریاستی اداروں کی طرف سے جبری گم شدگی کا شکار تھے۔

مذکورہ بالا تجزئے کی روشنی میں اگر راہیؔ صاحب کے لکھے گئے روزمرہ کے اخباری اداریوں اور کالموں کا جائزہ لیا جائے تو یہ پشتونخوا ‏وطن پر مسلط کردہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی آڑ میں تباہ کاریوں، پشتونوں کے قتل عام، شدت پسندوں اور فوج کی آنکھ مچولی کے ذریعے ‏ہماری قوم کی دربہ دری، بے بسی، خود کش حملوں، فضائی بم باریوں، توپ کی گولہ باریوں، لاکھوں لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنے، ان کو علاقہ بدر ‏کرنے، انہیں کیمپوں میں زندگی بسر کرنے اور ان کی تاریخ، تہذیب، روایات اور امن کو پارہ پارہ کر کے انہیں دنیا کے سامنے ”پشتون طالبان“ کی ‏شکل میں دہشت گرد پیش کرنے کا منظرنامہ ہے۔ اس بیانیے کے تحت پشتون قوم کا اصل چہرہ مسخ کیا گیا ہے اور انہیں بدھا اور زرتشت کی امن ‏اور شانتی چاہنے والی ذہنیت کی بہ جائے دانستہ طور پر القاعدہ اور دیگر شدت پسند گروپوں کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔

زیر نظر کتاب ”وادیٔ ‏سوات میں جو ہم پہ گزری“ ان ہی حالات اور واقعات کی تفصیلی روداد ہے جوقارئین کوغور و فکر کرنے کے لئے بہت کچھ دے سکتی ہے۔ اس کے ‏علاوہ مستقبل میں سوات میں طالبانائزیشن کے حوالے سے اگر کوئی لکھنا چاہے یا اس موضوع پر تحقیق کرنا چاہے تو ان کے لئے یہ کتاب ابتدائی یا بنیادی مواد کا کام دے گی اور اس کے حقائق کو اس لئے بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ یہ سوات کے رہنے والے ایک ایسے لکھاری کے تلخ مشاہدات اور حقائق پر مبنی روزنامچے ہیں جس نے یہ حالات خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور وہ خود بھی ان نامساعد حالات کے کرب و اذیت سے گزرتے رہے ہیں۔

ثنا اعجاز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ثنا اعجاز

ثنا اعجاز پشاور سے تعلق رکھنے والی انسانی اور صنفی حقوق پر کام کرنے والی آزاد صحافی ہے۔

sanna-ejaz has 4 posts and counting.See all posts by sanna-ejaz

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments