یہ کیسے درندے ہیں


انسانیت کی اگر بات کی جائے تو ہر انسان خود کو پارسا سمجھتا ہے۔ اسے خود میں دنیا بھر کی اچھائیاں نظر آتی ہیں اور اس کے سامنے دوسرے تمام لوگوں میں برائیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ موجود ہوتا ہے۔ کچھ روز قبل تمام پاکستانیوں میں اسرائیل کے خلاف زہر ٹیوٹر فیسبک اور تمام سوشل میڈیا پر نکلتا رہا جبکہ یہ تمام سوشل میڈیا کی سہولیات دینے والے وہی لوگ تھے جن کے خلاف زہر اگلا جا رہا تھا۔ فلسطینیوں کے لئے محبت کے دریا ابل رہے تھے مگر صرف سوشل میڈیا کی حد تک اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اپنے ملک پاکستان میں امریکی فوج کی طرف سے وزیرستان میں یا پشاور میں آپریشن کیا جا رہا تھا جہاں معصوم پاکستانی بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا تھا تک کس کس کی غیرت جاگی اور کون کون میدان میں کودا اپنے ہی پاکستانی بھائیوں کی مدد کرنے کے لئے یہ وہ حقائق ہے جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

آپ تو اپنے ملک میں ہونے والے مظالم پر کوئی حکمت عملی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے اور چلے فلسطین کی مدد کرنے آپ تو وہ بے حس لوگ ہیں جو اپنے معاشرے کی خواتین کی عزتیں لوٹتے ہو انہیں پامال کرتے ہو کہاں گھر بیٹھ کر فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتے ہو اپنے ملک میں ہونے والی زیادتیوں اور مظالم کو روکنے کی اہلیت نہیں چلے فلسطین کو آزاد کروانے سوشل میڈیا پر ٹیوٹ کر دینے سے یا الفاظ کی یلغار کر دینے سے آپ کے فرائض ختم نہیں ہو جاتے۔

جب آپ کا اپنا ملک جنگ کی حالت میں تھا معصوم نہتے شہریوں پر امریکہ ڈرون حملے کر رہا تھا اس وقت بھی لوگ مر رہے تھے بچے شہید کئیے جا رہے تھے اس وقت تو آپ سب خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ کل ہونے والے واقعے نے انسانیت کا وہ قریح چہرہ بے نقاب کیا کہ وہی لوگ جو انسانیت کا راگ الاپتے نہیں تھک رہے تھے جو مسلمان ہونے اور فلسطین کی جنگ میں کودنے کو تیار تھے وہ اپنے ملک کی مردہ حالت میں اپنی خواتین کی عزتیں پامال ہونے سے نہیں بچا سکے۔

یہاں میں بات کر رہی ہوں لانڈھی میں بتیس سالہ مردہ خاتون کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی اس مردہ خاتون کو قبر میں بھی چین سے نہ رہنے دیا جنہوں نے یہ حرکت کی نہ تو وہ اسرائیلی تھے نہ ہندوستان سے آئے ہوئے کشمیر پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہندو تھے وہ آپ کے اپنے معاشرے کے ہی لوگ تھے جو فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے سے نہیں تھکتے اور سب سے بلند آواز انہیں کی ہوتی ہے دوسری طرف۔ قبروں میں اپنے ہی معاشرے کی خواتین کا مرنے کے بعد گینگ ریپ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

یہ درندے انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں جنہوں نے لانڈھی میں قبر کھود کر ایک مردہ خاتون کے ساتھ زیادتی کی جب آپ مغرب پر تنقید کرتے ہیں تو وہاں بھی آپ جیسی منافقت کا مظاہرہ کوئی نہیں کرتا کے اندر سے کچھ باہر سے کچھ مغرب پر کیچڑ اچھالتے ہو اپنے بارے میں کس طرح کی رائے دیں گے آپ یہ تو وہ بات ہوئی دوسروں کو نصیحت خود اس پر عمل نہیں کرنا۔ الفاظ کے ذریعے دنیا کو تنقید کا نشانہ بنانا بہت آسان ہے کشمیر فلسطین کے حقوق کے لئے لمبی چوڑی ٹیوٹ کرنا اس سے بھی زیادہ آسان ہے خود سر پر کفن باندھ کر کسی کی مدد کے لئے میدان میں کودنا اتنا ہی مشکل ہے۔

اگر کچھ کرنا ہے تو سوشل میڈیا جو یہودیوں کی بنائی ہوئی ایپس ہیں ان پر تقریریں کرنے کی بجائے ان کے خلاف سامنے جاکر جنگ کرو تاکہ آپ کی طاقت کا اندازہ ہو کیوں کے صرف گرجنے اور الفاظ کے تیر برسانے سے نا تو کشمیر آزاد ہوگا اور نہ کی اسرائیل فلسطین سے قبضہ ختم کرے گا تو لکیر کو پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اپنے ملک کے اندر کے معاملات درست کریں اور دوسروں پر تنقید کرنا چھوڑ دیں جس مغرب کی آپ بات کرتے ہیں وہ آپ سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے اور معذرت کے ساتھ آپ جیسی برائیاں اور منافقت تو مغرب میں بھی اتنی نمایاں نہیں آخر میں اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے جو کسی کی بہن بیٹیوں کی عزتوں کو پامال کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments