متھیرا بنام ملالہ: ماں سے زیادہ چاہے۔۔۔


ملالہ یوسفزئی نے برطانیہ کے ”ووگ میگزین“ کو انٹرویو میں جو کچھ کہا ہے یقینا اس میں سے بہت کچھ پاکستانی معاشرے کے لیے قابل ہضم نہیں ، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی سوال کرتا ہے تو اسے سوال کا جواب دیا جائے نہ کہ اس کا منہ نوچا جائے یا روح کو کھرونچا جائے۔ کہ پھر وہ سوال کرنا ہی چھوڑ دے۔سندھ کے ایک دانشور عزیز اللہ بوهیو صاحب نے اپنی کتاب ”ادب جا فکری محرک“ (ادب کے فکری محرکات) میں کافی عرصہ پہلے شکایت کی تھی کہ،”موجودہ دور میں قلم کا جواب قلم سے دینے کے بجائے ڈنڈے سے دینے کا رواج بڑهتا جا رہا ہے۔ اور یہ رجحان نہایت ہی خطرناک ہے۔ خاص طور پر طاقتور لوگ تو کسی کی بھی سننے کے کیے تیار نہیں۔“ (مفہوم)

اور اب صورتحال کس قدر سنگین ہے اس کے وضاحت کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ سب کچھ اظہر من الشمس ہے۔

ملالہ یوسفزئی کے انٹرویو میں بہت سے باتیں ایسی تھیں کہ جن سے ہم میں سے بہت سے لوگ متفق ہوں گے لیکن کچھ باتیں ایسی بھی ہیں کہ جن پر خاص طور پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر بڑی لے دے ہو رہی ہے ان میں سے سب سے اہم ملالہ یوسفزئی کا شادی اور پارٹنرشپ کے بارے اقتباس ہے، ان کا کہنا ہماری دانست میں یوں ہے:
”ملالہ کے والدین کی” محبت کی انتظامی شادی“ تھی ، جیسا کہ وہ بیان کرتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ، اور باقی کام ان کے والدین نے انجام دیا۔ انہیں یقین نہیں ہے کہ وہ خود بھی کبھی کسی سے شادی کریں گی۔ “مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اپنی زندگی کا ساتھی چاہیے تو آپ شادی کے کاغذات پر دستخط کیوں کرتے ہیں، یہ ایک شراکت کیوں نہیں ہو سکتی ؟“ ملالہ کی والدہ – زیادہ تر ماؤں کی طرح – ان کی اس بات سے قطعی متفق نہیں ہیں۔ ملالہ نے ہنستے ہوئے بتایا ، ”میری ماں بھی ایسی ہی ہیں ہیں۔ انہوں مجھے فہمائش کی کہ“تم آئندہ کبھی ایسی بات کہنے کی جرات نہیں کرو گی، تمہیں شادی کرنی ہے، شادی انتہائی خوبصورت رشتہ ہے۔“

لیکن اسی انٹرویو میں اس سے قبل انہوں نے جو کچھ کہا اس پر لوگوں نے کم ہی غور کیا ہے :

”انہوں نے وضاحت کی کہ وہ محسوس کرتی ہیں کہ ان کی تمام دوست ساتھی کی تلاش میں ہیں، اور انہیں اپنے بارے میں یقین نہیں کہ انہیں کیا چاہیے۔”میں کچھ نروس ہوں،“ انہوں نے مجھے (سرین کیل کو) بتایا۔ ”خاص طور پر جب جیسا کہ آپ کو تو پتہ ہے، ہر کوئی اپنے تعلقات کے قصے سنا رہا ہے، تو آپ فکرمند تو ہوں گی ۔۔۔“

 آپ کا مطلب ہے رومانو ی روابط؟ میں نے پوچھا،”جی ہاں!“ انہوں گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے جواب دیا۔“ آپ کسی پر بھروسہ کریں یا نہیں، (اور) آپ کیسے مطمئن ہو سکتے ہیں۔“

ان دونوں اقتباسات سے آپ ایک ایسی نوجوان لڑکی کی ذہن میں مچی ہلچل کو محسوس کر سکتے ہیں جو کہ ایک حد درجہ پابند ماحول سے ایک دم ایک آزاد ماحول میں جا پہنچی ہے۔ ایک ملک ہے کہ جہاں آپ نامحرم سے بات نہیں کرسکتے، اور ایک ملک ہے کہ آپ بالغ ہیں تو باہمی رضامندی سے کسی قسم کا بھی تعلق استوار کرسکتے ہیں ، ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، مخالف جنس کے ساتھ بھی ہم جنس کے ساتھ بھی۔ ”ہم جنس“ و ”غیرہم جنس“ سب ہی بغیر کسی کی پرواہ کیے باہم پروازکر سکتے ہیں۔

اور پھر پاکستان میں جس چیز پر شرم اور شرمندگی محسوس کی جاتی ہے وہی چیز وہاں بہت سے لوگوں کے لیے سرمایہ افتخار ہے۔ ایک تہذیب ہے کہ میاں بیوی کو آپسی تعلقات کو بھی مشتہر کرنے کی اجازت نہیں اور دوسری ثقافت ہے میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت کچھ وائرل کر دیا جاتا ہے اور فخریہ۔تو ایسے ماحول اور معاشرے میں اس قسم کے خیال اور سوالات کا پیدا ہونے کوئی انہونی بات نہیں۔ جب کہ ملالہ یوسفزئی اعتراف کرتی ہیں کہ ان کی والدہ نے ان کو فہمائش بھی کہ وہ آئندہ اس قسم کے خیالات کا اظہار نہ کریں۔ اور اب جب کہ انہوں ان خیالات کا اظہار کر دیا ہے، تو ضیاالدین یوسف زئی کو پشاور کی مشہور مسجد قاسم علی خان کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو بوجوہ وضاحت دینی پڑی: ”ایسی کوئی بات نہیں،میڈیا اور سوشل میڈیا نے انٹرویو کے اقتباس کو سیاق و سباق سے نکال کر اور تبدیل کرکے اپنی تاویلات کے ساتھ شیئرکیا ہے“۔

ملالہ کا یہ سوال ان سوالوں میں سے ایک ہے جو کہ ہمارے وطن میں موجود متشکک اور متذبذب نوجوانوں کے ذہن میں بھی پیدا ہوتا ہے لیکن وہ چپ رہتے ہیں، کہ ان کو ”ایک چپ سو سکھ“ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن باہر چونکہ چپ کی تعلیم نہیں دی جاتی اس لیے ملالہ یہ سوال کر بیٹھی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں یہ ایک متشکک اور متذبذب ذہن سے ایک سوال کیا گیا جو کہ اب بھی تشنہ تفسیر ہے۔ جس سوال کا جواب تو کسی نے نہیں دیا لیکن کوئی اس سوال کو قابل تعریف تو کوئی قابل تعزیر قرار دے رہا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قارئین مندرجہ بالا اقتباسات کی روشنی میں ضیاالدین صاحب کی تردید کو بآسانی مسترد کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ انٹرویو میں یہ بیان ایک الگ سوال اور جواب کے طور پر شامل ہے۔کہ جس کا سیاق و سباق سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اورجس کے سلسلے میں بہتر تو یہی تھا کہ قارئین سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے نہ کہ اسے دوستی نبھانے اور دشمنی نکالنے کا موقع بنا لیتے۔ البتہ ان کی والدہ کی ان کو خاموشی اور شادی کی نصیحت اس حوالے سے اچھی تھی کہ ان کو اس قسم سوال اور عمل کے ردعمل کا اچھی طرح سے اندازہ تھا۔ یا پھر محترمہ عفت نوید صاحبہ کا یہ مشورہ بھی صائب تھا کہ،” بیٹا! پاکستان سے گئے ہوئے دیر ہو گئی تمہیں، مشرقی روایات بھول گئیں، ہمارے ہاں بہو بیٹیاں زبان نہیں کھولتیں، بس کر گزرتی ہیں۔“

جب کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اداکارہ متھیرا نے ان کے سوال کا جوا ب دینے کی اچھی کوشش کی ہے۔ جنہوں نے ملالہ کے بیان پر اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ کی اسٹوری پر ردعمل دیا اور کہا کہ میرا ووٹ نکاح کے لیے ہے۔ البتہ زبردستی کی شادی،تشدد اورکم عمری کی شادی غلط ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں کتنی ماڈرن ہوں لیکن میں ہمیشہ اپنے بچوں کو نکاح کی ترغیب دوں گی اور انہیں سکھاؤں گی کہ شادی کا بندھن ہی درست ہے اور یہ اچھی بات ہے،ہاں بعض اوقات شادی میں مشکلات آتی ہیں لیکن کوئی بات نہیں اللہ آپ کے لیے کسی خاص کو بھیج دیتا ہے۔ متھیرا نے مزید کہا کہ میں طلاق یافتہ ہوں لیکن اب بھی شادی پر یقین رکھتی ہوں اور شاید اگر مجھے صحیح شخص ملے تو میں دوبارہ شادی کرلوں۔

ملالہ یوسفزئی کے برعکس متھیرا ایک آزاد ماحول کی پروردہ خاتون ہیں۔ اور ان کے اس جواب کے پیچھے ان کا ذاتی تجربہ بول رہا ہے۔

اگرچہ ہم ملالہ یوسفزئی کی موقف کی مخالفت و موافقت کرنے والی خواتین و حضرات کی عزت کرتے ہیِں لیکن اس کے باوجود اس تحریر کے اختتام پر ملالہ کو ایک بار پھر مشورہ دیں گے کہ اپنی والدہ کی صائب مشورہ پر کان دھریں اور مصائب سے بچیں۔ یہ سمجھ لیں کہ،”ماں سے زیادہ چاہے، پھاپھے کٹنی کہلائے!“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments