موت کی وادی سے واپسی


رمضان کا آخری عشرہ چل رہا تھا۔ ہماری طبیعت یوں تو یکم رمضان سے ہی خراب چل رہی تھی۔ کبھی بخار، کبھی کپکپی چڑھنا اور پینا ڈول کھانے کے بعد ٹھیک ہوجانا کچھ معمول کی بات بن گئی تھی۔ ہم یہی سمجھتے رہے کہ یہ ہمارے R۔ A کی وجہ سے ہے اسی طرح ہفتہ گزر گیا۔ بالآخر شوکت خانم سے کووڈ ٹیسٹ کروایا جو منفی آیا تو دل میں سکون اتر آیا۔ لیکن طبیعت میں بہتری نہیں آئی۔ دو دن بعد C۔ T Scanکروایا۔ مجھے تو اس کی قبر نما مشین سے بہت ڈر لگتا ہے۔

خیر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق جانا ہی پڑا۔ احتیاطی تدابیر کے مطابق منہ پر دو دو ماسک چڑھائے جیل روڈ پر واقع شہر کے معروف Diagonostic Center پہنچے۔ جب ہمیں مشین میں لٹا کر سانس روکنے کا کہہ کر وہ لڑکا جونہی پچھلے کمرے میں گیا۔ ہم اکیلے رہ گئے بس لگے چیخنے۔ بات سنیں! بات سنیں وہ یکلخت واپس آیا۔ جی بتائیے وہ بولا۔ ”دیکھیں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ مجھ سے سانس بند نہیں ہوگا۔“ وہ تھوڑا خشک لہجے میں بولا: پھر میں آپ کو باہر نکال دوں گا۔

ہم فوراً بولے! ”ہاں! ٹھیک ہے نکال دیں۔“ پھر وہ ذرا نرم لہجے میں بولا: ”میم بس صرف ایک منٹ لگے گا۔“ خیر وہ ایک منٹ جو ہم پر بہت بھاری تھا وہ بھی سہ لیا۔ شام کو اس کی رپورٹ بھی ٹھیک آئی ہم مطمئن ہو گئے کہ سب خیریت ہے۔ اکیسویں رمضان کی سحری میں سحری کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ اچانک ہی ہمارے سر میں ایسا خوفناک درد اٹھا کہ لگتا تھا بس دماغ کی کوئی نس پھٹ جائے گی۔ حفظ ما تقدم کے طور پر چونکہ ہم سب لوگ اپنے کمروں میں قرنطینہ میں رہ رہے تھے۔

میں نے فون پر بچوں کو بلایا بیٹی نے بلڈ پریشر چیک کیا تو کافی ہائی تھا۔ اسی دوران میں بہکی بہکی باتیں کرنے لگی زبان لڑکھڑانے لگی۔ الفاظ ٹیڑھے میڑھے ہو گئے۔ میرے لا شعور میں کچھ اور تھا یا پھر میں کسی اور زماں و مکاں میں تھی۔ اتنے میں گھر والوں نے ہمیں کرسی پر بٹھایا تو ایک زور کا جھٹکا محسوس ہوا پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ بس جو رہی سو بے خبری رہی۔ ہم کوئی ڈیڑھ روز کے بعد ہوش میں آئے تو کسی اسپتال کا کمرہ تھا اور ہمیں ڈھیروں ڈھیر ڈرپ والے ٹیکے لگے ہوئے تھے۔

چند ہی لمحوں میں ہم پر یہ بھی آشکار ہو گیا کہ ہمیں پیشاب کی تھیلی بھی لگی ہوئی تھی۔ دل کے اندر کچھ کرچیاں ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ اپنی بے بسی پر رونا آ گیا۔ ہم ٹھوکر نیاز بیگ پر واقع فاروق ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ عالمی وبا کے ان دنوں میں جب ہر طرف تشویش کا عالم ہے۔ لوگ ہر وقت مضطرب اور خوف زدہ رہتے ہیں۔ میں نے بھی پورا سال خود کو سینت سینت کر رکھا۔ بھر پور ایس او پیز پر مکمل عمل کیا۔ لیکن پھر بھی اسپتال پہنچ گئے۔

اسپتال میں چونکہ درد کو ختم کرنے کے لیے نیند کے ٹیکے بھی لگائے جاتے تھے۔ ہم زیادہ تر نیند ہی کے زیر اثر رہتے تھے۔ ایک روز آنکھ کھلی تو حیرت ہوئی کہ ہمیں آکسیجن لگی ہوئی تھی۔ ہم سمجھ نہیں پائے تھے کہ آکسیجن کیوں لگی ہے۔ چونکہ کمزوری اتنی تھی کہ بات بھی نہیں ہو رہی تھی لہٰذا خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ اگلے روز میری سہیلی اور اس کے میاں جو دونوں ڈاکٹر ہیں عیادت کو آئے۔ عیادت کو کیا آئے بلکہ مجھے حمید لطیف ہسپتال میں شفٹ کروانے آئے۔

حمید لطیف میں روزانہ تین چار سینئر ڈاکٹر آتے رہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر ہمارے بلڈ ٹیسٹ، ایکسرے، ای سی جی اور ایکو وغیرہ ہوتے رہے۔ ہم ان تمام ٹیسٹوں سے گاہے تنگ بھی ہوتے لیکن ضرورت سمجھ کر برداشت کرتے رہے۔ روزانہ فزیو تھراپی ہوتی، سانس کی مشقیں کروائی جاتیں اور بہت سے انجکشن ڈرپ کی صورت میں لگے رہتے۔ ہمارے بچوں نے تو ہم پر تپتے ہوئے صحرا میں جیسے چھاؤں سی کر دی۔ ہم جو انہیں ناہنجار سمجھتے تھے ان پر بے طرح پیار آنے لگا۔

بیٹی کی پریشانی تو ہم سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔ ہر وقت تسبیح ہاتھ میں ہوتی۔ ڈاکٹروں کے پیچھے بھاگی بھاگی پھرتی۔ اسپتال کے گدے پر لیٹے لیٹے جسم میں دردیں ہی دردیں بھر گئیں۔ کبھی اٹھ کر کرسی پر بیٹھ جاتے۔ ایک روز بیٹی نے ہمارے واٹر کلر برش، رنگ اور سکیچ بک منگوائی۔ تقریباً آدھ گھنٹہ پینٹ کیا۔ لیکن پھر تھکن سے بدحال ہو گئے تو کام روک دیا۔ ایک روز امریکہ سے میرے بچپن کی سہیلی کا فون آیا کہنے لگی۔ ”سنا ہے تمہیں کرونا ہو گیا ہے۔

” ہمیں بہت غصہ آیا۔ ہم بولے ہرگز نہیں یہ ضروری تو نہیں جسے آکسیجن لگی ہو اسے کرونا ہی ہوگا۔ وہ بیچاری چپکی ہو رہی۔ اگلے روز کسی اور رشتہ دار کا فون آیا“ سنا ہے تمہیں کووڈ ہو گیا۔ ہماری تو ہنسی نکل گئی۔ ہم نے کہا نہیں بھئی آرتھرائٹس کی وجہ سے ہمارے Lungs میں Fibroses ہو گیا ہے۔ سب دوست احباب رشتہ دار ڈھیروں دعائیں کر رہے تھے۔ رمضان کا آخری عشرہ بھی تھا۔ دعائیں کیسے قبول نہ ہوتیں۔ حمید لطیف میں چار روز گزر گئے ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے ایکسرے، بلڈ ٹیسٹ، ای سی جی تیزی سے بہتری کی طرف جا رہے تھے۔

سوموار یعنی آخری روزے ڈاکٹر صاحب نے چھٹی دے دی۔ ہماری آکسیجن سیچوریشن بھی ٹھیک ہو چکی تھی۔ گھر واپسی پر دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔ لیکن مزید چار روز کے لیے میرا کمرہ اسپتال کا کمرہ بن گیا۔ آئی۔ وی انجکشن کا عارضی سٹینڈ کسی سے ادھار منگوایا گیا۔ ایک مرد نرس کا بندوبست کیا گیا جو دن میں تین مرتبہ آئی وی انجکشن لگانے آتا۔ چونکہ میری رگیں آسانی سے نہیں ملتیں لہٰذا ہر روز ایک نئی جگہ برنولا لگتا۔ اس دفعہ عید پر ہم نہ تو بچوں کے لیے شیر خرما بنا سکے نہ ہی آلو چنے کی چاٹ اور نہ ہی شامی کباب۔

عجیب اداسیوں میں ڈوبی عید تھی۔ اگلے روز ڈاکٹر سے فیصلہ کن معائنہ تھا۔ معائنے کے بعد جب ہم کار میں بیٹھے تو بیٹی نے کہا ”اماں آپ کو پتہ ہے آپ کو کیا تھا۔“ ہم نے پوچھا کیا تھا؟ کہنے لگی آپ کو کووڈ تھا۔ کیا! ہمارا منہ کھلا رہ گیا۔ لیکن اگلے ہی لمحے احساس ہوا جیسے ہم خوف کی حدوں سے آگے نکل آئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے لوگ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ دراصل ہماری بیٹی نے اسپتال کے عملے میں سب کو منع کیا تھا کہ مریض کو پتہ نہ چلے کہ اسے کووڈ ہے۔

حتیٰ کہ اس نے کمرے کے باہر بھی کرونا لکھوانے نہیں دیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ماں اس کے نام ہی سے خوفزدہ کر کہیں ڈھیر نہ ہو جائے۔ ہم ہنس دیے کہ یہ تو وہی حال ہوا جانے نہ جانے گل ہی جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ ہمارے خیال سے اس نے ٹھیک ہی کیا کہ کبھی کبھی بے خبری آپ کے لیے زندگی کی نوید ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کرونا کا خوف بہت زیادہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس بار ہم موت کی وادی سے ہو کر گزرے ہیں۔ ”مان نہ مان میں تیرا مہمان“ کی طرح کرونا میرے وجود میں داخل ہوا۔

اس سے پہلے شاید ہمیں زندگی سے اتنی محبت نہ ہوئی ہوگی۔ یہ بھی ادراک ہوا کہ زندگی کا رشتہ سانس کی نازک ڈور سے جڑا ہے دنوں، برسوں اور عمروں سے نہیں۔ آکسیجن خدا کی کتنی بڑی نعمت ہے یہ مجھے اب احساس ہوا۔ ہمارے پہلے سے کمزور جسم کو کرونا نے بالکل توڑ کے رکھ دیا۔ ہم صرف باتھ روم تک ہو آئیں تو ہانپنے لگتے ہیں۔ ہم پر عیاں ہوا کہ وقت، کائنات، نظام کائنات اور اللہ کی نعمتوں کا جھٹلانا کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے ویسے موت سے کیا ڈرنا۔ موت تو رب سے ملاقات کی منزل ہے۔ لیکن ابھی ہم پوری تیار نہ تھے۔ خدا نے اپنی رحمت سے نئی زندگی بخشی ہے۔ اس کے شکر گزار ہیں۔ نئی زندگی کا مطلب ہے کوئی مقصد۔ خدا کرے ہم اس مقصد کو تلاش کر کے خدا کے حضور سرخرو ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments