کنور بھگت سے وجیہہ نقوی تک!


شکارپور میں واقع رک ریلوے اسٹیشن پر کنور بھگت رام کی یکم نومبر 1939 میں ٹرین کیا رکی، جیسے سندھ کے امن، برداشت اور روادری کے کلچر کا کانٹا بھی وہاں پر ہی رک گیا ہو۔ سالوں بعد اسی شکارپور میں بسنے والی اپنی ایک رشتے دار خاتون کے تعاون سے کراچی کی وجیہہ نقوی کنور بھگت کی پھچان بننے والے دعایہ کلام ”نالے الکھ جی بیڑو تار مونھنجو“ کو گاتی ہیں اور یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا کے دیگر میدانوں پر چھا جاتیں ہیں۔

کنور بھگت رام سندھ میں مذہبی ہم آہنگی کی علامت رہے ہیں۔ شہری ماحول میں پیدا اور جوان ہونے والی وجیہہ نقوی نے کنور بھگت رام کے گائے ہوئے مقبول کلام کو گا کر اپنے بینڈ کے جیسر ابڑو، عمیر ڈار، عزیز قاضی اور عرفان خان کے ساتھ ہجرت کے نام سے حال ہی میں جاری کیا ہے۔ مذکورہ البم میں بنگالی، پشتو، فارسی اور سندھی زبان کا کلام شامل ہے۔ موسیقی کی کوئی زباں اور سرحد نہیں ہوتی۔ وجیہہ نقوی نے فن موسیقی کی مدد سے زباں، مذہب اور ثقافت کی کھڑی کی گئی دیواروں کو گرانے کی ایک کوشش کی ہے۔

وہ کہتی ہیں فارسی، بنگالی، سندھی، پشتو اور اردو سمیت ساری زبانیں اپنی ہیں تو ان کو راگ کی صورت میں کیوں نہ اپنایا اور گایا جائے۔ کنور بھگت کو بھی انہوں نے اپنے اس ہی منصوبے کے تحت یاد کیا ہے۔ برصغیر کی تقسیم در تقسیم ان کا مرکزی نقطہ ہے۔ شاید یہ ہی وجھہ ہے کے وجیہہ نے اپنے اس البم کا نام ہجرت رکھا ہے۔ وجیہہ کوک اسٹوڈیو میں بھی گا چکی ہیں۔

مانجھند۔ دادو سے ایک محفل میں گا کر ٹرین میں واپس اپنے گاؤں جروار۔ گھوٹکی جانے والے کنور بھگت کو رک اسٹیشن پر بھرچونڈی کے پیروں کے ایک جنونی مرید نے جو گولی ماری تھی وہ سندھ کے امن، رواداری، برداشت اور مذاہب و عقائد کے احترام کے جسم کو بھی خون آؒلود کر گئی۔ اس خون کے دھبے تو کئیں برساتوں کے بعد بھی نہیں دھل پائے، مگر وجیہہ نقوی نے کنور بھگت کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ان کو ایک شاندار خراج ضرور پیش کیا ہے۔

وجیہہ نقوی لاہور یونیورسٹی آف مئنیجمینٹ سائنسز (لمس) لاہور میں انتظامکاری، بینکاری اور اعداد و شمار پڑھنے کے دوران اچانک بلھے شاہ کی اس بات سے متفق ہو گئیں ”پڑھ، پڑھ عالم فاضل ہویا، کدے اپنڑے آپ نوں پڑھیا نہیں“ انہوں نے لمس، لاہور سے ڈگری مکمل کی اور ”جہڑا گھر بیٹھا اونوں پڑھن“ واسطے ایک نئی دنیا میں داخلا ہو گئی۔ وجیہہ نے اپنی نہیں دنیا کا آغاز فلک صوفی اسکالرشپ کی مدد سے امریکہ کی نیویارک یونیورسٹی سے کلچرل انتھراپالاجی میں ماسٹرس کی ڈگری لے کر کیا۔

اپنے ماسٹرس کے مقالے میں انہوں نے برصغیر کے صوفی گاہکوں اور صوفیاء کی موسیقی سے جڑے رازوں کو تلاشنے کی کوشش کی ہے۔ وہاں سے ان کی دنیا بدلی اور تقریباً چار سالوں سے وہ کلاسیکل موسیقی کے استاد اور ”خیال“ گائکی پر دسترس رکھنے والے استاد نصیرالدین ”سامی“ کے گھرانے کے چشم و چراغ استاد رؤف سے کلاسیکل راگ سیکھ رہی ہیں۔

کنور بھگت جو مخصوص راگ گاتے تھے اسے مارو کمال کہتے ہیں، وجیہہ کو مارو کمال گانے میں تو ابھی وقت درکار ہے۔ کنور بھگتی راگ اور بھجن گاتے تھے۔ کنور کو نچ گا کر صرف عوام کو ہی محظوظ نہیں کرنا تھا، مگر وہ اپنے اس انداز سے اندر کا یار بھی مناتے تھے۔ بھگت صرف راگی نہیں تھے، وہ برصغیر میں ضرورتمندوں کے لیے جھولی فنڈ کا بنیاد رکھنے والے بھی کہلائے جاتے ہیں۔ مھاتما گاندھی نے ٹئگور کی شانتی نکیتن کے لیے کیسے جھولی پھلائی تھی، وہ کہانی کبھی پھر سھی۔

”نالے الکھ جے بیڑو تار مونھنجو“ کی صدا سے اپنے دن کا آغاز کرنے والے سندھ کے ہندو و مسلم باسی لوک رس گانے والے کنور بھگت کا بے حد احترام کرتے تھے۔ کنور اپنے فن سے دھن کمانے والے نہیں مگر ضرورتمندوں کی ضروریات پوری کرنے والے تھے۔ امن، رواداری، محبت اور وصال کے گیت گانے والے ایسے فقیر کے جسم میں نفرت، تعصب اور عدم برداشت کی گولی پیوست کروا دی گئی۔ سالوں بعد اس گولی کا اثر ختم کرنے کے لیے امن، وصال و ہجرت کے گیت گانے والی وجیہہ نقوی اپنے بینڈ کے ساتھ آئی ہیں، ان کا دل سے خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔

اشفاق لغاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اشفاق لغاری

لکھاری، میڈیا سائنسز کا طالب علم ہے۔ پڑھنا، لکھنا، گھومنا اور سیاحت کرنا اس کے محبوب کاموں میں شامل ہیں۔

ashfaq-laghari has 32 posts and counting.See all posts by ashfaq-laghari

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments