سیمون دی بووا۔ ایک دانشور فیمنسٹ


جب ہم بیسویں صدی کی عورتوں کی جدوجہد اور فیمنسٹ تحریک کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں سیمون دی بووا اور ان کی اہم کتاب THE SECOND SEXکے نام ابھرتے ہیں۔ اس کتاب کا نجانے کتنی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور اسے پڑھ کر نجانے کتنی ہزاروں لاکھوں عورتوں کی زندگیاں بدل گئیں۔

سیمون 1908 میں فرانس کے ایک متمول گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والدین کو اعلیٰ تعلیم کا بہت شوق تھا اسی لیے انہوں نے سیمون کو ایک کونونٹ سکول میں تعلیم کے لیے بھیجا۔ سیمون بچپن سے اتنی ذہین اور حاضر دماغ تھیں کہ ان کے والد فخر سے کہا کرتے تھے

SIMONE THINKS LIKE A MAN
اس ایک جملے سے ہمیں سیمون کے والد کی محبت کے ساتھ ساتھ ان کی روایت سے قربت کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔

simone de bouvoir

سیمون کا خاندان روایتی اور مذہبی تھا لیکن سیمون نے نوجوانی میں ہی دونوں کو الوداع کہا کیونکہ ان کی نگاہ میں دونوں اداروں میں عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ سیمون کا موقف تھا کہ مذہبی انسان بنیادی طور پر بزدل ہوتا ہے۔ وہ اپنی دنیاوی زندگی کی پوری ذمہ داری قبول کرنے سے کتراتا ہے۔ وہ موت کے بعد کی زندگی کے لیے موت سے پہلے کی زندگی قربان کر دیتا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ کہ اپنی بزدلی سے احساس تفخر بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

سیمون نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کئی درسگاہوں میں درس و تدریس کا کام کیا۔

سیمون کی زندگی میں ژاں پال سارتر نے اہم کردار ادا کیا۔ دونوں کی ملاقات زمانہ طالب علمی میں ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے کی شخصیت ’ذہانت اور تخلیقی صلاحیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ دونوں کی دوستی ہو گئی جو آہستہ آہستہ محبت میں بدل گئی۔ دونوں غیر روایتی انسان تھے اس لیے ان کی محبت بھی غیر روایتی تھی۔ ان کی محبت نصف صدی تک رہی لیکن نہ تو انہوں نے شادی کی اور نہ ہی ایک گھر میں رہے۔ انہوں نے یہ بھی عہد کیا کہ وہ ایک دوسرے کی محبتوں پر کوئی پابندیاں نہیں لگائیں گے۔ سیمون اور سارتر کی یہ غیر روایتی محبت ان کے بہت سے روایتی پرستاروں کو حیران بھی کرتی ہے اور پریشان بھی۔

سیمون نے سارتر کے فلسفہ وجودیت اور سارتر نے سیمون کے فیمنسٹ فلسفے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ سیمون نے بھی سارتر کی طرح فلسفیانہ مقالوں کے ساتھ ساتھ کہانیاں اور ناول بھی لکھے۔ سیمون کا ناول SHE CAME TO STAYبہت مقبول ہوا۔


سیمون نے اپنی زندگی میں جن شخصیتوں کو متاثر کیا ان میں ALBERT CAMUS, MICHEL FOUCAULT , JACQUE DERRIDA جیسے نامور ادیب اور دانشور شامل تھے۔

سیمون بائیں بازو کی سیاست میں فعال تھیں اور ایک سوشلسٹ ہونے کی شناخت رکھتی تھیں۔ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کی صف اول میں شامل ہونے کے باوجود وہ ساری عمر اپنے آپ کو فیمنسٹ کہنے سے کتراتی تھیں۔ عمر کے آخری حصے میں انہوں نے سوشلزم اور فیمنزم کے فلسفوں کو یکجا کیا اور 1972 کے ایک انٹرویو میں اقرار کیا کہ وہ فیمنسٹ ہیں۔

سیمون کے دوسرے ناول THE MANDARINSکو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اسے PRIX GONCOURTکا معزز ایوارڈ ملا۔
سیمون کی کتاب THE SECOND SEXپہلی دفعہ 1949 میں منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں انہوں نے وجودیت اور فیمنزم کے فلسفوں کو یکجا کیا۔ انہوں نے عورتوں کے جنسی اور صنفی مسائل کو علیحدہ کیا اور عورتوں کو ان کے جسمانی اور سماجی حقائق میں تمیز کرنا سکھایا۔ ان کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا

ONE IS NOT BORN BUT BECOMES A WOMAN

سیمون کا کہنا تھا کہ چونکہ عورت کا جسم مرد کے جسم سے مختلف ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے انسانی حقوق و مراعات مرد سے کم ہوں اور اسے دوسرے درجے کا شہری سمجھا جائے

اس کتاب میں سیمون نے یہ سوال اٹھایا کہ عورت کیا ہے؟ ان کا موقف تھا کہ انسان کی تاریخ مرد کی تاریخ ہے کیونکہ وہ تاریخ مرد نے لکھی ہے جس میں عور ت کی حیثیت ثانوی رکھی گئی ہے اسی لیے کتاب کا نام بھی۔ دی سیکنڈ سیکس۔ رکھا گیا تھا۔

اس کتاب میں سیمون نے عورتوں کے مسائل پر تاریخی پس منظر میں بحث کی اور سگمنڈ فرائڈ اور ایلفریڈ ایڈلر جیسے ماہرین نفسیات اور فریڈرک اینجلز جیسے ماہرین اقتصادیات و سماجیات کے خیالات و نظریات کو چیلنج کیا۔

سیمون نے اس کتاب میں وضاحت کی کس طرح انسانی تاریخ میں مرد حاکم بنتا گیا اور عورت محکوم بنتی گئی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ کس طرح تاریخ میں مختلف فلسفیوں نے عورت کے بارے میں اپنے متعصب خیالات کا اظہار کیا۔ اس کی ایک مثال فیثا غورث ہیں جنہوں نے لکھا۔ زندگی کے دو اصول ہیں

مثبت اصول میں روشنی اور مرد شامل ہیں
منفی اصول میں تاریکی اور عورت شامل ہیں۔
دھیرے دھیرے مرد آقا اور مالک بنتا گیا اور عورت لونڈی اور کنیز۔ سیمون نے کہا کہ عیسائی مذہب کی روایت میں بھی عورت کو مرد کے برابر نہیں سمجھا جاتا۔

انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب کی وجہ سے عورت گھر سے نکل کر فیکٹری میں تو آ گئی لیکن پھر بھی اس کی تنخواہ مردوں سے کم رہی۔

سیمون نے روزا لکسنبرگ کی طرح کی خواتین کی جرات اور ہمت کو سراہا جنہوں نے عورتوں کے حقوق کے لیے قربانیاں دیں۔

سیمون نے اپنی کتاب میں عورتوں کے نسوانی مسائل پر ’جن میں حیض‘ حمل شادی اور ماں بننے کے مسائل شامل ہیں ’سیر حاصل بحث کی۔

سیمون نے عورتوں کو بتایا کہ کس طرح عورتوں کو مردوں کے لیے اپنی خواہشوں اور خوابوں کی قربانیاں دینے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ عورت اپنی صلاحیتوں پر خرچ کرنے کی بجائے اپنے شوہر اور بچوں پر اپنی توانائی خرچ کر دیتی ہے۔

سیمون کا کہنا تھا کہ انسانی تاریخ میں بہت کم عورتیں ایسی تھیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح اجاگر کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ جس طرح مردوں نے زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی اس طرح عورتیں نہ کر سکیں۔ وہ گھر گرہستی میں الجھی رہیں اور اپنے خواب اور آدرش اپنے بچوں اور خاندانوں کے لیے قربان کرتی رہیں۔

سیمون کی خواہش تھی کہ عورتیں اپنا خیال خود رکھیں ’ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں‘ اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں ’کامیابی کی بلندیوں تک پہنچیں اور اس بات کی فکر نہ کریں کہ۔ لوگ کیا کہیں گے۔

سیمون کی کتاب THE SECOND SEXاپنی مقبولیت کے باوجود ایک سنجیدہ مسئلے کا شکار رہی۔ اس کتاب کا فرانسیسی سے انگریزی میں HOWARD PARSHLEYکا ترجمہ چھپا تو یہ اعتراض کیا گیا کہ مترجم نہ فرانسیسی زبان سے اور نہ ہی سیمون کے نظریات سے پوری طرح واقف تھا اس لیے وہ ترجمہ غیر تسلی بخش ترجمہ ہے۔ اس کے بعد کئی قابل اور معتبر فیمنسٹوں نے اس کا ترجمہ کرنے کی اجازت چاہی لیکن سیمون کے پبلشر نے اجازت نہ دی۔ سیمون کی وفات کے بیس سال بعد اس کتاب کا بہتر ترجمہ شائع ہوا۔

سیمون کی کتاب نے جن فیمنسٹوں کو لکھنے کی تحریک دی ان میں بے ٹی فریڈین کی کتاب FEMININE MYSTIQUE اور کیمیلی پگلیا کی کتاب SEXUAL PERSONAE شامل ہیں۔

جب سارتر کی 1980 میں وفات ہوئی تو سیمون نے ان کی یاد میں ایک کتاب۔ الوداع۔ ADEIUX۔ لکھی اور بڑے پیار سے کہا کہ یہ میری پہلی کتاب ہے جسے سارتر نے چھپنے سے پہلے نہیں پڑھا۔

سیمون نے اپنی خود نوشتہ سوانح عمری MEMOIRS OF A DUTIFUL DAUGHTERکے نام سے لکھی اور اس میں زندگی کے نشیب و فراز اپنے خواب اور آدرش تفصیل سے لکھے۔ اس سوانح سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی عورت کے لیے اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ عورتوں کو اپنی کامیابی کے لیے مردوں سے کئی گنا زیادہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

سارتر کی وفات کے چھ سال بعد سیمون کی 1986 میں وفات ہوئی۔ انہیں سارتر کی قبر کے ساتھ والی قبر میں دفنایا گیا تا کہ ان کے چاہنے والے دونوں قبروں کو بیک وقت دیکھ کر ان کی یاد تازہ کر سکیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments